’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: January 20, 2025, 4:13 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
منموہن سنگھ کے دس سال بے مثال
نرم گفتار، کم گو اور شائستہ طبیعت کے مالک خود نمائی سے کوسوں دور۔ ان کی خاموشی بہت کچھ کہتی تھی۔ ہندوستان کی معاشی اصلاحات کیلئے انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ انہوں نے ۲۰۰۴ء میں جب دنیا معاشی بحران میں پھنسی ہوئی تھی، ہندوستان میں اس کی آنچ تک نہیں آنے دی۔ آدھار کارڈ بھی ان کے دور حکومت کی یادگار ہے۔ اپنے عہدے کا کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ آپ نے اپنی تقاریر میں کبھی منافرت کو ہوا نہیں دی۔ ان کے دور حکومت میں نہ ہجومی تشدد کا ڈرتھا اور نہ ہی مساجد کے سروے کا خوف۔ وہ امن وآشتی کیلئے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
محمد یعقوب ایوبی( موتی پورہ، مالیگاؤں )
وہ اپنے ہم عصروں میں منفرد تھے
ڈاکٹرمنموہن سنگھ کاچلا جانا ملک کیلئے بڑا خسارہ ہے۔ ایسی افادیت رکھنے والی شخصیت بار بار جنم نہیں لیتی۔ ڈاکٹر سنگھ بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔ تواضع وانکساری ان کے اندر رچی بسی ہوئی تھی۔ سیاسی، سماجی اور ملک کے معاشی حالات پر گہری نظر نے انہیں اپنے تمام ہم عصروں میں انفرادیت عطا کی تھی۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی اردو نوازی خود اہل اردو کو شرمندہ کرتی ہے۔ بقول احمد فراز:
سنا ہے ان کی باتو ں سے پھول جھڑتے ہیں
چلو ایسا ہے تو ان سے بات کرکے دیکھتے ہیں
ڈاکٹر ہمہ گیر شخصیت اور دلاویزی میں اپنی مثال آپ تھے۔ اب رہ گئی ہیں ان کی یادیں ’’یہ کیا کم ہے کہ مرجانے پر دنیا یاد کرتی ہے۔ ‘‘
عبداللہ حسن چودھری(سنگم نیر)
وہ غروروتکبر سے بالاترتھے
آنجہانی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ان کے گوناں گوں اوصاف کی بناپر کئی انداز میں یاد رکھنا چاہیں گے۔ ہندوستان جیسے عظیم الشان ملک کے تقریباً ۱۰؍ سال تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود وہ اپنی ماروتی کار ۸۰۰؍ خود چلاتے تھے۔ ان کا تعلق بالخصوص معیشت سے تھا لیکن وہ ہرمحکمے کی بھر پور معلومات رکھتے تھے۔ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہونے کے باوجود وہ غروروتکبر سے بالاتر تھے۔
معلومات کا زبردست ذخیرہ تھالیکن وہ نہایت ہی کم سخن تھے۔ ماہر معاشیات کی حیثیت سے انہوں نے وطن عزیز کے لئے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی خدمات کا اطراف صرف ملک کی تاریخ ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی خدمات کا اعتراف سنہرے الفاظ میں کیاجائے گا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ ن کی تعلیمی لیاقت، خدمات ، کم گوئی ، بروقت گوئی، ہر ایک سے حسن سلوک، ایمانداری اور دیانتداری کی وجہ سے ہمارے ملک کا ہرشہری ان کیلئے اپنے دل میں عزت و احترام کا جذبہ رکھتا ہے۔ اور آج بھی ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں عزت واحترام کا جذبہ قائم ہے۔ مذکورہ بالا اوصاف کی بنا پر ہمیں انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔
پرنسپل سہیل لوکھنڈوالا( سابق ایم ایل اے، ممبئی)
ملک کی ترقی کا سہرا اُنہی کے سر بندھتا ہے
۹۰ء کی دہائی میں بطور مالیات ملک کے معیشت کو نیا رخ دینے والےسابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ نوکرشاہی سے سیاست میں آنے والے منموہن سنگھ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے پہلے شخص تھے جو وزیراعظم کے عہدہ تک پہنچے۔ ملک نے دور اندیش سیاستداں اور ایسا ماہر معاشیات کھودیاجس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ انہوں نے مختلف عہدوں پر اپنی خدمات دیں ۔ بطور وزیر مالیات انہوں نے انمٹ نقوش چھوڑے۔ اُس وقت پوری دنیا معاشی بحران سے گھری ہوئی تھی مگر سنگھ صاحب نے اس کی آنچ ملک تک آنے نہیں دی۔ وزیر مالیات کے طورپر اُن کا پیش کردہ بجٹ ملک میں نئے دور کا آغاز تھا۔ اس کے بعد ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی جس سے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد ملی۔ آج اگر ہم کہتے ہیں کہ جلد ہی ہماری معیشت تیسرے نمبر پرپہنچ جائے گی تو اس کا سہرا اُنہی کے سربندھتا ہے۔ منموہن سنگھ ایسے ہندوستان کا خواب نہیں دیکھ رہے تھے جو لسانی اور مذہبی بنیادوں پر منقسم ہو بلکہ وہ تمام ہندوستانیوں کے بہتر مستقبل کا خواب دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پورے ملک سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ ملک کے اس سپوت کو اعلیٰ ترین اعزاز بھارت رتن سے نوازا جائے۔
سلطان احمد پٹنی( بیلاسس روڈ، ممبئی)
وہ ملک کے وقار میں اضافے کا سبب بنے
ڈاکٹر منموہن سنگھ معاشی آزاد خیالی کے معمار انتہائی شریف النفس اور خوش گفتار تھے۔ وہ خودستائی سے کوسوں دور قومی یکجہتی کے علمبردار، ہندو مسلم بھائی چارگی کے کٹر حامی اور سکھ برادری کے پہلے عظیم فرزند تھے جو وزیراعظم بنے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۴ء تک بطور وزیراعظم انہوں نے ملک کی قیادت کی اور عالمی سطح پر ملک کے وقار میں اضافے کا سبب بنے۔ ڈگریوں کے بارے میں انہوں نے کبھی کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ کیمبرج یونیورسٹی کے سینٹ جارج کالج میں ان کے نام سے اسکالرشپ دی جاتی تھی۔ آپ ہی کے دوراقتدار میں آپ ہی کی ایماء پرسابق جج جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں ایک ۷؍ رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے ذمے ملک کے مسلمانوں کی سماجی ، تعلیمی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ ۱۸؍ ماہ کی محنت ِ شاقہ کے بعد یہ رپورٹ جب پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تو مذکورہ شعبۂ حیات میں مسلمانوں کی پسماندگی کا حال چونکانے والا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے خلوص دل سے سچر کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کیلئے پیش رفت ضرور کی لیکن ۲۰۰۹ء کے بعد ان کی حکومت سخت دباؤ میں رہی اور اُس وقت کی حزب اختلاف نے صاف ستھری شبیہ کے مالک پر بدعنوانی کے الزامات عائد کئے لیکن بعد میں یہ الزامات جھوٹے نکلے۔
زبیر احمد بوٹکے ( نالاسوپارہ، ویسٹ)
سچر کمیٹی کے قیام کیلئے انہیں یاد رکھا جائے گا
ڈاکٹر منموہن سنگھ کو جن کاموں کیلئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان میں سے ایک اہم کام اقلیتوں کے حقوق کی بحالی کیلئے مضبوط موقف کا اپنانا ہے۔ ۲۰۰۶ءمیں قائم کی گئی سچر کمیٹی ان کے اس عزم کی مثال ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے ملک کے مسلمانوں کی حالت زار کو دنیا کے سامنے واضح کیا جس کے بعد ان کی حکومت نے مسلمانوں کی ترقی کیلئے اسکالر شپ کے طور پر متعدد منصوبے بھی متعارف کرائے۔
حافظ افتخاراحمدقادری(کریم گنج، پورن پور)
وہ بھارت رتن کے حقدار ہیں
ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک ایسے سیاستداں تھے جن کا دنیا سے رخصت ہوجانا ایک بڑا نقصان ہے۔ انہیں دنیا بھر میں معاشی اصلاحات کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بھارت رتن کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا جانا چاہئے تاکہ بعد کی نسل بھی انہیں یاد رکھے۔
ابراہیم یادگیری( جوگیشوری، ممبئی)
منموہن سنگھ امن کے علمبردار تھے
موہن داس کی طرح منموہن سنگھ بھی امن کے علمبردار تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ ڈاکٹر سنگھ کو ابھی تک بھارت رتن نہیں ملا جبکہ وہ اٹل بہاری واجپئی، ناناجی دیشمکھ، کرپوری ٹھاکر، چرن سنگھ اور اڈوانی سے کہیں زیادہ حق دار ہیں .... لیکن ریوڑیاں بانٹنے والوں سے کیا گلہ جو نہ سنتے ہیں اورنہ کسی سوال کا جواب دیتے ہیں۔
عبدالصمد ( عرب گلی، ممبئی)
منموہن سنگھ سے وہ یادگار ملاقات جو ۲۰۱۶ء میں ان کی رہائش گاہ پر ہوئی
سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے تقریباً ۴۵؍منٹ کا وقت دیا اور تفصیل سے گفتگو کی۔
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے اگر آپ کی ملاقات ہوجائے تو شاید ہی کبھی آپ اس ملاقات کو بھلا پائیں۔ ۲۰۱۶ءمیں ہمیں اس کا شرف حاصل ہوا۔ یہ ملاقات ہمارے احباب کے ساتھ دہلی میں ان کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ پہلے سے حاصل کردہ اپوائنٹمنٹ کی بناء پر ان کی رہائش گاہ پر ہم وقت مقررہ پر پہنچ گئے تھے۔ سیکوریٹی مراحل کو پار کرنے کے بعد مین گیٹ سے ان کی رہائش تک بذریعہ کار پہنچے۔ مہمان خانہ میں بٹھایا گیا۔ اس درمیان ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ہمارے ساتھ سابق ایم پی مولانا اسرارالحق کے قریبی رشتہ دار بھی تھے جن کا نام ملاقات کرنے والوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ جب منموہن سنگھ کوپتا چلا کہ موصوف اسرار الحق صاحب کے قریبی ہیں تو انہوں نے خود باہر نکل کر سیکوریٹی کو ہدایت دی کہ انھیں اندر بھیجیں۔
منموہن سنگھ نے ہمیں تقریباً ۴۵؍منٹ کا وقت دیا اور تفصیل سے گفتگو کی۔ خاکسار نے ان کے ذریعہ شروع کئے گئے وزیر اعظم کے ۱۵؍ نکاتی پروگرام کے تحت اقلیتوں کی مختلف اسکیموں کا تذکرہ توصیفی انداز میں کیا تو انہوں نے موجودہ حکومت کے ذمہ داران کے کہی ہوئی باتیں بھی دہرائیں۔ واپسی کے وقت ہم تمام لوگوں کو رخصت کر نے کیلئے دروازے تک آئے۔ دعائیں دیں اور بڑے پیار اور احترام سے رخصت کیا۔ منموہن سنگھ باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ سامنے والا علم میں ان سے کہیں کم ہوگا انتہائی سنجیدگی اور دھیان سے باتیں سننے اور مناسب وضاحت کرنے والے شخص تھے۔ یہ میں نے ان سے ذاتی گفتگو میں محسوس کیا۔ ڈاکٹر سنگھ کا امتیاز یہ ہے کہ آپ اس ملک میں ۳؍باوقار عہدوں کو سنبھالنے والی غالباً واحد شخصیت ہیں۔ آپ ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر بنے، نرسمہا راؤ سرکار میں وزیر مالیات رہے اور بالآخر ۱۰؍ برسوں تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔
نوٹ بندی کی بناء پر ملک کی معاشی سست روی سے متعلق آپ کی کہی ہوئی باتیں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئیں۔ آپ کی شخصیت اور معاشی سمجھ نے دنیا میں نہ صرف آپ کو بلکہ ہندوستان کو بھی مقبولیت عطا کی۔ ماضی قریب میں ہی عالمی ماہرین معاشیات کا جب ذکر سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم سے پوڈ کاسٹ میں ہوا تو بجا طور پر پروگرام کے شرکاء نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کا ذکر دور حاضر کے اہم ماہر معاشیات کے طور پر کیا۔ وزیر مالیات اور وزیر اعظم کے طور پر ملک کیلئے ان کی خدمات عمومی طور پر اور اقلیتوں کی ترقی اور انھیں مین اسٹریم سے جوڑنے کی ان کی کوششیں نیز اسکیمیں بھلائی نہیں جاسکتیں۔ منریگا جیسا عالمی شہرت یافتہ منصوبہ، مخالفتوں کے باوجود نیوکلیائی معاہدہ پر ملک کے مفاد میں دستخط، منموہن سنگھ کے وہ کارہائے نمایاں ہیں جنھیں ایک زمانہ یاد رکھے گا۔
مومن فہیم احمد عبدالباری (صمدیہ جونیر کالج بھیونڈی)
ملک کو معاشی استحکام کی جانب گامزن کیا
ڈاکٹر من موہن سنگھ اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب، کم گواورعمدہ اخلاق کے حامل شخص تھے۔ رحمدلی، عاجزی اورانکساری ان کی شخصیت کا خاصہ تھیں۔ وہ مشفق استاد، فرض شناس نوکر شاہ، مدبر اور ماہر اقتصادیات، دور اندیش سیاستداں، کامیاب وزیر اورپر امن ماحول میں ملک کو معاشی استحکام کی جانب گامزن کرنے والے کامیاب وزیراعظم کے طور پرہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ پاکستان کے اس گاؤں (گاہ) کے نمازیوں کیلئے، جس گاؤں سے ان کے خاندان کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، سردیوں میں وضوءکیلئےگرم پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے مقصد سے ان کی حکومت میں ہندوستان سے گيزربھیجنا اُن کی انسان دوستی، ہمدردی، نرم دلی، مذہبی رواداری، سفارتی کامیابی اور اپنے آبائی گاؤں سے بے انتہا محبت کامظہر ہے۔ مُفت اور لازمی حق تعلیم کا قانون(آر ٹی ای -۲۰۰۹ء) سے ہر سال لاکھوں غریب طلبہ فیضیاب ہوتے ہیں۔ قومی دیہی صحت مشن (این آر ایچ ایم ایس) ان کی دوراندیشی اور عوام دوستی کا نتیجہ تھا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بجا طور پر اندراگاندھی نیشنل پیس ایوارڈسے نوازکر اُن کی امن پسند پالیسی کو سراہا گیا۔ آج کے نفرت بھرے ماحول کو دیکھ کر بے ساختہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کا دورحکومت یاد آتا ہے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ڈاکٹر منموہن سنگھ کو یہ ملک بھلا نہیں پائےگا۔
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خورد تحصیل پاچورہ ضلع جلگاؤں )
غروروتکبر سے بالاترشخصیت
آنجہانی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اُن کے گوناں گوں اوصاف کی بناپر کئی انداز میں یاد رکھنا چاہیں گے۔ ہندوستان جیسے عظیم الشان ملک کے وزیراعظم کے عہدے پرتقریباً ۱۰؍ سال تک فائز رہنے کے باوجود وہ اپنی ماروتی کار ۸۰۰؍ خود چلاتے تھے۔ ان کا تعلق بالخصوص معیشت سے تھا لیکن وہ ہرمحکمے کی بھر پور معلومات رکھتے تھے۔ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہونے کے باوجود غروروتکبر سے بالاتر۔
معلومات کا زبردست ذخیر ہ لیکن بہت ہی کم سخن ماہر معاشیات کی حیثیت سے انہوں نے وطن عزیز کے لئے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی خدمات کا اعتراف صرف ملک کی تاریخ ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی کیا جارہاہےاور یقیناً تاریخ ان خدمات کو سنہرے الفاظ میں محسوس رکھے گی۔
سابق وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ تعلیمی لیاقت، خدمات ، کم گوئی، بروقت گوئی ، ہر ایک سے حسن سلوک، ایمانداری اور دیانتداری کی وجہ سے ہمارے ملک کا ہرشہری ان کے لئے اپنے دل میں عزت واحترام کا جذبہ رکھتا تھا۔ اور آج بھی ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں عزت واحترام کا جذبہ قائم ہے۔ مذکورہ بالا اوصاف کی بنا پر ہر ہندوستانی کو انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔
پرنسپل سہیل لوکھنڈوالا، سابق ایم ایل اے(میمن واڑہ، ممبئی)
ہندوستان کی جدید معیشت کے معمار کے طور پر یاد رہیں گے
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی زندگی میں خاموش رہ کر اپنے ناقدین کو جواب دیا مگر انتقال کے بعد ان کی خدمات کا اعتراف وہ میڈیا بھی کرنے پر مجبور ہوا جس نے انہیں بدنام کیاتھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ہمیشہ سے پروپیگنڈہ خبروں کے شیدائی تھے ان کے ذہنوں میں بھی بجا طور پر ڈاکٹر منموہن سنگھ کی شخصیت کا مثبت تاثرقائم ہوا۔ ۱۹۹۰ء میں جب ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر مالیات تھے اس وقت اگر انہوں نے فری اکانومی کا فیصلہ نہ لیا ہوتا تو ملک میں اڈانی اور امبانی کہاں سے فروغ پاتے۔ اپنی گہری اقتصادی اور معاشی سوچ کا انہوں نے ملک کے عوام کی بہبود کیلئے استعمال کیا۔
اپنی مہارت کا صحیح سمت استعمال کر کے انہوں نے اس ملک کے عوام کو کساد بازاری سے محفوظ رکھا ورنہ ۲۰۰۶ء تا ۲۰۰۸ء دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں کو کساد بازاری ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ ایماندار شخص تھے۔ بطور سیاستداں جوڑ توڑ کرکے وزارت عظمیٰ کی کرسی تک نہیں پہنچے اور زندگی بھر کوئی داغ اپنی شخصیت پر نہیں لگنے دیا۔ اردو زبان کے وفادار تھے، اردو میں لکھنا، پڑھنا اور اردو میں ہی تقاریر کرنا انکا معمول تھا۔ انہیں ہندوستان کی جدید معیشت کے معمار کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔
عادل آصف (کرلا، ممبئی)
ملک کی معاشی خدمات کیلئے یاد رہیں گے
من موہن سنگھ ہندوستان کے قابل، کم گو اور وضع دار وزیراعظم تھے۔ وہ اتناہی بولتے تھے جتنا ضروری ہوتا اور الفاظ نپے تلے ہوتے۔ ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم اوران کے وزیروں کو منموہن سنگھ سے کی طرح سچ بولنا چاہیے۔ انہوں نے ملک کو معاشی مندی سے محفوظ رکھا اور ’’لائسینس راج‘‘ کا خاتمہ کیا۔ انہوں نے بطور وزیر مالیات اس وقت باگ ڈور سنبھالی جب ملک کا سونا رہن رکھنے کی نوبت آگئی تھی انہوں نے حالات سے نمٹنے کیلئے معاشی لبرلائزیشن کا راستہ اختیار جس کیلئے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
شاہد ہنگائی پوری (علیگ) (سکون ہائٹس، ممبرا)
اقلیت دوست اور انصاف پسند وزیراعظم
ملک کے چودہویں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے نہایت نازک حالات میں ملک کو معاشی بحران سے نکالا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ملک میں معاشی بہتری اور اصلاحات کےروح رواں کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر سنگھ کی قیادت میں نہ صرف ہندوستان نے معاشی میدان میں ترقی کی بلکہ انہوں نے اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کیلئے انصاف اور برابری کے اصولوں پر مبنی سیاست کی ایک شاندار مثال بھی قائم ہوئی۔ مسلمانوں کیلئےمخصوص اسکالرشپ، تعلیمی اداروں کی جدید کاری، اور ان کے روزگار کے مواقع بڑھانے جیسے اقدامات ان کی اقلیت دوستی اور انصاف پسندی کی واضح مثال ہیں۔ ان کے ۱۰؍سالہ دور میں کئی اہم فیصلے کئے گئے جو سنگ میل ثابت ہوئے۔ ان میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان جوہری تعاون کا معاہدہ اہم ہے۔ آج ملک کی معیشت پھرشدید بحران کا شکار ہے، افراطِ زر کی شرح بڑھ رہی ہے، کاروبار دم توڑ رہا ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور بے روزگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے آنجہانی ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پالیسیوں سے کچھ سیکھنا چاہئے۔
آصف جلیل احمد (چونابھٹی، مالیگاؤں )
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
۲۰۲۴ء جاتے جاتے ہم سےہمارا معاشیات کا سردار لے گیا۔ وہ سردار جس کی خاموش سیاست کا لوہا ہندوستان کیا ساری دنیا مانتی تھی۔ انہوں نے سونیا گاندھی کی اُن کے حق میں قربانی کو بطور چیلنج قبول کیا اور سیاست کے میدان میں مون (خاموش) رہ کر اپنی قابلیت سے وہ کارنامہ انجام دیا جس کا ذکر ہندوستان کی سیاست میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ ان کے دورِ حکومت میں ملک ایٹمی اور معاشی میدان میں دنیا کے بڑے اور خود کو ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوگیا۔ منموہن سنگھ کی طلسماتی شخصیت کا اعتراف مخالف جماعت کے وہ لیڈر بھی کرتے ہیں جو معاشی اصولوں سے نابلد ہیں ۔ اتحاد و اتفاق کو مضبوطی فراہم کرنا منموہن سنگھ کا نصب العین تھا۔ ان کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے والوں کے دامن خود داغدارہوگئے لیکن اُن کی شخصیت کی پاکیزگی کو چھو بھی نہ سکے۔ تہذیب اور ادب کے سائے میں پروان چڑھ کر اس ملک کے سیاسی معاملات کو اس خوش اسلوبی سے حل کیا کہ ہر کوئی ان کا معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آج کے لیڈر اُن کے سیاسی تدبر سے تحریک لے کر چاہیں تو اس ملک کو استحکام دلا سکتے ہیں۔
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
’’اقلیتوں کی ترقی کیلئےیاد کئے جائیں گے ‘‘
ڈاکٹر منموہن سنگھ قابل معیشت دان، دانشور اور ایماندار سیاستدان کے طور پر یاد کئے جائیں گے جنہوں نے ملک کی معیشت کو نئی بلندیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ہی کی قیادت میں ۲۰۰۶ء میں اقلیتوں کیلئے جامع پندرہ نکاتی پروگرام متعارف کرایا گیا، جس کا مقصد ہندوستان کی اقلیتوں بطور خاص مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں، بدھسٹوں اور دیگر کمزور طبقات کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی حالت کو بہتر کرنا تھا۔ یہ پروگرام ان کی حکومت کی اقلیتوں کیلئے مساوات اور ترقی کے عزم کا عملی مظہر تھا۔ اقلیتی طلبہکیلئے اسکولوں میں معیارِ تعلیم بہتر بنانا، اسکالرشپ (پری میٹرک، پوسٹ میٹرک اور میرٹ بیسڈ) شروع کرنا، پیشہ ورانہ اور تکنیکی تعلیم میں اقلیتوں کی شرکت کو فروغ دینا، اقلیتوں کیلئے سرکاری نوکریوں میں نمائندگی کو یقینی بنانا، سرکاری اسکیموں میں ان کی شمولیت کیلئے اقدامات، ہنر مندی کے فروغ کے مراکزکا قیام، آسان شرائط پر بینک قرضوں کی فراہمی اور اقلیتوں کے علاقوں میں انفراسٹرکچر کی ترقی کیلئے فنڈز مختص کرنا، اس کے بنیادی مقاصد تھے۔ یہ اقدامات سماجی انصاف اور جامع ترقی کے ان کے نظریہ کو ظاہر کرتے ہیں۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (ایجوکیشنل و کرئیر کونسلر، بھیونڈی)
منموہن سنگھ کی زندگی مشعل راہ ہے
آنجہانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زندگی مشعل راہ ہے۔ خاص طور سے ان لوگوں کیلئے جو سیاست کو خدمت اور دانش کے امتزاج کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بطور وزیر خزانہ، انہوں نے ہندوستانی معیشت کو بندشوں سے آزاد کرنے، آزاد بازار کی پالیسیوں کو اپنانے، اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کی حوصلہ کیلئے اہم اقدامات کئے۔ ان کی یہ کوششیں نہ صرف ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں کامیاب رہیں بلکہ ہندوستان کو عالمی معیشت کا ایک نمایاں حصہ بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوئیں۔ ان کی قیادت میں ہندوستان نے اقتصادی استحکام حاصل کیا اور متوسط طبقے کو مزید تقویت ملی۔ اپنی وزارت عظمیٰ (۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۴ء)کے دوران وہ اپنی سادگی، بردباری، اور غیر جانبدارانہ انداز کیلئے مشہور رہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے ترقیاتی منصوبوں، تعلیم، اور صحت کے شعبے میں کئی اہم اصلاحات متعارف کروائیں۔ انہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کو نئے افق تک لے جانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی زندگی سبق دیتی ہے کہ قیادت کا مطلب صرف طاقت کا استعمال نہیں بلکہ عوامی خدمت اور ملک کی ترقی کے لیے مخلصانہ کوششیں ہیں۔ وہ ایسے رہنما کے طور پر یاد رہیں گے جس نے خاموشی اور وقار کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیئے۔
حکیم نسیم احمد نظامی ( رامپورہ، سورت، گجرات)
وہ بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے
ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک غير متنازع ماہر اقتصادیات تھے۔ آکسفورڈ اور کیمبریج جیسی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے تدریسی شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بعد ازیں آر بی آئی کے گورنر کی حیثیت سےاپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ بطور وزیر خزانہ انہوں نے ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو جس طرح سنبھالا تھا، وہ انہی کا خاصہ تھا۔ اسی طرح یو پی اے حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے امریکی حکومت کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کر کے ملک کی نیو کلیئر توانائی کی ضرورتوں کو استحکام بخشا اور کسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے۔ مجموعی طور پر ان کی شخصیت ایمانداری، دیانت داری، انکساری اور شائستگی کی عمدہ مثال تھی:
افتخار احمد اعظمی(سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ)
وہ ملک کی ترقی کے چمپئن تھے
ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک قابل ذکرلیڈر تھے جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ میں انہیں ایک ماہر اقتصادیات، سماجی انصاف کے مضبوط وکیل اور ملک کی ترقی کے چمپئن کے طور پر یاد رکھنا چاہوں گا۔ مجموعی طورپر، آنجہانی ڈاکٹر منموہن سنگھ کی میراث ہندوستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ان کی لگن، دانشمندی اور عزم کا ثبوت ہے۔ انہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے ہندوستان کو ایک مضبوط، جامع اور اقتصادی طور پر متحرک ملک میں تبدیل کرنے کیلئے انتھک محنت کی۔
جاوید رحمان خان(گورے گاؤں ، ممبئی)
ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک بہترین وزیر اعظم تھے
ڈاکٹر منموہن سنگھ وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل رہنما تھے، جنہوں نے اپنی محنت، دانشمندی اور عزم کے ذریعے نہ صرف اپنی زندگی بلکہ پورے ملک کی تاریخ پر گہرا اثر چھوڑا۔ ملک کی تقسیم کے بعد ایک مہاجر کے طور پر اپنی زندگی کا آغاز کرنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ نےمشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے ترقی کی وہ منزلیں طے کیں جو ہر کسی کیلئے ممکن نہیں ہوتیں۔
ان کی زندگی کئی میدانوں میں مثالی رہی۔ وہ پہلے ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر بنے، جہاں انہوں نے معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ بعدازاں، بطور وزیر خزانہ، ان کے اقتصادی اصلاحات نے ملک کو ایک مضبوط معیشت کی طرف گامزن کیا۔ اور آخر کار، ایک بصیرت مند وزیر اعظم کے طور پر، انہوں نے ملک کے سبھی طبقوں، خصوصاً اقلیتوں، پسماندہ اور محروم طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے بے لوث جدوجہد کی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت زندگی بھر عاجزی، انکساری اور خدمت کے جذبے سے عبارت رہی۔ ان کی پالیسیوں نے نہ صرف ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک کی پہچان کو مضبوط کیا۔ سچر کمیٹی کا قیام کرنے اور اس کی سفارشات پر بڑی حد تک عمل کرنے کے ان کے قدم کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا حسیب احمد انصاری ( بھیونڈی)
وہ کم بولتے تھے لیکن ان کا کام بولتا تھا
ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک پرسکون سیاست داں اور ذہین انسان تھے۔ ملک جس وقت معاشی حالات سے دوچار تھا، اُس وقت انہوں نے نہ صرف اسے سنبھالا بلکہ ملک کی معیشت کو مستحکم بھی کیا، جس سے وطن عزیز نے برسوں استفادہ کیا۔ ان کی اپنی ایک خاص پہچان تھی۔ وہ بہت کم بولتے تھے لیکن وہ ایسا کام کرتے تھے کہ ان کا کام بولتا تھا۔ انہیں بھلے ہی کچھ لوگ ’مون سنگھ‘ کہتے رہے ہوں لیکن انہوں نے اُس وقت عوام کا جتنا سامنا کیا، اس کے بعد والے ان کے عشر عشیر بھی نہیں۔ انہوں نے زیادہ سے زیادہ پرنس کانفرنس بھی اٹینڈ کئے۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں انہوں نے نہ صرف بڑی حد تک بے روزگاری دور کی بلکہ ملک کو ایک طاقتور فوجی ملک میں بھی تبدیل کیا۔
ان کے دور میں ملک کی جی ڈی پی بھی اوپر رہی اورملک میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بڑے بڑے کالجز بھی قائم ہوئے۔ اس وقت عوام کو ہر طرح سے بولنے کی آزادی تھی اور ملک میں بھی بھائی چارگی کا ماحول تھا۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ نہایت ہی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ اپنے اور اپنی پارٹی سے زیادہ ملک کے بارے میں سوچتےتھے۔ ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
عاطف عدنان شیخ صادق(شاہو نگر جلگاؤں )
ایک مخلص لیڈر کے طور پر انہیں یاد رکھیں گے
آنجہانی ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ایک مدبر، مخلص، اور شفاف قیادت کی علامت کے طور پر ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ ان کی شخصیت اس بات کی روشن مثال ہے کہ قیادت کا اصل مطلب اقتدار کے حصول کے بجائے قوم کی خدمت ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو اُن کی اردو زبان اور ادب سے گہری محبت تھی۔ وہ اردو کو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ہندوستان کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم جزو سمجھتے تھے۔ ان کی تقاریر کو اکثر اردو رسم الخط میں تیار کیا جاتا تھا جو اردو زبان کی اہمیت پر ان کے یقین کی علامت تھی۔ وہ اپنی خطابات میں جابجا اردو اشعار کا استعمال کرتے تھے۔
آنجہانی سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اپنے خیالات کو کم الفاظ میں بیان کرنے کیلئے مشہور تھے۔ پارلیمنٹ میں دوسرے اراکین پارلیمان اپنے خیالات کے اظہار کیلئے لمبی لمبی تقریریں کرتے تھے لیکن منموہن سنگھ مختصر الفاظ میں اپنی بات پوری کرلیتے تھے۔ وہ اکثر شعر و شاعری کے بھی ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ وہ علامہ اقبال کے مداح تھے اور ان کے بہت سے اشعار اپنی تقریروں میں استعمال کرتے تھے۔ فی الحال اردو کو مسلمانوں سے جوڑ کرملک میں تعصب پرستی کا جو نمونہ پیش کیا جارہا ہے وہ افسوسناک ہے۔
ڈاکٹر بختاور فہمی( نور باغ، مالیگاؤں)
منموہن سنگھ مطلب ملک کی ترقی
یہ وہ نام ہے جس کے دور میں ہمارے ملک نے ترقی کیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کا چلا جانا بہت دکھ کی بات ہے۔ ہمارا ملک آج ترقی کے معاملے میں کافی نیچے آگیا ہے۔ آج جو لوگ دیش چلا رہے ہیں، ان کے سامنے ملک کا کوئی ویژن نہیں ہے۔ وہ بس اقتدار میں رہنا جانتے ہیں۔ آج منموہن سنگھ نہیں ہیں تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ملک کیلئے کتنے سود مند تھے۔ بہرحال ان کی جگہ کوئی پُر نہیں کرسکتا۔ ان کے بارے میں ایک جملے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ منموہن سنگھ کا مطلب ملک کی ترقی ہے۔
امتیاز احمد ملک( سیوڑی، ممبئی)
وہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے
ڈاکٹر منموہن سنگھ دنیا بھر کے علم سے آراستہ تھے۔ گورنر رہتے ہوئے بھی انہوں نے عوام کی فلاح و بہبودکیلئے جو کام کئے، وہ ایک مثال ہے۔ وہ وزیراعظم ہونے کے ساتھ ہی ماہر معاشیات بھی تھے۔ اب جس شخص میں اتنی ساری خوبیاں ہوں اسے تو کم گو ہونا ہی ہے۔ ہر علمی شخصیت میں خاموش طبعی خوبی ہوتی ہے۔ ان کی کیا کیا خوبیاں گنوائیں، وہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ ہم انہیں ایک مشفق لیڈر اور عوام کی بھلائی کرنے والے وزیراعظم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے وقت میں کئی میڈیا کانفرنسیں کیں اور ان کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ اس سے بڑی بات اور کیا ہوگی کہ ان کی خدمات کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔ اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف موضوعات پر قارئین بھی اظہار خیال کریں۔
اس ہفتے کا عنوان
تخیل کی سطح پرانسان پہلے خواب دیکھتا ہے اور پھر عمل کی دنیا میں اس خواب کی تعبیر تلاش کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ کچھ کرنے سے پہلے ہم سوچتے ہیں اور پھر اسے عملی جامہ پہناتے ہیں۔ دو دن بعد ہم نئے سال میں داخل ہوں گے۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے:
سوشل میڈیا کی لت سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟
اس موضوع پر دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۱۹؍جنوری) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ بعض تخلیقات منگل کے شمارے میں شائع ہوں گی (ادارہ)