Inquilab Logo

ملک میں سرکاری ایئر لائن کمپنی کا ہونا ضروری ہے یا اُس کا نہ ہونا ٹھیک ہے؟

Updated: January 06, 2022, 9:15 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ایئر لائن انڈسٹری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان اور سب سے زیادہ منافع اسی شعبے میں ہوتا ہے۔ ابتداء میں اسے لگژری صنعت قرار دیا جاتا تھا اور ہوائی جہاز سے صرف امیر طبقہ ہی سفر کرسکتا تھا لیکن حالات تبدیل ہوتے گئے اور آج دنیا کی نصف سے زائد آبادی اپنی زندگی میں کم سے کم ایک مرتبہ ہوائی جہاز سے سفر کرچکی ہے۔

Representation Purpose Only- Picture INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ایئر لائن انڈسٹری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان اور سب سے زیادہ منافع اسی شعبے میں ہوتا ہے۔ ابتداء میں اسے لگژری صنعت قرار دیا جاتا تھا اور ہوائی جہاز سے صرف امیر طبقہ ہی سفر کرسکتا تھا لیکن حالات تبدیل ہوتے گئے اور آج دنیا کی نصف سے زائد آبادی اپنی زندگی میں کم سے کم ایک مرتبہ ہوائی جہاز سے سفر کرچکی ہے۔ ہوائی جہاز کے کرائے میں کمی، گلوبلائزیشن اور ایک ہی ملک میں متعدد ایئر لائن کمپنیوں کے سبب ایسا ممکن ہوسکا ہے۔ ایئرلائن صنعت کے متعلق متعدد دلچسپ باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ کم سے کم ایک ایئرلائن کمپنی ان کی ملکیت ہو یعنی ایک ایئر لائن کمپنی ایسی ہو جس پر مکمل طور پر حکومت کا کنٹرول ہو۔
 دنیا کے ۱۹۵؍ ممالک میں سے کم و بیش ۱۱۰؍ ایسے ہیں جہاں پر کم سے کم ایک سرکاری ایئر لائن ہے جبکہ قطر وہ واحد ملک ہے جہاں کی ۳؍ ایئر لائن کمپنیاں حکومت کی ملکیت ہیں ۔ سرکاری ایئر لائن کی شناخت کرنا آسان ہے۔ ان کے طیاروں پر اُن کے ملک کا پرچم بنا ہوتا ہے۔ ایسی کمپنیوں اور طیاروں کو ’’فلیگ کیریئر‘‘ (Flag Carrier) کہا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں ایک طرح سے اپنے اپنے ملک کے ایمبیسڈر کے طور پر کام کرتی ہیں ۔ تاہم، وقت کے ساتھ فلیگ کیریئر کی تعریف بدل گئی ہے اور اب دنیا میں ایسی ایئر لائن کمپنیاں بھی ہیں جو سرکاری نہیں ہیں لیکن اپنے ملک کے پرچم کا استعمال کرتی ہیں ۔ ہمارے ملک کی فلیگ کیریئر کمپنی ایئر انڈیا تھی جو اَب ٹاٹا گروپ کی ملکیت ہے، یعنی اب یہ سرکاری نہیں رہی بلکہ نجی ہوچکی ہے۔ اس طرح اب ہمارے ملک میں ایک بھی سرکاری ایئر لائن کمپنی نہیں ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہر ملک میں کم از کم ایک سرکاری ایئرلائن کمپنی کا ہونا ضروری ہے؟ 
 متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ملک میں ایک سرکاری ایئر لائن ہونا ضروری ہے، اس سے نجی ایئر لائن کمپنیوں اور ایئر لائن صنعت سے وابستہ دیگر کمپنیوں کے اخراجات، اور طیارے کے کرائے (پارک کرنے یا سفر کرنے کا کرایہ) کو کم زیادہ کرنے میں سہولت ہوتی ہے، مثلاً اگر سرکاری کمپنی ایک مسافر کا کرایہ ۲؍ ہزار روپے مقرر کرتی ہے تو دیگر تمام ایئر لائنزکمپنیاں (نجی، ملکی اور غیر ملکی) بھی اسی کے آس پاس اپناکرایہ طے کریں گی جیسے ۲۱۰۰؍ روپے، ۲۲۰۰؍ روپے یا ۱۹۰۰؍ روپے۔ ملک میں سرکاری ایئر لائن ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نجی کمپنیوں کو اپنے اخراجات کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مثال کے طور پر طیارہ پارک کرنے کیلئے سرکاری ایئر لائن کو کم کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے ، لہٰذا نجی کمپنیاں بھی کاروباری بات چیت کے ذریعے کم وبیش یہی کرایہ ادا کرتی ہیں ۔ جس ملک میں سرکاری ایئر لائن کمپنی نہیں ہوتی وہاں کرایہ اور اخراجات ایسی کمپنی کے کرائے اور اخراجات کی بنیاد پر طے کئے جاتے ہیں جس کی اس شعبے میں اجارہ داری ہوتی ہے۔ 
 تاہم، بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ ایئر لائن صنعت کو بھی کاروبار کی دیگر صنعتوں ہی کی طرح ہونا چاہئے اور کسی بھی ملک میں سرکاری ایئر لائن کمپنی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کی وجہ سے ایئر لائن انڈسٹری میں نجی کمپنیوں کو کاروبار کرنے کا موقع ملے گا اور ان کے درمیان مقابلہ بڑھے گا جس کا فائدہ یقیناً مسافروں کو ہوگا۔ماہرین معاشیات یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تک کسی ملک کے باشندوں میں ہوائی جہاز سے متعدد دفعہ سفر کرنے کی طاقت نہ پیدا ہو ، وہاں ضرورت سے زیادہ ایئر لائن کمپنیاں ہونا حل نہیں ہے۔
 واضح رہے کہ دنیا میں ایسے کئی بڑے ممالک ہیں جہاں سرکاری ایئر لائن کمپنی نہیں ہے۔ ان میں سب سے اہم امریکہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے اپنی سرکاری ایئر لائن کی نجکاری کردی تھی جس کا مقصد اس شعبے کو مستحکم کرنا ، نجی کمپنیوں کے درمیان صحت مند مقابلہ کو فروغ دینا، امیر طبقہ کے علاوہ متوسط اور کسی حد تک غریب طبقہ کو بھی طیارے سے سفر کرنے کا موقع دینا اور ان تمام کے نتیجے میں ملک کی معیشت کو مضبوط کرنا تھا۔ اپنی اس حکمت عملی میں امریکہ کامیاب بھی ہوا۔ آج امریکہ میں مجموعی طور پر ۵۹؍ ایئر لائن کمپنیاں ہیں ۔ اعدادو شمار کے مطابق امریکی ایئر لائن انڈسٹری کو ۲۰۲۰ء میں ۱۳۰ء۸۳؍ بلین ڈالرکا منافع ہوا تھا۔ اس کے برعکس ہندوستان میں ۷؍ ایئر لائن کمپنیاں ہیں ۔ ۲۰۲۰ء میں ہماری ایئر لائن صنعت کو ۲۰؍ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ ہمارے ہاں اس صنعت کو کاروبار میں سہولت نہ فراہم کرنے اور پیچیدہ تجارتی نظام کے سبب سرمایہ کار اس میں سرمایہ کاری سے احتراز کرتے ہیں ۔ 
 اکتوبر میں ملک کی واحد سرکاری ایئر لائن ایئرانڈیا کی نجکاری کے بعدیہ واضح نہیں ہے کہ یہاں کےہوا بازی کے شعبے کے حالات بہتر ہوں گے یا نہیں کیونکہ حکومت کے کاروبار میں سہولت فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوؤں کے بعد آج بھی سرمایہ کار ایئر لائن انڈسٹری میں سرمایہ کاری نہیں کررہے ہیں جس کی مثال ایئر انڈیا کی نجکاری کے عمل میں واضح طور پر نظر آئی۔ محض ۳؍ کمپنیوں نے خسارے اور قرض میں ڈوبی اس ایئر لائن کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ فنانشیل ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایئر انڈیا کے نجی ہوجانے اور ملک میں ایک بھی سرکاری ایئر لائن کمپنی نہ ہونے سےملک کی ایئر لائن صنعت کے حالات بہتر ہونے کی امید ہے۔ اس سے نجی کمپنیوں کے درمیان صحت مند مقابلہ ہوگا، اور نئی ایئر لائن کمپنیوں کے شروع ہونے کے امکانات بھی پیدا ہوں گے۔ تاہم، دنیا بھر میں جاری وبائی حالات اور سفری پابندیوں کے پیش نظر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اس کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا۔

air india Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK