Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

قاری نامہ: ہمارے بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری کے اہتمام میں کیا فرق ہے؟

Updated: March 23, 2025, 3:48 PM IST | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

Now, iftar is sent to mosques from only a few homes. Photo: INN.
اب چند ہی گھروں سے مساجد میں افطاری بھجوائی جاتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

سادگی پیچھے رہ گئی، نمائش بڑھ گئی


بچپن میں افطاری کے وقت ایک روحانیت کا احساس ہوتا تھا۔ پکوان بھلے ہی کم ہوتے تھے لیکن اطمینان زیادہ تھا۔ آج انواع اقسام کے پکوان ہیں، پھل ہیں لیکن روحانیت کا احساس کم ہو گیا ہے۔ اسکی وجہ ہمارا مادیت کی جانب دوڑنا ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمارے احساسات کو سطحی بنا دیا ہے۔ آج ہمارے پاس وسائل زیادہ ہیں لیکن مسائل بڑھ گئے ہیں۔ سادگی کم ہے اور نمائش زیادہ ہو گئی ہے۔ نئے دور کی افطاری بہت الگ ہے۔ آج کی افطاری میں مختلف پکوان اورمشروبات مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ سوشل میڈیا ہر دن کسی نئے پکوان کی معلومات فراہم کرتا ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ آج کی افطاری کا دستر خوان مختلف رنگوں اور بہترین طریقہ سے سجا ہوا نظر آتا ہے۔ 
احتشام خوشتر حسین قریشی، مکتائی نگر، جلگاؤں 
اخوت، محبت اور اپنائیت والی افطاری یاد آتی ہے


بچپن میں سحری کے وقت کھیل کود، گھومنا پھرنا اورشرارت کرنا بہت یادآتا ہے۔ ہمارا بچپن ایک دیہات میں گزراہے۔ یہاں کی مسجد میں افطار کا اجتماعی نظم ہوتا تھا۔ افطاری کیلئے گھریلو پکوان جیسے کھچڑی، پلاؤ، دال چاول، سالن روٹی وغیرہ بھیجے جاتے تھے۔ ان پکوانوں کی پلیٹیں بناکرروزہ داروں میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری بزرگوں کی نگرانی میں ہم بچے کرتے تھے۔ شربت بنانے کیلئے روزانہ شکر، برف، لیمو، الگ الگ گھروں سے مانگ کربنانا بھی ایک کام تھا۔ کسی دن شربت میں روح افزاء یا رسنہ کا ذائقہ شامل ہوجاتا تو ہماری خوشی دو بالا ہوجاتی۔ افطاری کی تیاری میں محبت، بھائی چارگی، امیرغریب میں محبت، ٹیم ورک، بزرگوں کی اطاعت جیسے اوصاف پروان چڑھے۔ جمعہ کو زیادہ افطاری آنے پر سیر ہو کر افطاری کرنا اور کسی دن کم افطاری آ جائے تو چند لقموں پرقناعت کرلینا عملی طور پر سیکھنے کو ملا۔ آج کی افطاری کے دسترخوان انواع و اقسام کے پکوانوں سے بھرے ہوتے ہیں جو ہمیں بچپن میں میسر نہیں تھے۔ کالونیوں نے لوگوں میں دوری پیدا کردی ہے۔ ہو گئی ہے۔ اب لوگ اپنے اپنے گھروں میں افطاری کر لیتے ہیں جس سے انہیں ایک دوسرے کے حالات کاعلم نہیں ہوتا۔ اُس اجتماعی افطاری کی بہت یاد ستاتی ہے جس میں خلوص، محبت، ہمدردی، اخوت، بھائی چارہ، اور اپنائیت تھی۔ 
اسمٰعیل سلیمان، کرہاڈ، جلگاؤں 
مسجد کی افطاری سے چار دیواری کی افطاری تک کا سفر


جب چیزیں سستی تھیں ، ہر چیز گھر میں تیار ہوتی تھی اور اس وقت پیٹ بھر کر افطار کرتے تھے اس زمانے میں مسجد میں افطاری ہوتی تھی تاکہ باہر کے روزہ داروں کو اپنائیت کا احساس ہو مگر آج ایسا نہیں ہے۔ لوگ عصر کے بعد بازار جاتے ہیں، پسندیدہ چیزیں خریدتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں کی چار دیواری میں افطار کرلیتے ہیں۔ 
محمد جنید قاضی، اولڈ پنویل درگاہ
موسمی پھل غائب ہوگئے


وقت کے ساتھ افطاری کے طریقوں و روایات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماضی میں افطاری سادگی سے بھرپور ہوتی تھی۔ دسترخوان پر کھجور، پانی، گھر کی بنی ہوئی سادہ چیزیں جیسے بھجیا، سموسے، دہی بھلے اور شربت شامل ہوتے تھے۔ آج افطاری میں تنوع اور تکلف بڑھ گیا ہے اور مختلف قسم کے پکوان اور مشروبات دسترخوان کی زینت بنتے ہیں۔ ماضی میں افطاری کے تمام لوازمات گھروں میں تیار ہوتے تھے جو صحت بخش اور خالص ہوتے تھے۔ اب بازار میں دستیاب تیار شدہ اشیاء کا استعمال بڑھ گیا ہے جو سہولت تو فراہم کرتی ہیں لیکن ان کی غذائیت اور صفائی پر سوال اٹھتے ہیں۔ ماضی میں موسمی پھل افطاری کا حصہ بنتے تھے مگر اب ہر موسم میں کوئی بھی پھل دستیاب ہے۔ 
محمد شاہد، مجگاوں 
روزہ کھولو، بتی جل گئی

بچپن کا رمضان یادگار ہوتا ہے۔ افطار کے وقت ہم بچے مسجد کے ارد گرد جمع ہوتے اور جیسے ہی مغرب کی اذان ہوتی سارے بچے یہ کہتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگتے روزہ کھولو، روزہ کھولو بتی جلی، پھر دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے۔ اُس وقت اتنی آسائشیں اور آسانیاں نہیں تھیں۔ دسترخوان پر کم اشیاء ہوتی تھیں۔ آج کا دسترخوان بہت وسیع اور کشادہ ہوتا ہے۔ طرح طرح کے پکوان اور قسم قسم کے پھل ہوتے ہیں ۔ اب ہمارا بچپن صرف یادوں کے سہارے ہے۔ بچپن میں بزرگوں کا پیار ان کی محبتیں ان عنایتیں سب خواب و خیال بن گئے ہیں۔ اس وقت بڑوں کا احترام، آپسی بھائی چارہ، ہمدردی اور پڑوسی کی خیرخواہی کی ترغیب دی جاتی تھی مگر اب وہ ماحول ہے نہ سادگی، نہ اخوت و محبت ہے اور نہ صبر و تحمل۔ ہر طرف خود غرضی، مفاد پرستی، عدم توجہی اور عدم فرصت کی کیفیت سی ہے۔ 
مولانا نظیف عالم صدیقی قاسمی، بیلاپور، نوی ممبئی
بڑا سکون تھا بچپن کے روزوں میں 


افطار، یہی وہ لفظ ہے جس کیلئے روزے کی صحیح اہمیت محسوس ہوتی ہے۔ سحری تو آنکھوں میں نیند لئے اور بڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے جیسے تیسے ہوجاتی لیکن افطار کا اہتمام جاگتی آنکھوں سے ہوتا تھا۔ ایسا لگتا کوئی معرکہ سر کرنے کی تیاری ہورہی ہو۔ سحری بڑوں کی ضِد سے کی جاتی لیکن افطار بڑوں سے ضِد کرکے اپنی پسند کی چیزوں کو شامل کرواکر کی جاتی۔ گھر کے بڑے اس ڈر سے کہ کہیں روزہ نہ توڑ بیٹھیں، جاسوسی میں لگے رہتے۔ گھر اور بازار کی رونق دیکھنے لائق ہوتی۔ افطار کے لوازمات سے فضاء معطر رہتی تھی۔ اب افطار کی چہل پہل کہاں بس جو وقت ملا غنیمت جان کر افطاری کے سامان خرید لیتے ہیں اور پھر جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر افطار کرلیتے ہیں۔ 
محمد سلمان شیخ، تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی
بھرا پُرا دستر خوان بھی خالی محسوس ہوتا ہے


بچپن میں مسجد کے اطراف کے ہر گھر سے افطاری کا کچھ نہ کچھ سامان ضرور آتا تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ محلے کے دکاندار بھی خالی ہاتھ آتے ہیں۔ گھروں سے افطاری آنا بند ہوگئی ہے۔ اُس دور میں مسجد کے باہر کھڑے بچوں اور غریبوں میں افطاری میں چنے کی گھنگھنی بانٹی جاتی تھی مگر آج کچھ نہیں دیا جاتا ہے۔ جب دسترخوانوں پر مٹر اور چنے کی گھنگھنی ہوتی تو افطاری میں لطف آتا تھا مگر اب دستر خوان رنگوں اور مختلف پکوانوں سے سجے ہوتے ہیں مگر پھر بھی کمی محسوس ہوتی ہے۔ 
ابو مصعب عادل ندوی، چکھلی، پونے
بچپن کی افطاری کی کمی محسوس ہوتی ہے


بچپن میں افطاری کے دستر خوان پر ہم سب پہلے مل کر دعا کرتے تھے۔ زیادہ چیزیں نہیں ہوتی تھیں۔ چند پھل ہوتے تھے۔ آس پڑوس کا بھی یہی حال تھا۔ افطاری میں کھانے پینے کی جو اشیاء آج کے دسترخوان پر ہوتی ہیں، ان کے بارے میں تو بچپن میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اُس دور میں شاذ و نادر شربت بنتا تھا، وہ بھی لیموں کا۔ آج کی افطاری میں ایسے ایسے ویج نان ویج پکوان ہوتے ہیں جنہیں ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ لیکن آج ہر چیز دسترس میں ہونے کے باوجود بچپن کی افطاری کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ آج کے نقلی اور ملاوٹی کھانے پینے کی چیزوں میں لطف نہیں ہے۔ 
عبدالرحمٰن یوسف، بھیونڈی
افطاری کا دستر خوان بدلا، صحت خراب ہونے لگی


فی الحال میری عمر ۷۹؍ سال ہے۔ آج بھی یاد ہے کہ اس زمانے میں نماز عصر کے بعد گھریلو پکوان بنتے تھے۔ اس وقت مینارہ مسجد کے پاس حاجی علی جلال اور مرحوم غفور کلن کی دکان پر ۲؍ روپے کے مالپوہ کیلئے ہجوم امڈ پڑتا تھا۔ گھریلو عورتیں باہر کی تلی ہوئی اشیاء کھانے منع کرتی تھیں کہ ان سے صحت خراب ہوگی۔ مگر آج تقریباً ہر چیز باہر سے آتی ہے۔ پہلے دادی مرحومہ اذان سے قبل ایک تھال میں مختلف اشیاء سجا کر پڑوسیوں کیلئے روانہ کرتی تھیں۔ مسجد کے خادم سحری جگانے آتے تھے۔ دادی انہیں بھی کھانے پینے کی اشیاء دیتی تھیں۔ اس وقت کے بچے بھی تندرست اور توانا ہوتے تھے مگر آج ہم پیسوں سے زہر خرید رہے ہیں اور اپنے بچوں کی صحت تباہ کررہے ہیں۔ 
محمد زبیر فطرت، سابق آکٹرائے انسپکٹر بی ایم سی، ممبئی 
رمضان سے پہلے راشن بھروا لیا جاتا تھا


 پہلے رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے والدہ مٹر، چنا، اور آٹا وغیرہ خریدنے کیلئے کہتیں جو پورا مہینہ کافی پڑتا تھا۔ افطاری کا سارا سامان گھر میں تیار ہوتا تھا مگر آج امیر کیا غریب کیا، سبھی باہر کی افطاری کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ پیزا، برگر، سموسے، اور تیل میں تلی جانے والی دیگر اشیاء میں اتنا شوگر ہوتا ہے کہ یہ بچوں کو اندر سے کھوکھلا کررہا ہے مگر ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔ ہم ایسے پکوان کھانے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ ان پکوانوں کے ذریعے ہم مختلف بیماریوں کو گلے لگارہے ہیں۔ 
شکیل پٹھان، اولڈ پنویل
گھر کے بڑے ہال میں بڑے دسترخوان کی یادیں 


۲۱؍ ویں صدی کی شروعات ہی سے فرق واضح نظر آنے لگا ہے۔ اس وقت افطاری کا اہتمام ظہر بعد سے شروع ہو جاتا تھا کیونکہ ہمارا پورا خاندان ایک ساتھ رہتا تھا جس میں تقریباً ۵۰؍ سے زائد افراد شامل تھے۔ گھر کی سبھی خواتین، ساس، بہو، نند، بھاوج مل جل کر کام کرتی تھیں۔ گھر کے بڑے ہال میں بڑا سا دسترخوان بچھایا جاتا اور سب مل کر افطاری کرتے تھے۔ سرپرست کے طور پر دادا جان دعا پڑھاتے تھے اور ہم سب بیک آواز آمین کہتے تھے۔ بہت روحانی سا ماحول تھا۔ آج کی افطاری میں دسترخوان چھوٹے ہوگئے ہیں۔ بیشتر خاندان نیوکلیئر ہوگئے ہیں۔ باورچی کھانے میں پکوان کم بنتے ہیں، باہر سے زیادہ منگوائے جاتے ہیں۔ 
عمران عمر سر، شیدا اردو ہائی اسکول، مالیگاؤں 
وقت بدلا قدریں بدل گئیں 


یہ اٹل حقیقت ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز مستقل ہے تو وہ تبدیلی کا عمل ہے۔ ہر بدلتے دور میں انسانی قدروں میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن کی افطاری چند پھلوں اور گھر میں بنے بھجئے اور زیادہ سے زیادہ چنے اور سموسے پر مبنی ہوتی تھی۔ شربت کے نام پر کبھی کبھار لیموں، رسنا یا روح افزا دسترخوان پر موجود ہوتے تھے۔ موجودہ دور نے گھروں میں بننے والی اشیاء کو بازار سے خریدی جانے والی اشیاء سے بدل دیا ہے۔ پھلوں سے لیکر دیگر تمام لوازمات بازار میں دستیاب ہیں۔ عربی، ترکش ڈشوں کے نام پر چکن، چیز، کرسپی وغیرہ اس نسل کی ترجیح اور پسند ہیں۔ اب گھروں میں خال خال ہی اشیاء تیار کرنے کاچلن ہے۔ عمارتوں اور فلیٹ سسٹم نے افطار کےوقت محلوں کی کیفیت کو بدل دیا ہے۔ موبائل نے لوگوں کو موذن کی صدا اور افطار سے قبل کی روحانیت سے بیگانہ کردیا ہے۔ بدلتے وقت نے انسانی اقدار اور تہواروں کی روحانیت کوکم کردیاہے۔ 
مومن فہیم احمدعبدالباری، بھیونڈی
اب پڑوسیوں کی خبر نہیں 
بچپن میں جوائنٹ فیملی کا رواج تھا۔ گھر کی ساری خواتین مل کر افطاری کیلئے انواع و اقسام کے پکوان تیار کرتی تھیں اور پوری فیملی ساتھ مل کر افطار سے لطف اندوز ہوتی تھی جس سے افطار کی رونق دوبالا ہوجاتی تھی۔ مگر اب نیوکلیئر فیملی سسٹم عام ہے اور دسترخوان کی زینت بڑھانے کیلئے کئی طرح کے فوڈ اپپس ہیں جو منٹوں میں آپ کی پسندیدہ ڈش آپ کے سامنے حاضر کر دیتے ہیں۔ یہ کھانے لذیذ تو ہوتے ہیں مگر ان میں گھر میں بنائے گئے پکوان سی محبت اور جذبہ نہیں ہوتا۔ بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری کے اہتمام میں بنیادی فرق اخلاقیات کا ہے۔ کل تک ہم مساجد میں بھاگ بھاگ کر جاتے تھے کہ کوئی ضرورتمند یا مسافر تو نہیں ہے، اگر ہوتا تو اسے اپنے ساتھ افطاری میں شامل کرتے اور اس میں بچوں کا اہم رول ہوتا جنہیں افطاری تقسیم کرنےمیں بہت لطف آتا تھا۔ وہ آج کے بچوں کی طرح شرماتے نہیں تھے لیکن زمانہ بدلا تو افطار کے اہتمام کا طریقہ بھی بدلا۔ آج یہ عالم ہے کی ہمیں اپنے پڑوسی کی بھی خبر نہیں ہے۔ 
رضوان قاضی، کوسہ، ممبرا
متوسط طبقہ بھیڑ چال کا حصہ بن گیا


اب انسانی زندگی کے معمولات شب وروز اور رنگ ڈھنگ سبھی بدل گئے ہیں۔ زمانے کے ساتھ اس ماہ مقدس سے وابستہ ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی کی بہت سی اطوار میں بھی فرق آگیا ہے۔ بچپن میں مساجد میں روزہ داروں کیلئے گھروں سے افطار بھیجنے کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا جو بچے لے جاتے تھے تاکہ ان میں رمضان کے اکرام اور نفاق کا جذبہ پیدا ہو۔ بچپن کی افطاری میں سموسے، پکوڑے، چنا اور ایک دو پھل وغیرہ دستر خوان کے لوازمات تھے۔ مشروب میں لیمو چینی کا شربت، زیرہ چینی کا شربت یا پھر روح افزاء۔ آج کی افطاری میں دسترخوان انواع واقسام کے لوازمات جن میں سے بیشتر باہر کے ہوتے ہیں، بھرے پڑے رہتے ہیں۔ اب تو روزے سے قبل ہی فریج کولڈ ڈرنکس اور جوس وغیرہ سے بھر جاتے ہیں۔ آج دولت کے اظہار کے طریقے کیلئے معاشرے کا متوسط طبقہ بھی اسی بھیڑ چال والی افطاری کا شکار نظر آتا ہے۔ 
ایم پرویز عالم نور محمد، رفیع گنج، بہار
اس ہفتے کا عنوان
رمضان المبارک کے معمولات میں افطار اور سحری کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ بالخصوص افطار میں بچوں کی دلچسپی کافی رہتی ہے۔ اسی پس منظر میں اس بار سوال طے کیا گیا ہے کہ: 
بچپن کی عید، کچھ یادیں، کچھ باتیں 
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۳۰؍ مارچ) اور اس کے بعد کے شمارے میں شائع کی جائینگی۔ 
نوٹ: مضمون مختصر اور جامع ہو اور موضوع پر ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK