• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنڈے اسپیشل : پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے کردار سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟

Updated: July 21, 2024, 4:20 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

A new atmosphere has been created in the country due to the aggressive behavior of the opposition leaders in the Parliament. Photo: INN
پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈروں کے جارحانہ تیور سے ملک میں ایک نئی آس پیدا ہوئی ہے۔ تصویر : آئی این این

یہ اسی طرح عوام کی آواز بن کر گونجتے رہیں 


اپوزیشن کی کارکردگی فی الحال ٹھیک ہے۔ اصل مسئلہ پانچ سال تک اس تیورکو برقرار رکھنے کا ہوگا۔ حکمراں طبقہ اپوزیشن کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑرہا ہے، لیکن اپوزیشن نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دے کر حکمران جماعت کو پریشان کردیا ہے۔ ہم اپوزیشن کے کردار کو مثبت نظرسے دیکھ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آئندہ پانچ سال تک یہ اسی طرح عوام کی آواز بن کر گونجیں۔ 
مرتضیٰ خان، نیا نگر، میرا روڈ، تھانہ
اپوزیشن کاکھل کر بولنا خوش آئند ہے 


اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں عوامی موضوعات اور مسائل پر کھل کر بحث کی ہے۔ بحیثیت قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے ان تمام حساس باتوں کو بڑی بے باکی سے بیان کیا ہے، جن پر حکمراں جماعت اپنی اجارہ داری سمجھتی تھی اور دوسری پارٹیوں کو ڈراتی تھی۔ مثلاً‌ مذہبی سیاست اور منہ بھرائی کی سیاست کا پروپیگنڈہ کرنا۔ میری نظر میں یہ وہ دو حساس موضوع تھے جن پر بی جے پی پوری طرح قابض تھی، ہر عوامی مو ضوعات کو مذہبی رنگ دینا اور اقلیتی حقوق پر بات کرنے والوں کو ہندو مخالف باور کرانا‌، اس کا سیاسی ہتھیار تھا۔ اس کی وجہ سے حالات ایسے ہو گئے تھے کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کا نام لینے سے بچنے لگی تھیں۔ ایسے میں راہل گاندھی اور اپوزیشن کے دیگر لیڈروں کاان موضوعات پر کھل کر بولنا خوش آئند ہے۔ 
سعیدالرحمان محمد رفیق، گرین پارک، شیل، ممبرا
برسوں بعد ایسا دیکھنے اور سننے کو ملا


  لوک سبھا کے پہلے اجلاس میں برسوں بعد ایسا دیکھنے اور سننے کو ملا کہ اکثر اراکین پارلیمان نے اشاروں کنایوں اور بعض نے کھل کر مسلمانوں کے مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ بعض اراکین نے حکمراں محاذ کو ملک میں مسلمانوں کی تاریخ بھی بتائی۔ اسی طرح ماب لنچنگ، بےروزگاری، پیپرلیک، مہنگائی اورتعلیم کے مسائل جیسے مختلف موضوعات کو بھی بہت اچھے طریقے سے پیش کیا۔ امید ہے کہ اگر مستقبل میں بھی اسی طرح کے مسائل کو انڈیا اتحاد کے اراکین اُٹھاتے رہے تو ملک میں پائی جانے والی جارحانہ فرقہ پرستی، انارکی، مسلم منافرت اور ہندو مسلم کشمکش سے کچھ حد تک نجات مل سکے گی۔ 
حافظ افتخاراحمدقادری، استاذ مرکز العلوم الاسلامیہ، پورن پور، یوپی
راہل گاندھی کا نیا اور بیباک انداز
اپوزیشن لیڈر کے طور پر راہل گاندھی کا ایک نیا اور بیباک انداز دیکھنے کو ملا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس بار انہوں نے عوامی توقعات پر پورا اُترنے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ ان کے انداز اور اعتماد میں حیرت انگیز طور پر تبدیلی آئی ہے۔ ان کے ساتھ ہی اپوزیشن کے دوسرے لیڈروں نےبھی عوامی موضوعات پر کھل کر اظہار کیا ہے۔ ایسے میں بس یہی خواہش ہے آنے والا وقت ملک کیلئے اچھا ہو۔ 
ڈاکٹر فیصل، نئی دہلی
 اپوزیشن نے دلائل کے ساتھ باتیں کیں 


 گزشتہ ایک دہائی سے جمہوریت کا مندر قرار دیئے جانے والے پارلیمنٹ میں اپوزیشن برائے نام تھا۔ اقتدار کی کرسی پر براجمان افراد حزب اختلاف کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ انہیں لوک سبھا سے معطل کر کے نہایت غیر مناسب فیصلے کئے گئے جن سے عوام کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مہنگائی آسمان چھونے لگی۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ اقلیتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے انگنت واقعات رونما ہوئے۔ ہجومی تشدد زور پکڑتا رہا اور بلڈوزر کا راج چلا۔ بھلا ہو’ انڈیا‘ اتحاد کا کہ اس نے وقت رہتے ایک اہم فیصلہ کیا اور تمام پارٹیوں کو یکجا کیا۔ نتیجہ مثبت نکلا۔ مرکز میں بھلے ہی انڈیا اتحاد، حکومت بنا نہیں سکی لیکن ایک مضبوط اور منظم اپوزیشن ضرور قائم ہوئی۔ اس کا نظارہ لوک سبھا کے پہلے ہی اجلاس میں دیکھنے کو ملا۔ اتنا طے ہے کہ اب مرکزی حکومت کے پہلے جیسے تیور نہیں رہیں گے۔ آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ہی ایوانوں میں اہم بات یہ رہی کہ اپوزیشن لیڈروں نے دلائل کے ساتھ باتیں کیں۔ 
آصف شاہ ہدوی، دار الہدیٰ مہاراشٹر سینٹر، وڈولی پال گھر
بی جے پی کیلئے یہ سخت آزمائشی دور ہوگا

بحیثیت اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹ میں راہل گاندھی کی پہلی دھواں دار تقریر سے حکمراں ٹولہ ششدر رہ گیا۔ راہل گاندھی کوپپو کہہ کر پکارنے والا ٹولہ اب ان کی تقریر پر ڈیبیٹ کرنے پر مجبور ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوک سبھا میں اب حکومت کی بالا دستی کا دور ختم ہو چکا ہے جو گزشتہ۱۰؍ برسوں سے جاری تھا۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنی پہلی تقریر میں راہل گاندھی نے نیٹ پیپر لیک، منی پور میں تشدد اور ملک میں نفرت انگیزی پر قابو پانے میں ناکامی کیلئے مودی سرکار پر جارحانہ حملہ کیا ہے۔ راہل کے علاوہ اپوزیشن کے دیگر لیڈروں نے بھی سرکار کو مختلف ملکی مسائل پر نشانہ بنایا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکمراں بی جے پی کیلئے یہ سخت آزمائشی دور ہوگا۔ 
سید معین الحسن انجینئر، ویمان نگر، پونے
 اپوزیشن کو نظرانداز کرنا اب آسان نہیں ہوگا


 صدر جمہوریہ کے خطاب پر بحث کے دوران یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اب اپوزیشن کو نظرانداز کرنا سرکار کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ حالانکہ نیٹ امتحان کی بدعنوانی پر بحث کے مطالبے پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی، اس کے باوجود اپوزیشن نے سرکار کی ناک میں دم کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ سرکار کا گزشتہ ایک دہائی کا واضح اکثریت کا زعم ابھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے لیکن اپوزیشن کی طاقت کو وہ نظر انداز بھی نہیں کرسکتی۔ جہاں تک اپوزیشن کی کارکردگی کی بات ہے، بھلے ہی اس کے اراکین بہت جارح نظر آ رہے ہوں لیکن سچائی یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کو جس دیانت داری کے ساتھ سرکار سے بات کرنی چاہئے تھی، وہ نظر نہیں آئی۔ راہل گاندھی اور اکھلیش یادو نے مسلمانوں کے حوالے سے ایک بات بھی کھل کر نہیں کہی۔ اسدالدین اویسی اور چندر شیکھر نے ضرور ایک حد تک مسلم مسائل پر بات کی لیکن اپوزیشن نے متحدہ طور پر مسلمانوں کے تعلق سے کوئی بات کہنے میں کسی سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کیا۔ 
شکیل مصطفیٰ، مالیگاؤں 
حکومت کو مربوط اور مضبوط اپوزیشن کا سامنا
 اپوزیشن نے طویل جدو جہد کے بعد آپس میں باہمی ربط اور حکومت کے آمرانہ طرزِ عمل کے خلاف بہترین ہم آہنگی پیدا نے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈروں کی تقاریر کے دوران دیکھنے کو ملا ہے۔ اس دوران نیٹ پیپر لیک، بے روز گاری، اگنی ویر، مہنگائی، ہجومی تشدد اور نفرت انگیزی کے سلگتے ہوئے مسائل کے ساتھ اقلیتوں اوردلتوں پر ڈھائے جا نے والے مظالم اور ہندو تو اکے نام پر مُلک کے ماحول کو زہر آلود کرنے کا معاملے پر باتیں ہوئیں۔ ویسے مودی کو اس بار مضبوط ہی نہیں ایک مربوط اور منظم اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 
محمد معتصم باللہ، بودھ گیا، بہار
اپوزیشن سے امیدیں بڑھ گئی ہیں 
 موجودہ وقت میں ملک کے عوام اور نوجوان اپوزیشن لیڈروں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ صدر کی تقریر پر پارلیمنٹ میں شکریہ کی تحریک کے دوران اپوزیشن لیڈروں نے جس انداز میں وزیراعظم مودی اوران کی سرکار کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے، اس کی وجہ سے امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ ابھی یہ تو شروعات ہے آنے والے دنوں میں بجٹ سیشن کے دوران اور بھی ٹھوس بحث و مباحثہ دیکھنے کو ملے گا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن اپنی حکمت عملی سے حکومت کو من مانی نہیں کرنے دے گا۔ 
ڈاکٹر محمد سہیل لاری، کوپا گنج، مئو، یوپی
یہ جمہوریت کی واپسی کی علامت ہے


 اپوزیشن کے تمام ہی لیڈران خواہ پہلی بار لوک سبھا پہنچے ہوں، جیسے ڈاکٹر شوبھاتاتی اور چندر شیکھر یا سینئر لیڈران جیسے راہل گاندھی اور سپریہ سلے وغیرہ، ان کی تقریروں اور بے لاگ تبصروں سے یہ بات عیاں اور صاف ظاہر ہورہی ہے کہ اب اپوزیشن کے لیڈران اپنی باتوں اور اپنے موضوعات پر حکومت کو باتیں کرنے پر مجبور کرے گا۔ یہ ایک اچھی علامت ہے، جمہوریت کی واپسی کی اور ایک نئے دور اور نئی صبح کے آغاز کی۔ اس کیلئے راہل گاندھی اوران کے تمام ساتھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ملک میں جمہوری نظام کو واپس لانے کا سہرا اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے سر بندھتا ہے جنہوں نے کنیا کماری سےکشمیر تک’بھارت جوڑو یاترا‘ کرکے ملک میں ایک ایسا ماحول بنایا جس میں خوف اور دہشت کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ 
ہاشمی ابوالاعلیٰ، نیا پورہ، مالیگاؤں 
لوک سبھا میں اپوزیشن دیر آید درست آید


 جمہوریت بغیر اپوزیشن بے جان ہے۔ وہ ڈیموکریسی نہیں بلکہ موبوکریسی بن جاتی ہے۔ الحمدللہ وطن عزیز میں ۱۹۵۲ء کے پہلے جنرل الیکشن کے بعد ہی سے اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں ایک مثبت رول ادا کیا ہے۔ پنڈت نہرو سے لے کر مرارجی، اندرا گاندھی، راجیوگاندھی، اٹل بہاری واجپئی اور منموہن سنگھ سرکار تک تمامی حکومتوں نے اپوزیشن کو باوقار مقام عطا کیا تھا، لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ 
  اقتدار کے نشے میں خود مختار جمہوری اداروں کا کچھ طرح سے استعمال ہوا کہ ایمرجنسی بھی ان کے سامنے پھیکی لگنے لگی۔ اپوزیشن جماعتیں بھی سڑکوں پر اُترنے کے بجائے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سیاست کرنے لگیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ’’اگر سڑکیں سنسان ہوجائیں تو سنسد آوارہ ہوجاتی ہے ‘‘۔ یقیناً پارلیمنٹ گزشتہ برسوں سے بے سمت نظر آئی۔ اگر پارلیمنٹ میں کسی نے آواز اٹھائی بھی تو یا تو اس کا تمسخر کیا گیا یا ’خودمختار‘ ایجنسیوں نے ان کی دہلیز پر دستک دی لیکن اس جنرل الیکشن میں جو رول اقلیتوں اور پسماندہ طبقات نے ادا کیا وہ قابل تعریف ہے۔ اس کا اثر ملک کی نئی لوک سبھا میں دیکھنے کو ملا۔ حضرت شیح سعدیؒ نے کیا خوب کہا ہے ’’ اگر چڑیوں میں بھی اتحاد ہوجائے تو وہ بھی شیر کی کھال اتار سکتی ہیں۔ ‘‘
  ایوان زیریں ہو یا ایوان بالا اپوزیشن نے یقیناً اپنا کردار بخوبی ادا کیا۔ راہل گاندھی کی ۹۰؍ منٹ کی تقریر کو وقت کا مورخ یقیناً ہیرے جواہرات سے سجا کر قلمبند کرنے پر مجبور ہوگا، بہت ہی بیلینسڈ، غیر جذباتی تمام فرقوں اور مذاہب کے ساتھ انصاف کرنے والی بے باک مدلل اور بڑی ہی جاندار تقریربرسوں بعد گاندھی خاندان کے چشم چراغ کے منہ سے سننے کو ملی، دل خوش ہوا، ساتھ ہی مہوا موئرا، اکھلیش یادو، اسدالدین اویسی، چندر شیکھر آزاد، عمران مسعود اور راگھوچڈھانے بھی اپنے ترکش سے خوب تیر برسائے۔ ایوان بالا میں کانگریس کے صدرکھرگے جی نے بھی نہایت سلجھے اور خوبصورت انداز میں حکومت پر ژالہ باری کی۔ اپنےمعنی خیز اشعار کے موتیوں سے عمران پرتاپ گڑھی کی تقریر نے ایوان بالا کی چولیں ہلاکر رکھ دیں۔ منوج کمار جھا اور سنجے سنگھ بھی خوب بولے۔ اپوزیشن کے یہ دس بارہ چہرے برسراقتدار گروپ کونیند میں بھی یقیناً ستاتے رہیں گے۔ یہ نیا سیاسی منظر نامہ نہ صرف ملک کے مفاد میں ہے اور ہمارے لئے بھی باعث اطمینان بخش ہے۔ 
عبدالحمید افضل (ڈائریکٹر سول سروسز اکیڈمی، ناسک )
حکومت کوجواب دینے پر مجبور ہونا پڑا


 پارلیمنٹ میں اس بار جو کچھ ہوا، اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے شاید سوچا بھی نہیں ہوگا۔ راہل گاندھی نے نہایت منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح اپنی باتیں رکھیں۔ برسوں بعددیکھا گیا کہ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کے مسائل اٹھائے گئے اور حکومت کو کئی معاملات پر جواب دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ گزشتہ ایک دہائی سے مودی حکومت من مانے ڈھنگ سے سرکار چلاتی آئی تھی، لیکن اس بار اسے جوابدہی کا سامنا کرنا پڑا۔ راہل گاندھی نے بلند بانگ آواز میں بی جے پی اور آر ایس ایس کو انہیں کے انداز میں گھیرا۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ یہ بی جے پی اور آر ایس ایس ہی ہندو نہیں ہیں۔ راہل گاندھی نے تمام مذاہب کی علامتوں کے ساتھ اپنی باتیں کہیں۔ انہوں نے ہندو مذہب کے ساتھ ہی ہمارے پیغمبر ؐ کی بات بھی کی اور بدھ، سکھ دھرم کا بھی حوالہ دیا۔ اس کے ساتھ ہی راہل گاندھی نے روزگار کی بات کی، اگنی ویر اور غریبی پر بات کی۔ اچھی بات یہ تھی کہ وہ جو کچھ کہہ رہے تھے، پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہے تھے۔ 
اشتیاق کامل، ناصر گنج، روہتاس، بہار
اپوزیشن کا کردار اطمینان بخش ہی نہیں، منظم اور شاندار رہا


پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران دونوں ایوانوں میں حزبِ اختلاف نے حکومت کو گھیرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ راہل گاندھی، مہوا موئترا، ملکارجن کھرگے، منوج جھا، گورو گوگوئی، سنجے سنگھ، اکھلیش یادو، کلیان بنرجی اور چندرشیکھر آزاد وغيره نے مہنگائی، بے روزگاری، نیٹ پیپر لیک، اگنی ویر، ماب لنچنگ، فرقہ واریت اور سرکاری ایجنسیوں کے بیجا استعمال کے حوالے سے حکومت کی بہترین گرفت کی۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر راہل گاندھی نے پہلی ہی تقریر سے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ پارلیمانی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانبداری کےخلاف اپوزیشن اتحاد کے تقریباًسبھی ممبران نے پوری توانائی کے ساتھ آوازبلند کی۔ ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں حزبِ اختلاف کے لیڈران کی تقاریر کا عمیق تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن نے حزبِ اقتدار کے پروپگنڈے کا پردہ فاش کرنے کا پکا ارادہ کر لیا تھا اور اس کی پوری تیاری نظرآ ئی، حتىٰ کہ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کو بھی نہیں بخشا گیا۔ راہل گاندھی نے یہ کہہ کر کہ وہ مودی سے ہاتھ ملاتے وقت ’جھک‘ جاتے ہیں، اپنی بے باکی کا بھرپور ثبوت دیا۔ 
افتخار احمد اعظمی، سابق مدیر ’ضیاء‘، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
اپوزیشن کے استحکام نے جمہوریت کو مضبوط کیا
 پارلیمانی سیشن میں اپوزیشن نے جس انداز سے مختلف مسائل کو اٹھایا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ نے ہاتھوں میں آئین کی کاپیاں لے کر حلف اٹھایا اور حکمراں جماعت کو واضح پیغام دیا کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہونی چاہئے۔ اس بار اپوزیشن زیادہ طاقتور بن کر ابھری ہے اور اس کے ساتھ ہی ملک کو دس سال بعد لیڈر آف اپوزیشن ملا ہے۔ راہل گاندھی کی لوک سبھا میں کی گئی پہلی تقریر نے ملک کے انصاف پسند حلقوں میں امید جگا دی ہے کہ شاید اب ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگنا آسان نہیں ہوگا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کا نام بھی لیا۔ بدعنوانیوں اور پیپر لیک جیسے حساس موضوع کو بھی اٹھایا اور اگنی ویر اسکیم پر سرکار کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی جھوٹ نفرت اور ڈر کی سیاست کی پول کھول دی۔ اسی طرح چندر شیکھر آزاد نے بھی کھل کر موب لنچنگ، سماجی تقسیم، ناانصافی، دلتوں ، مسلمانوں اور پچھڑوں کے حقوق کی پامالی جیسے موضوعات پر سرکار کو گھیرا۔ ٹی ایم سی ممبر پارلیمنٹ مہوا موئترا بھی اپنی سابقہ روش پر قائم نظر آئیں اور جارحانہ انداز میں حکومت کو آئینہ دکھایا۔ 
عائشہ بینش، اعظم گڑھ
عوام کی بیداری نے اپوزیشن کو بیدار کردیا ہے


 میری رائے میں حالیہ اجلاس میں اپوزیشن کا رول اطمینان بخش رہا  ہے مگر اس کیلئے صرف سیاسی جماعتوں کو کریڈٹ نہیں دی جاسکتی۔ سچائی یہ ہے کہ عوام کی بیداری نے انہیں بیدار کیا ہے۔ خاص طور سے پچھڑوں اور اقلیتوں نے ہوا کا رخ موڑنے میں نمایاں رول نبھایا ہے۔ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے چہرے گواہی دے رہے ہیں کہ ’’بہت آساں نہیں اب تاناشاہ ہونا‘‘۔ اپوزیشن کو اب مزید عملی نمونہ پیش وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 
ذاکر حسین مومن، تھانہ روڈ، بھیونڈی
حکومت اب من مانی نہیں کرسکے گی


اپوزیشن لیڈر کی کرسی سنبھالنے والے راہل گاندھی نے اپنی پہلی ہی تقریر سے حزب اقتدار کو پریشان کردیا اور انہیں بغلیں جھانکنے پر مجبور کردیا۔ یہاں تک کہ بیچ ہی میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو دو مرتبہ کھڑے ہوکر دخل اندازی کرنی پڑی۔ دس سال بعد پہلی دفعہ ایسا منظر دیکھنے کو ملا ہے جو جمہوریت کیلئے خوش آئند ہے۔ پچھلے ۱۰؍ برسوں سے حزب اختلاف کو تحقیر نگاہوں سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس دوران بدھوڑی جیسے بدزبان اراکین کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہی لیکن اس مرتبہ اپوزیشن نے اپنے رخ سے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اب وہ سب نہیں چلے گا اور حکومت کو من مانی نہیں کرنے دی جائے گی۔ 
غلام سرور، کھگڑیا، بہار
 اپوزیشن کی کارکردگی ’سو سُنار کی، ایک لوہار کی‘طرح رہی
 اس بار اپوزیشن لیڈروں نے وزیراعظم مودی کو فرسٹ کلاس اے سی والے ایوان میں بھی پسینہ پسینہ کردیا۔ من مانی کرنا تو دور کی بات ہے، زیادہ جملے بازی بھی اب ان کیلئے گلے کی پھانس بن جائے گی۔ راہل گاندھی، مودی کے سامنے ’سوسُنار کی ایک لوہار کی‘ والے ہتھوڑے کا استعمال کیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آئندہ اجلاس میں بھی اپوزیشن کے لیڈران اسی طرح متحد ہوکر عوامی مسائل پر اپنی آواز بلند کریں گے اور حکومت کو جوابدہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ 
شکیل احمد انصاری، امام گنج، مئوناتھ بھنجن مئو، یوپی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK