’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: December 16, 2024, 4:31 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
ایسے نتائج تووہم وگمان میں بھی نہیں تھے
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج نہ صرف حیران کن بلکہ وہم وگمان سے بھی پرے ہیں۔ مہاوکاس اگھاڑی میں شامل تینوں اہم پارٹیاں (کانگریس، راشٹروادی کانگریس (شردپوار) اور شیوسینا ( ادھو) بھی حیران اور ششدر رہ گئیں ۔ تینوں پارٹیوں کی زبردست شکست نے ادھو ٹھاکرے اور شردپوار کے مستقبل کو تاریک بنادیاہے۔ دونوں ہی لیڈران سوچنے پر مجبور ہیں کہ آئندہ کے لئے ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ جہاں مہاوکاس اگھاڑی میں نتائج دیکھ کر مایوسی ہے وہیں مہایوتی میں شامل اجیت پوار گروپ اور شندے گروپ کو نئی زندگی مل گئی ۔ مہاراشٹر ہمیشہ سے کانگریس پارٹی کا مضبوط قلعہ رہا ہے۔ برسوں کانگریس نے بلا شرکت غیرے مہاراشٹر میں حکومت کی ہے۔ مہاراشٹر میں ۱۵؍ وزرائے اعلیٰ کانگریس پارٹی کے رہے ہیں لیکن اب کانگریس پارٹی کو بھی ناقابل یقین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ جہاں تک مہایوتی کی کامیابی کی بات ہے تو اس کا سبب لاڈلی بہن اسکیم ہے ۔ ہر پولنگ بوتھ پر لاڈلی بہنوں کی زبردست بھیڑ تھی ۔ ایک پریسائیڈنگ آفیسر کا کہنا تھا کہ اس نے آج تک پولنگ بوتھ پر عورتوںکی اتنی لمبی قطار نہیں دیکھی جتنی اس الیکشن میں تھی ۔ یعنی شندے حکومت اپنے مقصد میں صدفیصد کامیاب رہی۔ نیز ایک عالم دین کا مہاوکاس اگھاڑی اور مخصوص امیدواروں کی حمایت کے اعلان نے فرقہ پرست طاقتوں کو متحد کردیا اور انہوں نے مہاوکاس اگھاڑی کے خلاف زبردست ووٹنگ کی اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ علاوہ ازیں ’گھڑی ‘ اور ’تیرکمان‘ کے نشانات سے گمراہی پیدا ہوئی۔ ووٹروں نے انہیں شردپوار کی این سی پی کانگریس اور ادھو کی شیوسینا کا نشان سمجھا۔
محمد یعقوب ایوبی، مالیگاؤں
مہا وکاس اگھاڑی کی شکست کے کئی اسباب ہیں
مہاراشٹر کی ۲۸۸؍اسمبلی سیٹوں کیلئے مہا یوتی اور مہا وکاس اگھاڑی کے مابین راست مقابلہ تھا ۔ یوگی کا نعرہ ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ اور مودی کا نعرہ ’ایک ہیں توسیف ہیں‘ کام کرگیا اور مہا یوتی تیسری بار۲۳۶؍یعنی مکمل اکثریت کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور مہا وکاس اگھاڑی کو اپوزیشن کا درجہ بھی نہیں ملا ۔۲۰۲۴ء کے لوک سبھا اور ودھان سبھا الیکشن نے اس نکتے کو واضح کر دیا کہ جب تک ای وی ایم ہے مودی کو کوئی ہٹا اور ہرا نہیں سکتا ۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مہا یوتی کی کامیابی میں دو اہم اور مرکزی کردار چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار اور سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کا بھی رہا ہے۔ راجیو کمار نے ہریانہ ، جموں کشمیر کے ساتھ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی بجائے جھاڑکھنڈ اور مہاراشٹر میں کافی تاخیر سے الیکشن کرا کر مہا یوتی کو لاڈلی بہن یوجنا کا موقع دیا جس سے تقریباً نصف یعنی۵؍ کروڑ خواتین کا ووٹ مہا یوتی کے کھاتے میں چلا گیا ۔ چندر چڈ نے شیو سینا اور این سی پی کے انتخابی نشان کو معلق رکھا جس سے ووٹرس خصوصی طور پر دیہی علاقوں میں غلط فہمی اور مغالطے کا شکار ہوئے۔ گھڑی کو انہوں نے شرد پوار اور تیر کمان کو ادھو ٹھاکرے سمجھ کر اجیت پوار اور شندے کو بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ جبکہ شردپوار اور ادھو ٹھاکرے محدود سیٹوں پر سمٹ گئے۔ چانکیہ کہے جانے والے مرد آہن شرد پوار نے نتائج پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے برملا کہا کہ ادھو ٹھاکرے گروپ نے منصوبہ بندی کے مطابق مہم نہیں چلائی۔ دوسرے سبھی جانتے ہیں کہ این سی پی کا اصل بانی کون ہے،لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اپنی انتخابی سرگرمیاں پرینکا گاندھی کے وائناڈ میں مرکوز اور صرف کر دی تھی جس سے مہاراشٹر میں کانگریس انتہائی کم یعنی۱۶؍ پر سمٹ گئی۔ سابق وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان نے کانگریس کی شکست کو حیران کن بتایا ہے اور لاڈلی بہن یوجنا کو دیہی علاقوں میں مقبول اور ووٹروں کیلئے متاثر کن بتایا ہے ۔حالیہ نتائج نے اس نکتے کو واضح کر دیا ہے کہ سیکولر اور جمہوری نظام کمزور اور نزاعی کیفیت کا شکار ہے جبکہ فاشسٹ اور تاناشاہی طاقتوں کو توانائی اور مضبوطی مل رہی ہے۔ انڈیا اتحاد کو اپنی کمزوریوں اورخامیوں کی اصلاحات کی از حد ضرورت ہے۔
انصاری محمد صادق(حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج، کلیان)
نتائج سے سیاسی مبصرین وماہرین بھی حیرت زدہ ہیں
مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابی نتائج نے سیاسی مبصرین کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل پارلیمانی انتخابات میں مہا وکاس اگھاڑی نے جیسا شاندار مظاہرہ کیا تھا، اسمبلی انتخابات کے نتیجوں پر اسکا اثر نظر نہیں آیا۔ اسکے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں، مگر چند کا ذکر ناگزیر ہے۔ ایم وی اے کی جماعتوں میں وہ تال میل دیکھنے کو نہیں ملا، فتح کے لئے جسکی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس وزارتِ اعلیٰ کی دعویداری میں توانائی صرف کرتے نظر آئے ۔ مختلف ملی تنظیموں کے ذریعے اور انفرادی طور پر علماء کی طرف سے ایم وی اے کی کھلی حمایت نے بھی ہندو ووٹوں کے پولرائریشن کا کام کیا۔ اورنگ آباد (مشرق) سے امتیاز جلیل کی شکست اسی کا نتیجہ ہے۔ ایک محاذ میں رہتے ہوئے بھی اسی اتحاد کی پارٹی کے خلاف امیدوار اتارنے کی حماقت نے بھی کافی نقصان پہنچایا۔ بھیونڈی ( مغرب) کی سیٹ اسکی تازہ مثال ہے۔ رہی سہی کسر ای وی ایم اور الیکشن کمیشن کی کھلی جانب داری نے پوری کر دی۔
افتخار احمد اعظمی((سابق مدیر `ضیاء،مسلم یونیورسٹی علیگڑھ)
مہا وکاس اگھاڑی میں کوئی تال میل نظر نہیں آیا
۲۰۲۴ء کےلوک سبھا کے نتائج بھی چونکانے والے تھے جس کے بعد مہاوکاس اگھاڑی کے لیڈران کو لگنے لگا تھا کہ اب دلی دور نہیں ۔ ہریانہ کے اسمبلی نتائج کے باوجود کانگریس نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ مہاراشٹر میں شرد پوار ، ادھو ٹھاکرے اور راہل گاندھی کے درمیان کبھی کوئی تال میل دکھائی نہیں دیا۔ نتیجتاً پورے انتخابات میں مہاوکاس اگھاڑی بے سمتی کا شکار دکھائی دی۔ لاڈلی بہن یوجنا نے مہایوتی کی جیت میں سب سے اہم کردار اداکیا ۔۲۰۱۴ء میں ملک کی خواتین نے مہنگائی پر قابو پانے کا دعویٰ کرنے والے مودی کو شاندار جیت دلائی تھی تو ۲۰۲۴ءمیں مہاراشٹر کی خواتین کو اسی مہنگائی سے لڑنے کیلئے ملنے والے یوجنا کے پیسوں نے ایکناتھ شندے اور ان کے اتحادیوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ ان تمام باتوں کے درمیان ان نئے ووٹرس کا ذکر ہی نہیں ہوا جو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق ہر اسمبلی حلقہ میں ۴۰؍ ہزارسے ۷۰؍ ہزار تک درج ہوئے ہیں ۔ نئے ووٹروں نے الیکشن میں پہلی بار اپنے حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کیا اور مہاوکاس اگھاڑی کی شکست کا سبب بنے۔ اخیر میں اس اہم الیکشن میں مسلمانوں کا حال ہمیشہ کی طرح ’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ‘ کا سا رہا۔ طرفہ تماشا یہ رہا کہ کچھ تنظیموں اور شخصیات نے مسلم ووٹروں کی حیثیت زیرو بنا کر رکھ دی۔ یہ غلط فہمی بھی دور کر لیں کہ مہاراشٹر کے انتخابات میں مسلمانوں کا کوئی بہت اہم رول تھا ۔ میرا یہ ماننا ہے کہ مہاوکاس اگھاڑی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی، نئے ووٹروں کے مزاج اور اپنی لاڈلی بہنوں کی محبت کو نا سمجھ پانے کے سبب شکست سے دوچار ہوئی ہے ۔
ایڈوکیٹ سلیم یوسف شیخ، بھیونڈی
اس نتیجے میں فریب زیادہ ہے
مہاراشٹر کے انتخابی نتائج میں فریب اور دھوکے کا دخل زیادہ ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد پانچ مہینے میں ایسا کیا ہو گیا کہ ’مہایوتی‘ اکثریت میں آ گئی۔ الیکشن سے ٹھیک پہلے اسی بی جے پی لیڈر نوٹوں کے ساتھ پکڑے بھی گئے تھے۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی کہ کئی ای وی ایم مشینیں ۹۹؍ فیصد چارجیبل بیٹری کے ساتھ موجود تھیں۔ سوچنے والی بات ہے کہ بی جےپی کی انتخابی ریلیوں میں کرسیاں خالی رہتی تھیں اور مہاوکاس اگھاڑی کی ریلیوں میں لوگوں کی بھیڑ رہتی تھی لیکن جب نتیجے آئے تو پتہ چلا کہ بھیڑ بی جے پی کی ساتھ چلی گئی اور خالی کرسیاں مہاوکاس اگھاڑی کے حصے میں آئیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ دراصل بی جے پی اتحاد کی کامیابی کا سہرا الیکشن کمیشن کے سربندھتا ہے اور اگر کچھ باقی بچتا ہے تو اس کاکریڈٹ پولیس فورس کو ملنی چاہئے۔ الیکشن کمیشن اورپولیس فورس کی وجہ سے ہی بی جے پی جیتی ہے۔
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
ہماری سیاست اب اُس درجے میں پہنچ چکی ہے جہاں نفرت، عداوت، مفاد پرستی اور مذہب کے نام پر لوگوں کو ڈرا کر فرقہ پرستی کا زہر اُن کی رگوں میں دوڑایا جارہا ہے۔ ایک زمانے کے یارانے گندی سیاست کی بھینٹ چڑھ کر دشمنی میں بدل گئے ہیں۔ چند تجارت پیشہ افراد کے ہاتھوں کی کٹھ پُتلی بن کر نام نہاد اور چرب زبان لوگوں کا غول مُلک پر قابض ہوکر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں سیندھ لگا رہا ہے اور اس طرح اپنے آقاؤں کی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے۔ حالیہ الیکشن میں خواتین کو مالی فائدے کی اسکیم کے ذریعے انہیں تاجروں نے اپنی پسند کی پارٹی کے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کیا ہے۔ اس کے علاوہ سماج میں انتشار پھیلانے والی تقاریر کے ذریعے عوام کو بہکایا اور ورغلایا گیا ہے۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن، ای وی ایم اور پولیس محکمے کی جانب داری نے پوری کردی ہے۔
محمد سلمان شیخ (امانی شاہ تکیہ، بھیونڈی)
اتنی محنت کے باوجود مہاو کاس اگھاڑی کی ہار!
اس نتیجے نے سبھی کو حیران کردیا۔ کوئی اس پہ یقین نہیں کر پا رہا ہے کہ مہاوکاس ا گھاڑی کو اتنی کم سیٹیں کیسے ملیں۔ الیکشن کمیشن کچھ بھی کہے لیکن عوام اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ اصلی این سی پی شرد پوار کی پارٹی تھی اور اصلی شیوسینا ادھو ٹھاکرے کی تھی۔ اس کے باوجود زیادہ سیٹیں شندے کی شیوسینا اور اجیت پوار کی این سی پی کو ملیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟اسلئے لوگ حیرت زدہ ہیں اور اس کے خلاف عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ای وی ایم کے خلاف بہت سارے لوگ احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ اس کے پیچھے دو بڑی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ پیسوں کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچا گیا یا پھر یہ کہ ای وی ایم کے ذریعہ اس طرح کے نتیجے کی راہ ہموار کی گئی۔ مہا وکاس اگھاڑی نے جتنی محنت کی تھی، اس کے مقابلے اس کی سیٹیں بہت کم آئیں۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ بڑے پیمانے پر کچھ گڑبڑی ہوئی ہے۔
عاطف عدنان شیخ صادق (شاہو نگر، جلگاؤں )
اسکیم کے نام پر عوام کو رشوت دی گئی
مہاراشٹر میں الیکشن کمیشن آف انڈیا نے تاخیر سے الیکشن منعقد کرواکے حکومت مخالف رجحان کو ختم کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ اس دوران ریاستی حکومت نے عین انتخاب سے قبل فلاحی اسکیموں کو متعارف کرا کے عوام کے جیب میں چند پیسے ڈال دئیے(جسے رشوت تسلیم کیا جانا چاہئے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے)، اس کی وجہ سے مہنگائی سے جوجھ رہے عوام کا ذہن تبدیل ہوگیا۔ اسی کے ساتھ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے جس طرح سے عوام کی ذہن سازی کی، اس نے بھی اپنا کام کیا ہے۔ سیکولر پارٹیوں نے مذہبی شخصیات کا سہارا لے کر جو انتخابی مہم چلائی، فرقہ پرستوں نے اس کی غلط تشہیر کرکے اس کا فائدہ اپنے حق میں اٹھایا۔ ساتھ ہی حکمراں طبقے نے سرکاری مشینری کا استعمال بھی کیا... اس کے باوجود سیکولر پارٹیوں کی شکست کا سہرا، خود ان کی ناقص حکمت عملی ہے اور اس کیلئے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
سعید الرحمان محمد رفیق (گرین پارک روڈ شیل، تھانے)
یہ نتیجہ یقیناً چونکا نے والا ہے
انتخابات ہوتے ہیں تو ہار کسی کا مقدر ہوتی ہے ا ور کسی کی جیت ہوتی ہے۔ ایسے میں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے غور کرے اور سوچے کہ ایسا ہوا تو کیوں ہوا؟ یہ جاننے کیلئے کسی خاص بصارت و بصیرت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہماری صفوں میں انتشاراورزعفرانی اتحاد ہے... نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ’بٹیں گیں تو کٹیں گے‘ اور’ایک ہیں تو سیف ہیں ‘ جیسے نعرے چلے اور پھر لاڈلی بہن کے لالی پاپ نے بھی کام کیا۔ اب جبکہ نتیجے آگئے ہیں، ہمیں نہایت سنجیدگی سے غور و خوض کی ضرورت ہے کہ وہ کون سی وجوہات اور وہ کون سے عوامل ہیں جس کی وجہ سے اتنے حیران کن نتائج آئے ہیں ہمارا کام چونکنے کا نہیں بلکہ چو کنا رہنے کا ہے اور قدم قدم پر اپنا محاسبہ بھی کرتے رہنا ہے ورنہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ یہ مصرعہ ہماری عکاسی کرے گا کہ :
’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ‘‘
ہارون اختر (صدر انجمن محبان ادب، مالیگاؤں )
کیا ہم ای وی ایم سے چھٹکارہ نہیں حاصل کرسکتے؟
اس تعلق سے یہ بات کہی جارہی کہ یہ نتیجہ عوامی ہے یا اس میں کسی تکنیکی یا میکانکی عمل کا دخل ہے۔ ای وی ایم کو بھی ایک اہم فیکٹر مانا جا رہا ہے۔ ای وی ایم پر اعتراض اور شکایت کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی اس پر الزامات لگتے رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے ہمیشہ اس کا دفاع کیا ہے۔ انہی شکوک کو ختم کرنے کیلئےکئی ممالک نے ای وی ایم کے استعمال کو ترک کر دیا ہے۔
یورپ: نیدرلینڈز اور جرمنی نے ای وی ایم کا استعمال بہت پہلے بند کر دیا ہے۔ نیدرلینڈز نے۲۰۰۷ء میں سیکوریٹی مسائل کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا تھا جبکہ جرمنی کی عدالت نے۲۰۰۹ء میں فیصلہ سنایا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں شفافیت کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
امریکہ: یہاں کی کچھ ریاستیں ایم وی ایم کا استعمال کرتی ہیں لیکن زیادہ تر نے کاغذی بیلٹ یا کاغذی ریکارڈ کے ساتھ مشینوں کا انتخاب کیا ہے۔ کیلیفورنیا اور فلوریڈا جیسی ریاستوں نے مشینوں کی ہیکنگ کے خدشات کی وجہ سے مخصوص ماڈلوں پر پابندی عائد کی ہے۔
آسٹریلیا اور کینیڈا: یہاں زیادہ تر انتخابات کاغذی بیلٹ سے کرائے جاتے ہیں۔ یہاں ای وی ایم کااستعمال بہت محدود ہے۔
فن لینڈ: ۲۰۰۸ء میں ایک پائلٹ پروجیکٹ کے دوران مسائل سامنے آنے کے بعد ای وی ایم کا استعمال بند کر دیا گیا۔
یہ تمام ممالک کاغذی بیلٹ کو زیادہ شفاف اور محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ دوبارہ گنتی کیلئے قابل اعتماد ریکارڈ فراہم کرتے ہیں اور الیکٹرانک نظام کی ہیکنگ یا خرابی کے خطرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ کیا ہمارے ملک میں یہ ممکن نہیں ہے؟
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (ایجوکیشنل اینڈ کریئر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج حیران کن ثابت ہوئے
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں جس طرح حیران کن نتائج سامنے آئے اور بی جے پی کی قیادت والی مہایوتی اتحاد نے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، اس پر کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا ہے۔ بی جے پی کی یہ جیت بہت بڑی ہے، اس کا اثر مستقبل میں بھی نظر آئے گاکیونکہ مہاراشٹر کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ نتائج کئی طرح سے قومی سیاست کو متاثر کرنے والے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انتخابات میں پیسے کا دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا اس مسئلے سے نظر بچانا پیسے کے دخل کو مزید بڑھا رہا ہے۔ غربت اور مہنگائی اس قدر ہے کہ عوام کو تھوڑی سی بھی راحت بڑی لگتی ہے۔ ایسے میں ’ لاڈلی بہن یوجنا‘ کی وجہ سے ’مہا یوتی‘ اتحاد کو کافی فائدہ ملا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک ہی حلقہ سے کئی سیکولر امید واروں کا کھڑا ہونا بھی مہایوتی کی جیت کی راہ ہموار کیا ہے۔
غلام جیلانی ( دارالعلوم قمر علی درویش، کیمپ، پونے)
یہ عوامی نہیں، ای وی ایم کا نتیجہ ہے
مہاراشٹر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے تعلق سے کہہ سکتے ہیں کہ زمین پر جو صورتحال دکھائی دے رہی تھی، نتائج اس کے برعکس رہے۔ بی جےپی، شندے کی شیوسینا اور اجیت پوار کی این سی پی کے تعلق سے عوام میں سخت برہمی تھی۔ یہ ناراضگی صرف مسلمانوں میں نہیں تھی بلکہ دوسرے طبقوں میں بھی تھی، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پولنگ کے بعد بھی ’مہایوتی‘ میں شامل پارٹیوں کے لیڈران اپنا دامن چھڑا کر ’مہاوکاس اگھاڑی‘ میں شامل ہورہے تھے۔ یہاں تک کہ ایکناتھ شندے اور اجیت پوار خود اپنی اپنی سیٹوں پر جیت کیلئے پریشان تھے، اسلئے دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔ مطلب صاف ہے کہ جس نتیجے کااعلان ہوا ہے، وہ عوامی نہیں بلکہ ’ای وی ایم‘ اور ’الیکشن کمیشن‘ کا ہے۔ یہ تو ہوئی مجموعی صورتحال لیکن اُن جگہوں پر جہاں ای وی ایم کی کارستانیوں کے باوجود سیکولر امیدوار کی کامیابی ممکن تھی، وہاں ہم ابلیسی سیاست کا شکار ہوگئے۔ بھیونڈی مغرب کی سیٹ اس کی واضح مثال ہے۔ یہاں ہم آسانی سے اپنا امیدوار کامیاب کراسکتے تھے لیکن افسوس کہ ہم ’اپنے‘ امیدوار کا تعین ہی نہیں کرسکے۔ نتائج سامنے آئے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، ورنہ پولنگ کے دن تک دال جوتیوں میں بٹ رہی تھی۔
پرویز خان (پی کے)، بھیونڈی
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج غیر متوقع اور حیران کن ہیں
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج غیر متوقع اور حیران کن ہیں۔ شیو سینا میں بغاوت، این سی پی میں پھوٹ اورحکومت مخالف لہر کے باوجود واضح اکثریت سے حکمراں اتحاد کا چن کر آنا حیران کن ہے۔ کچھ عرصے سے یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ ایک ساتھ دو یا اس سے زائد ریاستوں میں انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ ان میں کمزور، چھوٹی اور کم اہمیت والی ریاست میں بی جے پی مخالف جماعت کی حکومت بنتی ہیں جبکہ مضبوط، بڑی اور اہمیت کی حامل ریاست پر بی جے پی حامی پارٹی کی حکومت بنتی ہے۔ یہ حکمت عملی اسلئے اپنائی جاتی ہے تاکہ ای وی ایم پر شبه نہ کیا جا سکے حالانکہ اس گورکھ دھندے کی باتیں سامنے آچکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت ایم وی ایم میں اپنی منشا کے مطابق ہیر پھیر کر لیتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ حکمراں جماعت لاڈلی بہن اسکیم کے ساتھ ہی عورتوں کو بس کرائے میں سہولت اور مفت اشیاء کی تقسیم کو اپنی جیت کا سبب بتارہی ہے لیکن دعویٰ پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ پولنگ بوتھ پرآخری وقت میں لگنے والی طویل قطاریں بتاتی ہیں کہ الیکشن میں پیسوں کی خوب ریل پیل ہوئی ہے۔
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد، تحصیل پاچورہ، ضلع جلگاؤں )
ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نے ’اگھاڑی‘ کو شکست سے دوچار کیا
انتخابی نتائج جہاں غیر متوقع اور حیرت انگیز رہے وہیں مہاوکاس اگھاڑی کی شرمناک ہار اس کیلئے تازیانہ عبرت بھی رہا۔ حالانکہ نتائج سے خود مہایوتی کے لیڈران بھی حیرت زدہ تھے۔ الیکشن میں مہایوتی کا آپسی تال میل اچھا تھا اور منصوبہ بندی بھی تھی جبکہ’اگھاڑی‘ میں بے ترتیبی اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔ لوک سبھا الیکشن میں ایم وی اے کی شاندار فتح نے انہیں خود اعتمادی مبتلاکردیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مہایوتی کے لیڈران نے دھن، بل اور حکمت عملی سے کام لیا۔ اس درمیان پیسوں کی تقسیم کی بھی شکایات ملیں لیکن مشنری پر کنٹرو ل ہونے کی وجہ سےانہیں نقصان نہیں اٹھانا پڑا ۔ ان وجوہات کی بنا پر مہایوتی کی جیت اور وکاس اگھاڑی کی شرمناک شکست ہوئی۔ میری نظر میں الیکشن نتائج غیر اطمینان بخش ہیں۔
پرنسپل محمد سہیل لوکھنڈوالا(سابق ایم ایل اے)
بی جے پی کو بھی اس نتیجے کی امید نہیں تھی
مہاراشٹر میں ۲۸۸؍ اسمبلی ممبران کیلئے ۲۰؍ نومبر کو ووٹ ڈالے گئے۔ اس کے نتائج سامنے آئے تو وہ توقع کے خلاف نکلے۔ اس کی امید کسی کو بھی نہیں تھی، حتی کہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں بھی اس نتیجے کی امید نہیں کررہی تھیں۔ کانگریس، شرد پوار کی این سی پی اور اُدھو کی شیوسیناتینوں کے امیدوارہارے کیونکہ یہ اليكشن روپوں اور مذ ہب کی بنیاد پر ہوگیا تھا۔ اگر حکمت عملی سے کام لیا جاتا تو سیکولر بالخصوص مسلم امیدواروں کی تعداد تھوڑی بڑھ سکتی تھی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ حکومت نے لا ڈلی بہنا اسکیم سے فائدہ اٹھا یا۔ اسی کے ساتھ ووٹنگ مشین کی گڑ بڑی کی شکایت بھی درست ہے، اسلئے بیلٹ پیپر سے الیکشن ہونا چاہئے۔ اگر بی جے پی کو ایسا لگتا ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں تو اسے بیلٹ پیپر سے اتنا اعتراض کیوں ہے؟ اس کا ای وی ایم پر اتنی شدت سے اصرار ہی بتاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
شیخ عبدا لموحد عبدالرؤف(مہا پولی، بھیونڈی)
سیکولر پارٹیاں کامیابی کے نشے میں چور تھیں
مہاراشٹر کے انتخابی نتائج نے ہر کسی کو حیران کر دیا ہے کیونکہ لوک سبھا انتخابات میں مہا وکاس اگھاڑی نے بہتر کارکردگی دکھائی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کامیابی سے ان کو ایسا نشہ ہوا کہ وہ ووٹرس کی اہمیت ہی بھول گئے۔ مہا وکاس اگھاڑی میں شامل پارٹیوں کو معلوم تھا کہ مخالف پارٹیاں ریاست میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے والی ہیں لیکن انہوں نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ وہ سیٹوں کی تقسیم ہی میں طویل عرصے تک الجھے رہے۔ جب تک وہ اس سے باہر نکلتے فرقہ پرست طاقتوں نے پوری ریاست کو اپنے قابو میں کرلیا تھا۔ مہا یوتی اور آر ایس ایس نے دو سال قبل سے اسمبلی کے انتخابات کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ انھوں نے منصوبہ بند طریقہ سے فرقہ پرستی کی بنیاد پر اکثریتی فرقے کے جذبات بھڑکا یا اور اپنے ووٹ بینک کو مستحکم کیا تھا۔ اس ہار پرسیکولر جماعتوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔
عبدالرحمان یوسف (بھیونڈی )
قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔ اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف موضوعات پر قارئین بھی اظہار خیال کریں۔ اس سلسلے کے تحت ہر ہفتے ایک موضوع دیا جائے گا، جس پر آپ کی تحریریں (آپ کی تصویر کے ساتھ) سنڈے میگزین میں شائع ہوں گی۔
اس ہفتے کا عنوان
بابری مسجد، گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے بعدسنبھل کی جامع مسجد سے ہوتے ہوئے بات خواجہ اجمیریؒ کے آستانے تک پہنچ گئی۔ ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کیا جارہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کے رجحان کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں ؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۸؍دسمبر) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ بعض تخلیقات منگل کے شمارے میں شائع ہوں گی (ادارہ)