’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: September 15, 2024, 4:14 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
یہ پالیسی جمہوریت کا گلا گھونٹنے جیسی ہے
اتر پردیش کی ڈیجیٹل پالیسی کے مطابق اب جو حکومت کی تعریف و توصیف کرے گا، اسے حکومت کی جانب سے بھرپور معاوضہ ملے گا اور جو تنقید کرے گا اس پر قانونی شکنجہ کسا جائے گا۔ اس کے مطابق قابل اعتراض اور ملک مخالف پوسٹ پر جیل بلکہ عمر قید بھی ہو سکتی ہے جبکہ حکومت کی قصیدہ خوانی پر پانچ سے آٹھ لاکھ روپے ماہانہ تک مل سکتے ہیں۔ حکومت کاخیال ہے کہ وہ اس پالیسی کے ذریعے ریاست کے لوگوں کو روزگار فراہم کر سکے گی۔ پہلے حکومت اخبارات کو اشتہارات دیا کرتی تھی، وہ ایسے ہی اشتہارات سوشل میڈیا پر سبھی کو ایکس یوٹیوب کے اکاؤنٹ ہولڈر فیس بک اور انسٹاگرام پر دیتی ہے تو کس کو اعتراض ہوسکتا ہے؟ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن قابل اعتراض اور ملک مخالف پوسٹ کس کو مانا جائے گا؟ اگراس طرح تنقید کرنے والوں پر لگام لگانے کی کوشش کی جارہی ہے تو یہ جمہوریت کا قتل ہی کہلائے گا۔ خدشہ یہی ہے کہ حکومت اس پالیسی کا استعمال لوگوں کو غلط طریقے سے پھنسانے کیلئے کرے گی جیسے مرکزی حکومت کی ایجنسیاں اس کا استعمال کر رہی ہیں۔
محمد رفیق دیشمکھ (شہادہ، مہاراشٹر)
اس میں ایک فرقے کا نہیں، پورے ملک کا نقصان ہے
ٍٍ آج سے پہلے تک ملک اور ملک کی تمام ریاستوں کی ڈیجیٹل پالیسیوں میں عوامی فلاح و بہبود سے متعلق تجویزیں پیش ہوتی رہی ہیں جو عوامی زندگی کے معیار کو اوپر اٹھاتی تھیں اور ریاست کی معیشت کو اونچائی تک لے جاتیں تھی۔ ہیم وتی نندن بہو گنا، چودھری چرن سنگھ، پنڈت نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور ملائم سنگھ جیسے بڑے لیڈروں نے اس سمت میں قدم اٹھایا ہے ....مگرافسوس کہ آج صرف ایک قوم کی دشمنی ہی پیش نظر ہے۔ یوگی حکومت مسلم مخالفت میں اس قدر ڈوب چکی ہے کہ اسے ریاست کی کوئی فکر ہی نہیں رہ گئی ہے۔ وہ صرف اور صرف پارٹی پالیسی کے چکر میں پڑی ہے۔ اسے اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ اس کی حرکتوں سے ملک اور ریاست کو کتنا مالی، معاشی اورثقافتی نقصان ہورہا ہے؟ وزیراعلیٰ کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اگر کسی ایک فرقے کو بار بار نشانہ بنایا جائے گا تونقصان صرف اسی مخصوص فرقے کا نہیں ہوگابلکہ اس کے ساتھ ہی ریاست اور ملک کا بھی نقصان ہوگا۔ راحت اندوری کایہ شعر بہت مشہور ہے کہ ’’لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں : یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے۔ ‘‘
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
یہ غیر جمہوری اور آمرانہ فیصلہ ہے
جمہوریت صرف رائے دہی یا انتخابی عمل کے مکمل ہونے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ جمہوریت ایک طرز حکمرانی کا نام ہے جس میں ہر شہری کے حق کی حفاظت کی جاتی ہے اور حکومت کے اُن تمام عوام مخالف فیصلوں کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے، احتجاج کیا جاتا ہے اورحکومت کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ جمہوریت کا حصہ ہےاور عوام کا حق بھی ہے۔ مگر افسوس کہ اتر پردیش کی یوگی حکومت موجودہ ڈیجیٹل پالیسی کے ذریعہ اپنے غیر آئینی فیصلوں کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اس کے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائے۔ اسی کے ساتھ حکومت کی قصیدہ خوانی کرنے والوں کو نوازنے کے پس پردہ اپنے ہر طرح کے فیصلوں کو جواز فراہم کرنا بھی اس کا مقصد ہے۔ اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر مسلمان اور دبے کچلے افراد ہوں گے۔ آخر اتنے سخت قانون کے بعد ان کی آواز اٹھانے کی ہمت کون کرے گا؟جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کے ذریعہ اٹھایا گیا یہ ایک غیر جمہوری فیصلہ ہے، جس کی مخالفت ہر حال میں کی جانی چاہئے۔
سعید الرحمان محمد رفیق( گرین پارک، شیل، تھانے)
یہ ظالمانہ پالیسی ہے، اس کی مخالفت ہونی چاہئے
یوگی حکومت کے ذریعہ متعارف کرائی گئی نئی ڈیجیٹل پالیسی پوری طرح سے ظالمانہ ہے۔ اگر یہ پالیسی عمل میں آجاتی ہے تو نہ صرف سچ کا گلا گھونٹا جائے گا بلکہ سچائی کی مخالفت کرنے والوں کو انعام سے بھی نوازا جائے گا۔ پالیسی کے مطابق قابل اعتراض اور ملک مخالف پوسٹ پر جیل بلکہ عمر قید تک ہو سکتی ہے جبکہ حکومت کی قصیدہ خوانی پر ماہانہ ۵؍ لاکھ روپے تک مل سکتے ہیں۔ ’ملک مخالف پوسٹ‘ کی مخالفت اچھی بات ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ بی جے پی کی حکومتیں، اپنی مخالفت کو بھی ملک کی مخالفت قرار دیتی ہیں۔ یوپی محکمہ اطلاعات کے پرنسپل سیکریٹری سنجے پرساد کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے ذریعے وہ ریاست کے لوگوں کو روزگار فراہم کر سکیں گے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ اس کے ذریعہ وہ ان لوگوں کے روزگار چھینیں گے جو عوام کی بات کریں گے، ان کے حقوق کی لڑائی لڑیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی کریں گے جو عوام کے بجائے حکومت کا دم بھریں گے، ان کے گن گائیں گے۔ حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی رپورٹ کے مطابق ایکس، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب کے اکاؤنٹ ہولڈرز کو سبسکرائبرز اور فالوورز کی بنیاد پر چارزمروں میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد حکومت ان کی فہرست بنا کر اسی کے مطابق انہیں اشتہار دے گی لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ اشتہار نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے ایک طرح کی ’قانونی رشوت‘ ہوگی کہ آپ ہماری تعریف کرو، ہم آپ کی معاشی مدد کریں گے۔
پرویز خان پی کے( بھیونڈی)
یوگی حکومت کاایک تیر سے دو نشانہ
اتر پردیش حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی اس بات کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں سوشل میڈیا کی طاقت کیا ہے؟ ۲۰۲۴ءکے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے ارمانوں پر پانی پھیرنے میں سوشل میڈیا کا بہت اہم رول رہا ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی اب ’بیدار‘ ہوگئی ہے۔ یوپی کے وزیراعلیٰ اس پالیسی کے ذریعہ حکومت کے خلاف بتائی جانے والی خبروں اور اُٹھنے والی تحریکوں پر لگام لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح حکومت کی تعریف کرنے والے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو مالی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔ بی جے پی کو ایسا لگ رہا ہے کہ اس سے اترپردیش کے آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ وزیراعلیٰ بنام وزیراعظم کی بات کرکے یوگی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کے ذریعہ انہیں بھی سبق سکھایا جاسکے گا۔ اس کی مدد سے وہ گجرات لابی کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں اور خود کو مستقبل کیلئے تیار کر رہے ہیں ۔
ممتاز احمد خان (گولی بار، سانتا کروز، مشرق، ممبئی)
یہ سرکاری رشوت ہے
بی جے پی حکومت اس نئی پالیسی کے ذریعے ڈجیٹل میڈیا پر’قبضہ‘ کرنے کی کوشش کررہی ہے جو جمہوریت کیلئے خطرناک ہے۔ یوگی حکومت اب کھلے عام میڈیا پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کررہی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے اس کی مخالفت شاعرانہ انداز میں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم بانٹ رہے ہیں دانے، گاؤ ہمارے گانے، جیل تمہارا گھر ہے، اگر ہوئے بیگانے۔ ‘‘اکھلیش یادو نے اسے ’بی جے پی کی طرف سے دی گئی رشوت‘ اور ’عوامی ٹیکس کے پیسے سے ذاتی تشہیر کیلئے بدعنوانی کی ایک نئی شکل ‘‘ قرار دیا ہے۔
ریحانہ نورالدین شیخ (کوسہ، ممبرا)
سیاسی بقا کیلئے یوگی کا نیا شوشہ
اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے سیاسی بقا کیلئے ڈجیٹل پالیسی کی صورت میں ایک نیاشوشہ چھوڑا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ملک میں اس وقت سوشل میڈیا کی دھوم ہے۔ پل پل کی خبریں چلتے پھرتے اور گھومتے ہوئے لوگ سن رہے ہیں (خواہ وہ حقائق پر مبنی ہوں یا نہ ہوں، یا فحاشی سے لبریز ہی کیوں نہ ہوں، اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے )۔ مذکورہ باتوں پر لگام کسنے کے بجائےیوگی جی نے اُترپردیش میں ڈجیٹل پالیسی کا نفاذ کیا ہے۔ اس کے تحت حکومت کی گرفت میں آنے والوں کو کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے اور ستم بالائے ستم کہ اس پر ہتک عزت کا مقدمہ بھی دائر کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی خوشامد کرنے والوں کو انعام سے نوازنے کا بھی التزام ہے۔ ملک میں بی جے پی کی اقتدار والی حکومتیں اپنی اپنی ریاستوں میں آئے دن ایسے ایسے قوانین نافذکررہی ہیں جن کے استعمال میں واضح طور پر جانب داری کاگمان ہوتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسے میں آخر ملک کی عدالت عظمیٰ کا کیا کردار رہ جاتا ہے؟
زبیر احمد بوٹکے (نالا سوپارہ)
یہ پالیسی آزادی اظہارِ رائے کو دبانے کی ایک کوشش ہے
اتر پردیش حکومت کی نئی ڈیجیٹل پالیسی، جس میں قابل اعتراض مواد پوسٹ کرنے پر سخت سزائیں اور حکومت کی تعریف کرنے پر انعامات شامل ہیں، ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتی ہے۔ اگرچہ نقصان دہ مواد کو روکنے کا ارادہ قابل تعریف ہے، لیکن ایسے جرائم کیلئے تین سال سے عمر قید تک کی سزا کا التزام، حکومت کی نیت پر سوالات اٹھاتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ڈیجیٹل پلیٹ فارم عوامی رابطے اور مباحثے کیلئے اہم ہو چکے ہیں، یہ پالیسی آزادی اظہارِ رائے کو دبانے اور شہریوں کو آزادانہ بحث و مباحثے سے باز رکھنے کا باعث بن سکتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک میں آن لائن اور سوشل میڈیا کے استعمال میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے- یہ پلیٹ فارمز سیاسی اور سماجی مشغولیت کے اہم ذرائع بن چکے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ یہ پالیسی، لوگوں کو حکومت پر جائز تنقید کرنے سے روک سکتی ہے، جس سے ملک کی جمہوریت کی چمک ماند پڑ سکتی ہے۔ اس طرح کے خوف کے ماحول سے خود سنسرشپ کو فروغ مل سکتا ہے، جہاں شہری، صحافی اور کارکن حساس موضوعات سے دور رہنے پر مجبور ہوسکتے ہیں، جس سے بالآخر ملک کا جمہوری ڈھانچہ ہی کمزور ہوگا۔
مزید برآں، پالیسی میں حکومت کی تعریف کرنے والوں کو انعام دینے کی شق بھی شامل ہے جو ریاستی سرپرستی میں پروپیگنڈہ اور عوامی رائے کو ممکنہ طور پر بگاڑنے کے خدشات کو جنم دیتی ہے۔ جمہوریت میں، مختلف نظریات اور تعمیری تنقید حکومت کو جوابدہ بنانے اور صحت مند عوامی مباحثے کو یقینی بنانے کیلئے اہم ہیں۔ یکطرفہ بیانیے کو فروغ دینے والی یہ پالیسی ڈیجیٹل منظرنامے کو مسخ کر سکتی ہے، آن لائن مواد کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور شہریوں کے اس پر اعتماد کو کمزور کر سکتی ہے۔
عبید انصاری ہدوی(غوری پاڑہ، بھیونڈی)
اس کے خلاف اسمبلی میں اپوزیشن کو احتجاج کرنا چاہئے
یوگی حکومت کی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی بالکل ہی غیر مناسب ہے۔ یہ پالیسی سوشل میڈیا انفلوئنسرز کیلئے ایک لالچ ہے۔ انفلوئنسرز جو اپنے کونٹینٹ (مواد) کو عوام میں سوشل میڈیا کے ذریعہ مؤثر انداز میں پیش کریں گے، انہیں ۸ لاکھ روپے تک ماہانہ ملے گا۔ اس کا سب سے خراب اور تکلیف دہ پہلو سزا کا وہ التزام ہے جو حقِ آزادئ تقریر کیلئے ایک دھمکی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس کے خلاف اسمبلی میں اپوزیشن کے ذریعہ احتجاج ہونا چاہئے۔ یہ کیسے اور کون طے کرے گا کہ یہ مواد ملک مخالف ہے۔ اس پالیسی سے اپوزیشن کی آواز کو خاموش کرنے کا ارادہ ہے۔ اس پالیسی کے خلاف احتجاج ہونا چاہئے۔
شاہد ہنگائی پوری علیگ(سکون ہائٹس، ممبرا، تھانے)
اس کی مدد سے یوگی سرکار اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی چاہتی ہے
جس نے بھی موبائل فیچرس پر یعنی فیس بُک، واٹس اپ، انسٹاگرام اور یو ٹیوب وغیرہ پر ’قابل اعتراض‘ مواد اَپ لوڈ کیا تو اسے تین سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔ ایسی پالیسی اُترپردیش سرکار نے بنائی ہے۔ اس پالیسی میں سازش کے پہلو کو واضح طورپر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جیسے یہ کہ یہ مواد جہاں سے لے کر ڈالا گیا، یعنی جہاں وہ موجود ہے یا تھا، اُس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ ہر کام کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ حکومت کی ڈیجٹیل پالیسی کس پہلو کو دیکھ کر کارروائی کرے گی، یہ بھی بہت واضح نہیں ہے۔ کسی نے دشمنی میں کسی کے نام سے کوئی قابل اعتراض مواد اَپ لوڈ کردیا تو کارروائی کس پر ہوگی؟ آج کل ہجومی تشدد کا دور دورہ چل رہا ہے، اس میں اور اضافہ ہوگا اور اس کی آنچ ہر گلی محلے میں محسوس کی جاسکے گی۔ کیا اس کی تحقیق ہوگی؟ اور ہوگی تو کیا وہ تحقیق غیر جانب دار ہوگی؟ اگر اکثریتی برادری کی طرف کوئی خرافاتی مواد، مسلمانوں کے نام سے پھیلایا گیا، جیسا کہ حالیہ دنوں میں دیکھا جارہا ہے تو سزا کس کو ملے گی؟ ویسے بھی آج کل’ ڈی فیک‘ کا بول بالا ہے، کیا ان خدشات پر غور کیا گیا ہے؟ایسے کئی سوالات ہیں جو ڈیجٹیل پالیسی کے تھیلے سے جھانکتے نظر آرہے ہیں۔
دوسری طرف حکومت کی تعریف و توصیف کرنے پر۲؍ لاکھ سے لے کر۵؍ لاکھ روپے تک دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ بات اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ حکومت بدعنوانی اور رشوت خوری کو بغل سے گزر جانے کا راستہ دِکھا رہی ہے۔ آج کل ہر ایک کے پاس اینڈ رائڈ فون ہے۔ لوگ آپس میں گروپ بنائیں گے اور پھر باری باری سے حکومت کی تعریف کریں گے اور ایک دوسرے کے موبائل سے لائک کرکے فالوورز کے تعداد بڑھاتے جائیں گے... کیونکہ حکومت نے فالوورز کو دیکھ رقم دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ روزی روٹی کیلئے مثبت کاموں اور معاشی ذرائع تلاش کرنے کے بجائے بس یہی کا م کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک بھگوادھاری جن کا عقیدہ ہے کہ دنیا موہ مایا ہے، یہ پالیسی نوجوانوں کو اُسی موہ مایا کے طرف لےجائے گی۔ سچائی یہ ہے کہ یوپی کی حکومت اس پالیسی کے ذریعہ اپنی ناکامیاں کی پردہ پوشی اور پیسوں کے ذریعہ اپنی قصیدہ خوانی چاہتی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد عوام، ریاست اورملک کا بھلا قطعی مقصود نہیں ہے۔
ش۔ شکیل( اورنگ آباد، مہاراشٹر)
قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔ اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔ کچھ ہفتوں سے قارئین کیلئے ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں ہر ہفتے ایک موضوع دیا جارہا ہے۔ اس موضوع پر موصول ہونے والی آپ کی تحریریں ( آپ کی تصویر کے ساتھ) سنڈے میگزین میں شائع کی جارہی ہیں:
اس ہفتے کا عنوان
آپ جانتے ہیں کہ اِس مرتبہ حج کمیٹی نے ۶۵؍ سال سے زائد کی عمرکے تمام عازمین پر اپنے ساتھ ایک ایک معاون لے جانے کی شرط تھوپ دی ہے۔ اس کی وجہ سے اُن تمام عازمین کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے جو امسال حج کی خواہش رکھتے تھے لیکن ا ب معاون کی شرط کی وجہ سے نہیں جاسکیں گے۔اسی پس منظر میں سوال یہ ہے کہ:
عازمین حج کیلئے معاون کی شرط، کتنا درست،کتنا غلط؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۲۲؍ستمبر) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔
نوٹ: مضمون مختصر اور جامع ہو اور موضوع پر ہو۔ جن قلمکاروں کی تصاویر نہیں چھپ رہی ہیں، ان سے التماس ہے کہ وہ دوسری اور اچھی کوالیٹی کی تصویربھیجیں۔(ادارہ)