• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے بے اعتدالی، یہ بھی غلط ہے!

Updated: December 22, 2023, 12:51 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

غلط کام ہمیشہ غلط ہی شمار ہوگا؛ چاہے اسے کوئی بھی انجام دے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی آدمی بظاہر نیک ہے اور وہ کوئی غلط کام کرتا ہے تو وہ غلط کام صحیح ہو جائے گا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

غلط کام ہمیشہ غلط ہی شمار ہوگا؛ چاہے اسے کوئی بھی انجام دے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی آدمی بظاہر نیک ہے اور وہ کوئی غلط کام کرتا ہے تو وہ غلط کام صحیح ہو جائے گا۔ بلکہ ایسے لوگ جو صاحب علم و فضل ہیں اور وہ غلطی کرتے ہیں تو ان کی پکڑ اور زیادہ سخت ہے جو ذیل کی حدیث سے واضح ہے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’قیامت کے روز ایک آدمی کو لایا جائے گا، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا تو اس کی آنتیں آگ میں نکل پڑیں گی۔ وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے۔ دوسرے جہنمی اس کے گرد جمع ہوکر کہیں گے، اے فلاں ! کیا بات ہے؟ تم تو ہمیں نیکیوں کا حکم دیتے تھے اور برائیوں سے روکتے تھے! وہ جواب دے گا، میں تمہیں نیکیوں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائیوں سے روکتا تھا لیکن خود بُرے کام کرتا رہتا تھا۔ ‘‘ (بخاری) 
اس تمہید کی روشنی میں ایک اہم بات قارئین کے سامنے لانا ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں سے اس کالم نگار نے شادی میں ہونے والی ان برائیوں کا ذکر کیا تھا جو عموماً لڑکے والے انجام دیتے ہیں ۔ اس لئے یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ شادی کے معاملات میں کچھ برائیاں لڑکی والوں کی طرف سے بھی انجام پاتی ہیں جن سے ایک قسم کی بدمزگی پیدا ہوجاتی ہے اور خوشی کا یہ موقع تکلیف کی وجہ بن جاتی ہے۔
منجملہ برائیوں کے لڑکی والوں کی طرف سے یہ کیا جاتا ہے کہ لڑکے والوں کو لڑکی کے کپڑوں اور کبھی زیورات کی فہرست تھمادی جاتی ہے؛ گویا کہ یہ ایک کارو بار ہے کہ لڑکے کو اگر اپنی مطلوبہ چیزیں چاہئیں تو لڑکی کو بھی اس کی مطلوبہ اشیاء چاہئیں۔ حالانکہ اس معاملے میں اگر حیثیت کے اعتبار سے پیش قدمی ہوتو شریعت میں اس کی گنجائش موجود ہے۔
غیر اسلامی رسم و رواج کو اپنانے کی دوڑ میں خطہ سیمانچل بہار میں چند چیزیں جو بہت زیادہ پروان چڑھ رہی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب لڑکا نکاح کے لئے لڑکی کے گھر آتا ہے تو لڑکا اور اس کے دوستوں کو اس کمرے میں داخل ہونے نہیں دیاجاتا جہاں اس کے بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ لڑکی کے بھائی، دولہا سے اس کمرے میں داخل ہونے کیلئے رقم طلب کرتے ہیں اور اس میں جانبین سے رقم کی مقدار کے تعلق سے کافی نوک جھوک ہوتی ہے اور اکثر بات بدمزگی تک پہنچ جاتی ہے۔ اس عمل میں مہمانوں کی بے عزتی بھی ہوتی ہے کہ انہیں کافی دیر تک کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ حالانکہ اسلام میں مہمانوں کی تکریم کا حکم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے۔‘‘ (مسلم)، تو یہ ایک رسم ہے۔ نکاح کے مرحلے سے گزرنے کے بعد دولہا کو کچھ وقت کے لئے اندرون خانہ لے جایا جاتا ہے، جہاں دلہن کے ساتھ وہ بیٹھتا ہے۔ اولاً تو یہ عمل اس وجہ سے غلط ہے کہ اس عمل کے دوران لڑکے اور لڑکیوں کا اتنا اختلاط ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ! فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کا ایک لمبا سیشن چلتا ہے، جس کی شریعت میں کسی بھی حد میں گنجائش نہیں ہے۔ اس عمل کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے کہ دولہے کو گیٹ پر روک دیا جاتا ہے اور اس سے یہاں پھر ایک بھاری رقم کا مطالبہ ہوتا ہے، جسے یہاں کی اصطلاح میں ’’دیہر چھکونی‘‘ کہتے ہیں ۔ اس عمل میں بھی بے حیائی اور بد تمیزی کا بازار گرم ہوتا ہے۔ بالآخر جب دولہے کی انٹری ہوجاتی ہے تو’’ `جوتا چرائی‘‘ کی مشہور زمانہ رسم بھی انجام دی جاتی ہے۔
 ان تمام امور میں شریعت کی تعلیمات کا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہے حالانکہ یہ تمام کے تمام رسم و رواج ایک مسلمان کو کبھی بھی زیب نہیں دیتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے ہمارے اس معاملہ (دین)میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘(بخاری) اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ ہم اس طرح کے رسم و رواج اور عمل سے گمراہی کے راستے پر چل پڑتے ہیں ، جس کا حتمی ٹھکانہ جہنم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں فرماتے تھے: ”سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھا طریقہ طریقہ محمدی ہے، اور بد ترین امور دین میں ایجاد کردہ چیزیں ہیں ،اور دین میں ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے اور ہر ضلالت کا انجام جہنم ہے۔‘‘ (نسائی)
 خوشی کے موقع پر مذکورہ بے اعتدالیوں کو قابو میں لانے کیلئے سرپرست حضرات کو مثبت اور مضبوط قدم اٹھانا ہوگا۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب دوسروں کے گھر وں میں یہ بے اعتدالیاں ہوتی ہیں تو ہم میں سے دیندار لوگ اس پر تنقید اور تنکیر کرتے ہیں لیکن جب وہ بے اعتدالیاں خود ان کے گھروں میں ہوتی ہیں تو وہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں ۔ اس لئے ہمیں دوسروں کی اصلاح کی فکر سے پہلے خود اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں بہتر ہے کہ سادگی کو رواج دیا جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK