’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں، ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: August 13, 2024, 1:06 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں، ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
بچوں کو گھرسے باہر کھیلنے کی تلقین کریں
اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ بہت سے والدین بچوں کے ساتھ وقت نہیں گزارتے جس کے نتیجے میں ان کا بچہ آن لائن دوست تلاش کرتا ہے اور پھر وہ اپنا زیادہ تر وقت موبائل اور انٹرنیٹ پر گزارتا ہے جس کی وجہ سے ڈپریشن ا ور مزاج میں چڑا چرا پن دیکھنے کو ملتا ہے۔ آئے دن ہمیں کئی واقعات سننے کو ملتے ہیں جن کے مطابق والدین بچوں کے اس مزاج سے پریشان ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم خود موبائل پر زیادہ وقت صرف نہ کریں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں سےبات چیت کریں۔ ان کے منشا کو سمجھیںاور انہیں ہمیشہ گھر سے باہر میدان میں کھیلنے کی تلقین کریں۔
محمد زیان کریمی (عثمانیہ پارک ، جلگاؤں)
مقررہ وقت ہی کیلئے موبائل دینا چا ہئے
آج کے دور میں موبائل ہماری زندگی کا ایک بہت ہی ضروری حصہ بن چکا ہے ۔ ہمیں اپنے اسمارٹ فونز کو کام عمر کے بچوں سے دور رکھنا چاہئے۔ بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم پر دھیان دینے کیلئے کہنا چاہئے۔
اور ایک خاص بات یہ ہےکہ جب تک ہمارے بچے ۱۲؍ویں جماعت بہترین نمبر سے پاس نہ ہو جائیں، ان کو اسمارٹ فون نہیں دینا چاہئے ۔ اگر بچوں کو تعلیم کا کوئی ضروری کام آ جائے تو انکو مقررہ وقت کیلئے موبائل دینا چا ہئے اور ان پر خاص نظر رکھنی چاہئے ۔اگر والدین اپنے موبائل سے دور رہیں گے تو بہت ممکن ہے کہ ان کے بچوں کا دھیان بھی موبائل میں زیادہ نہیں لگے گا ۔ چھوٹے بچوں کو خاص طور پر موبائل سے دور رکھنا چاہئے ۔ اکثر والدین چھوٹے بچوں کے ذرا سا رونے چلانے پر انکو موبائل دے دیتے ہیں ،یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے لہٰذا اگر ہم ان تمام چیزوں پر دھیان دیں تو بچوں کو موبائل سے دور رکھا جا سکتا ہے۔
مومن محمد شاہد محمد شمیم(بھیونڈی)
بچوں کی دلچسپی کھیل کود، مٹی، میدان اور پارک سے وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جارہی ہے اور اب بچوں کی اکثریت موبائل فون کی وجہ سے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ان بچوں میں موبائل فون کے ذریعے آن لائن گیم کا نشہ وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس صورت حال نے سوچنے سمجھنے والوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ آن لائن گیمنگ میںبچوں اور نوجوانوں دونوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کی پوری صلاحیت ہےکیونکہ یہ متاثرکن انداز میں نہایت خوبصورتی سے پیش کئے جاتے ہیں۔ جیت کی لذت اور ہار کا ڈپریشن یہ سب کچھ آن لائن گیمز میں موجود ہوتاہے۔اس کے حیران کن اثرات کی وجہ یہ ہے کہ یہ گیمز شعوری طور پر ہماری نفسیاتی ضروریات اور ماحول کو دیکھ کر ڈیزائن کئے جاتے ہیں جس کے اکثر منفی اثرات ہی پڑتے ہیں۔اس وقت یہ آن لائن گیم دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر کھیلا جارہا ہے، والدین بچوں سے پریشان ہیں جس کو اس کی لت لگ جاتی ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے، یہ ایک ایسا نشہ ہے جو آہستہ آہستہ ایک بڑی تعداد کو منشیات اور ہیروئن جیسے نشے میں مبتلا کردیتا ہے اور پھر اس میں مبتلا شخص کی حالت بھی ایک نشہ کرنے والی جیسی ہوجاتی ہے۔ یہ گیمز، کارٹون اور ویب سیریز اشتعال انگیزی، غصے اور مار دھاڑ کو فروغ دیتے ہیں اور بچوں کے معصوم ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں جس سے بچہ خود سر ہوجاتا ہے اور اس کے غصے میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے باعث وہ مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جدید دنیا میں انٹرنیٹ اور موبائل نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں ان کے مضر اور خطرناک اثرات کی خبریں بھی تواتر کے ساتھ انداز میں آتی رہتی ہیں۔ پارک، کھیل کود ، دوستی، مٹی اور میدان یہ سب بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ جب بچہ ان صحت مند سرگرمیوں میں مشغول ہوگا تو خودبخود اسکرین ٹائم کم ہوگا اور موبائل سے بے رغبتی بڑھے گی۔ اگر آج ہم نے بچوں کو موبائل فون اور اس کے خطرناک اثرات سے بچانے کیلئے عملی قدم نہیں اٹھایا تو آنے والے دنو ں میں یہ کھیل گھر گھر میں ماتم کا سبب بن جائے گا اور ہم اپنی اپنی نسل کو بے بسی سےبرباد ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ یہ سوچنے سے زیادہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے کا وقت ہے۔ کہیں یہی بچے جنہیں اضافی لاڈ پیار ہم دے ر ہے ہیں اور وہ اس کا غلط استعمال کررہے ہیں، کل سوال پلٹ کر نہ کرلیں کہ آپ نے کیوں ہمیں اس تباہی کے راستے پر جانے سے نہیں روکا؟ اور وقت جو ہمیں دینا تھا نہیں دیا۔ ذرا سوچیں ہماری اس وقت کیا حالت ہوگی؟
ڈاکٹر حافظ محمد شعیب انصاری(پونے)
میدان میں کھیلنے کیلئے بھیجیں
بچوں کیلئے ایک منظم طریقہ اپنائیں۔ ان سے کہیں کہ پہلے اسکول کا ہوم ورک اور دیگر کام مکمل کریں۔ٹی وی کا ریموٹ بچوں کے ہاتھ میں نہ دیں۔چھوٹے بچوں کو کہانی کی کتابیں لا کر دیں جس میں دلچسپ تصاویر ہوں تاکہ بچے بچپن ہی سے پڑھنے کی طرف راغب ہوں، انہیں کھیلنے کیلئے کھلونے لاکر دیں ،تاکہ وہ اس میں مصروف رہیں اور دماغی نشوونما بھی ہو۔صبح یا شام بچوں کے ساتھ چہل قدمی کریں اور چھٹیوں میں انہیں تفریح کے لئے اپنے ساتھ لے جائیں۔ بچوں کو ان کے دوستوں کے ساتھ میدان میں کھیلنے کیلئے بھیجیں۔ مثلاً فٹبال اور کرکٹ وغیرہ کھیلنے کیلئے کہیں تاکہ بچے خوب کھیل کر تھک جائیں۔ اس طرح بچوں کی جسمانی ورزش ہوگی اور آرام سے نیند بھی آجائے گی۔
کوثر جہاں( پونے)
جسمانی کھیل کی ترغیب دیں
ویڈیو گیمز نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کا بھی ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ لوگ اسے سنجیدگی سے نہیں سمجھتے ہیں، اس لئے یہ مرض بڑھتا ہی جارہا ہے ۔یہ ایک نشہ ہے جو ایک بار لگ جائے تو آسانی سے نہیں چھوٹتا، اس لئے اسے سنجیدہ طور پر سمجھنا اور سلجھانا چاہئے۔ میری نظر میں ایک حل یہ ہے کہ انہیں جسمانی کھیل کی ترغیب دیں۔ بچے جس جنون سے گیم کھیلتے ہیں، اگر اسی جنون سے فٹبال ،تیراکی اور نشانہ بازی کریں تو ہم اولمپکس میں جاپان اور فرانس کے برابر آ سکتے ہیں۔ انہیں بچپن سے کھیل کے میدان میں لے جایا جائے اور ان میں کھیل سے متعلق جنون پیدا کیا جائے۔ والدین کو اس مسئلے کو سمجھنا اور دانشمندی سے حل کرنا چاہئے نہ کہ زور زبردستی سے امید ہے کہ لوگ اس پریشانی کو پریشانی سمجھ کر سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
عمر فاروق ( نیاپورا اندور)
بچوں کے ساتھ قیمتی لمحات گزاریں
آج ہم سبھی کوفرصت نہیں ہے۔ کیونکہ ہم سبھی نے الگ الگ مشغولیات ومصروفیات کے دائروں میں اپنے آپ کو محدود کرلیا ہے۔ یا پھر حالات نے ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کو تضیع اوقات سمجھنے لگے ہیں۔ ان کے معصوم سوالات کے جوابات دینے اور ان کی معصوم شرارتوں کا لطف اٹھانے کے بجائے ہم خود ہی انہیں ویڈیو گیمز جیسی خرافات میں دھکیل کراپنی مشغولیات و مصروفیات کے دائروں سے نکلنا نہیں چاہتے۔ بچوں کے ساتھ خوشی خوشی اور خوش دلی کے ساتھ اپنے قیمتی لمحات بتائیں، ایسے میں بچے ویڈیو گیمز وغیرہ بھول کر آپ کی رفاقت کے اوقات کا متلاشی رہیں گے۔ جیسے پہلے زمانے میںنانی اور دادی اماں کے قصے کہانیاں کے سننے کے شوق میںبچے سب کچھ بھول جاتے تھے۔ وہ سبق آموز قصے کہانیوں کی دنیا کی سیر کرتے کرتے نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ پہلے ہم اپنی عادت واطوار اور مشغولیات کو صحیح کریں تو بچے اپنے آپ ’’اطاعت گزار‘‘ اور فرمانبردار‘‘ بن جائیں گے۔ ضروری ہے کہ ہم خود موبائل سے دور رہیں، ضرورت کے وقت ہی اس کا استعمال کریں اور اسی کےا عتبار سے اپنے بچوں کی ذہنی بھی تربیت کریں ؎
تیری بے عملی نے رکھ لی ہے بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین وایمان
ہاشمی ابوالاعلیٰ ( نیا پورہ ، مالیگاؤں)
طلبہ کو اس کی افادیت اور نقصان بتائیں
ویڈیو گیمز جو تفریح اور انٹرٹینمنٹ کا ایک بہترین ذریعہ اور وسیلہ رہا ہے ، بچوں کی ذہنی ، دماغی تربیت اور نشونما میں ایک اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے ، اور اسے جلا بخشا ہے اور اس کی شخصیت اور اس کی کردار سازی کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا ہے۔ علاوہ ’میمری‘ کی تخلیق کاری سماجی ربط کے علاوہ قوت فیصلہ میں تیزی کے علاوہ بے شمار الجھے ہوئے مسائل کو احسن طریقے سے سلجھانے میں معاون مددگار ثابت ہوا ہے۔ ایک طرف جہاں ویڈیو گیمز رحمت بن کر زندگی کے ہر میدان کو آسان اور سہل بنانے میں منفرد کردار ادا کیا ہے، وہیں اس نے قوم کے نونہالوں میں ذہنی تناؤ ، چڑچڑا پن ، اداسی، شدت پسندی کے علاوہ سماج سے قطع تعلق بنا دیا ہے۔ ویڈیو گیمز کی لت نے خصوصی طور سے طلبہ کو والدین سے ،رشتہ داروں سے، دوست و احباب سے اور پڑھنے لکھنے سے، کھانے پینے اور سونے اٹھنے سے دور کردیا ہے۔ وقت کی قدر اور اس کی اہمیت سے وہ نابلد ہو چکا ہے۔ معمولات زندگی کے علاوہ اس کی صحت بھی کافی متاثر ہوئی ہے۔ طلبہ کو ویڈیو گیمز کی لت سے چھٹکارا دلانے میں اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کرام کا کردار مرکزی اور کافی اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس لئ لئے دوران تدریس وہ طلبہ میں ویڈیو گیمز کی اہمیت اور اسکی افادیت کے علاوہ اس کے نقصانات پر سیر حاصل روشنی ڈالیں۔ علاوہ ازیں طلبہ کے درمیان تحریری اور تقریری مقابلوں کا انعقاد کریں، نوٹس بورڈ پر روزانہ دو چار جملے ویڈیو گیم سے متعلق طلبہ سے لکھوائیں۔ والدین اپنے بچوں کو محدود وقت کے لئے ہی موبائل دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں۔
انصاری محمد صادق، حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج، کلیان
والدین کو پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی
سب سے پہلی بات تو یہ کہ والدین نے اپنی ذمے داریوں کو فراموش کر دیا ہے۔ سِتم بالائے سِتم چھوٹے بچوں کو موبائل چلاتا دیکھ کر اسے بلا کا ذہین تصوّر کر نے کی غلطی کر رہے ہیں۔ یہ میرا مشاہدہ ہے کہ مائیں اپنی آغوشِ تربیت کی ذمے داریوں سے کوسوں دُور ہو گئیں۔ ہمارے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لئے وقت نہیں ہیں۔ بس انہی سب خرابیوں کی ہمیں خود اصلاح کرنی ہوگی۔ گھر میں بچوں سے تعلیمی بحث و مباحثے کئے جائیں، اُن سے مثبت باتیں کریں، اچّھے کاموں پر حوصلے افزائی کریں، گھر کے موبائل اُن کی پہنچ سے دور رکھے جائیں، اچّھے کریئر کے خواب اُنہیں دکھائے جائیں، مختلف قسم کی ’ای بکس‘ کے مطالعے کی ترغیب دیں، پڑھی گئی کتابوں کی فہرست تیار کرنے کو کہیں ،اسکولی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کیلئے رہنمائی کریں، بچوں کے علم میںلائے بغیر کلاس ٹیچر سے مسلسل رابطے میں رہیں، اُنہیں زیادہ سے زیادہ جسمانی سرگرمیوں میں ملوث رکھیں، اُن کی نیند سے سمجھوتہ نہ کریں، کھانے اور سونے کے اوقات طے کئے جائیں، گھر میں اُن کی پسند کے کھانے بنائے جائیں، روزانہ تھوڑی تاریخی معلومات دی جائے، فاضل اوقات میں ڈرائنگ کے نمونے تیار کروائے جائیں۔ گھر کا ماحول خوشگوار بنائیں، گھر کے تمام افراد موبائل کے استعمال کا وقت متعین کریں اور سب سے بڑھ کر ضروری یہ کہ مذکورہ تمام باتوں پر پہلے والدین خود عمل پیرا ہوں۔
شیخ ندیم احمد ،ممبئی مہا نگر پا لیکا ٹیچر، گوریگاؤں ممبئی
تعلیم پر مبنی پروگرام دکھائیں
موبائل فون ہماری زندگی میں اتنا اہم ہو گیا ہے کہ ہم کھاتے / سوتے / کچھ کام کرتے ہوئے اس میں مگن رہتے ہیں۔ بچوں کو موبائل گیمز/ویڈیوز سے بچانا ہے تو انہیں موبائل میں تعلیم سے جڑے ایپ یا ویڈیوز پروگرام دکھائیے، یا موبائل کو اسمارٹ ٹی وی سے کنیکٹ کر کے اس پر تعلیم پرمبنی پروگرام دکھائیے۔ یا پھر انہیں باہر سیر و تفریح کیلئے لے جانا چاہیے، آس پاس کے گارڈن، مال، مارکیٹ کی سیر کیلئے لے جانا چاہیے۔ یا پھر کہانیوں کی کتابیں اور دلچسپ و معلوماتی موضوعات پر مبنی کتابیں مطالعے کیلئے دینی چاہئیں۔ تاکہ وہ موبائل سے دور رہیں اگر پھر بھی اپنے بچے موبائل سے دور نہیں ہو رہے ہیں تو ان پہ تھوڑی سختی کرنا چاہیے، انہیں اپنی پورے دن کا ٹائم ٹیبل بنا کر رکھنا چاہیے پڑھائی کا ٹائم آدھا گھنٹہ یا۲۰؍ منٹ موبائل کا ٹائم ایسا پورا ٹائم بنانا چاہیے والدین کو چاہیے کہ چھوٹے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں۔ والدین یہ غلطی بھی کرتے ہیں کہ بچے جب روتے ہیں تو انہیں موبائل تھما دیتے ہیں۔ اس سے وہ موبائل کے عادی ہوجاتے ہیں۔
عاطف عدنان شیخ صادق، شاہو نگر جلگاؤں
ویڈیو گیمز کے نقصانات کے تئیں باشعور بنائیں
یہ آج کا سلگتا موضوع ہے۔ ناچیز کا والدین کو یہی مشورہ ہے کہ ویڈیو گیمز سے اپنے بچوں کو چھٹکارا دلانا چاہتے ہیں تو ان کے اندر اچھے اور برے کاموں کا شعور بیدار کریں۔ اس کیلئے والدین کو وقت دینا ہوگا۔ گھر میں ہی ایسے گیمز شروع کرے جو تعلیم سے وابستہ ہوں۔ مثلاً بچوں کو ہلکے پھلکے موضوع دے کرانہیں اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کو کہیں۔ چھوٹی تقریر،اخلاقی کہانیاں سنیں اور سنائیں، مختلف کھیلوں میں حصہ لینے پر آمادہ کریں۔جن کے گھروں میں ایک سے زیادہ بچے ہیں اگر نہیں ہیں تو آس پڑوس کے بچوں کو بھی اس میں شامل کریں۔ ان کے درمیان مقابلے منعقد کریں۔ ان میں سے فاتح بچوں کو انعامات دیں۔ اخلاقی کہانیاں، نامور شعراء کے اشعار، برائی پر اچھائی کی فتح والی کہانیاں اور قصے سنائیں۔ ایسے بہت سے کھیل جو بچوں کے اندر دلچسپی پیدا کرسکتے ہیں ان کا انعقاد کروائیں گے تو مثبت نتائج ظاہر ہوں گے۔ بچپن سے ہی مقابلہ کا رجحان پیدا ہوگا۔ بچوں کے سامنے والدین یا گھر کے دیگر افراد موبائل پر ویڈیو گیمز کھیلنے سے اجتناب کریں۔ کیونکہ بچہ وہی سیکھتا ہے جو وہ اپنے بڑوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔کوئی بچہ ویڈیو گیمز کی لت میں مبتلا ہے تو اس سے چھٹکارا دلانے کیلئے سختی کی بجائے نرمی اور محبت سے دوسری طرف اس کے ذہن کو منتقل کیجیے۔
عبدالرحمٰن یوسف (سبکدوش معلم بھیونڈی)
پہلے گھر والوں کو نمونہ بننا ہوگا
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کوئی بھی چیزخواہ کتنا ہی فائدہ مند کیوں نہ ہو، اگر اس کا استعمال حد اعتدال سے تجاوز کر جاتا ہے تو نقصان میں بدل جاتا ہے، یہی حال موبائل کا بھی ہے۔
رہی بات بچوں کو موبائل کے نشہ اور گیم کے لت میں مبتلا ہونے کی تو بلاشبہ اس کے ذمہ دار والدین اور گھر کے بڑے ہیں۔ جب والدین اور گھر کے بڑے خود یہی کام کریں گے تو بچوں کو کیسے منع کریں گے؟
اسی طرح والدین اپنی سماجی حیثیت منوانے یا بچے کی ضد پوری کرنے کیلئے سالگرہ یا امتحان کی کامیابی کے وقت اپنے بچوں کو موبائل تحفتاً دیتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بچے کے ہاتھ میں بم تھما دیا ہے۔ اب بچہ گھر سے بے فکر ہو کر اپنے دوستوں کے ساتھ ایک دوسری دنیا میں سیر کر رہا ہوتا ہے۔ اگر موبائل خریدتے وقت سارے گیمزکو موبائل سے نکال دیا جائے، گھر کا کوئی فرد گیم نہ کھیلے، اس کے ساتھ ہی بچوں کی نگرانی کی جائے اور ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جائےکہ زندگی میں کامیابی زمین پر کھیلنے سے ملتی ہے موبائل پر نہیں ، تو حالات اتنے خراب نہیں ہوں گے۔
سعید الرحمان محمد رفیق (گرین پارک، شیل، تھانے)
اس تعلق سے احتیاط کی ضرورت ہے
موبائل ایک ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ وہ رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ اس سے بہت سارے کام کم وقت میں ، کم محنت میں اور کم خرچ میں آسانی سے ہو جاتے ہیں ۔ وہ اخبار اور خط وکتابت کا بھی نعم البدل بن گیا ہے اور بھی بہت سے فوائد ہیں، لیکن اگر اس کا صحیح استعمال نہیں کیا گیا تو جان، مال، عزت آبرو اور سب سے بڑ ھ کر ایمان کیلئے بھی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے، اسلئے احتیاط ضروری ہے۔
گھر کے ذمہ داران اگر بچوں کو موبائل فون سے چھٹکارا دلانا چاہتے تو انھیں چاہئے کہ وہ خود بھی اس کا کم سے کم استعمال کریں۔
ہفتے میں ایک یا دو دن موبائل فون مکمل بند رکھیں ۔ دنیا میں لاکھوں لوگ ہیں جو بغیر موبائل کے بھی جی رہے ہیں ۔
بچوں میں مقابلہ رکھیں کہ جو دن بھر موبائل نہیں دیکھے گا اسے فلاں فلاں چیز انعام میں دی جائے گی۔
بچوں کو کسی کھیل یا کسی کام میں مصروف رکھیں اور ان کے ساتھ ان کے کھیل یا کام میں خود بھی شریک ہوں ۔
بچوں کو بغیر موبائل کےکہیں تفریح کیلئے لے جائیں ۔
بچوں کو جہاں جہاں بھی ممکن ہو، اپنے ساتھ لے جائیں۔
ابو حنظلہ (پونے)
بچوں کی مناسب ذہن سازی کریں
بچوں کو اس خطرناک راہ پر ڈالنے میں کہیں نہ کہیں والدین کا بھی کردار ہے۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے نام پر اینڈرائیڈ ڈیوائس تو مہیا کرادیتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا بچہ ان آلات کا استعمال کہاں اور کس طرح کرتا ہے۔ ان کا وہ بچہ انٹرنیٹ سے جڑ کر اپنے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ میں کچھ ایسے مواد محفوظ کرلیتا ہے جو اسے ذہنی مرض میں مبتلا کرکے احساسِ کمتری کا شکار بنا دیتا ہے۔ جگہ جگہ گلی، کوچوں میں غیر قانونی انٹرنیٹ کیفے بھی بچوں کو غلط راہ پر ڈالنے کی وجہ بن ر ہے ہیں۔ ایسے میں مِلت کے بہی خواہوں کو چاہئےکہ وہ ایسے غیر قانونی انٹرنیٹ کیفے پر کارروائی کرنے کیلئے آگے آئیں اور والدین بچوں کے ڈیوائسز کو ہر وقت اپنی نظروں میں رکھیں۔ اگر کوئی غیر ضروری مواد نظر آئے تو اس پر فوراً سے پیشتر کارروائی کریں۔ بچوں کی صحیح ذہن سازی کریں، مذہبی رواداری کا سبق یاد کرائیں تاکہ بچے لغویات سے دور رہ کر اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ اسکولوں اور محلوں میں کارنر پروگراموں کے ذریعہ بھی بچوں کی ذہن سازی کریں اور ضرورت پڑے تو اب بچوں کو انٹرنیٹ کے مُضِر اثرات سے بھی روشناس کرائیں۔
محمد سلمان شیخ (امانی شاہ تکیہ، بھیونڈی)
بچوں کی نہیں، والدین کی تربیت ہو
ویڈیو گیمز، موبائل، انٹرنیٹ یا موبائل میں دکھائے جانے والے طرح طرح کے شارٹس میں سے کسی بھی چیز کی طرف بچوں کا بے جا رجحان، والدین کی اُن پر عدم توجہی کا نتیجہ ہے۔
آج کل کے بعض والدین کو خود موبائل دیکھنے سے فرصت نہیں ہے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے موبائل دیکھنے کے دوران کوئی خلل نہ ہو، اسلئے بچوں کا ویڈیو گیمز تھماکر سرسے بلا اُتار دیتے ہیں تاکہ بچے گیمز میں لگے رہیں ۔ حتیٰ کہ کھانا پینا بھی گیمز دکھاکر کھلاتے ہیں۔ کئی والدین نے بچوں کیلئے علاحدہ فون بھی لے رکھا ہے۔
جہاں تک بچوں کو ویڈیو گیمز سے چھٹکارا دلانے کی بات ہے تو یاد رکھئے بچے وہی کریں گے جو چیزیں ان کے بڑے یا والدین گھروں میں کرتے ہیں۔ والدین کو ہروقت موبائل میں منہمک دیکھ کر بچے کتابوں کی خواہش کیسے کرسکتے ہیں ؟ اگر گھر والے اذان کی آواز پروضو کرکے نماز کی طر ف جا ئیں گے تو بچے بھی ویسا ہی کریں گے۔ ایسے میں چاہئے کہ بچوں کو ٹاسک دیا جائے کہ دویادوسے زائد سورہ یادکرنے پریہ انعام ملے گا۔ آپس میں مقابلہ کروائیں اور وقت پر نماز مکمل کرنے کا ٹاسک دیں۔
خنساء ظہیر بولنجکر (بندر محلہ، بھیونڈی)
بچے کی ویڈیو گیمز کی عادت چھڑانے کیلئے چند اقدامات
وقت مقرر کریں :بچوں کے ویڈیو گیمز کھیلنے کیلئے ایک مخصوص وقت مقرر کریں۔ اس کے بعد نہ کھیلنے دیں۔
متبادل سرگرمیاں فراہم کریں : بچوں کو مختلف جسمانی اور ذہنی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں، جیسے کہ کھیل کود، کتابیں پڑھنا، یا آرٹ اور ہنر کی مشغولیات۔
مثبت رہنمائی:بچوں کو اس کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں سمجھائیں۔
بچوں کو وقت دیں : بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں شامل ہوں تاکہ وہ ویڈیو گیمز کے بجائے آپ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیں۔
انعامات اور سزا : بچوں کواچھی کارکردگی پر انعامات دیں اور وقت کی پابندی نہ کرنے پر سزا بھی مقرر کریں۔
مثال قائم کریں : خود بھی ویڈیو گیمز کھیلنے سے پرہیز کریں اور بچوں کیلئے ایک مثبت مثال قائم کریں۔ بچوں کو نماز اور قرآن مجید پڑھنے کی ترغیب دیں، ساتھ میں خود بھی پڑھیں۔
انصاری اخلاق احمد محمد اسماعیل (معلم کھیر نگر میونسپل کارپوریشن اسکول، باندرہ مشرق)
والد کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت دیں
آج ویڈیو گیمز کا مسئلہ ہر ماں باپ کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ دراصل انسانی فطرت ہے کہ کوئی عادت آسانی سے اور ایک جھٹکے میں نہیں جاتی بلکہ اس میں وقت لگتا ہے۔ بچوں سے گیمز کھیلنے کی عادت چھڑانے کیلئے والدین کو اپنے بچوں کو زیادہ وقت دینا چاہئے، خاص کر والد کو زیادہ وقت دینا چاہئے۔ بچوں کے ساتھ بیٹھیں، ان کے ساتھ کھیلیں، خوش مزاجی سے پڑھائی کرائیں، تفریح کرنے لے جائیں۔ یہ روز کا معمول بنائیں۔ یہ کام مسلسل کریں تو انشاء اللہ ضرور کامیابی ملے گی۔
مومن عمران احمد عبدالرزاق (بھوسار محلہ، بھیونڈی)
بچوں کو ویڈیو گیمز کھیلنے کیلئے ایک حد اور وقت مقرر کریں
جب بچے ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں تو ان کے دماغ سے ڈوپامائن نامی نیورو ٹرانس میٹر جاری ہوتے ہیں۔ یہ ڈوپامائن خوشی کے احساس کو فروغ دینے والے ہوتے ہیں۔ اسلئے جب بچے ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں تو ان کا دماغ مسلسل ڈوپامائن کی سپلائی جاری کرتاہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بچوں کا دماغ ڈوپامائن کی اس مسلسل فراہمی کا عادی ہوجاتا ہے۔ اسلئے بچے پھر کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں لیتے اور مسلسل گیم کھیلتے رہتے ہیں جووالدین کیلئے واقعی تشویش کا باعث ہوتا ہے۔ ویڈیو گیمز بہت کم کوشش کے ساتھ بچوں کو بہت ساری خوشیاں فراہم کرتے ہیں، اسلئے بچے مشکل ترین راستہ جو حقیقی دنیا کو فتح کرنے کا ہوتا ہے وہ چھوڑ کر صرف ویڈیو گیمز میں مگن رہتے ہیں، اسلئے بچوں کو اس دنیا سے باہر نکالنا ضروری ہے۔
اس کیلئے والدین کو چاہئے کہ روزانہ بچوں کے کھیلنے کیلئے ایک حد اور ایک وقت مقرر کریں۔ جیسے کہ بچوں کو صرف ایک گھنٹہ ہی کھیلنے دیں۔ خود بھی اس اصول پر عمل پیرا ہوں۔ بیڈ روم سے گیمنگ ڈیوائسیز کو ہٹا دیں اور اگر بچہ بہت زیادہ کھیلنے لگے اور قابو میں نہ آئے توماہر نفسیات سے مشورہ کریں۔ تناؤ سے نجات دلانے والی مختلف سرگرمیاں آزمانے کی کوشش کریں۔ گھر کے ماحول کو خوشگوار بنائیں۔ بچوں سے بات کریں اور ان کے مسائل کو سمجھیں۔ ان تدابیر کو اپنا کر والدین اپنے بچوں کی مدد کرسکتے ہیں۔
حافظ افتخاراحمدقادری(کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت یوپی)
ویڈیو گیمز مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی سازش کا حصہ ہیں
یہ صدی یقیناً سائنس اورٹیکنالوجی کی ہے، لیکن ٹیکنالوجی جہاں رحمت ہے وہیں زحمت بھی ہے۔ یہ دو دھاری تلوار ہے جس کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا ضروری ہے۔ ورنہ نہ صرف یہ کریئر اور صحت تباہ کر سکتی ہیں بلکہ زندگی کو بھی گہرائی میں ڈھکیل سکتی ہیں۔ کمپیوٹر اور موبائیل وغیرہ یقیناً آج کے دور میں زندگی کا لازمی جزو بن گئے ہیں لیکن ان کا منفی استعمال لوگوں کو تباہ کر رہا ہے۔ ویڈیو گیمز کا اس میں شامل ہونا مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے تا کہ نئی نسل اس کی عادی ہوجائے۔
والدین اگر اس بیماری کو سنجیدگی سے لیں تو بڑی حد تک اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کے سامنے خود اس کا استعمال کم سے کم کریں۔ کمپیوٹراور موبائیل وغیرہ کو ان کی دسترس سے دور رکھیں۔ بچوں کو اینڈرائیڈ موبائیل نہ دیں۔ روزآنہ ان کے موبائیل چیک کریں۔ اسکول اور ٹیوشن کے ساتھ ساتھ بچوں کو نماز کا عادی بنائیں۔ دن میں دو گھنٹہ انہیں فٹ بال / کرکٹ یا تیراکی کیلئے کسی کلب کا ممبر بنائیں۔ ویڈیو گیمز کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضاء پر ہونے والے مضر اثرات کا بار بار ذکر کریں۔ مہینے میں ایک دفعہ بچوں کو کسی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کیلئے آمادہ کریں۔ بچوں کو ایسے گروپس کا حصہ نہ بننے دیں جو اس لت کے شکار ہیں۔ گھر کے تمام لوگ کم از کم رات کا کھانا ایک ساتھ کھائیں اور کھانے کے بعد بچوں کے سامنے اسلاف کا تذکرہ کریں۔ اُن پر لکھی گئیں چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھنے کیلئے بچوں کو لا کر دیں۔
عبدالحمید افضل (ڈائریکٹر: جے ایم سی ٹی سول سروسیز اکیڈمی، ناسک)
بچوں کو محفوظ اور اعتماد پر مبنی ماحول فراہم کریں
آج کے دور میں جہاں ٹیکنالوجی نے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈالا ہے، بچوں کو ویڈیو گیمز کی لت سے بچانا ایک بڑاچیلنج ہے تاہم کچھ مؤثر حکمت عملیوں کے ذریعے اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔
کھلی اور تعمیری گفتگو: بچوں کو محفوظ اور اعتماد پر مبنی ماحول فراہم کریں تاکہ وہ اپنے احساسات اور خدشات کھلے طور پر بیان کر سکیں۔
وقت کا موثر انتظام: ڈیجیٹل اسکرین کے سامنے گزارے جانے والے وقت کو محدود کریں اور ایک واضح شیڈول بنائیں جس میں دیگر سرگر میاں بھی شامل ہوں۔
بچوں کو ذمہ داری سونپیں : گھر کے کاموں میں ان کی مدد لیں اور انہیں کچھ ذمہ داریاں سونپیں۔
متبادل سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی: بچوں کو مختلف سرگرمیوں جیسے کھیل کود، پڑھائی لکھائی، فنون لطیفہ اور سماجی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیں۔
خاندانی وقت کی اہمیت: خاندان کے ساتھ مل کر وقت گزاریں اور گھر میں ایک ایسا ماحول بنائیں جہاں بچے ڈیجیٹل آلات سے دور رہ کر بھی تفریح حاصل کر سکیں۔
والدین کی ذمہ داری: والدین خود بھی ڈیجیٹل آلات کے استعمال میں اعتدال کا رویہ اختیار کریں۔
یوسف خان (گرافک ڈیزائنر، مالیگاؤں )
بچوں کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے
حالات تو پہلے خراب تھے ہی، کورونا کال سے اور بھی خراب ہو گئے۔ پہلے بچوں کو باہر ڈھونڈنے جانا پڑتا تھا، اب کہتے کہتے تھک جائیں باہر جانے کا نام نہیں لیتے۔ بس موبائل میں لگے رہتے ہیں۔ پریشان کرتے بچوں کو والدین موبائل پکڑا دیتے ہیں۔ الیکٹرانک سامان کےزیادہ استعمال سے بچے بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور نوجوان نشے میں۔ انہیں کیسے روکا جائے اس پر ہمیں غور و فکر کرنا چاہئے؟
ہمارے خیال سے بچوں کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے۔ چھوٹے بچوں کو کنٹرول تو کر سکتے ہیں لیکن بڑے بچوں کو کس طرح قابو میں کیا جائے؟ انہیں پیار اور حکمت عملی سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ یہ کام بڑے بوڑھے کر سکتے ہیں اوراس کیلئے ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کیلئے سیمینار رکھے جا سکتے ہیں۔ انہیں سمجھانے کیلئے علمائے کرام اور قوم کے ذمہ داران کی بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ میڈیا کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے۔ غرض یہ کہ اس مسئلہ کے حل کیلئے سبھی کا ساتھ لینا ہوگا۔ تبھی یہ مسئلہ حل ہو پائے گا کیونکہ بچے اور نوجوان قوم کا سرمایہ ہیں، انہیں بچانا ضروری ہے۔
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
چھوٹے بچوں کی تربیت کیلئے کوئی اسکول یا کوئی ٹیچر نہیں ہوتے، ماں کی عادات بیٹیاں سیکھتی ہیں اور باپ کی حرکت بیٹوں کیلئے مشعل راہ بنتی ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں بچہ اپنے آس پاس کے ماحول میں سب سے زیادہ جس سرگرمی کو دیکھتا ہیں ، اس کا رحجان بھی اسی جانب ہو جاتا ہے۔ آج بیشتر گھروں کے تمام افراد ایک ہی قسم کی سرگرمی میں مصروف نظر آتے ہیں اور وہ سرگرمی ہے ’موبائل میں مصروف رہنا‘۔ ایسے میں بچے کا موبائل کی طرف مائل ہوجانا فطری بات ہے۔ اس کے بعد ماں باپ کبھی خوشی میں تو کبھی بچے کی ضد پوری کرنے کیلئے تو کبھی بچہ پریشان نہ کرے، اسلئے موبائل میں گیمز لگا کر اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور پھر جیسے جیسے بچے کی موبائل گیمز کی عادت ایک لت میں تبدیل ہونے لگتی ہے، ویسے ویسے اس بچے کے اندر کا بڑا بچہ اسے موبائل میں طرح طرح کے گیمز کھیلنے کیلئے آمادہ کرتا ہے... اور پھر وہ سب ہوتا ہے جو ماں باپ نہیں چاہتےہیں۔
ان سے بچنے کا حل یہ ہے کہ والدین بچوں کے سامنے موبائل کا استعمال کم سے کم کریں اور جہاں تک ممکن ہو، انہیں بچپن ہی سے اس سے دور رکھیں۔
مبین اظہر (مولانا آزاد روڈ، ممبئی)
اس ہفتے کیلئے ۲؍ عنوان
ان دنوں اولمپک کے مقابلے جاری ہیں جہاں چین ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ملکوں کا دبدبہ ہے جبکہ ہندوستان جیسا بڑا ملک ٹاپ دس میں بھی شامل نہیں ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ:
اولمپک میں ہماری تیاری عالمی معیار کی کیوں نہیں ہوتی ؟ (مسائل اور حل)
اسی طرح گزشتہ دنوں وقف کے موضوع پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں خوب بحث ہوئی۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ :
وقف قانون میں تبدیلی کے پس پشت حکومت کا منشاء کیا ہے؟
ان دونوں موضوعات میں سے کسی ایک پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۱۸؍اگست) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ مضمون مختصر، صاف اور جامع ہو۔(ادارہ)
نوٹ: ویڈیو گیمز کے موضوع پر موصول بعض تخلیقات کل اور پرسوں کے شمارے میں بھی شائع کی جائیں گی۔