• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

۲۰۲۴ء کا سال کیسا تھا؟ ۲۰۲۵ء کا سال کیسا ہونا چاہئے؟

Updated: January 07, 2025, 5:23 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

This time Rahul Gandhi`s election campaign with a copy of the constitution was very successful. Photo: INN
راہل گاندھی نے اس مرتبہ آئین کی کاپی ہاتھ میں لے کر جوانتخابی مہم چلائی، وہ خاصی کامیاب رہی۔ تصویر: آئی این این

بہت سی یادیں چھوڑ گیا 

 گزرنے والا۲۰۲۴ء جیسا بھی تھا گزر گیا مگر بہت سی یادیں چھوڑ گیا۔ ملک کی فضا کو زہر آلود کیا گیا۔ ہندو مسلم دونوں کے دلوں میں نفرت پیدا کی گئی۔ مسجدوں کے نیچے مندروں کو تلاش کیا گیا۔ اسی طرح ملک کی سیاست میں مذہب کی بنیاد پر ووٹروں کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔ اب کی بار چار سو پار کا نعرہ لگایا گیا مگر عوام نے ایک نہیں سنی۔ خیر جو بھی ہو، آنے والا سال۲۰۲۵ء سب کیلئے اچھا ہو اور اس سال مہنگائی پر کنٹرول ہو۔ بے روزگار نوجوانوں کو کام ملے۔ ملک میں انڈسٹری قائم ہو۔ کسان کی فصل کو اچھا دام ملے۔ کئی ریاستوں میں مہانگر، ضلع پریشد پنچایت سمیتی اور دیگر مقامات پر دو تین سال سے سرکاری افسران کام چلا رہے ہیں ۔ عوامی نمائندوں کے ذر یعے ان جگہوں پر حکومت بنے اور عوام کو بنیادی سہولیات ملے۔ ملک امن امان اور بھائی چا رہ رہے۔ 
 شیخ عبدالموحد عبدالرؤف (مہاپولی بھیونڈی)
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہےلب پہ آسکتا نہیں .....
 ۲۰۲۴ء میں تنازعات کی کثرت تھی۔ مثلاً سنبھل کی جامع مسجد کی مسماری، اجمیر شریف کی درگاہ کا تنازع، امیت شاہ کا ڈاکٹر امبیڈکر سے متعلق متنازع بیان وغیرہ جو منفی، ناخوشگوار اور ملک کی ساکھ کیلئے نقصاندہ ثابت ہوئے۔ مگر وہیں کچھ مثبت و خوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے۔ جیسے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درگاہ و مسجد کے متعلق نیز پلیس ورشپ ایکٹ کے نفاذ کے متعلق۔ میری خواہش ہے کہ ۲۰۲۵ء، ۲۰۲۴ء سے بہتر اور بخیر و خوبی گزرے اور وطن عزیز مالی، معاشی، عسکری اور تجارتی طور پر مضبوط ہو اور دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر ہوں۔ اور ملک ہر شعبے میں ترقی کرے۔ ملک میں امن و امان کی فضا پیدا ہو۔ سپریم کورٹ نے مسجد اور درگاہ کے سروے پر جو عارضی روک لگائی ہے وہ مستقل اور دائمی ہو۔ اور کوئی ایسا قانون بنایا جائے کہ متنازع بیان بازی پر روک لگے اور اس طرح ہر ہندوستانی خوشحالی کی زندگی گزارے۔ 
محمد عاقب رضا قادری( بھیونڈی)
 ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھےگی 


 رخصت پزیر سال۲۰۲۴ء پچھلے کئی برس کی‌ طرح مسائل ‌ اور امکانات سے بھرا تھا۔ آمرانہ طرز حکومت اختیار کرنے والے دوبارہ منتخب ہو کر آئے لیکن طاقت کی کمی کے ساتھ۔ بنگلہ دیش اور شام میں عوام نے ایسی حکومت کا اس طرح قلع قمع کردیا ہے جس کا وہم و گمان نہیں تھا۔ ہمارا ملک بھی بڑے سخت اور مشکل پارلیمانی انتخابات سے گزرا۔ ‌اس دوران عوام‌ نے اپنی طاقت کا احساس دلایا کہ وہ اپنے آئین کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ورنہ غالب‌گمان یہی تھا کہ آر ایس ایس کے سو سال پورے ہونے پر آئین کو بدل دیا جائےگا۔ آئین پر خطرہ اگر چہ کچھ وقت کے ٹل گیا ہے لیکن خطرہ اب بھی بر قرار ہے جس کا اندازہ حکمراں جماعت کے قول و فعل سے لگایا جاسکتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو ایسے ایسے مظالم کا سامنا ہے، جس کا تذکرہ قدیم زمانے کے ظالم جابر مطلق العنان بادشاہوں کے تعلق سے سنتے آئے ہیں۔ ہجومی تشدد، آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگوں کے ذریعہ گھروں کی مسماری، سماج کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج، فرقہ وارانہ واردات، جج صاحبان کے تعصب بر مبنی بیانات، چند مخصوص ہاتھوں میں سمٹی ہوئی دولت، یہ اور اس جیسے دیگر مسائل مستقبل کے تعلق سے عدم تحفظ کا احساس دلا تے ہیں۔ سماج کو کمزور کرنے والے ان تمام تخریبی اسباب کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ یوکرین روس جنگ اب بھی جاری ہے۔ فلسطین میں تقریباً ۵۰؍ ہزارافراد کو قتل کر دیا گیا، معصوم بچوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا مگر مہذب دنیا کے عالمی لیڈر شاید اب بھی خون کے پیاسے ہیں۔ ان کی مصلحت آمیز خاموشی اورجنگ بندی کے تئیں ان کی بے حسی نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ قابل مذمت ہے۔ اس لئے۲۰۲۵ء کے تعلق سے صرف گمان کیا جا سکتا ہے اور بہتری کی کوشش کی جا سکتی ہے، ورنہ بقول فیض احمد فیض ؎
ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھےگی 
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
سعید الرحمان محمد رفیق (گرین پارک روڈ ، شیل، تھانے)
ظلم و تشدد کا خاتمہ ہو گا


 ۲۰۲۴ء میں اسرائیل نے فلسطین کے نہتے عوام کو مٹانے کی پوری کوشش کی ۔ شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ پلٹا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کے کٹھ ملا والا بیان نے انصاف پسندوں کو مایوس کیا۔ یمن اور شام کے حالات بھی خراب رہے۔ شام میں ۸؍ دسمبر کو اسد خاندان کا ۵۰؍ سالہ دور حکومت اپنے انجام کو پہنچا۔ ٹرمپ ہی دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔ اچھی بات یہ رہی کہ فلسطین کے عوام کے صبر و تحمل اور جذبۂ ایثار و اخوت سے متاثر ہو کر آسٹریلیا کی۳۰؍ خواتین نے مذہب اسلام قبول کیا۔ ہندوستان میں آئین پر بحث کے دوران اپوزیشن کے لیڈروں کے بیانات کی خوب پزیرائی ہوئی۔ وقف ترمیمی بل جے پی سی کے حوالے کیا گیا، ون نیشن ون الیکشن والا بل بھی پاس نہیں ہوا، سیاسی لیڈروں میں اویسی کے تعلق سے عوام کا مثبت نظریہ قائم ہوا۔ ۲۰۲۵ ء امن و سکون کا سال ہونا چاہئے، ظلم و تشدد کا خاتمہ ہو یہی کوشش ہونی چاہئے، ذات پات کے بجائے انسان اور انسانیت کی باتیں ہوں، یہی تمنا ہے، ملک کے خیر خواہوں کا بول بالا ہو یہی آرزو ہے
مفتی اختر علی واجد القادری ( جامعہ اسلامیہ، میراروڈ )
 یہ سال اطمینان بخش رہا 


  عام انتخابات میں انڈیا اتحاد کی مضبوطی، مودی کی تیسری بار بے ساکھی کے سہارے حکمرانی، ای وی ایم کے خلاف اور بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹنگ کا مطالبہ، پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپوزیشن کا مودی سرکار پر کنٹرول، پیپر لیک، مسجدوں اوردرگاہوں میں مندروں کی تلاش پر پابندی، راجیہ سبھا کے چیئرمین دھنگر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور منی پور کے پرتشدد واقعات۲۰۲۴ء کے اہم مدعے رہے۔ معیشت خستہ حال ہے۔ عوام این ڈی اے سرکار سے پریشان اور بیزار ہیں ۔ آنے والا سال ۲۰۲۵ء، ۲۰۲۴ء سے کافی بہتر ہوگا۔ ۲۰۲۵ء میں مرکز کی مودی سرکار اقتدار سے بے دخل ہو جائے گی۔ انڈیا اتحاد کی سرکار مخلصانہ جذبے کے ساتھ عوامی مفاد کو ترجیح دے گی۔ مہنگائی، بےروزگاری، کرپشن، منی پور اور دیگر اہم مدعوں پر اپنی خصوصی توجہ مرکوز کرے گی۔ پورے ملک میں نظم و ضبط اور امن و امان بحال ہوگا۔ جمہوری اور سیکولر نظام پروان چڑھے گا۔ ملک میں خوشحالی آئے گی، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ 
انصاری محمد صادق(حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج کلیان)

سال رواں تنازعات سے بھرا رہا


 اسے ہم تنازعات کا سال کہہ سکتے ہیں۔ اس دوران مہنگائی اور بے روزگاری نے عام شہریوں کی زندگی کو مشکل بنانے کا کام کیا۔ اس دوران سماجی، مذہبی اور نسلی اختلافات کے واقعات نے اتحاد و یگانگت کو کمزور کیا۔ عورتوں کے خلاف جرائم اور اقلیتوں کے حقوق کے مسائل نے ملک کے آئینی اصولوں پر سوالات اٹھائے۔ اقتصادی میدان میں ترقی کی رفتار سست رہی اور بنیادی سہولیات کی کمی نے عوامی ناراضگی کو بڑھایا۔ ۲۰۲۵ء سے کافی امیدیں ہیں۔ امید ہے کہ یہ سال ایک نئے عزم اور بہتر مستقبل کی امید لے کر آئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سماجی انصاف، اقتصادی استحکام اور تعلیم و صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دے۔ عوام کے مسائل کو ترجیح دے اور شفافیت کو یقینی بنا کر سیاسی اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کرے۔ اختلافات کو دور کرنے کیلئے بین مذاہب مکالمے بھی شروع کئے جاسکتے ہیں تاکہ سماجی ہم آہنگی بحال ہو سکے۔ 
 حکیم نسیم احمد نظامی (رامپورہ، سورت، گجرات)
فرقہ پرستوں نے عالمی سطح پر ملک کو رُسوا کیا


 گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسین یادیں ، خوشگوار واقعات، غم و الم کے حادثات اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع ہورہا ہے۔ سال ۲۰۲۴ء میں ملک کی رسوائی عالمی سطح پر ہوئی۔ فرقہ پرستوں کی بے لگام سیاست نے ملک کی شبیہ کو تار تار کیا۔ وہ اس حدتک بے مہار رہے کہ اپنے مقاصد کے آ گے کسی کی نہیں سنتے تھے۔ پورے ملک کو جنگل راج بنائے رکھا اوراس دوران اقلیتوں کو پریشان کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ اس لحاظ سے یہ سال اقلیتوں کیلئے مایوسی کا سال رہا۔ 
 ۲۰۲۵ء کو محاسبے کا سال کہنا چاہئےبالخصوص حکومت کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے لیکن اس بات کی امید کم ہے۔ میری ملک کے تمام افراد اور حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کو۲۰۲۵ء میں ہرگز ہرگز نہ دُہرائیں بلکہ اپنی زندگی کو ایک نئے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کریں۔ 
شبیر احمدشادؔ (شاعروسماجی کارکن، بھیونڈی)
 ۲۰۲۴ء ناانصافی کا سال رہا


 ۲۰۲۴ء میں بہت سارے حادثات ہوئے۔ امسال شر پسندوں نے کئی مساجد پر مندر ہونے کا شرپسندانہ دعویٰ کیا اور کئی شہروں میں اشتعال انگیز نعروں کے ذریعہ فساد برپا کرنے کی بھی کوششیں کیں۔ کچھ شر پسندوں نے بابا صاحب امبیڈکر کے بارے میں تنقید کی، یہاں تک سال گزرتے گزرتے امیت شاہ بھی اپنے لہجے سے امبیڈکرکے تئیں اپنی ناپسندیدگی کااظہار کرگئے۔ ۲۰۲۴ء میں کسانوں کو بھی انصاف نہیں ملا۔ 
  ۲۰۲۵ءکے تعلق سے امید ہے کہ امسال لوگوں کو انصاف ملےگا۔ حکومت سے بہت زیادہ امید نہیں البتہ عدالت اس سلسلے میں اپنا رول نبھا سکتی ہے۔ بلڈوزر راج کا خاتمہ اور مساجد پر بے بنیاد دعوؤں کو ختم کرسکتی ہے۔ اس بات کی بھی امید ہے کہ لوگ بھائی چارگی کی اہمیت کوسمجھیں گے اور مل جل کر ملک کے خراب ماحول کو بہتر بنانے کی سمت کام کریں گے۔ 
عاطف عدنان شیخ صادق(شاہو نگر جلگاؤں )
سال رواں کا جائزہ اور نئے سال کیلئے تجاویز 


 سال رواں مختلف پہلوؤں سے دلچسپ اور چیلنجز سے بھرپور سال رہا۔ دنیا بھر میں کئی اہم واقعات دیکھنے کو ملیں جنہوں نے معیشت، سیاست اور معاشرتی شعبوں کو متاثر کیا۔ دنیا بھر میں معاشی عدم استحکام جاری رہا۔ کچھ ممالک مہنگائی اور اقتصادی دباؤ کا شکار رہے جبکہ دیگر نے ترقی کی نئی راہیں تلاش کیں۔ ہندوستان میں سال بھر مہنگائی اور بے روزگاری بڑے چیلنجز کے طور پر بنے رہے۔ امسال ماحولیاتی مسائل پر زیادہ توجہ دی گئی لیکن قدرتی آفات جیسے سیلاب، جنگلات کی آگ اور گرمی کی شدت میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا۔ سال رواں میں مصنوعی ذہانت، خلائی تحقیق اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی لیکن ساتھ ہی ڈیجیٹل سیکوریٹی اور پرائیویسی کے مسائل بھی بڑھتے رہے جو عوامی اعتماد کو متاثر کر رہے ہیں۔ 
  آئندہ سال کیلئے دنیا کو کاربن کے اخراج میں کمی، پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے اور قدرتی وسائل کو بچانے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اسی طرح معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے سرمایہ کاری کے بہترین موقع پیدا کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی تعلیمی، سیاسی اور سماجی سطح پربھی کچھ اچھے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ 
یوسف خان(گرافک ڈیزائنر، مالیگاؤں )
سال رفتہ نے بہت کچھ سکھایا اور سمجھایا 


  یہ سال میرے لئے ایک منفرد اور بھرپور تجربات کا حامل رہا، جس میں ترقی کے مواقع اور چیلنجز دونوں شامل تھے۔ یہ سال نہ صرف ذاتی کامیابیوں بلکہ قومی اور عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات کا گواہ بھی رہا۔ زندگی کے اس سفر میں وقت کی رفتار نے رکنے کا موقع نہیں دیا اور یوں لگا کہ زندگی دوڑ رہی ہے لیکن یہ تیزی قیمتی سبق اور انمول تجربات دے کر گئی، جنہوں نے میری سوچ اور صلاحیتوں کو نکھارا۔ اس سال کچھ بہترین لوگوں سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے میری زندگی میں مثبت اثرات ڈالے۔ ان کے ساتھ وقت گزارنا ایک خوشگوار تجربہ رہا البتہ کچھ ایسے لوگ بھی ملے جن کے رویے نے تکلیف پہنچائی اور ان سے سیکھا کہ زندگی میں ہر شخص کے ساتھ محبت اور سمجھداری سے پیش آنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، کچھ نئے لوگوں سے تعلق بنا، جو میری زندگی میں ایک نیا باب لے کر آئے جبکہ کچھ عزیزوں کو ہمیشہ کیلئے کھویا بھی۔ 
  ۲۰۲۵ء ایک نئے آغاز کا موقع ہے، جہاں ہمیں اپنے ماضی کے تجربات سے سبق لے کر اپنے مستقبل کو بہتر بنانا ہوگا۔ اسے کامیاب بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ذاتی سطح پر خود کو بہتر بنائیں، اپنی صحت، علم اور صلاحیتوں پر کام کریں اور سب سے اہم یہ کہ انسانی قدروں کو فروغ دیں۔ 
 سید خوش ناز جعفر حسین(انجمن اسلام ہائی اسکول، سی ایس ٹی)
 ۲۰۲۴ء کا سال غزہ پر اسرائیلی جارحیت کیلئے یاد رکھا جائے گا


 ۲۰۲۴ء کا سال شروع سے آخر تک ملکی و بین الاقوامی سطح پر تنازعات سے بھرا رہا۔ یہ سال غزہ پر اسرائیلی جارحیت کیلئے یاد رکھا جائے گا، جس میں تقریباً ۴۵/ ہزار انسانی جانوں کا اتلاف ہوا۔ قابلِ ذکر خبروں میں بنگلہ دیش اور شام کے انقلاب بھی رہے، جس نے تخت نشینوں کو دھول چٹا دی حتی کہ اپنے اپنے ملکوں سے راہ فرار پر مجبور ہوئے۔ راہل گاندھی کی قیادت و سیاست بھی میڈیا کی سرخی بنی رہی۔ امسال کا پارلیمانی الیکشن بھی کافی اہم رہا، جس میں انڈیا اتحاد نے بی جے پی کو این ڈی اے اتحاد کی بیساکھی والی حکومت بنانے پر مجبور کر دیا۔ ای وی ایم کا تنازع بھی خوب سرخیوں میں رہا۔ امید ہے کہ نیا سال اپنے دامن میں بنی نوع انسانی کیلئے شادمانی، کامرانی، امن اور یکجہتی کا پیغام لے آئے تاکہ فیض کی طرح کوئی یہ کہنے پر مجبور نہ ہو:اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے! 
افتخار احمد اعظمی(سابق مدیر`ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
نئے سال میں ملک کی معیشت کے مضبوط ہونے کی امید ہے


 ہندوستان کی معیشت۲۰۲۴ء میں قدرے مستحکم رہی۔ کئی شعبوں میں ترقی ہوئی جیسے ٹیکنالوجی، مینوفیکچرنگ، اور زرعی پیداوار البتہ اس دوران مہنگائی نے عوام پر دباؤ ڈالا جس کی وجہ سے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی۔ امسال نئی تعلیمی پالیسی کے اثرات بھی محسوس ہوئے۔ نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں مواقع ملنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ ہندوستان نے اے آئی، فائیو جی اور ڈیجیٹل معیشت میں نمایاں پیش رفت کی۔ اس کے ساتھ ہی وطن عزیزکو ماحولیاتی تبدیلی سے خاصا نقصان ہوا، لیکن حکومت اور عوام کی کوششوں سے گرین ’اِنی شیٹیوز‘ پر کام بھی بڑھا۔ سیاسی منظرنامے میں انتخابات اورنتائج موضوع بحث ر ہے۔ 
 ۲۰۲۵ء میں ہندوستان کی معیشت مزید مضبوط ہونے کی امید ہے۔ میک ان انڈیا اورآتم نربھر بھارت جیسے پروگرام معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ راقم الحروف کا تعلق درس و تدریس اور کریئر گائڈنس سے ہے، اسلئے تعلیمی نظام میں مزید اصلاحات متوقع ہیں۔ آن لائن اور ہائبرڈ تعلیم کے مواقع بڑھیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ٹیکنالوجی کے میدان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ ہندوستان’اے آئی‘ اور خلائی تحقیق میں مزید نمایاں کردار ادا کرے گا۔ مقامی سطح پر تیار کی گئی ٹیکنالوجیز عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائیں گی۔ ۲۰۲۵ء ہندوستانیوں کیلئے امکانات سے بھرپور سال ہو سکتا ہے۔ اگر عوام اور حکومت مل کر کام کریں، تو یہ سال ملک کو عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ 
 مجموعی طور پرسال رواں کو ملا جلا سال کہہ سکتے ہیں جبکہ۲۰۲۵ء کے تعلق سے امید ہے کہ یہ دنیا کیلئے بہتر مواقع اور کامیابیاں لائے گا۔ 
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (ایجوکیشنل اینڈ کریئر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
سال رواں کافی ہنگامہ خیز رہا


 ۲۰۲۴ءکا سال کافی ہنگامہ خیز رہا۔ ملک میں اقلیتوں کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ مسجدوں، مدرسوں اور درگاہوں کا سروے کروانے کا کیس داخل کر کے عدالتوں کے ذریعے مسلمانوں کو ستایا گیا۔ اس دوران ہمارے نوجوانوں اور علما کی بےجا گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ ضروری مسائل سے توجہ ہٹا کر عوام کو غیر ضروری مسائل میں الجھا یا گیا اور اس طرح ملک کو نقصان پہنچایا گیا۔ فرقہ پرستی کے کھیل سے ملک کی معیشت اورثقافتی ورثے کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ 
 جہاں تک نئے سال کی بات ہے، ہمیں امید ہے کہ یہ سال اچھا جائے گا۔ یہ امید اسلئے بھی ہے کیونکہ دین اسلام میں نا امیدی کفر ہے۔ فرقہ واریت، مہنگائی، بےروزگاری، بیماری اور تعلیمی اخراجات، وغیرہ میں کمی آئے گی لیکن ان تمام باتوں کی امید صرف حکومت سے نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس کیلئے ہمیں خود بھی کوششیں کرنی ہوں گی اوراپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ 
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
مسلمانوں نے ملک کو مضبوط حزب اختلاف دیا


 سال رفتہ مختلف باتوں کیلئے یاد رہےگا۔ امسال لوک سبھا الیکشن میں مسلمانوں نے جمہوری حق کا بہترین استعمال کرکے سیکولرازم کی بقا کی بہترین کوشش کی۔ بھلے ہی مسلمانوں کی نمائندگی صرف ۵؍ فیصد رہی مگر اپنی متحدہ طاقت سے ملک ایک مضبوط حزب اختلاف عطا کیا۔ مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں حالانکہ وہ حکمت عملی کام نہیں کر سکی۔ اس الیکشن میں مسلمانوں میں موجودموقع پرستوں نے اپنے مفاد پر ملک و قوم کا سودا کرلیا۔ اس سال مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازارگرم کیا گیا۔ فرقہ پرست طاقتوں نے اذان، نماز اوروقف سے آگے بڑھ کر براہ راست مساجد پر دعویٰ کرنا شروع کردیا۔ برادران وطن کے دلوں میں نفرت بھری گئی۔ 
 نئے سال میں مسلمانوں کو اپنی تعلیم اور معیشت پر بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ اسی طرح مساجد، درگاہوں اورعیدگاہوں کی حفاظت کیلئے اجتماعی طور پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں مسلکی اختلافات کو بھی بالائے رکھنے کا عہد کرنا ہوگا۔ 
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد، پاچوره، جلگاؤں )
نئے سال میں نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا


 اختتام پزیر سال خصوصاً اقلیتوں کے خلاف تلخ تجربات، تشدد، نفرت انگیز تقاریر، گھروں پر بلڈوزر اور عبادت گاہوں کو مسمار کرنے جیسے انگنت حادثات کے ساتھ رخصت ہورہا ہے۔ اگر اسے اقلیتوں کے خلاف ظلم وتشدد کا سال کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اب نئے سال میں ہمیں اپنا احتساب کرتے ہوئےاپنی آگے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ جو قوم اپنے مسائل کے حل کیلئے دوسروں کی طرف دیکھتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ اسلئے نئے سال میں نئے عزائم کے ساتھ مسلمانوں کو اپنا لائحہ عمل خود سنجیدگی سے طے کرنا ہوگا۔ مسلم قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی حکمتِ عملی تیار کرے جس کے ذریعہ مسلمان، سماجی تعلیمی معاشی اور سیاسی میدان میں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ نیا سال اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں پر غور کیا جائے اور اس سے سبق لیا جائے۔ 
آصف جلیل احمد (چونابھٹی، مالیگاؤں )
نیا سال ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے


 ہر سال کی طرح۲۰۲۴ء بھی تلخ و شیریں یادوں کے ساتھ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کی طرح یہ سال بھی مختلف چیلنجز سے بھرپور رہا۔ اس دوران عام انتخابات اور کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے پورے ملک کو چونکایا اور سیاسی جماعتوں میں عدم اطمینان کا احساس پیدا کیا۔ جس کے نتیجے میں احتجاج و مظاہروں کا ایک طویل سلسلہ بھی شروع ہوا۔ امسال حکومتی سطح پر ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جنہیں صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ بابری مسجدکی جگہ پر تعمیر ہونےوالی مندر کاافتتاح بھی اسی سال ہوا۔ اب نئے سال کا عنقریب آغاز ہونے والا ہے، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ابھی سے کوئی لائحہ عمل تیار کیا ہو؟ نیا سال نئے خواب اور نئی امیدیں لے کر آتا ہے۔ ان میں کچھ لوگوں کے خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہیں تو کچھ لوگوں کی خواہشات ادھوری بھی رہ جاتی ہیں۔ بہرحال نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سال گزشتہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اور نئے سال میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ا س سے قبل کہ زندگی کی مہلت ختم ہو ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا مواخذہ اور محاسبہ کرنا چاہئے۔ 
غلام جیلانی( دارالعلوم قمر علی درویش، کیمپ، پونے)
 نئے سال میں سال رفتہ کی غلطیوں سے احتیاط کریں گے


 یوں تو سال آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، یہ زمانے کی گردش ہے جو جاری رہتی ہے۔ یہ سال کسی کا دامن خوشیوں سے تو کسی کو نہ مٹنے والے غموں سے روشناس کر کے رخصت ہوا چاہتا ہے۔ دراصل سیاسی ہو، معاشی ہو، سماجی ہو یا پھر تعلیمی، کسی بھی شعبے میں ہمیشہ کی طرح وہی چال بے ڈھنگی ہی رہی۔ کوئی بھی شعبہ اپنے اندر اطمینان لئے ہوئے نہیں رہا۔ ہر جگہ نفسا نفسی رہی۔ ہمارے سیاست دانوں کو اپنے مفادکے علاوہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے، بے روزگاری ہو، کسانوں کے مسائل ہوں ، عورتوں کے حقوق ہوں ، نوجوانوں کے معاملات ہوں، ہر ایک مسئلے کو سیاست دانوں نے اپنے عینک ہی سے دیکھا۔ 
 اب نئے سال میں امید کی جاتی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں گے اور جو غلطیاں ماضی میں ہوئیں، بالخصوص سال رواں میں ہوئیں، ان سے احتیاط کریں گےاور اس سال کی منصوبہ بندی میں اپنی انفرادی کوششوں کے ساتھ ہی ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کا بھی خیال رکھیں گے۔ 
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)

 قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔ اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف موضوعات پر قارئین بھی اظہار خیال کریں۔ 
اس ہفتے کا عنوان
 تخیل کی سطح پرانسان پہلے خواب دیکھتا ہے اور پھر عمل کی دنیا میں اس خواب کی تعبیر تلاش کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ کچھ کرنے سے پہلے ہم سوچتے ہیں اور پھر اسے عملی جامہ پہناتے ہیں۔ دو دن بعد ہم نئے سال میں داخل ہوں گے۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے: 
نئے سال کے تعلق سے سیاسی، سماجی، ادبی اور معاشی محاذ پر ہم کیا سوچ رہے ہیں ؟
 اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۵؍جنوری) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ بعض تخلیقات منگل کے شمارے میں شائع ہو گی (ادارہ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK