Inquilab Logo

غیروں سے مرعوب ہونے کے بجائے اسلامی طرز زندگی اپنائیں

Updated: March 17, 2023, 11:11 AM IST | Muddassir Ahmad Qasmi | Mumbai

اکثر لوگ دنیاوی ترقی اور نام و نمود کے لئے اپنی دینی تعلیمات کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ یہ رویہ ہرگز کامیابی کا نہیں۔ اس سے خدانخواستہ دونوں جہانوں میں ناکامی ہاتھ آئے گی

A Muslim should take care that his actions do not resemble others
مسلمان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کے افعال میں غیروں کی شباہت نہ آنے پائے


اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور زندگی جینے کا وہ طریقہ بتایا ہے جس سے وہ  دوسری مخلوقات سے از خود ممتاز ہوجاتا ہے۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک باوقار زندگی جینے کے لئے انسان پر یہ لازم ہے کہ اس حوالے سے خدائی احکامات پر عمل پیرا ہو بصورت دیگر وہ عملاً اشرف المخلوقات کی تذلیل کا ذریعہ بن جائے گا۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا اعلان ایک جگہ اس طرح کیا ہے:
’’اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔‘‘ (الاسراء:۷۰)
 صاحب آسان تفسیر نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف جہتوں سے دنیا کی تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے، جسمانی حسن و جمال، بولنے کی صلاحیت، بھلائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے کا شعور؛ لیکن سب سے بڑی فضیلت عقل کے ذریعہ عطا کی گئی؛ کیوں کہ انسان کی عقل ہی کا کرشمہ ہے کہ وہ علم و تحقیق کے راستہ میں آگے بڑھتا رہتا ہے اور اسی ہتھیار سے فضا کی بلندیوں اور سمندر کی اتھاہ گہرائیوں کو مسخر کئے ہوئے ہے۔‘‘ علامہ قرطبی نے خوب لکھا ہے کہ ’’شریعت کی حیثیت سورج کی ہے اور عقل کی حیثیت آنکھ کی ہے۔ جب وہ عقل کی آنکھیں کھولتا ہے تو ہدایت کا سورج اسے نظر آتا ہے اور جب عقل کی آنکھیں بند کرلیتا ہے تو اس کے سامنے گمراہی کی تاریکیاں ہوتی ہیں اور وہ اسی میں بھٹکتا رہتا ہے۔‘‘
مذکورہ تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم اپنی زندگی اور طرز زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھلتی ہے کہ اشرف المخلوقات کا زندگی گزارنے کا جو معیار اللہ رب العزت نے طے کیا ہے، اس معیار سے کہیں نیچے ہم زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی سماج میں ہمیں جو اعلیٰ مقام ملنا چاہئے، وہ نہیں مل پا رہا ہے۔ اگرا س پستی کی وجہ تلاش کریں تو ہمیں بآسانی یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ ہم خدائی اصولوں اور معیاروں کے بجائے خودساختہ انسانی اصولوں اور معیاروں پر اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس انسانی عمل کو خدائی روشنی نہ ملے، اس کو ضائع ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ اس حقیقت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح واضح فرمایا ہے:  ’’میری امت کے سارے لوگ جنت میں داخل ہوںگے، سوائے اس کے جس نے انکار کردیا۔ عرض کیا گیا: انکار کس نے کیا؟ فرمایا: جس نے میرا حکم مانا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے حکم عدولی کی، اس نے انکار کردیا۔‘‘(مشکوٰۃ)
 اس حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم نے نبی کریمؐ  کے طرز زندگی اور ہدایات کی پیروی نہیں کی تو ہماری دنیا تو برباد ہوگی ہی، آخرت   میں جنت والی زندگی سے بھی محروم ہونا پڑےگا۔
 یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب ایک مسلمان اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ اس کی حقیقی کامیابی اس طرز زندگی کو اپنا نے میں ہے جو اللہ  اور رسولؐ نے سکھائی ہے تو پھر وہ دوسروں کے ایسے طریقوں کو کیوں اپناتا ہے جس میں تباہی ہی تباہی ہے؟ تجزیہ سے یہ جواب سامنے آتا ہے کہ بہت سے مسلمانوں میں دینی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے نبویؐ طرز زندگی کی اہمیت و افادیت واضح نہیں ہوتی، اسی وجہ سے غیروں کی رنگین طرز زندگی سے وہ مرعوب ہو جاتے ہیں اور اسی کو اپنا نے میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس حوالے سے صاف طور پر حدیث میں آتا ہے کہ: ’’جو شخص ملت ِ اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
 (ترمذی)
 افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی پوزیشن کو بڑھانے کے لئے اور سماج میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے اس طریقے کو اپنا لیتے ہیں جو ہمارا طریقہ ہی نہیں ہے۔ چونکہ غیروں کے طرز زندگی اپنانے کے نقصانات واضح تھے اس وجہ سے حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں ایک حکم جاری فرمایا تھا۔ حضرت ابو عثمان النہدی ؒ کی روایت ہے کہ ہم عتبة بن فرقد کے ساتھ آذربائیجان میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا (جس میں بہت سے احکامات و ہدایات تھیں، منجملہ ان کے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ) ”تم اپنے آپ کو اہلِ شرک اور اہلِ کفر کے لباس اور ہیئت سے دور رکھنا۔“ (جامع الاصول)
 یہاں تک کی بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اشرف المخلوقات کے تاج کو عملاً سر پر سجائے رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم غیروں کے طریقوں سے مرعوب ہونے کے بجائے اسلامی طرز زندگی کو اپنا پسندیدہ راستہ اور منزل بنائیں۔ اس مثبت تبدیلی کیلئے ماہِ رمضان ہمارے لئے بہترین موقع ہے۔ چند دنوں بعد یہ ماہ مبارک شروع ہوگا۔ چونکہ یہ ماہ سراپا روحانی انقلاب کا نام ہے، اس لئے ہم یہ عہد کریں کہ آنے والے رمضان میں ہم روح کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ ظاہر کو بھی اسلامی طرز پر سنواریں گے اور مابعد رمضان اس تبدیلی کو برقرار رکھیں گے۔(ان شاء اللہ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK