• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنڈے اسپیشل : عازمین حج کیلئے معاون کو ساتھ لے جانے کی شرط، کتنا درست، کتنا غلط؟

Updated: September 22, 2024, 4:38 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

With this decision of the Hajj Committee, a large number of pilgrims will not be able to perform their religious duty, so this decision should be reviewed. Photo: INN
حج کمیٹی کے اس فیصلے سے عازمین کی ایک بڑی تعداد اپنا دینی فریضہ ادا نہیں کرسکے گی،اسلئے اس فیصلے پر نظرثانی کی جانی چاہئے۔ تصویر : آئی این این

حج پالیسی میں ایک نہیں، کئی خامیاں ہیں 


 امسال عازمین کیلئے حج پالیسی کے تحت جو شرائط منظر عام پر آئی ہیں، ان میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ انہیں الگ الگ زاویے سے دیکھا جارہا ہے۔ جس طرح کسی چیز کو دیکھنے کا ہرکسی کا زاویہ مختلف ہوتاہے اور اسی کے مطابق وہ فیصلے کرتا ہے، اسی طرح اس پالیسی کو بھی دیکھا رہا ہے لیکن جو خامی ہے وہ نمایاں ہے۔ اول یہ کہ جن کی عمر۶۵؍سال سے زائدہے اُن کیلئے یہ شرط ہے کہ وہ مرد ہویا خاتون، معاون کے بغیرحج کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ ایسے مرد یا ایسی خاتون جن کی عمریں ۶۵؍ سال سے زائد ہیں اور وہ صحت مند اور توانا ہیں جو معاون کے بغیر اپنے تمام بخوبی انجام دے سکتے ہیں، ان کیلئے یہ شرط بہت تکلیف دہ ہے۔ 
  وہ لوگ جو بڑی محنت و مشقت سے ساری زندگی حلال کمائی کا کھائے ہوں اور کمائے ہوں اور پائی پائی جوڑ کر روپے جمع کئے ہوں، وہ اپنے ساتھ ساتھ، اپنےلئے معاون کے اخراجات کہا ں سے لائیں گے؟اگر یہ شرط حج کیلئے ایسی ہی ہے جیسے انسان کیلئے آکسیجن ضروری ہے تو معاون کے اخراجات کی ذمہ داری حج کمیٹی کو اٹھانی چاہئےیا پھر وہ خرچ حکومت کو برداشت کرنی چاہئے۔ کیا حکومت یا حج کمیٹی اس بات کو تسلیم کر یں گی؟
 دوسرا پہلو شرط میں یہ ہے کہ جن کی عمریں ۶۵؍ سال سے زائد ہوں گی، اُن کی عرضی فوراً منظور کر لی جائے گی۔ دوسری طرف معاون کی شرط بھی عائد کی جارہی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سارے لوگ حج ادا کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔ ہمارے یہاں عموماً شوہر کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور بیوی کی عمر نسبتاً کم ہوتی ہے۔ اگر شوہر ۶۵؍ سال کی عمر کا ہے تو وہ اپنی بیوی کو اپنے معاون کے طور پر نہیں رکھ سکتا، وہ بھلے ہی عمر کے حساب سے فٹ بیٹھتی ہو۔ مرد کیلئےمرد معاون ہوگا اور عورت کیلئے عورت معاون ہوگی۔ اسی طرح اس پالیسی میں یہ بھی ہے کہ مرد اور عورت الگ الگ کمروں میں رہیں گے۔ سوچئے! کہ جو میاں بیوی چالیس پچاس سال تک ایک ساتھ رہے ہوں، وہ اس بڑی خوشی کے وقت ایک ساتھ نہیں رہ سکیں گے اور اپنی خوشیاں ایک دوسرے سے تقسیم نہیں کرسکیں گے۔ حکومت کو اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ 
ش۔ شکیل (اورنگ آباد، مہاراشٹر)
عازمین حج کیلئے معاون کی شرط لگادینا سراسر زیادتی ہے


  اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک حج ہے اور حج صرف صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہے۔ ہمارے ملک میں عام طور پر متوسط آمدنی والے افراد یا جن کی معاشی حالت کمزور ہے، ان کی تعداد زیادہ ہے۔ لوگ اپنی پوری زندگی کی کمائی سے کچھ رقم پس انداز کر کے حج کیلئے جوڑتے ہیں اور جو سروس پیشہ افراد ہیں، وہ سبکدوش ہونے کے بعد ملنے والی رقم سے اپنے حج کا خواب سجاتے ہیں۔ ایسے میں حکومت نے عازمین کیلئے معاون کی جو شرط عائد کردی، وہ ان تمام کے ساتھ بڑی زیادتی ہےجو اپنی ضروریات زندگی میں کمی زیادتی کر کے، روکھی سوکھی کھا کراورکسمپرسی میں گزار کر رقم پس انداز کرتے ہیں۔ ہندوستانی عازمین میں اکثریت ضعیف اور عمر دراز افراد کی زیادہ ہوتی ہے، اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے اہم وجہ ان کی خستہ معاشی حالت ہے لہٰذا جو افراد زندگی بھر کعبے کی حاضری اور روضۂ رسولؐ کی زیارت کا خواب دیکھتے ہیں اور آخری عمر میں رقم کا جگاڑ بھی ہو جاتا ہے، اب ان کے ساتھ معاون کی شرط لگادینا سراسر زیادتی ہے۔ یہ شرط ان کے دیرینہ خواب کو چکنا چور کرنے جیسا ہے۔ 
  گزشتہ سال حج کے دوران جو حالات پیش آئے ہیں شاید اس کی وجہ سے حکومت یہ قدم اٹھا رہی ہو لیکن موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ بہت سارے ایسے لوگ جو یہاں سے تندرست وہ توانا جاتے ہیں، وہ واپس نہیں آپاتے اور کچھ لوگ جو بہت کمزور ہوتے ہیں، وہ تمام ارکان ادا کرتے ہوئےاپنے وطن بخیر وعافیت واپس آ جاتے ہیں۔ اسلئے حکومت سے درخواست ہے کہ وہ معاون کی شرط ہٹا لے اور لوگوں کی تکمیل حج کی دیرینہ آرزو پوری کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔ 
محمد رفیق دیشمکھ( شہادہ مہاراشٹر)
عازمین کیلئے معاون کی شرط بالکل درست ہے


 حج پر جانےکیلئے عازمین کے فارم کی خانہ پُری کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت حج کمیٹی آف انڈیا نے۶۵؍ سال سے زائد عمر کے تمام عازمین کیلئے اپنے ساتھ ایک معاون کی شرط رکھی ہے۔ الحمدللہ ابھی اسی سال یعنی ۲۰۲۴ء میں مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ اس حوالے سے یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ عازمین کیلئے یہ شرط بالکل درست اور مناسب ہے۔ ایک نیا ملک، لاکھوں کا مجمع، شدید گرمی، پیدل سفر اور ٬راستے کی عدم معلومات... ٬ان تمام عناصر کا تنہا مقابلہ کرنا انتہائی دشوار گزار ہے۔ ہم نے حاجیوں کو پریشان حال۱۲؍ سے۱۴؍ گھنٹوں تک منیٰ کے خیمے میں بھٹکتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ ’ایک سے بھلے دو‘ اگر دو لوگ ساتھ ہوں تو حالات سازگار بنانے میں مدد ہوتی ہے۔ حج کمیٹی سے حج کا سفر ۴۰؍ سے ۴۲؍ دنوں کا ہوتا ہے، ان دنوں میں حاجی کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات کیلئے ایک معاون کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ فی زمانہ ۶۰؍ سال سے زائد عمر ہوتے ہی لوگوں کو شوگر اور بی پی جیسی مختلف بڑی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے خدانخواستہ دوران حج کسی حاجی کی طبیعت ناساز ہو جائے تو معاون کے ساتھ ہونے سے کچھ راحت ہوتی ہے۔ اسلئے یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ۶۵؍ سال سے زائد عمر کے عازمین کے ساتھ ایک معاون بھی جائے تاکہ وہ حج کی ادائیگی سکون اوراطمینان سے کرسکیں۔ 
 شیخ ریاض احمد (بھیونڈی)
 عازمین کیلئے یہ شرط مناسب نہیں ہے


 عازمین کیلئےحج کمیٹی آ ف انڈیا نے جو نئے شرائط کا اضا فہ کیا ہے۔ اگر حکومت اسے بہت ضروری سمجھتی ہے تو مناسب ہوگا کہ حج کمیٹی خود اپنی جانب سے معاون کی تقرری کرے۔ زندگی میں حج ایک مرتبہ فرض ہے۔ نوکری پیشہ افراد اپنی سبکدوشی کے بعد جو ایک معقول رقم ملتی ہے، اس سے وہ اپنا فرض ادا کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اکثر شوہراور بیوی دنوں ہی ایک ساتھ حج کا ارادہ کرتے ہیں۔ اب ایسے میں اگران کی اتنی حیثیت نہ ہو کہ وہ اپنے ساتھ اپنے رشتہ داروں کو اپنے خرچ پر معاون بناکر حج پر لے جا سکیں تو وہ خود بھی نہیں جاسکیں گے۔ اس طرح کی شرط رکھنے پر حج کے فرائض انجام دینے والے عازمین کی تعداد بہت کم ہوجائے گی۔ ہمیں امید ہے کہ عازمین کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے حج کمیٹی آف انڈیا اس شرط کو واپس لے لے گی۔ 
شیخ عبدالموحدعبدالرؤف(مہاپولی، بھیونڈی)
 معاون کی شرط لازمی نہیں، اختیاری ہونی چاہئے


 بر صغیر کے مسلمانوں میں زندگی کے آخری ایام میں فریضۂ حج کی‌ ادائیگی‌کا عام رجحان ہے۔ اس کی ایک وجہ معاشی عدم استحکام ہے۔ مناسک حج کا پورا نظام پیسے کے ساتھ ہی جسمانی طاقت و قوت کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ضعیف العمری میں حج ادا کرتا ہےتو یقیناً اسے بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن وطن عزیز کے ۶۵؍ سال سے اوپر کےحاجیوں کیلئے اپنے ساتھ ایک مدد گار لے جانے کی شرط قطعاً درست نہیں ہے۔ بہت سے لوگ زندگی بھر پیسے کا انتظام کرکے حج کا ارادہ کرتے ہیں، ایسے میں مزید خرچ بڑھ جائے گا جس کی وجہ سے صاحب استطاعت ہونے کے باوجود لوگ فریضہ حج کی ادائیگی سے محروم رہ جائیں گے۔ اختیاری صورت ہو سکتا ہے کہ جو صاحب ثروت ہیں، وہ اگر لے جانا چاہیں تو لے جا سکتے ہیں۔ حج کمیٹی اپنے‌‌ اس فیصلے کے ذریعہ پیسے کا بچت کرنا چاہتی ہے تاکہ خادم الحجاج کے انتظام کی ذمہ داری سے دستبردار ہو جائے۔ 
سعید الرحمان محمد رفیق (گرین‌پارک، شیل، تھانے)
 عازمین حج کیلئے معا و ن کاانتظام، ایک اضافی بوجھ 


  حج اسلام کا ایک بنیادی رکن اور فریضہ ہے جسے زندگی میں ایک بار ادا کرنے کی تمنا ہر مومن کے دل میں ہوتی ہے۔ اس کیلئے لوگ زندگی بھر پائی پائی اکٹھا کر کے بارگاہ الٰہی کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں، مگر امسال حج کمیٹی کی شرط سے اکثر عازمین کے خواب چورچور ہوگئے ہیں۔ ناقص سہولیات کے باوجود بیشترعازمین اپنے محدود بجٹ کو دیکھتے ہوئے حج کمیٹی سے جانے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ پرائیویٹ آپریٹر کے بھاری بھرکم اخراجات کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی لئے حکومت، حج کوٹے کی ۷۰؍فیصد نشستیں حج کمیٹی کو مہیا کرتی ہے جن میں سے بیشتر عازمین۶۰؍ سال یا اس سے زیادہ کے ہوتے ہیں۔ حج بھی روز بروز مہنگا ہوتا جارہا ہے جس کی ایک وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ہندوستانی روپے کا کمزور ہونا ہے۔ ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ عازمین پر مزید بوجھ نہ ڈالے۔ 
سید معین الحسن انجینئر (ویمان نگر، پونے)
عازمین حج کیلئے معاون کی شرط کسی بھی طرح درست نہیں ہے 


 عازمین حج کیلئے معاون کی شرط بالکل بھی درست نہیں ہے کیونکہ ہر کوئی اس پوزیشن میں نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ معاون کو بھی لے جاسکے۔ بیشتر لوگ حج کیلئے رقم جمع کرتے کرتے اپنی عمر کے اختتام تک پہنچ جاتے ہیں۔ معاون کا ساتھ میں ہونا بھلے ہی بہتر ہو مگر جس کی اتنی مالی طاقت نہ ہو، وہ کیا کرے؟ ایسی صورت میں جو مشکل سے اتنا ہی جمع کر پاتے ہیں، جتنے میں کہ وہ خود حج پر جاسکیں، ایسے میں ان کی حج کی خواہش ادھوری ہی رہ جائے گی۔ کتنے لوگ تو اپنی پراپرٹی بیچ کر جاتے ہیں ۔ موت کی جگہ اور وقت تو ہر کسی کی متعین ہے لہٰذا معاون کی شرط کو ختم کیا جانا چاہئے۔ 
ریاض نورانی(مالیگاؤں )
سرکاری معاونین کی موجودگی میں ذاتی معاون کی کیا ضرورت؟


 عازمین حج کیلئے معاون کی شرط مناسب نہیں ہے۔ دوران حج جگہ جگہ پر سرکاری معاونین موجود ہوتے ہی ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں میں عازمین حج کی رہنمائی کرنا، جہاں ان کا قیام ہے وہاں تک حاجیوں کو پہنچانا، حرم کے باہر راستہ بھٹکنے والے حاجیوں کو راستہ دکھانا اور کھانے کے معیار کو جانچنے کی ذمہ داری بھی انہی کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو ایمرجنسی میں دواخانہ پہنچانا یا کسی طرح کی ضرورت ہو تو اس کی مدد بھی کرتے ہیں۔ حج پر جانے والوں میں سے بیشتر نئے ہوتے ہیں لہٰذا گھبراہٹ میں کچھ غلطیاں بھی کر بیٹھتے ہیں، اسلئے ان کی رہنمائی کیلئے سرکاری معاونین موجود ہوتے ہیں۔ ہم نے حج بیت اللہ سے آنے والوں سے جب معاونین کے تعلق سے دریافت کیا تو بعض نے اطمینان اور بعض نے بے اطمینانی کااظہار کیا۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حج کمیٹی اور حکومت، سرکاری معاونین کی تربیت کرے اور انہیں بتائے کہ دوران حج انہیں اپنی ذمہ داریاں کس طرح ادا کرنی ہیں۔ عازمین حج کی خدمت کے عوض انھیں مفت رہائش گاہ، کھانا اور آنے جانے کی سہولیات وغیرہ فراہم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں الاؤنس بھی دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں معاونین کی تقرری کے وقت ان سے معاہدہ بھی کیا جاتا ہوگا اور یہ بھی طے ہے کہ حج کمیٹیاں عازمین حج ہی سے ان معاونین کا ٹوٹل خرچ وصول کرتی ہوں گی۔ اب اس کے بعد بھی عازمین پر ذاتی معاون لانے کی شرط عائد کرنا کہاں کاانصاف ہے؟ حکومت اور حج کمیٹی کو چاہئے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے، ورنہ اس کی وجہ سے بہت سارے عازمین، امسال حج کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔ 
 عبدالرحمان یوسف (سبکدوش معلم، بھیونڈی)
حج کمیٹی کو اپنی شرط اور فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے


  اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں حج بھی ایک اہم رکن اور فریضہ ہے جسے زندگی میں کم سے کم ایک بار صاحب نصاب پر فرض ہے۔ اس کیلئے عازمین کو مکہ اور مدینہ کا سفر اور حرم پاک کی زیارت اور کعبہ کا طواف اور حج کے دیگر ارکان کو احسن طریقے سے انجام دینا ہوتا ہے۔ اس کے بے شمار فضائل اور اس کی بے شمار نیکیاں ہیں۔ وہ در اور چوکھٹ کی سعادت نصیب والے مسلمانوں کو ہوتی ہے۔ حج ہرسال ذی الحج کی ۱۰؍ تاریخ کو ہوتا ہے۔ اس مقام سے گزرنے کے بعد ایک عازم، حاجی ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا مرتبہ اور اس کے اوصاف اتنا بڑھ جاتا ہے کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ امسال حج کمیٹی نے عازمین حج کےلئے ۶۵؍ سال سے زائد عمر کے لئے ایک معاون کی جو شرط عائد کی ہے وہ سماج کے درمیانہ اور غریب طبقے کے لئے ان کی استطاعت کے قدرے مشکل اور دشوار گزار ہے۔ ایک معاون کا تقر یباً ۴؍ لاکھ کا مزید بار اس کے ناتواں کاندھا اٹھانے سے معذور اور قرض کی صورت میں اس اہم فریضے کا انجام دینا بھی درست نہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ۶۵؍سال کی عمر میں جسمانی اعضاء خصوصی طور سے ہاتھ اور پیر توانائی اور طاقت سے قدرے کمزور ہو جاتے ہیں مگر ایسے کمزور اور ناتواں عازمین کے لئےسعودی حکومت نے طواف اور حج کے دیگر ارکان کی ادائیگی کے لئے وہیل چیئر وغیرہ کی سہولیات فراہم کر رکھی ہے لہٰذا ۶۵؍ سال سے زائد ایک ایک معاون کو ساتھ لے جانے کی شرط نظر ثانی کی متقاضی ہے۔ اس شرط کی وجہ سے غریب اور درمیانہ طبقے کے ہزاروں عازمین، حج جیسے اہم فریضے کی ادائیگی سے محروم رہ جائیں گے لہٰذا حج کمیٹی کو اپنی شرط اور فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ 
انصاری محمد صادق (حسنہ عبدالملک مدعو ویمنس ڈگری کالج، کلیان)
عازمین حج پر عائد کی گئی شرط مناسب نہیں 


حج کیلئے عازمین پر معاون کی شرط لازمی کرنا سراسر غلط اور زیادتی ہے۔ اس شرط کی وجہ سے بہت سارے عازمین، حج پر جانے اور بیت اللہ کے دیدار سے محروم رہ جائیں گے کیونکہ ہر کسی کیلئے معاون کا انتظام کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ بزرگ عازمین جو مالدار ہوں گے، وہ اپنے ’کور‘ میں اپنے اہل خانہ کے دوسرے افراد کو شامل کرکے دوسروں کا راستہ روکنے کا سبب بھی بنیں گے۔ حج بیت اللہ پر جانے کی خواہش ہر مسلمان کو ہوتی ہے اور جو لوگ صاحب نصاب ہیں ، ان پر تو جانا فرض بھی ہے۔ اسلئے عازمین کے مفاد میں حج کمیٹی کو چاہئے کہ وہ اس شرط کو فوری طور پر ختم کردے۔ 
محمد خالد انصاری (کرلا)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK