غالباً ۲۱؍ دسمبر کو ایران نے ایک معاہدہ کیا ہے، معاہدے کے مطابق ایران نے کم از کم دنیا کے تیس ممالک کیلئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں، یعنی اگر ان تیس ممالک کے عوام اپنے بزنس یا کسی اور کام کیلئے ایران آنا چاہیں تو انہیں ویزا لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔
ایران کی خارجہ پالیسی۔ تصویر : آئی این این
پچھلے دنوں ایک خبر آئی۔ جہاں تک ہم دیکھتے ہیں ہمیں ہندوستانی میڈیا میں وہ خبرنہیں دکھائی دی۔ ہو سکتا ہے یہ ہماری ہی بھول ہو ورنہ عام طور پر ایسا ہونا ناممکن ہے۔ حالانکہ اس خبر سے ہندوستان کا بھی تعلق تھا لیکن نہ جانے کیوں میڈیا نے اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ خبر تھی کہ پچھلے ہی دنوں غالباً ۲۱ ؍دسمبر کو ایران نے ایک معاہدہ کیا ہے، معاہدے کے مطابق ایران نے دنیا کے کم از کم تیس ممالک کیلئے اپنےگھر آنے کے دروازے کھول دیئے ہیں، یعنی اگر ان تیس ممالک کے عوام اپنے بزنس یا کسی اور کام کیلئے ایران جانا چاہیں تو انہیں ویزا لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ ان ممالک میں لاطینی امریکہ اور افریقہ کے بھی کئی ممالک شامل ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان میں سعودی عرب، خلیجی ممالک اور کئی عرب ممالک بھی شامل ہیں۔
اگر حالات کو بغور دیکھاجائےتو معلوم ہوگا کہ عرب اور ایران کی نام نہاد اور غیر اعلانیہ جنگ کے پیچھے بھی امریکہ کاہی ہاتھ تھا، عرب ممالک اور ایران بعض معلوم اور بعض نا معلوم معاملات میں الجھے رہے۔ عرب اور ایران دونوں تیل کی دولت سے خوشحال تھے، ظاہر ہے دونوں اپنا اپنا مال زیادہ سے زیادہ اور دور دور تک بیچنے کے قائل تھے لیکن یہ صرف ایک وجہ تھی، بعد میں یمن اور کئی دیگر معاملات کی وجہ سے بھی یہ تنازعات بگڑتے ہی چلے گئے۔
امریکہ کو یوں تو ہمیشہ یہ دھن رہی کہ بیشتر ممالک آپس میں الجھے رہیں، اس کی وجہ سے وہ ان ممالک میں اپنے ہتھیاروں کے سودے سے فائدہ اٹھاتا رہا، امریکہ نے عرب اور ایران کے اس جھگڑے سے نہ صرف فائدہ اٹھایا بلکہ اپنا اربوں ڈالر کا اسلحہ بھی ان ممالک خصوصاً سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں بیچا لیکن حالات اب تیزی سے بدل رہے ہیں، عجب اتفاق ہے کہ ان تیس ممالک کی فہرست میں پاکستان شامل نہیں ہے، حالانکہ ایرانی میڈیا بھی جانتا ہے اور عالمی ذرائع ابلاغ بھی واقف ہیں کہ عرب اور ایران میں بات چیت کی ابتدا عمران خان نے کی تھی لیکن پاکستان میں عمران خان کی مخالفت کے بعد سے ایران اور کئی دوسرے ممالک کی فہرستوں سے پاکستان باہر ہو گیا ہے۔
ممکن ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ ان باتوں کا ہمارے آگے کے مضمون سے کیا تعلق ہے، ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ امریکہ ان ممالک کی وجہ سے بر اعظم ایشیاء میں رہ رہا ہے، یہ جھگڑے اسے کبھی اس کی نام نہاد جمہوریت اور عوام پسندی کا جزولاحق بتاتے ہیں یا پھر کوئی اور نیانام دیتے ہیں۔ افغانستان میں شکست کے بعد یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ امریکہ اب شایداپنا سامان اٹھاکر رخصت ہو جائے گا، لیکن امریکہ اسرائیل کو بہانہ بنا رہا ہے، اس نے اسرائیل کو بچانے کیلئے یہ چال چلی کہ اس ملک کودنیا کے ’ظلم و ستم‘ سے بچانےکیلئے عرب خطہ میں موجود رہنا ضروری قرار دیا،صاف ظاہر ہے کہ عرب حکومتیں اورایران حکومت بھی اپنی دولت میں اضافہ کیلئے اس غیر معمولی کھیل میں امریکہ کا ساتھ دیتے رہے ہیں لیکن غزہ پر اسرائیلی حکومت کے حملہ کے بعد سے بلکہ حماس اور فلسطین کے اس حملے سے زبردست اور تاریخی مزاحمت کے بعد ہی سے دنیا کو معلوم ہو گیا کہ اسرائیل کو دیگر عرب ممالک کی دسترس سے بچانے کیلئے امریکہ نے یہ چال چلی جو ایک جھوٹا بہانہ ثابت ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر کشور سبہانی ایک بہت بڑے ماہر معیشت ہیں، ان کے باپ تو پاکستان کے سندھ میں واقع حیدرآباد میں جنمے تھے، لیکن بعد میں وہ روزگار کے لئے سنگا پور چلے گئے تھے،کشور سبہانی نے ان ہی کے گھر جنم لیا تھا، وہ خاصے غریب گھر میں پلے بڑھے لیکن اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ایک بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر ِ معیشت بن گئے۔ انہوں نے سنگا پور یونیورسٹی میں پروفیسری بھی کی۔ بہت جلد دنیا انہیں ماہر معیشت ماننے لگی۔ یہ تھیوری ان ہی کی تھی کہ اکیسویں صدی ایشیا کی معاشیات پر جن کا اتنا گہرا اثر ہوگا کہ یہ صدی اسی کے نام سے جانی جائے گی۔ ان کا خیال تھا کہ چین اپنی معیشت میں ایسے ایسے مراحل پار کر رہا ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اس کا مقابلہ نہ کر پائے گا، پہلے وہ صرف چین کی معاشیات کا نام نہیں لیتے تھے، وہ ہندوستان کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے تھے، وہ ایک بار ممبئی بھی تشریف لائے تھے، اب انہوں نے ہندوستان اور اس کی معاشیات کا نام لینا بند کر دیا ہےلیکن چین کی بابت ان کا نظریہ اب بھی موجود ہے، انہیں عرب اور امریکہ کے کئی اداروں نے معاشیات پر لیکچر دینے کے لئے بھی بلایا۔ ظاہر ہے کہ امریکہ، چین کے بارے میں ان کی پیش گوئیوں کو اپنے لئے بہت اچھا شگون نہیں مانتا۔
ہمیں یاد ہے کہ جب ہم ممبئی آئے تھے، یہ ۶۰؍ کی دہائی کا آخری حصہ تھا، اس وقت حالانکہ کوریا میں امریکہ کی خاصی پٹائی ہو چکی تھی لیکن اس پٹائی کے باوجود وہ کوریا میں اپنا تسلط چاہتا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان ’ میرا نام تیرا نام ویت نام ‘کے نعروں سے گونج رہا تھا، ویت نام میں امریکہ کو داخل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن کمیونزم سے لڑنے کے نام پر وہ کسی نہ کسی طرح اپنا معاشی اور بعض حالتوں میں عسکری وجود بھی برقرار رکھنا چاہتا تھا، ساری دنیا اسے سمجھاتی رہی کہ یہ ویت نام کی قومی تشخص کی جنگ تھی اس لئے بہتر ہے کہ امریکہ یہاںسے نکل جائے لیکن وہ امریکہ ہی کیاجو دنیا کی بات مان لے۔ وہ ویت نام میں موجود رہا۔ اس زمانے میں امریکی عوام بھی نہیں چاہتے تھے کہ امریکہ وہاں سے نکل آئے۔ بہرحال، امریکہ نے بات نہیں مانی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مشہور باکسر نے جنگ میں جانے سے انکار کیا تھا اور بعد میں محمد علی کے نام سے مشہور ہوئے، اسی ویت نامی جنگ کی امریکی مخالفت کی وجہ سے پھٹے پرانے کپڑے پہن کر دنیا میں گشت کرتے ہپیوں کی نسل آئی تھی، ایشیاء میں امریکہ عسکری اور معاشی موجودگی کی ایک وجہ بعض دولت اور شہرت کے حامی حکمرانوں کی بھی مدد شامل تھی۔ پاکستان میں ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک امریکہ کا کھیل کھیلتے رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان کی فوج پاکستانی جنرلوں کی طرح امریکہ کے دام میں نہیں آئی، چین سے تنازع کے باوجود ہندوستانی فوج نے امریکہ کی ایک نہ چلنے دی،اب صرف اسرائیل ہی رہ گیا تھا جو امریکہ کو ایشیاء میں رہنے کا بہانہ دے رہا تھا۔سارے ایشیاء سے امریکہ کی ہارکے باوجود اسرائیل امریکہ کیلئے یہاں موجودگی کو بہانہ فراہم کر رہا تھا، ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل میں اپنی آن بان اور شان کھونے کے بعد امریکہ کا بھرکس نکل جائے گا، ہم اسی لئے ایران کے معاہدے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اسرائیل سے نکلنے کے بعد ایشیاء شاید ہمیشہ کیلئے امریکی تسلط سے نکل جائے گا۔