’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: November 17, 2024, 2:56 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
فرقہ پرستی کا جواب سیاسی طاقت بن کر دینا چاہئے
۲۰۱۴ء کے بعد سے ہندوستان میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فرقہ پرستی کی آگ کو بھڑکایا جا رہا ہے۔ ہماری عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے رسم و رواج پر کھلے عام تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ مسجدوں سے آنے والی اذانوں کی آواز بھی برداشت نہیں ہو پا رہی ہے۔ ان حالات میں راستہ صرف ایک ہے۔
متحد ہو کر بدل ڈالو نظام گلشن:منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو ؟
ایک زمانے سے مسلمانوں کو سیاسی طاقت بنانے کی کوشش چل رہی ہے مگر آج تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس کوشش میں کبھی مسلکی تو کبھی علاقائی اختلاف سامنے آتے ہیں۔ اپنے مذہبی جلسوں اور پروگراموں پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر سیاسی اتحاد کیلئے کوئی ایماندار کوشش نہیں کرتے۔ کچھ ہمارا مزاج بھی ایسا ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں کی ٹانگ پکڑ کر گرانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ کسی کو آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ بھی قابل غور بات ہے کہ مسلمانوں کی کوئی سیاسی طاقت ابھرتی بھی ہے تو اسے ابھرنے نہیں دیا جاتا۔ ایسی ایک دو نہیں کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جب تک ہم سیاسی طور پر ایک نہ ہو جائیں تب تک فرقہ پرستی کا مضبوطی سےجواب نہیں دے سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں کبھی مسلمانوں کو سیاسی طور پر ایک نہیں ہونے دیتیں۔ اگر ہم میں سے کوئی سیاسی لیڈرآگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے تو یہی طاقتیں اس کی ایک دو خامیوں کی تشہیر کرکے اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ممتاز احمد خان( گولی بار، سانتا کروز مشرق، ممبئی)
اتحادامت کیلئے کام کرنےکی ضرورت
مہاراشٹرملک کی معاشی راجدھانی ہے۔ ہرسیاسی جماعت چاہتی ہےکہ مہاراشٹرمیں اسی کی حکومت بنے۔ خصوصافرقہ پرست طاقتیں حکومت بنانے کیلئے ہرطرح کے حربے استعمال کر رہی ہیں اور بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ اس کے برعکس سیکولرسرکار کی خواہش رکھنے والے افراد بری طرح تذبذب اور انتشار کےشکارہیں کیونکہ بیک وقت کئی امیدوار سیکولر ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری ہےکہ ہرحلقے میں موجودامیدواروں میں سے کسی ایک ایسے امیدوارکو ووٹ دیں جس کے جیت کرآنے کے امکانات قوی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں موقع پرستوں اور فرقہ پرستوں کی پہچان کرکے ان سے بھی فاصلہ بنائے رکھنا ہے۔ آج کے حالات میں اجتماعی سیاسی فیصلہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔
اسماعیل سلیمان ( پاچورہ، جلگاؤں )
مسلم امیدوارکو کامیاب کرائیں
آج موقع ہے کہ مہاراشٹر کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں جہاں وہ اکثریت میں ہیں یا اپنے امیدوار کو کامیاب کرا سکتے ہیں، وہاں متفقہ فیصلہ کرکے کسی ایک امیدوار کی حمایت کریں۔ ان کے حلقے میں ایم وی اے کا امیدوارمسلم نہیں ہے تو ان علاقوں کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے کسی مسلم امیدوار کو جو دیگر امیدواروں میں مضبوط ہو، کامیاب بنا کر مہاراشٹر اسمبلی میں بھیجیں۔ اگھاڑی سےجیتنے والا مسلمان صرف وہی کرے گا، جو اس کے ہائی کمانڈ کا حکم ہوگا۔ ابھی حالیہ دنوں میں راج ٹھاکرے نے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اُتارنے کی بات کہی، نتیش رانے نے مسجدوں میں گھس کر مارنے کاٹنے کا بیان دیا اور ملعون رام گیری نے تو انتہا کردی لیکن اکا دکا کو چھوڑ کر کسی مسلم ایم ایل اے نے آواز نہیں اٹھائی۔
مبین اظہر(مولانا آزاد روڈ، ممبئی)
انفرادی پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دیں
آج اِتحاد کی کمی اور آپسی چپقلش سے مسلمان خود اپنا نقصان کرنے پر آمادہ ہیں۔ خود غرضی اور لالچ نے انہیں مختلف جماعتوں میں بانٹ کر فرقہ پرستوں کو مضبوطی فراہم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ انتخابات کے وقت الگ الگ خیموں میں بٹ کر ہم موزوں شخص کو فتح سے دور کرکے فرقہ پرست طاقتوں کو جیتنے میں مدد کرتےہیں۔ علماء اور بزرگوں کے ذریعہ تنبیہ کے باوجود ہم اُسی راستے کو اپناتے ہیں جس میں اجتماعی کے بجائے انفرادی فائدہ نظر آتا ہے۔ ہوناتو یہ چاہئے کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں کسی اچھے مسلم امیدوار کے حق میں فضاکو ہموار کیا جائے تاکہ مسلمانوں کی آواز ایوانوں میں بلند ہو لیکن افسوس کہ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ ہم مسلکی اور علاقائی تقسیم میں الجھے ہوئے ہیں۔
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
ووٹوں کو تقسیم سے روکنا بہت ضروری ہے
اسمبلی الیکشن میں سیکولر پارٹیوں کے اُمیدواروں کو کامیاب کرانا امن و امان اور مذہبی منافرت کے خاتمے کیلئے بہت اہم ہے، اس کیلئے ووٹوں کی تقسیم نہ ہو، اس کی فکر ضروری ہے۔ اگر موقع پرستوں کے مکر و فریب میں ووٹراور خاص کر مسلم ووٹر آئے تو فرقہ پرستوں کی جیت یقینی ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں اپنی کامیابی کیلئے نت نئے حربے استعمال کر رہی ہیں۔ انہیں میں سے ایک حربہ ایک ہی حلقے سے کئی کئی مسلم اور مسلم ووٹوں کو کاٹنے والے امیدواروں کو کھڑا کرنا بھی ہے۔ ایسے میں باشعور اور ذمہ دار شہریوں کو چاہئے کہ عوام کو سمجھائیں اور امن پسند نمائندوں کی کامیابی سے ریاست کو ہونے والے فوائد بتائیں۔ ائمہ و علمائے کرام بھی اپنے حلقے میں ووٹوں کی تقسیم کے نقصانات پر خصوصی توجہ دلائیں۔
مفتی محمد اختر علی واجد القادری ( نیا نگر، میراروڈ، ممبئی)
مسلمانوں کولوک سبھا الیکشن جیسی حکمت عملی اختیارکرنی ہوگی
حالیہ لوک سبھا الیکشن میں مسلمانوں نے بالخصوص اور سیکولرعوام نے بالعموم جو حکمت عملی اپنائی تھی، اسی پر عمل کرنا چاہئے۔ فرقہ پرست طاقتوں اور موقع پرستوں نے اپنے پورے وسائل کو داؤ پر لگا دیا تھا اس کے باوجود انہیں منہ کی کھانی پڑی تھی۔ ویسا ہی اس بار بھی ہوگا۔ اس کا جواب صرف خاموشی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم خاموش رہ کر اپنی حکمت عملی تیار کرتے رہیں اور اس کی بے جا تشہیر نہ کریں۔ یہاں اہم بات یہ بھی ہے کہ ہم ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچائیں۔ اپنے ووٹ کا صحیح امیدوار کے حق میں استعمال کریں۔ ان شاء اللہ ! ہماری حکمت عملی سے فرقہ پرستوں کو ایک بار پھر ذلت کی دھول چاٹنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
پرنسپل محمد سہیل لوکھنڈ والا (سابق ایم ایل اے )
مؤثر حکمت عملی سے فرقہ پرستوں کو شکست دی جاسکتی ہے
انتخابات کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ریاست کے سیکولر رائے دہندگان میں بیداری مہم کا آغاز کیا جانا چاہئے تاکہ فرقہ پرست طاقتوں کو روکا جاسکے۔ مسلمانوں کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کو وقت کی اہمیت کے پیش نظر پروگرام منعقد کرنا چاہئے تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ فرقہ پرستوں کو شکست کیسے دینا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی مسلمانوں کی جانب سے کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور کوئی حکمت عملی تیار کی جاتی ہےتو مخالفین اس کا توڑ تیارکرلیتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ خاموش تحریک چلائی جائے اور بیداری کے پیغام کو واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئیٹر یا کسی اور پلیٹ فارم پر شیئر کرنے کے بجائے عوام کے روبرو جا کر انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ فرقہ پرست سازشوں کا مقابلہ مل کر کرنا ہے، اگر مسلمان ان کی سازشوں اور چالوں کو نہیں سمجھ سکے تو مسلمانوں کی شناخت کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہوگا۔
غلام جیلانی( دارالعلوم قمر علی درویش، کیمپ، پونے)
جذباتی نعروں سے متاثر نہ ہوں
مسلمانوں کو اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کرنے اور نمائندگی حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کیلئےموثر حکمت عملی بہت ضروری ہے۔ مشترکہ مقاصد کیلئےاختلافات بھلا کر ہمارا ایک پلیٹ فارم پر آنا بہت ضروری ہے۔ فرقہ بندی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے اجتماعی مفادات کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ اس بار مہاراشٹر کا الیکشن کافی پیچیدہ ہے۔ اسلئے ہم کو ایسے امیدوار کی حمایت کرنی چاہئے جو مسلمانوں کے مسائل کو سمجھتا ہو اور ان کے حل کیلئے مخلص ہو۔ دیانت دار، نڈر اور کمیونٹی کی فلاح و بہبود کا عزم رکھنے والے افراد کی حمایت سے کچھ بہتر توقع کی جاسکتی ہے۔ ہرسیاسی پارٹی کے جاری کئے گئے وعدوں اور انتخابی منشور کا جائزہ لیں کہ وہ مسلمانوں کے حقوق اور ان کے مسائل کے حوالے سے سنجیدہ ہیں یا نہیں ؟ جذباتی نعروں سے متاثر ہونے کے بجائے عملی اقدامات اور پچھلے ریکارڈ کو مدنظر رکھیں۔ ہم ایک ہوجائیں تو فرقہ پرستوں اور موقع پرستوں کو شکست دے سکتے ہیں
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (ایجوکیشنل اینڈ کریئر کونسلر، بھیونڈی)
قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔ اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔ کچھ ہفتوں سے قارئین کیلئے ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں ہر ہفتے ایک موضوع دیا جارہا ہے۔ اس موضوع پر موصول ہونے والی آپ کی تحریریں ( آپ کی تصویر کے ساتھ) سنڈے میگزین میں شائع کی جارہی ہیں :
اس ہفتے کا عنوان
آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ’بلڈوزر راج‘ پر ایک بہترین فیصلہ سنایا ہے، جس کا خیرمقدم چہار سو کیا جارہاہے۔ اسی پس منظر میں سوال طے کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد
کیا’ بلڈوزر کارروائیوں‘ پر روک لگ جائے گی؟
اس موضوع پر آپ دو سے تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۲۴؍نومبر) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ بقیہ آراء منگل کو ملاحظہ فرمائیں۔ (ادارہ)