’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: February 19, 2025, 4:20 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
اہل غزہ کی بے دخلی ناقابل قبول
امریکہ کے ۴۷؍ویں صدر ڈونالڈ ٹرمپ عہدہ سنبھالتے ہی حرکت میں آگئے۔ انہوںنے پہلے ہی دن کئی صدارتی حکم ناموں پر دستخط کرکے امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں ہلچل مچادی ۔ روزانہ کوئی ایسا اقدام کردیتے ہیں یا کوئی ایسا بیان دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا میں ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کے بعد اب امریکی صدر ٹرمپ غزہ کو فلسطینیو ںسے خالی کرانے کی اپنی ضد پر اڑگئے ہیں۔ تعمیر نو کے نام پر غزہ کوفلسطینیوں سے خالی کراکر اس پر امریکہ کے قبضہ کی ٹرمپ کی انتہائی ظالمانہ تجویز پر پوری دنیا میں حیرت اور برہمی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے فلسطینیوں کی نسلی تطہیر سے تعبیر کیا ہے۔ ٹرمپ کو غزہ میں نسلی بنیادوں پر فلسطینیوں کی دوسرے ملک منتقلی کے خلاف خبردار بھی کیا گیاہے جبکہ روس، چین ، جرمنی، آسٹریلیا ، فرانس اور آئرلینڈ نے بھی مخالفت کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی وکالت کی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور دیگر عرب اور مسلم ملکوں نے بھی ٹرمپ کی اس تجویز پر اپنا سخت موقف ظاہر کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم غزہ سے فلسطینیوں کی کسی بھی طرح بے دخلی کو مسترد کرتے ہیں ۔غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی بین الاقوامی قوانین کے خلاف ورزی ہے۔ غزہ فلسطین کا اٹوٹ انگ ہے۔ فلسطین کا واحد حل دو ریاستوں کے قیام کو قراردیا ہے۔ غزہ پر کسی تیسرے فریق کا کنٹرول نہیں ہونا چاہئے۔ غزہ کے شہریوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کی ٹرمپ کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے اس کی مذمت کی ہے۔ عرب لیگ نے بھی اسے فلسطینیوں کے ’’نسلی خاتمہ ‘‘ کی کوشش قراردیا ہے۔
سلطان احمد پٹنی (بیلاسس روڈ ، ممبئی)
دراصل ٹرمپ دنیا کو رئیل اسٹیٹ سمجھ رہے ہیں
اس غیر دانشمندانہ بے ہودہ منصوبے نے پوری دنیا میں کھلبلی مچادی۔ حالانکہ اقوام متحدہ قرارداد نمبر۱۹۴؍ کے مطابق فلسطینی تارکین وطن کو اپنی سرزمین پرواپسی کا حق ہے پھر ٹرمپ کون ہوتے ہیں فلسطینیوں کی جبری منتقلی کرنے والے ؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ چوتھے جینوا کنونشن کے تحت کسی بھی قوم کو زبردستی اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کرنا ایک جنگی جرم ہے۔ ٹرمپ کے اس بیہودہ منصوبے نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ فلسطینیوں کی قانونی جائز امنگوں اور گزشتہ کئی برسوں سے چلی آرہی دو ریاستی حل کی راہ میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے وجود کو بھی ختم کرنے کی ٹرمپ کی مذموم سازش ہے۔۱۹۴۸ ء سے اسرائیل کی مکروفریب سے بھری یہ حکمت رہی ہے کہ وہ فلسطینیوں کو بے گھر کرکے ان کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرناچاہتا ہے اور ٹرمپ کا حالیہ بیان اسرائیلی خواب کوحقیقت میں بدلنے کی ایک کوشش ہے۔اسرائیل نے ۱۵؍ ماہ کے دوران ۸۵؍ ہزار ٹن بارود برسا کر غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کردیا جہاں نہ رہنے کی چھت ہے نہ پینے کو پانی اور نہ ہی زندہ رہنے کی امید۔ٹرمپ اور اسرائیل کا مقصد فلسطینیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا ہے اور غزہ کی سرزمین کو عالمی مفادات کے تحت استعمال کرنا ہے اوریہ دونوں فلسطینیوں کی مکمل نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ عالمی برادری مسلم دنیا، او آئی سی اور عرب لیگ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں موثر انداز میں اٹھائیں اور امریکہ پر سفارتی اور اقتصادی دباؤ ڈالیں ۔ ٹرمپ کی غزہ کی تعمیر نو اور فلسطینیوں کے جبراً منتقلی کی تجویز کو مصر اور اردن نے سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔
زبیر احمد بوٹکے ( نالاسوپارہ، ویسٹ)
’’ یہ ایک نہایت فضول مذاق ہے‘‘
واشنگٹن میں بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ خطاب میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے غزه پر قبضہ کرنے کا جو اعلان کیا ہے، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو صہیونیت کو فروغ دینے کی انکی پالیسی کا حصہ ہے لیکن فلسطینی قوم کے یقین محکم اور عزم مصمم کے سامنے ہزاروں امریکی اور اسرائیلی فوجیوں کو اپنی جانوں کی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ اس کا اشارہ خود ایک امریکی سینیٹر کریس مرفی کر چکے ہیں۔ انکے مطابق ’’ ڈونالڈ ٹرمپ مکمل طور پر اپنی عقل کھو چکے ہیں۔ غزه پر امریکی حملہ ہزاروں امریکی فوجیوں کے قتلِ عام اور مشرقِ وسطیٰ میں طویل جنگ کا باعث بنے گا۔ یہ ایک نہایت فضول مذاق ہے۔ ایسا کرنے سے پہلے ٹرمپ کو سو بار سوچنا چاہئے مگر وہ سوچتے کہاں ہیں؟ ‘‘اس بار سعودی حکومت نے بھی سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر رہیں گے کہیں نہیں جائیں گے۔ ہم فلسطینیوں کو غزه سے بے دخل کرنے کے منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔
افتخار احمد اعظمی، (سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
عزت اور احترام کے ساتھ جینے دیا جائے
الحمدللہ غزہ آزاد ہوا ۔ پوری دنیا کےامن پسند خوش ہوئےلیکن انکل سام نے پھر حاکمیت جتا دی۔ فلسطین کی زمین پر ایسا کیا ہے؟ امریکہ میں بذاتِ خود اتنے مسائل ہیں۔غزہ خریدنے سے بہتر اپنے ملک کے غریبوں کی فلاح پر رقم خرچ کر لےیا اسرائیل کو کہیں اور آباد کر دے۔ امریکہ خود کوسپر پاور جتاتا ہے اورا دھر دوسرے ملک میں اپنی فوجیں بھیج دیتا ہے۔کسی کے ذاتی مسائل آپ کس طرح جان سکتے ہیںاور مسائل ہیں تو وہ خود حل کریں گے۔افغانستان ہو یا کوئی اور ملک اس کی فوجیں دندناتی ہو ئی پہنچ جاتی ہیں۔ فلسطین کی آزادی سبھی کو عزیز ہے۔انہیں عزت و احترام کے ساتھ جینے دیا جائے۔ اسرائیل اور امریکہ مل کر جنگی ملبہ صاف کریں اور نیا فلسطین تعمیر کرکے دیں۔حاکمیت چھوڑ کر اپنا ملک سنبھالیں۔
عائشہ انصاری(ممبئی)
ہر حال میں روکا جانا چاہئے
فلسطین اور اسرائیل کی نہ ختم ہونے والی جنگ در پردہ ایک مذہبی جنگ ہےجس کے ذریعہ اسرائیل اہل فلسطین کو ان کی ہی سر زمین سے بے دخل کرکے اپنی مزعومہ ’ارض موعود‘ کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ٹرمپ کا اہل غزہ کو فلسطین سے نکالنے کا ارادہ اسرائیل اور اس کی لابی کا منصوبہ ہو سکتا ہے، ٹرمپ کی شبیہ ایک غیر سنجیدہ اور متلون مزاج صدر کی ہے،اس لئے ان کی زبان سے بار بار اس مذموم عزم کا اظہار کروایا جا رہا ہے، اس کے ذریعہ وہ اپنی طاقت کا ڈر پیدا کرکے اپنی حیثیت بھی منوانا چاہتے ہیں ۔ اہل غزہ کی جبری منتقلی خطے میں عدم استحکام،انسانی حقوق کی پامالی،بے مکانی کے کرب اور ان گنت مسائل و مصائب کا سبب بنےگا۔جسے ہر حال میں روکا جانا چاہئے۔
سعید الرحمان محمد رفیق (گرین پاک روڈ، شیل،تھانے)
بہت نقصان کا سبب بنے گا
غزہ پر امریکہ کے صدر ٹرمپ کے ذریعہ جو بیان آیا ہے وہ بیان خطرناک ہے۔ جو جنگ کو طول دے سکتا ہے۔ نہ کہ جنگ کو مزید کم کرسکتا ہے ۔ جو نیت امریکہ اور اسرئیل نے کررکھی ہے وہ فلسطینیوں کو قبول نہیں ۔ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں تب سے ان کا ملک تباہی کا سامنا کررہا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ فلسطین کو آزادی ملے گی اور اسرائیل کی ہار ، جو امریکہ کو راس نہیں آرہی ہے۔ اس کی نیت صحیح نہیں ہے۔یہاں تک کہ یہ امریکہ کی تجویز کسی بھی ملک کو پسند نہیں ہے۔ فلسطین کی باز آبادکاری کرنی ہے تو وہاں انہیں رہ کر ان کی باز آبادکاری کی جائے نہ کہ انہیں بے گھر کرکے اور وہاں سے باہر نکال کر ۔ یہ بہت نقصان کا سبب بنے گا۔
امتیاز احمد ملک (زکریا بندر سیوڑی)
غزہ کی زمین پر صرف اہل غزہ کا حق ہے
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ مستقل بے تکے بیانات کی وجہ سے عالمی سطح پر اپنا مقام کھورہے ہیں۔ غزہ کی زمین پر صرف اہل غزہ کا حق ہے اور وہ لوگ اس حق سے کبھی دستبردار ہونے والے نہیں ۔ اسرائیل کی طرف سے مسلسل ۱۶؍ماہ شدید بمباری کی گئی، سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا پھر بھی ان کا حوصلہ وہ توڑ نہیں سکے ۔ یوں بھی امریکی صدر کو گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے لیکن امریکی صدر ا قتدار سنبھالنے کے بعد سے مسلسل بے سر پیر کے بیانات دے رہےہیں ۔ ایسے فیصلے کر رہے ہیں جس سےان کےانتظامیہ کو رسوائی کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی بھی ان سے پریشان ہے۔
ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی( میراروڈ ممبئی)
ٹرمپ اہل غزہ کے تئیں نرم گوشہ رکھیں
ایک مقام سے دوسرے مقام اور ایک علاقہ سے دوسرے علاقے اور ایک شہر سے دوسرے شہر نقل مکانی کرنا اور نئے سرے سے آباد ہونا نیز ماحول اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا بہت ہی کٹھن اور دشوار گزار مرحلہ ہے۔ یہاں تو معاملہ کسی علاقہ اور شہر کا نہیں، بلکہ ملک کا ہے۔ مجبور اہل غزہ اور فلسطینی باشندوں کو مصر اور اردن اور دور دراز ملکوں میں منتقل ہونے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ سپر پاور امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کچھ اس طرح کے غیر دانشمندانہ فیصلے اور اعلانات کئے ہیں ۔ دنیا کےا کثر ممالک نے جس کی مخالفت کی ہے اور اسے ٹرمپ کی بکواس اور پاگل پن سے تعبیر کیا ہے۔ ان ممالک میں اسپین، اٹلی، آسٹریلیا، چین، روس اور سعودی عرب کے نام خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ٹرمپ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے پر بضد ہیں اور انہوں نے مصر اور اردن پر دباؤ ڈالا ہے اور انہیں امریکہ کے احسانات یاد دلائے ہیں اور زور دے کر کہا کہ قاہرہ اور عمان کو اس کے لئے راضی ہونا پڑے گا مگر مصر اور اردن دونوں ملکوں نے غزہ کے عوام کو اپنے یہاں بسانے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ دونوں ملکوں نے ٹرمپ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینیوں کے غزہ ہی میں رہنے پر زور دیا ہے۔ فلسطینیوں اور عرب ممالک نے اسے بجا طور پر ٹرمپ کی جبری منتقلی کی سازش قرار دیا ہے۔ لمبے عرصے سے اسرائیلی حملوں اور بمباری سے غزہ کی ہزاروں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں ۔ ملبہ اٹھانے اور صاف کرنے میں کئی برس لگ جائیں گے۔ مسئلہ لاکھوں پناہ گزینوں اور انہیں نئے سرے سے آباد کرنے کا بھی ہے۔ تعمیراتی کام مکمل ہونے میں کافی لمبا عرصہ در کار ہوگا۔ غزہ کو خالی کرانا ٹرمپ کے لئے ممکن نہیں، اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ امریکی صدر مظلوم اور معتوب اہل غزہ کے تئیں نرم گوشہ رکھیں اور انسانیت کو مجروح ہونے سے بچائیں اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں ۔
انصاری محمد صادق(حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج کلیان)
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ .....
ڈونالڈ ٹرمپ جنہیں دوبارہ امریکی صدر ہونے کا شرف حاصل ہوگیا، وہ اپنی کامیابی کو ہضم نہیں کر پارہے ہیں، ہٹلر شاہی کے زعم میں الٹے سیدھے فیصلوں سے عالمی سطح پر اضطرابی کیفیت پیدا کردی ہے۔ فلسطین کی باز آبادکاری کے تعلق سے ان کا غیر ذمہ دارانہ بیان عالمی سطح پر اُن کی رسوائی کا سبب بن ر ہا ہے۔ مخالف ممالک کے ساتھ ساتھ اتحادی ممالک بھی ان سے اپنی برہمی ظا ہر کر ر ہے ہیں ۔ اپنے بغل بچہ اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کرکے غزہ کو اپنے طریقے سے تعمیر کرکے اس کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینے کی ناپاک سازش سے سب ممالک واقف ہیں، اسی لئے ان کی مخالفت میں عرب ممالک کے ساتھ ساتھ کچھ یورپی ممالک بھی اپنی آواز بلند کر رہے ہیں ۔ اپنے آمرانہ طرز کو اوروں پر زبردستی تھوپنے کی روایت امریکی صدور میں کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہے۔ طاقت کے زعم میں اقوام متحدہ کے قوانین کی دھجیاں اڑانا اُن کا ہمیشہ سے پیشہ ر ہا ہے۔ کسی کو خاطر میں نہ لانے کی عادت انہیں دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ خود ان کےعوام کی نظروں میں مشتبہ بنا ر ہی ہے۔ غاصب اسرائیلیوں کی گردن ناپنے کی بجائے ان کی منہ بھرائی کرکے مظلوم فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین سے بے دخل کرنے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، کیونکہ غیور فلسطینی عوام شہید ہونا پسند کریں گے لیکن اپنی زمین سے دور ہونا انہیں بالکل منظور نہیں ہوگا اور پھر ٹرمپ ہو سکتا ہے کہ اسی بہانے اپنے پاؤں مضبوط کرکے مشرق وسطیٰ پر اپنا کنٹرول جمانے کی فراق میں دُبلے ہورہےہوں، عالمِ اسلام کو ایک زبان ہو کر ٹرمپ کے ناپاک عزائم کو ناکام کرنا ہوگا۔
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
اس منصوبے پر عمل درآمد ایک بہت بڑی غلطی ہوگی
امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے اعلان کو بڑے پیمانے پر تنقید اور تشویش کا سامنا ہے۔ بہت سے ماہرین اور رہنماؤں نے نسلی تطہیر، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں اور خطے میں مزید عدم استحکام کے امکانات کے بارے میں خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اس منصوبے کی مذمت کی ہے۔ عرب امریکی اور مسلم رہنماؤں نے بھی اس تجویز کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’ناقابل قبول‘ اور ’پائیدار امن کے خلاف‘ قرار دیا ہے۔ مجموعی طور پر اس اعلان نے شدید بحث اور مخالفت کو جنم دیا ہے جس میں بہت سے لوگ مجوزہ قبضے کی قانونی حیثیت اور اخلاقیات پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ میرے خیال میں مذکورہ تجویز استحکام اور امن کے بجائے `بربادی کا نسخہ ہے۔ یہ خطے میں مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہےکہ اس منصوبے پر عمل درآمد ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔
جاوید رحمان خان(بنگور نگر، گوریگاؤں ویسٹ، ممبئی)
ٹرمپ کا اعلان قابل مذمت
ٹرمپ کے اس اعلان سے ا ہل غزہ اور اہل اسلام کو بالکل بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں صرف اللہ سے رجوع ہونےاور دعا کی ضرورت ہے۔ بہر حال ٹرمپ کا یہ اعلان بہت گھٹیا اور قابل مذمت ہے :’نور حق شمع الٰہی کو بجھا سکتا ہے کون= جس کا حامی ہے خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون؟‘
’خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی‘ بہت آئے اسلام اور ا ہل اسلام کو مٹانے والے لیکن خدا کی ایسی مار لگی کہ وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ٹرمپ اور اس جیسی ذہنیت رکھنے والے بھی ایک دن نیست و نابود ہو جائیں گے۔ ان شاءاللہ بس ہمیں اپنے اعمال اور اخلاق کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ’لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔ ‘
مولانا نظیف عالم صدیقی قاسمی (بیلا پور نوی ممبئی)
امریکی صدر ٹرمپ کا بیان خطرناک
صدر منتخب ہوتے ہی فلسطین اور غزہ پٹی پر بیان دیتے ہوئے امریکی صدر نے غزہ پٹی میں ازسرنو تعمیراتی کام اوروہاں امن وامان کی بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ میں فوج بھیج کر وہاں ترقیاتی کام انجام دے گا؟ امریکہ غزہ کو خرید لے گا، اس پر قبضہ کرے گا۔ یہ بیان سامنے آ تے ہی عرب دنیا میں ہلچل مچ گئی اور ٹرمپ کے اس اشتعال انگیز بیان کے مخالفت میں عرب ممالک متحد ہو کر امریکہ کو غزہ پٹی میں کبھی داخل نہ ہونے کی بات کرکے امریکہ کے اس ناپاک ارادے کو مسترد کیا ہے مگر اب اس بیان سے اسرائیل اور فلسطین جنگ عالمی جنگ کا اشارہ دے رہی ہے۔ غزہ کے ۲۰؍لاکھ لوگ اپنی سرزمین کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ فلسطین آزاد ہونےتک جنگ ختم نہ ہوگی۔ امریکی صدر ٹرمپ کابیان عالمی امن کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ دنیا کے ممالک دو خیموں میں بٹ کر عالمی جنگ کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو مل کر غزہ میں ازسرنو تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں کو انجام دے کر امریکہ اور اسرائیل کی ہر سازش ناکام کرنا ہوگا۔
اقبال احمد دیشمکھ( کھٹیل، مہاڈ، رائےگڈھ)
ایک تشویشناک عمل
غزہ پر امریکہ کے صدر ٹرمپ کے ذريعہ قبضے کا اعلان ایک تشویشناک عمل ہے۔ اقوام متحدہ کے قوانین کے بھی خلاف ہے۔ انسانی آزادی کے بھی خلاف ہےاور فلسطینی عوام کے حقوق پر حملہ ہے۔ پوری دنیا کے تمام ممالک کو اسکی مخالفت کرنی چاہئے۔ اس طرح کے قانون جو اپنی مرضی سے بنائے جائیں، اس پر عمل نہیں ہونا چاہئے۔ ٹرمپ پر کارروائی بہت ضروری ہے۔ دنیا میں کسی بھی ملک کےعوام پر کوئی قانون مسلط نہ کریں ۔ کسی کی بھی مرضی نہیں چلنی چاہئے۔ اقوام متحدہ کو پاور فل بنانا ہوگا اور اسکے اختیارات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں کوئی بھی کسی بھی ملک کے عوام پر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔
شیخ عبدالمو حد عبدالروف(مہاپولی، بھیونڈی)
بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف
غزہ پٹی پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ظالمانہ تجویز بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ ۴؍فروری ۲۰۲۵ءکو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ تجویز پیش کی تھی جس کا مقصد غزہ کو مشرق وسطیٰ کے رویرا یعنی ساحلی تفریحی مقام میں تبدیل کرنا تھا۔ اس منصوبے میں تقریباً۲ء۱؍ ملین فلسطینیوں کی عارضی طور پر مصر اور اردن جیسے پڑوسی ممالک میں منتقلی شامل ہے جس کے بعد غزہ میں تعمیر نو کی وسیع کوششیں کی جائیں گی۔
اسرائیل نے اس تجویز پر کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے، وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حمایت کا اظہار کیا ہے لیکن مصر اور اردن جیسے ممالک نے بے گھر فلسطینیوں کو اپنی سرحدوں کے اندر آباد کرنے کے خیال کو مسترد کر دیا ہے۔ اس تجویز نے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تنقید کو جنم دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی بہت سی حکومتوں اور فلسطینی حکام نے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ کے باشندے رضاکارانہ طور پر نہیں جائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر تی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
عرب لیگ، او آئی سی اور دنیا کے تمام اسلامی ممالک اس نا قابل قبول تجویز کی پرزور مخالفت کریں اور مظلوم فلسطینیوں کا بھرپور ساتھ دیں۔
سید معین الحسن انجینئر(ویمان نگر، پونے)
پورے خطے میں آگ بھڑک سکتی ہے
ہم غز ہ پر امریکی صدر ٹرمپ کے ذریعے قبضے کے اعلان کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور ان کے اس اعلان کی بین الاقوامی سطح پر مخالفت اور مذمت بھی ہوئی ہے۔ ان کے اس تجویز کو عرب دنیا اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مستر د کر دیا گیا ہے۔ صدارت کے عہدے پر دوبارہ فائز ہونے کے بعد ان میں زیادہ ز عم پیدا ہو گیا ہے لیکن وہ شاید نہیں جانتے کہ ان کے اس اعلان سے پورے خطے میں آگ بھڑک سکتی ہے۔ حالانکہ اسرائیلی وزیر دفا ع نے فوجی افسران کو غز ہ پٹی کو کنٹرول کرنے کیلئے امریکی صدر ٹرمپ کی تجویز پر تنقید کرنے سے خبردار کیا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ قبو ل نہیں کر و ں گا کہ غز ہ کے با ر ے میں ٹر مپ کے منصوبے کے خلا ف فو جی ا فسر ا ن کی تنقید ہو۔ ظاہرسی بات ہے کہ ٹرمپ کے اس اعلان کی حمایت کرنا ان پر لازم ہے لیکن اس کے بھیانک نتائج سے چشم پوشی کرنا اُن کی مجبوری ہے۔
پرنسپل ڈاکٹر محمد سہیل لوکھنڈ والا(سا بق ایم ایل اے، ممبئی)
غزہ پر قبضے کااعلان غیر قانونی ہے
کیا امریکہ کو نہیں معلوم کہ بین الاقوامی قوانین کسی کو بھی ایساکوئی اقدام اٹھانے سے روکتے ہیں۔ ویسے سچائی یہ ہے کہ اسرائیل خود بھی غزہ پر براہ راست کنٹرول کے بجائے، وہاں پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ غزہ پر قبضے کے اعلان پرعرب و مسلم دنیا کی شدید مخالفت امریکہ کیلئے مشکلات کھڑی کر سکتی ہیں۔ افغانستان اور عراق کے تجربات امریکہ کو براہ راست عسکری مداخلت سے روکتے ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ اس معاملے پر امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی مدد جاری رہے گی لیکن وہ خود غزہ پر قبضہ نہیں کرے گا کیونکہ براہ راست غزہ پر قبضے کا اعلان نہ تو ممکن ہے، نہ ہی یہ امریکہ کے مفاد میں ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ وہ اسرائیل کو مالی، فوجی اور سیاسی مدد فراہم کرتا رہے گا تاکہ غزہ کو قابو میں رکھا جا سکے۔
تنزیل الرحمان صدیقی (کشن گنج، بہار)
اس اعلان کے عالمی اور علاقائی اثرات نہایت سنگین ہو سکتے ہیں
ڈونالڈ ٹرمپ کی اس اشتعال انگیزی کو کئی زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے عالمی اور علاقائی اثرات نہایت سنگین ہو سکتے ہیں۔ یہ دراصل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ غزہ ایک مقبوضہ فلسطینی علاقہ ہے۔ اس پر کسی بھی غیر ملکی طاقت، بشمول امریکہ کا قبضہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ اگر امریکہ اس سمت میں کوئی عملی قدم اٹھاتا ہے تو یہ ایک جارحیت اور نوآبادیاتی طرز کا اقدام سمجھا جائے گا جسے عالمی برادری آسانی سے قبول نہیں کرے گی۔ اسی طرح فلسطینی عوام غزہ میں اپنی آزادی اور خودمختاری کیلئے کئی دہائیوں سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ اس خطے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق اور حقِ خودارادیت کی سنگین پامالی ہوگی۔
نئی جنگ کےخدشات:اسرائیل پہلے ہی غزہ میں فوجی کارروائیاں کر رہا ہے۔ اگر امریکہ براہِ راست مداخلت کرتا ہے، تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا اور وسیع جنگی محاذ کھل سکتا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان بلکہ دیگر علاقائی طاقتوں جیسے ایران، ترکی اور عرب ممالک کے ردعمل کو بھی بھڑکا سکتا ہے۔
سفارتی ردعمل اور امریکی ساکھ:اگر امریکہ اس پالیسی پر عمل کرتا ہے، تو اسے شدید عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر عالمی ادارے ممکنہ طور پر اس کی مذمت کریں گے۔ اس سے امریکہ کی سفارتی تنہائی بڑھ سکتی ہے اور اس کے اتحادیوں، بالخصوص مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (ایجوکیشنل اینڈ کریئر کو نسلر، صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج بھیونڈی)
مسلم ممالک کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے
ہمیں ٹرمپ کے اس بیان کو کسی دیوانے کی بڑ نہیں سمجھنا چاہئے۔ امریکہ کا جو بھی صدر رہا ہے، سب اسرائیل کے ہمنوا رہے ہیں۔ ان کا بھروسہ نہیں کہ کب ڈرا دھمکا کر غزہ پر قبضہ کرلیں۔ اسلئے مسلم ممالک کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اسرائیل پہلے ہی سےمسلم ممالک پر قبضے کا نقشہ تیار کر چکا ہے۔ اس نے دنیا کو وہ نقشہ دکھا کر اپنے عزائم کے متعلق بتا بھی دیا کہ یہودیوں کے عزائم کیا ہیں ؟اسی مقصد کے تحت اس نے کئی عرب ممالک کے سربراہوں کے گھروں میں یہودی لڑکیوں کو داخل کرایا اور ان کی ازدواجی زندگی کا حصہ بنایا۔ یاسر عرفات کو زہر دینااور دیگر مسلم لیڈروں کو چن چن کر مارنا، اس کی اسی سازش کا حصہ ہے۔ اسے جب بھی موقع ملتا ہے، مسلم ممالک کے سربراہوں کو نشانہ بناتا ہے۔ اسی طرح بےگناہ فلسطینیوں کے قتل میں بھی امریکہ کا برابر کا حصہ ہے۔ وہ اسرائیل کو ہتھیار، دولت، فوج اورہر طرح کی مدد دیتا آ رہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی اکثر مسلم ممالک نے فلسطین کو بے یارومددگار چھوڑ رکھا ہے۔ اسلئے غزہ پر امریکی قبضے کے اعلان کو ہم سنجیدگی سے لیتے ہیں اور مسلم ممالک کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارا معاملہ نہیں ہیں ۔ آج فلسطین کی...تو کل آپ کی بھی باری آسکتی ہے۔ اسلئے مسلم ممالک کو مل بیٹھ کر کوئی حکمت عملی بنانی ہوگی۔
مرتضیٰ خان(نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
فلسطینی عوام کے حقوق پر حملہ
غزہ کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ یہ مزید ستم ہی ہے کہ غزہ پر امریکی صدر کے ذریعے قبضے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس سازش کے پیچھے ممکنہ نیتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ اول یہ ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے باہر کر کے، وہاں پراُن کی واپسی کے حق کو محدود کیا جائے۔ دوم یہ کہ غزہ سے فلسطینیوں کو ہٹا کر اسرائیل کو ایک ’محفوظ‘ خطہ بنا دیا جائے۔ حالانکہ یہ دونوں ہی باتیں مشکل ہی نہیں، ناممکن ہیں۔ اگر امریکہ نے ایسی کوئی جرأت کی تو وہ قدم نہ صرف اسرائیل کیلئے بلکہ خود امریکہ کیلئے تباہی کا سامان بن سکتا ہے۔ ویسے گمان غالب ہے کہ امریکہ براہ راست قبضے کی کسی کوشش کے بجائے اسرائیل کو سیاسی، فوجی اور سفارتی مدد دے کر بالواسطہ طور پر قبضے کی کوشش کرے گا جو وہ آج بھی کررہا ہے۔ مجموعی طور پر مشرقی وسطی میں امریکی مفادات اور عالمی طاقت کا کھیل چل رہا ہے۔
مومن ناظمہ محمد حسن( ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے)
امریکہ کو افغانستان میں اپنے انجام سے سبق لینا چاہئے
امریکی صدر کا غزه پر قبضہ کرنے کادیرینہ خواب ہے۔ وہ اپنے ملک میں ’امریکہ فرسٹ‘ کی پالیسی کو اپنا رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کیلئےصرف امریکہ کا مفاد مقدم ہے۔ اسی کے تحت امریکہ میں مقیم دیگرممالک کے افراد کو باہر بھیج رہے ہیں۔ ان کے اس عمل کی پوری دنیا میں پُرزور مخالفت کی جا رہی ہے۔ اسی طرح فلسطینیوں کو بھی ان کے حق سے محروم کرنے کی ایک سازش رچی جارہی ہے۔ فلسطینی اپنے حق اور اپنی مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے لڑرہے ہیں۔ انہیں راحت پہنچانے کے بجائے، تعمیر نو کے نام پر انہیں وہاں سے بے دخل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس کے باوجود یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ غزہ پر قبضے کا اعلان کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ پوری دنیا میں امن پسند عوام اس کے خلاف شدت سے آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسرائیل کو ہرطرح کے ظلم کی کھلی چھوٹ دیناسخت نا انصافی ہے۔ یہ دوغلا پن اب عالمی سیاست میں نہیں چلنے والا ہےکیونکہ مواصلاتی اِنقلاب کی وجہ سے یہ دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ماضی میں بھی امریکہ نے دہشت گردی کے الزام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور وہاں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی۔ امریکہ کواس ناکامی سے سبق حاصل کر کے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اگر اس نے اپنی طاقت اوراختیارات کا غلط استعمال کیا تو ایک دن اس کا یہ غرور اسے لے ڈوبے گا۔
اسماعیل سلیمان(کرہاڈ خرد، پاچورہ، جلگاؤں )
امریکہ میں موجود اسرائیل نواز لابی ٹرمپ سے اپنی مدد کا انعام چاہتی ہے
امریکی صدر کے انتخاب میں ٹرمپ کی کامیابی کیلئے’ یہودی لابی‘ نے کافی مدد کی تھی۔ اسرائیل نواز وہ لابی اب اس کا انعام چاہتی ہے۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ غزہ سے فلسطین کو خالی کرا لیا جائے۔ ٹرمپ ایک بزنس مین ہے۔ وہ اسرائیل کی مدد کے نام پر غزہ پرخود قبضے کا ارادہ رکھنا ہے...لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ غزہ کے عزیمت کے سامنے یہ نا ممکن ہے۔ اگر اس نے ایسی کوئی کوشش کی بھی تو، افغانستان ہی کی طرح غزہ سے بھی نا مراد واپس ہوگا۔ ٹرمپ کا بیان فلسطینیوں کے حقوق کی پا مالی بھی ہے۔
شاہد ہنگائی پوری علیگ( یونٹی، سکون ہائٹس، ممبرا)
مسلم ممالک اتحاد کا اظہار کریں اور امریکہ پر دباؤ ڈالیں
اسرائیل نے فلسطین اور غزہ کو کافی نقصان پہنچایا ہے، اس کے باوجود اس پر قبضہ کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ ارض فلسطین کی حفاظت میں لاکھوں فلسطینیوں نے شہادت کا نذرانہ پیش کرکے اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ اسلئے اس پر اسرائیل ہو یا امریکہ، کسی کیلئے قبضہ کرنا آسان نہیں ہے۔ جہاں تک ٹرمپ کی بات ہے، اس کی سوچ بہت گھٹیا ہے۔ امریکی الیکشن سے پہلے اس نے جنگ روکنے کی باتیں کی تھیں، جس کی وجہ سے فلسطینی مظلوموں کی حمایت کرنے والوں نے ٹرمپ کو ووٹ کراسی کی کامیابی کا راستہ ہموار کیا۔ اب جبکہ وہ ایک بار پھراپنے خول سے باہر آگیا ہے، مسلم ممالک کو اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ایک دو مسلم ممالک کو چھوڑ کر بیشتر خاموش ہیں۔ حالانکہ یہ موقع ہے کہ سارے مسلم ممالک متحد ہوں اور امریکہ پردباؤ بنائیں۔
عاطف عدنان شیخ صادق (شاہو نگر، جلگاؤں )
مشرق وسطیٰ میں مزید عدم استحکام اور بدامنی کو جنم دینے والا بیان
امریکی صدرکا غزہ پر قبضے کا اعلان بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ فلسطینی سرزمین کا ایک بڑا حصہ ہے پہلے ہی اسرائیلی محاصرے اور جارحیت کا شکار رہا ہے۔ ایسے میں امریکہ کی طرف سے اس پر قابض ہونے کا اعلان مشرق وسطیٰ میں مزید عدم استحکام اور بدامنی کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ اعلان نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی ہے بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی قراردادوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے جو فلسطینی عوام کے آزادی و خودمختاری کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اس اعلان کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ اکثر ممالک نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق کی بھرپور حمایت کی ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں کسی بھی بیرونی طاقت کا دخل دینا بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔ امریکہ کے اندر بھی اس فیصلے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور کئی امریکی سینیٹرز نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام امریکہ کو براہِ راست ایک بڑے فوجی تنازع میں دھکیل سکتا ہے جس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر امریکہ ایسا کیوں کرنا چاہتا ہے؟ کیا یہ فیصلہ صرف اسرائیل کی حمایت میں ہے یا پھر ایک بڑی عالمی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ جب امریکہ نے اس طرح کے فیصلے کئے تو اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر بحران اور عدم استحکام بڑھا۔ عراق، افغانستان اور لیبیا کی مثالیں ہمارے سامنے واضح ہیں۔ ان فیصلوں کا نتیجہ ہمیشہ انسانی بحران اور جنگوں کی صورت میں نکلا۔ اب اگر امریکہ کی جانب سے غزہ میں بھی اپنی مرضی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو یقینی طور پر خطے میں عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا اور بدامنی پھیلے گی۔
آصف جلیل احمد (چونابھٹّی، مالیگاؤں )
خبروں میں رہنے کیلئے یہ بے بنیاد بیان دیا گیا ہے
ٹرمپ اپنے غیر حساس بیانات کیلئے پہلے ہی سے بدنام ہیں۔ جس طرح کے بیانات انہوں نے امریکی صدر کے انتخابات کے دوران دیئے تھے، اس سے واضح ہے کہ انھیں کسی بھی موضوع میں دلچسپی نہیں ہے، بس خبروں میں بنے رہنے کیلئے وہ اس طرح کے بے بنیاد بیانات دیتے رہتے ہیں۔ جہاں تک غزہ پر قبضہ سے متعلق ان کا بیان ہے، اس کی مذمت ہونی ہی چاہئے۔ ویسےفلسطین اور اسرائیل کے بیچ اگر کوئی تیسرا ملک اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے تو یہ نہ صرف فلسطین بلکہ اسرائیل کو بھی منظور نہیں ہوگا۔
جواد عبدالرحیم قاضی(ساگویں، رتناگیری)
غزہ ٹرمپ یا اُن کے یہودی داماد کی پراپرٹی نہیں ہے
ٹرمپ کا یہ بیان کہ وہ غزہ پر قبضہ کرنا چاہتےہے، متوقع بیان ہے۔ حماس پر حملہ، سیز فائر کیلئے مداخلت اور امریکہ کے حالیہ بیانات سے بالکل واضح ہے کہ شروع سے لے کر اب تک سب کچھ اسی کےایجنڈے کے تحت ہوتا آرہا ہے۔ غزہ پر قبضہ کرنا، ٹرمپ کے یہودی داماد جارڈکشنر کی خواہش بھی ہے، جسے وہ پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی تجویز وہ ماضی میں بھی دے چکے ہیں کہ شمالی کوریا میں جوہری میزائلوں کے بجائے ہوٹل بنائے جائیں۔ یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ کس طرح انہوں نے نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل کے ذریعے مغربی کنارے کے الحاق کے بارے میں ’ٹرٹر‘ کی تھی۔ بہرحال غزہ صرف فلسطینیوں کا ہے۔ ٹرمپ یا اس کے یہودی داماد کی کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہچین، فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک نے بھی ٹرمپ کے غزہ سے متعلق بیان کی مذمت کی ہے۔
رضوان قاضی( کوسہ ممبرا)
غزہ کے لوگوں کو نہیں، اسرائیلیوں کو وہاں سے ہٹایا جائے
غزه سے متعلق امریکی صدر کا بیان قا بل مذمت ہے۔ صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورا یروشلم، پورا مغربی کنا ره اور پورا فلسطین، یہاں تک کہ وہ زمین پر جس پر اسرائیل قابض ہے، وہ بھی فلسطینیوں ہی کا ہے۔ امر یکہ کو چا ہئے کی اسرائیل کو وہاں سے ہٹا کر کہیں دوسری جگہ منتقل کر دے اور وہاں پر اُن کیلئے گرین زون بنا دے۔
شہاب الدین خان (نائب صدر ممبئی کانگریس اقلیتی صو بہ، مالونی ملاڈ)
قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔ اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔ کچھ ہفتوں سے قارئین کیلئے ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں ہر ہفتے ایک موضوع دیا جارہا ہے۔ اس موضوع پر موصول ہونے والی آپ کی تحریریں ( آپ کی تصویر کے ساتھ) سنڈے میگزین میں شائع کی جارہی ہیں :
اس ہفتے کا عنوان
۱۳؍ فروری کو روزنامہ’ انقلاب‘ کے صفحہ اول پر ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’تعلیم کو ۱۰۰؍ فیصد ڈجیٹل کردینے کے ۱۵؍ سال بعد سویڈن میں کتابوں اور بیاضوں کی واپسی‘۔ اسی پس منظر میں سوال طے کیا گیا ہے کہ:
سویڈن میں کتابوں اور بیاضوں کی واپسی کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں ؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۲۳؍ فروری) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔