کسانوں کی خود کشی آج بھی جاری ہے اور سیاست اورنگ زیب کی مزار سے ہٹنے کو تیار نہیں۔
EPAPER
Updated: March 20, 2025, 11:38 AM IST | Mumbai
کسانوں کی خود کشی آج بھی جاری ہے اور سیاست اورنگ زیب کی مزار سے ہٹنے کو تیار نہیں۔
حقیقی مسائل اور جعلی مسائل کی باہمی جنگ کبھی نہیں رُکی۔ عوام حقیقی مسائل سے جوجھتے رہتے ہیں اور سیاست اُن کی توجہ ہٹانے کیلئے جعلی مسائل پیدا کرتی رہتی ہے۔ پھر اسی کا بکھان شروع ہوجاتا ہے۔ میڈیا اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آج کل ایک اصطلاح ’’نیریٹیو‘‘ کافی عام ہوگئی ہے۔ اسے اُردو میں سیاسی بیانیہ کہا جاتا ہے یعنی ایسا موضوع جس کے ذریعہ سب کی توجہ اصل سے ہٹا کر نقل پر مرکوز کرنے کی کوشش کی جائے۔ ریاست ِ مہاراشٹر میں اِن دِنوں اورنگ زیب کی مزار کا معاملہ گرمایا ہوا ہے اور اس پر جم کر سیاست ہورہی ہے حتیٰ کہ ناگپور میں فساد بھی ہوچکا ہے مگر جس موضوع کو زیر بحث لانا کسی کی ترجیحات میں نہیں وہ ہے کسانوں کی خود کشی کا۔ گزشتہ روز (۱۹؍ مارچ) کو ایوت محل ضلع کی اولین اجتماعی خود کشی کی برسی منائی گئی۔ ۳۵؍ سال قبل اس دن یہاں کے ایک کاشتکار خاندان کے چھ افراد کی خود کشی سے مہاراشٹر دہل گیا تھا۔ یہ نہایت لرزہ خیز واقعہ تھا جس میں کاشتکار صاحب راؤ کرپے پاٹل اور ان کی بیوی مالتی نے پہلے اپنے چار بچوں کو کیڑا مار دوائی پلائی اور پھر خود بھی اسے حلق سے اُتار لیا۔ سوچئے وہ اپنے حالات سے کس قدر مایوس اور بددل ہوچکے ہونگے کہ بچوں کو موت کی نیند سلانے اور پھر خود موت کو گلے لگالینے میں اُنہیں ذرہ ّ برابر تامل اور تردد نہیں ہوا۔ یہ واقعہ مہاراشٹر کی سیاست کیلئے بہت بڑا سبق ہونا چاہئے تھا مگر کیا ہوا؟ کسانوں کی خود کشی آج بھی جاری ہے اور سیاست اورنگ زیب کی مزار سے ہٹنے کو تیار نہیں۔
بمشکل دس دن گزرے ہیں جب کیلاش ارجن نگارے نامی کسان نے خود کشی کی تھی۔ ارجن نگارے کسان ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن تھے جنہوں نے گزشتہ سال دس دن کی بھوک ہڑتال کی تھی۔ وہ آس پاس کے چودہ دیہاتوں میں پانی کیلئے مسلسل جدوجہد کررہے تھے مگرکچھ نہیں ہوا۔کسانوں کا مسئلہ جوں کا توں ہے اور خود کشی کے واقعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ریاست کے صرف ۲۰؍ فیصد کسانوں کو آبپاشی کی سہولت دستیاب ہے، بقیہ ۸۰؍ فیصد کو بارش کے رحم و کرم پر کاشتکاری کرنی پڑتی ہے۔ مغربی مہاراشٹر میں جہاں گنا اور گیہوں کی فصل ہوتی ہے، آبپاشی کا معقول انتظام ہے مگر ودربھ اور مراٹھواڑہ جہاں کپاس، سویا بین اور دالوں کی کاشت کی جاتی ہے، بہت کم کسانوں کو آبپاشی کی سہولت میسر ہے۔ بیشتر کسان بارش پر منحصر رہتے ہیں اور بارش نہ ہو یا ناکافی ہو تو ان کی ساری محنت اکارت جاتی ہے، تنگ دستی بڑھ جاتی ہے اور قرض کا بوجھ سانسوں کی ڈور کو اُلجھاتا رہتا ہے۔
اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۹ء تک ۱۲؍ ہزار ۶؍ سو کسانوں اور متعلقین نے خود کشی کی تھی۔ اس کے بعد کی تفصیل میں اموات کا یومیہ اوسط ۷؍ کسانوں تک پہنچا ہے۔ مہاراشٹر کی سیاست کے جانکاروں میں شامل ہیمنت اَتری کا کہنا ہے کہ سیاست روزانہ ہندو مسلم، ہندو مسلم کرتی ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں خود کشی کرنے والے کسان کون ہیں ؟ اگر اُن میں مسلمان ہوں گے بھی تو کتنے؟ یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ سیاست کو خود ساختہ ہندو مسلم تنازع کی آماجگاہ بناکر رکھنے میں کس کا فائدہ اور نقصان ہے۔ سیاست دانوں کا فائدہ ہوسکتا ہے مگر نقصان تو سراسر عوام کا ہے۔ یہ بات عوام کو سمجھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اگر اس جانب توجہ دینے کو کوئی تیار نہیں ہے تو خود کشی کا سلسلہ رُکے گا کیسے؟