یوم خواتین آتا ہے چلا جاتا ہے۔ اس دن تقریبات تو یقیناً ہوتی ہیں مگر جو ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتا۔ سب سے اہم ہے خواتین کا احترام۔ قانون بنا دیئے جاتے ہیں احترام سکھایا نہیں جاتا۔ یہی سب سے بڑی مشکل ہے۔
EPAPER
Updated: March 09, 2024, 12:35 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
یوم خواتین آتا ہے چلا جاتا ہے۔ اس دن تقریبات تو یقیناً ہوتی ہیں مگر جو ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتا۔ سب سے اہم ہے خواتین کا احترام۔ قانون بنا دیئے جاتے ہیں احترام سکھایا نہیں جاتا۔ یہی سب سے بڑی مشکل ہے۔
کل، پوری دُنیا میں یوم خواتین منایا گیا جو ہر سال منایا جاتا ہے۔ آئندہ بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ منایا جائیگا مگر خواتین، جو دُنیا کی کم و بیش نصف آبادی ہیں، کے ساتھ انصاف ہنوز کوسوں دور ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ ایک ہی سبب ہے۔ عالمی معاشرہ خواتین کی صلاحیتوں کے اعتراف کے باوجود اُنہیں موقع دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ یہ معاشرہ آج بھی مردوں کی بالادستی میں یقین رکھتا ہے اور اپنا ذہن بدلنا نہیں چاہتا۔ یہ بحث، کہ امریکہ میں اب تک کوئی خاتون صدر نہیں ہوئی، پرانی ہوچکی ہے۔ نمائندگی کے معاملے میں بھی امریکہ پیچھے ہے۔ دُنیا کے جن ملکوںمیں خواتین کی نمائندگی قابل قدر ہے اُن کے نام بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ مثلاً روانڈا، مثلاً کیوبا،مثلاً بولیویا۔ اِنٹرا پارلیمنٹری یونین کی تیار کردہ فہرست میں مذکورہ ممالک سرفہرست ہیں۔ دیگر ملکوں میں فرانس کا نمبر ۱۷؍ واں، آسٹریلیا کا ۲۷؍ واں،برطانیہ کا ۳۹؍ واں، امریکہ کا ۷۶؍ واں اور ہمارے ملک کا ۱۴۸؍ واں ہے۔
یہ اور ایسے معیارات پر مختلف ملکوں کو پرکھنےکی کوشش کیجئے تو انداز ہوگا کہ خواتین کو موقع نہ دینے کا موقع ہر جگہ تلاش کیا جاتا ہے، صرف ہندوستان میں نہیں۔ جن ملکوںنے فراخدلی کا مظاہرہ کیا اُن کی مثال سامنے رکھ کر سوچا جانا چاہئے اور اگر خواتین کی صلاحیت پر شک ہو تو مذکورہ ملکوںمیں اُن کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہئے۔ اگر تعلیم یافتہ ہونا شرط ہے تو ہمارے خیال میں امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور فرانس میں تعلیم یافتہ خواتین کی کمی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر اُن ملکوںمیں نمائندگی کم ہی نہیں بہت کم ہے تو اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے جو بالائی سطور میں بیان کی گئی۔
اس حقیقت سے ہر خاص و عام واقف ہے کہ ملازمتوں میں اعلیٰ عہدوں پر تقرری سے لے کر تنخواہوں میں مساوات تک،خواتین آج بھی صلاحیتوں اور کارکردگی کے مطابق مواقع سے محروم ہیں۔ انہیں موقع دینا اس لئے ضروری ہے کہ کم و بیش پچاس فیصد آبادی کو نظر انداز کرنا اپنا ہی نقصان کرنے جیسا ہے۔ جس گھر میں میاں بیوی دونوں برسرکار ہوں اُس میں دو تنخواہیں آتی ہیں جس سے مالی استحکام ہی نہیں پیدا ہوتا، رہن سہن، معیار زندگی اور بچوں کی پڑھائی لکھائی پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق، اگر خواتین کو اُن کی صلاحیتوں کے مظاہرہ کا بھرپور موقع دیا گیا تو معاشی نمو پر براہ راست اور خوشگوار اثر پڑے گا۔ اعدادوشمار کی زبان میں کہا جائے تو اس کی وجہ سے سالانہ عالمی جی ڈی پی ۲۶؍ فیصد بڑھ سکتی ہے جو ۲۸؍ کھرب ڈالر کے برابر ہوگی۔
خواتین کو موقع کیوں دیا جائے؟ اس سوال پر غوروخوض ضروری ہے۔ غوروخوض ہوگا تو یہ احساس پیدا ہوگا یا اسے تقویت ملے گی کہ خواتین فطری طور پر بہتر منتظم ہوتی ہیں۔ گھر سنبھالنے کی خوبی کا تجزیہ کیجئے ، مرد چاہے بھی تو ایسی خوبی اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتا۔ اسی انتظامی صلاحیت کے ساتھ جب کوئی خاتون بیرونی دُنیا میں روزگار کے مقصد سے قدم رکھتی ہے تو وہ وہاں بھی ممتاز ہوتی ہے۔ شعبۂ تدریس میں مرد وزن کی کارکردگی کا تقابلی یہ بات ذہن نشین کرادیتا ہے کہ طلبہ کے ذہن و دل تک آسان رسائی کسی کی ہے تو مرد کی نہیں، خاتون کی ہے۔ بلاشبہ بہت سے مرد معلم بھی طلبہ کے حق میں بہتر رہنما ثابت ہوتے ہیں مگر اس معاملے میں خواتین کا تناسب زیادہ ہے۔ دیگر شعبوں میں بھی خواتین کی کارکردگی اپنا لوہا منواتی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر سماج اور معاشرہ خواتین کو ’’کم آنکنے ‘‘ کے مزاج کے سبب عمدہ اور نمایاں کارکردگی کے اعتراف میں اکثر بخل سے کام لیتا ہے۔ وہ انہی خواتین کو مانتا ہے جو ناقابل تسخیر ہوتی ہیں اور اپنے قد و قامت کو اتنا بلندکرلیتی ہیں کہ کوئی مرد اس کے قریب بھی نہ پہنچ پائے۔ ہمارے ملک میں، ایک یا دو دہائی پہلے بعض شعبوں کو سو فیصد نسائی (آل ویمن) بنانے کا رجحان پنپنے لگا تھا مگر اکا دکا پولیس اسٹیشن، اکا دکا ریلوے اسٹیشن، اکا دکا اسکول اور بینکوں کی اکا دکا برانچ تک ہی محدود رہا۔ خواتین کو موقع نہ دے کر مسلم معاشرہ،ہندوستانی سماج اور گلوبل کمیونٹی اُن صفات کی تحقیر کرتی ہے جو خواتین میں بدرجہ اتم موجود ہیں، مثال کے طور پر ہمدردی اور رحمدلی۔ اُردو میں یہ دونوں الفاظ بڑی حد تک ایک دوسرے کا نعم البدل اور ہم معنی ہیں مگر انگریزی میں ’’سمپیتھی‘‘ Sympathyاور ’’کمپیشن‘‘ Compassionمیں کافی فرق ہے۔
ہمدردی رکھنے والا انسان کہے گا کہ مجھے یہ دیکھ کر تکلیف ہوئی،رحمدل انسان کہے گا مَیں آپ کے ساتھ ہوں، ہمدردی رکھنے والا انسان کسی کو تکلیف میں دیکھ کر مدد کی خواہش کا اظہار کرے گا مگر رحمدل انسان مدد کرنے کے مقصد سے آگے بڑھ جائیگا، ہمدردی رکھنے والا انسان کہے گا میں چاہتا ہوں آپ کا بوجھ اُٹھالوں، رحمدل انسان کہے گا لائیے یہ بوجھ میرے کندھے پر رکھ دیجئے۔ اگر آپ اس فرق سے متفق ہیں تو آپ یہ بھی محسوس کریں گے کہ خواتین میں ہمدردی سے زیادہ رحمدلی پائی جاتی ہے جس کے سبب وہ بہت سے معاملات کیلئے نہایت موزوں قرار پاتی ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل واضح کردوں کہ ہمدردی اور رحمدلی کا یہ فرق، جو ان کالموں میں پیش کیا گیا، طبع زاد نہیں بلکہ اس مضمون نگار نے کہیں پڑھا تھا جو بہت برموقع محسوس ہوا اس لئے حافظے کی بنیاد پر نقل کردیا گیا۔
خواتین کی اور بھی کئی خصوصیات ہیں جو عموماً بیان کی جاتی ہیں مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ ان پر کون کتنا غور کرتا ہے اور کس حد تک انہیں دل سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان خصوصیات کو صحیح معنوں میں سمجھا جائے تو وہ احترام پیدا ہوگا جس کی کمی کے سبب خواتین کو وہ مقام نہیں ملتا جس کی وہ مستحق ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ خواتین میں معاف کردینے کا جذبہ (شاید مردوں سے زیادہ) پایا جاتا ہے، وہ صبرورضا کا پیکر اور سنجیدگی اور کمٹمنٹ کا مجسمہ ہوتی ہیں، اُن میں شکر و احسان کا جذبہ بھی کم نہیں ہوتا اور وہ بلند حوصلہ ہوتی ہیں۔ اگر قریب و دور خواتین کے خلاف جرائم بڑھے ہیں تو اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ بچپن سے ہر خاتون کیلئے احترام کے جس جذبہ کی آبیاری گھریلو تربیت، اسکولی نصاب اور معاشرتی آداب کا حصہ ہونا چاہئے تھا، نہیں ہے۔ احترام اعتراف سے آتاہے، کسی پرلادا نہیں جاسکتا۔