شیئر بازار یا شیئر مارکیٹ کا نام تو ہر شخص سنتا ہے مگر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ شیئر مارکیٹ کس طرح کام کرتا ہے اور اس کے نگراں ادارے ’’سیبی‘‘ کا کردار کیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں آئی پی او کی بابت بتایا گیا ہے کہ یہ کیا ہے۔
EPAPER
Updated: January 31, 2024, 12:53 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai
شیئر بازار یا شیئر مارکیٹ کا نام تو ہر شخص سنتا ہے مگر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ شیئر مارکیٹ کس طرح کام کرتا ہے اور اس کے نگراں ادارے ’’سیبی‘‘ کا کردار کیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں آئی پی او کی بابت بتایا گیا ہے کہ یہ کیا ہے۔
انگریزی کے ۳؍حروف ’آئی پی او‘لکھنے اور بولنے میں معمولی نظرآتے ہیں لیکن معاشی اعتبار سے یہ غیرمعمولی ہیں۔ معیشت میں آئی پی او کو بہت اہمیت حاصل ہے اور اس کے ذریعہ کمپنیاں اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارہ تک لگاسکتی ہیں۔ آئی پی او سے صرف کمپنیوں کو ہی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے چھوٹے سرمایہ کاریا آپ اور ہم جیسے افراد بھی منافع حاصل کر سکتے ہیں بس اس کیلئے اچھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ انگریزی کے یہ ۳؍حروف معاشی امور سے وابستہ افراد کے سوا اکثریت کیلئے اب بھی معمہ ہیں۔ ان غیرمعمولی حروف کے پس پشت ایک طویل معاشی عمل ہے جس کے بارے میں عام افراد نہیں جانتے ہیں۔
آئی پی او کا فُل فارم اینیشیل پبلک آفرنگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنی عوامی سطح پر اپنے شیئرس فروخت کرتی ہے اوراس سے جو منافع ہوتا ہے اس کا کچھ حصہ سرمایہ کاروں کو بھی ملتاہے۔ عام آدمی کے ذہن میں پہلا سوال تو یہی آتا ہے کہ کمپنیاں آئی پی او کیوں لاتی ہیں ؟کمپنی کے پاس اس کی ایک وجہ نہیں ہوتی ہے بلکہ بہت سی وجوہات کی بنا پر وہ آئی پی او لاتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلے قرض کی ادائیگی ہوتی ہے۔ اکثر کمپنیاں قرض میں ڈوبی ہوتی ہیں اور انہیں اس سے نکلنے کیلئے بازار سے خطیر رقم لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قرض کی ادائیگی کے علاوہ بہت سی کمپنیاں اپنے کاروبار کی توسیع کیلئے مارکیٹ سے رقم لینے کیلئے آئی پی او جاری کرتی ہیں۔ کاروبار کی توسیع میں نئے پلانٹ، پرانے پلانٹ کو جدید بنانا اور نئے دفاتر کھولنا وغیرہ شامل ہے۔
دوسرا سوال یہ ہوتاہے کہ کیا کمپنیاں آسانی سے آئی پی او جاری کرسکتی ہیں، تو اس کا جواب ہے نہیں، اس کیلئے ایک طویل طریقہ کار ہوتا ہے۔ جس کمپنی کو آئی پی او جاری کرنا ہوتا ہے اسے سیکوریٹی اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا یعنی سیبی میں درخواست دینی ہوتی ہے۔ کمپنی کی اس درخواست کو معاشی زبان میں ڈی آر ایچ پی یعنی ڈرافٹ ریڈ ہرنگ پراسپیکٹس کہتے ہیں۔ ڈی آر ایچ پی میں کمپنی کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ کمپنی نے کس سال میں کتنا منافع حاصل کیا، کتنا نقصان ہوا، گزشتہ چند مالی سال میں اس کے اعداد و شمار کیا تھے، کمپنی کے پروموٹرس کے شیئرس کی تفصیل، مینجمنٹ اور شیئر ہولڈرس کی تفصیلات، نئے شیئرس جاری کرنے یا پرانے شیئرس برائے فروخت کی تفصیلات، آئی پی او لانے کی وجہ کیاہے وغیرہ درج ہوتی ہیں۔ ڈی آر ایچ پی میں کمپنی کی مجموعی کارکردگی درج ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد پر ہی سیبی کی جانب سے کسی کمپنی کو آئی پی او کی منظوری ملتی ہے۔ ڈی آر ایچ پی جمع کرنے کے ۳۰؍ دن بعد سیبی تمام معاملات کی جانچ کرتی ہے اور کمپنی کو منظوری دیتی ہے۔ اس کے بعد کمپنی کو ایک سال کے اندر اپنا آئی پی او جاری کرنا ہوتاہے۔
سیبی کو ڈی آر ایچ پی کو رد کرنے کا پورا حق ہوتا ہے۔ اگر ڈی آر ایچ پی میں کسی کمپنی کی تفصیلات سیبی کے ذریعہ دیئے جانے والے رہنما خطوط کے مطابق نہیں ہوتی ہیں تو سیبی اسے رد کرسکتی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل سیبی اس ڈی آر ایچ پی کا ۲۔ ۳؍ بار بغور معائنہ کرتی ہے۔ باریک بینی سے اس کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر سیبی کمپنی کے ڈی آر ایچ پی سے مطمئن نہ ہو تو اسے رد کر دیتی ہے۔ اگر کسی کمپنی کا ڈی آر ایچ پی رد ہوتاہے تو وہ اگلے ایک سال تک کیپٹل مارکیٹ سے دور رہے گی اور اس میں کاروبار نہیں کرسکے گی۔ کمپنی کو اپنے ڈی آر ایچ پی کے ساتھ ہی فیس بھی جمع کروانی ہوتی ہے، اگر ڈی آر ایچ پی رد ہوجاتاہے تو یہ فیس لوٹا دی جاتی ہے۔
کمپنی اپنا آئی پی او لانے سے قبل اینکر بُک انویسٹرس کیلئے آئی پی او جاری کرتی ہے۔ یہ انسٹی ٹیوشنل خریدار ہوتے ہیں اور انہیں کم سے کم ۱۰؍ کروڑ روپے تک کی سرمایہ کاری کا حق ہوتا ہے۔ یہ سرمایہ کار آئی پی او جاری ہونے سے ایک روز قبل ہی آئی پی او کی بولی لگاتے ہیں۔ اینکر سرمایہ کاروں کیلئے آئی پی او کا زیادہ سے زیادہ ۶۰؍ فیصد حصہ مختص کیا جاتاہے اور یہ کمپنی پر انحصار کرتاہے کہ وہ کتنے فیصد کوالیفائڈ انسٹی ٹیوشنل انویسٹرس کیلئے مختص کرے۔ یہ سرمایہ کارکمپنی کے ذریعہ طے کردہ قیمت پر ہی آئی پی او خریدتے ہیں۔
اب تک ہم نے کمپنی کے نقطہ نظر سے بات چیت کی۔ اب آئی پی او خریدنے والے یا سرمایہ کاروں کے نقطہ نظر کو بھی سمجھنا ہوگا۔ ایک چھوٹا سرمایہ کار بھی آئی پی او کے ذریعہ کسی کمپنی کا شیئرہولڈرس بن سکتاہے۔ وہ کمپنی کے ایکویٹی کو بھی خرید سکتاہے۔ چھوٹے سرمایہ کار کے پاس آئی پی او خریدنے کے بعد ۲؍ متبادل ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اسٹاک مارکیٹ میں شیئرس کی اچھی قیمت مل رہی ہو تو انہیں فروخت کرکے مالی فائدہ حاصل کر لے یا پھر بیچنے کی جلدی نہ کرتے ہوئے انتظار کرے اور شیئرس پر ڈویڈینڈ حاصل کرتا رہے اور جب ضرورت ہو یا جب شیئرس کی قیمت بہت اچھی مل رہی ہو تب فروخت کرے۔ اگر سرمایہ کار کمپنی کی لسٹنگ کے وقت اپنے شیئرس فروخت کردیتاہے تووہ قلیل مدتی فائدہ ہوتا ہے، اگر وہ طویل مدت تک کمپنی کے شیئرس کو روکے رکھے گا تو اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔
چھوٹے سرمایہ کارکسی بھی کمپنی کے آئی پی او کے اچھے اور بُرے ہونے کا پتہ کیسے لگائیں۔ سرمایہ کاری سے قبل یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ آئی پی او کے منافع بخش ہونے کے بارے میں تفتیش کرلی جائے۔ ا س کیلئے ضروری ہے کہ سرمایہ کار اس کمپنی کی مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں پتہ لگائے۔ اگر کمپنی مستقبل کی منصوبہ بندی اور کاروبار کی توسیع پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی ہے تو ایسی جگہ سرمایہ کاری سے کسی بڑے فائدہ کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ ایسی کمپنیاں جو اپنے حریفوں کو مات دینے کیلئے بازار میں نئے نئے پروڈکٹس لانچ کرتی ہیں اور اپنے کاروبار کو پھیلانے کیلئے اس میں مسلسل سرمایہ کاری کرتی ہیں ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری زیادہ کارگر اور سود مند ہوتی ہے۔ یہ معلوم کرنے کیلئے سرمایہ کار اخبارات کا سہارا لے سکتے ہیں یاپھر کمپنی کے ویب پورٹل سے رجوع کرسکتے ہیں۔ کمپنی کی معاشی حالت بھی اس معاملے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار آئی پی او لانے والی کمپنیو ں کا تجزیہ کرتے ہیں اور ان کی مکمل رپورٹ منظر عام پر لاتے ہیں۔ آئی پی او کی خریداری کیلئے بہت سی بروکریج فرم ہیں اور بہت سے بینک بھی اپنے صارفین کیلئے آئی پی او کی خریدو فروخت کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس مالی سال میں تقریباً ۸۰؍ سے زائد کمپنیوں نے اپنے آئی پی او جاری کئے تھے۔