• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسلام نے حصولِ رزق کی جدو جہد کو حلال و حرام کا پابند کیا ہے

Updated: November 25, 2024, 5:13 PM IST | Dr. Khurshid Ashraf Iqbal | Mumbai

مذہب اسلام، فقر ومحتاجی کا خاتمہ کرکے بہتر معاشی زندگی کا قیام ممکن بناتا ہے اور محض قلت وسائل، غربت و افلاس اور معیار زندگی کے گرنے کا واویلا مچانے کی اجازت نہیں دیتا۔

Islam also tells us that industry and crafts, trade and employment and hard work are all the Sunnah of the Prophets. Photo: INN
اسلام ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ صنعت و حرفت، تجارت و ملازمت اور محنت و مزدوری یہ سب انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ تصویر : آئی این این

اسلام دین رحمت ہونے کے ساتھ دین فطرت اور انسانیت بھی ہے۔ وہ عقیدہ، نظام عبادت اور اخلاق و معاملات اور تعزیرا ت کے اعتبار سے ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے، ساتھ ہی انفرادی، اجتماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تمدنی ضابطے کے اعتبار سے ایک مستقل نظریہ، کامل نظام زندگی اور ایک بین الاقوامی دستور العمل ہے، جس کے ساتھ کسی دوسرے دنیوی نظام کا پیوند نہیں لگایا جاسکتا۔ اسلامی قوانین و احکام اور اصول و ضوابط ایسے جامع، پسندیدہ، ہمہ جہت و عالمگیر ہیں جو افراد، خاندان، سماج، قبیلہ اور ریاست سے لے کر عالمی سطح پر بیگانوں کو یگانہ اور نا آشناؤں کو آشنا بناتے ہیں اورہر عقل مند کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات واحکام کا جائزہ اس حقیقت کو بے نقاب کر دیتاہے کہ یہ تا قیامت ہر معاشرہ و سماج اور تمام اقوام عالم کے لئے قابل عمل ہے۔ امت کو ہر دور میں جب بھی کسی معاملہ میں کوئی رہنمائی درپیش ہوگی تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے کلام قرآن مجید اور اس کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا، اور اگر دونوں میں اس معاملہ کے بارے میں واضح ارشاد نہ ہو تواس میں امت کے اہل علم اجتہاد کریں گے، اور قرآن و سنت اجماع امت اور قیاس صحیح کی روشنی میں مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ 
اسلام نے حصول رزق کی جدو جہد کو حلال و حرام کا پابند کیا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ انسان حصول مال کی خاطر شتر بے مہار بن جائے اور حلال و حرام کا امتیاز ہی ختم کر ڈالے۔ اس کے معاشی نظام میں صرف جائز، مباح، باہمی رضا مندی اور مثبت طور پر رزق کی مساعی ہی قابل قبول ہیں۔ ہر وہ طریقہ جو عدل و انصاف، قانون و سچائی کے خلاف ہو اور دوسروں کے لئے باعث تکلیف ہو وہ ممنوع اور ناجائز ہے۔ 
اللہ جل شانہ نے اپنی مقدس کتاب میں جابجا اسی حلال وحرام کی نشاندہی کی ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں باہمی رضا مندی کی تجارت، محنت اور رزق حلال کی ترغیب أکل بالباطل (یعنی کھانے کمانے کے باطل اور ناحق) طریقوں سے اجتناب کے علاوہ جھوٹ، دھوکہ دھڑی، خیانت، غصب، رشوت، چوری، سٹہ، جوا، اسراف و تبذیراور اندھی مقابلہ آرائی سے بچنے کے احکام دیئے ہیں۔ 
 ربا جسے اردو زبان میں سود اور انگریزی میں پہلےUsury اور اب Interest کے نام سے زیادہ مشہور ہے، وہ ایک شجرخبیثہ، اقتصادی ناہمواری کا بنیادی سبب، خودغرضی، بے رحمی اور سنگ دلی کی صفات پیدا کرنے والا اورہوس زر میں اندھا بنا دینے والا مرض ہے۔ اس کو قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ سے جنگ قرار دیا ہے، اور حدیث پاک میں مختلف مثالوں سے اس کی برائی اور شناعت ذہن نشین کرائی گئی ہے۔ حالانکہ اس وقت کی صورتحال وہ ہے جس کی طرف نبیؐ اکرم نے اشارہ فرمایا تھاکہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ اگر سود سے بچ بھی گئے تو اس کے دھویں سے نہیں بچ سکیں گے۔ ‘‘ (رواہ احمدبرقم ۱۰۴۱۰، ابوداؤد برقم ۳۳۳۱) 
ایسا لگتا ہے وہ زمانہ اب آگیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کی معیشت و اقتصاد اور چھوٹے بڑے تمام تجارتی معاملات میں سود اتنی شدت اور عموم کے ساتھ سرایت کر گیا ہے کہ خالص حلال کاروبار کرنے والے جنہوں نے نہ کبھی سود لیا اور نہ دیا، وہ بھی اس کے دھویں سے نہیں بچ پا رہے ہیں، یقیناً مسلمانوں کے لئے یہ امتحان اور آزمائش کی گھڑی ہے، اللہ تعالی ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو اس لعنت سے محفوظ رکھے، اورہم سب کو اس خبیث مرض سے بچائے، آمین۔ 
اس بات سے اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ دنیا میں انسانیت کے بقا و تحفظ اور زندگی کے نشو ونما میں معاش ایک اہم ضرورت ہے، کسی بھی معاشرہ میں سکون و اطمینان اور سلامتی اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب اس میں سیاسی اور معاشرتی استحکام کے ساتھ معاشی آزادی اور ہموار اقتصادی نظام بھی پایا جائے، چنانچہ دنیا کی ہر قوم اپنے نظام معیشت کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے چلانے کے لئے مختلف کوششیں کرتی ہے۔ اسلام موجودہ زمانے کے عام رائج الوقت مفہوم میں کوئی مذہب یا Religion نہیں ہے جو محض عبادت و ریاضت کے چند دیندارانہ اعمال پرمشتمل ہو، بلکہ وہ ایک ہمہ گیر دین ہے جوپوری زندگی کا دستور ہے، اور معیشت زندگی کا بہت اہم حصہ ہے، اسلئے اسلام نے معاش کے سلسلہ میں بھی انسانوں کی بھرپور رہنمائی کی ہے۔ 
 اسلام کا معاشی نظام اجتماعی عدل وانصاف، امانت و دیانت، احسان واخلاق، تضامن و تکافل، لوگوں کی خیر خواہی اورنفع رسانی کا بہترین آئینہ دار ہے، اور اس کی معاشی حکمت عملی کی مستحکم اساس سود و جوا کی حرمت اورنظام زکوٰۃ و میراث ہے۔ اسلام ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ صنعت و حرفت، تجارت و ملازمت اور محنت و مزدوری یہ سب انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے، صحابہ کرام میں بہت بڑی تعداد تجارت پیشہ اور دست کار لوگوں کی تھی، ان میں بہت سے مزدوری کرنے والے بھی تھے، رسولؐ اللہ نے خود تجارت کرکے اس پیشہ کی عزت بڑھائی، یعنی صرف عبادت کرکے کوئی شخص حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے معاش کے لئے خود جدو جہد نہ کرے، اور اُس کے معاملات نیز دیگر دنیاوی امور اللہ و رسول کے احکام کے مطابق نہ ہوں ۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد گرامی ہے: ’’حلال کمانا بھی ارکان اسلام کے فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔ ‘‘ ( رواہ البیہقی برقم ۱۱۶۹۵ والطبرانی برقم۹۹۹۳ )۔ آپؐ نے مزید فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اپنے اور اہل و عیال کے حوالے سے پر امن ہو، جسمانی اعتبار سے تندرست ہو، اور اس کے پاس ایک دن کی غذا موجود ہو، تو گویا اس کے لئے دنیا کی تمام نعمتیں جمع کر دی گئیں۔ 
اسلامی معاشیات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ دولت کے ارتکاز کو پسند نہیں کرتا، اور اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ مختلف معاشرتی، ادارتی، قانونی اور اخلاقی تدابیر سے دولت کی تقسیم زیادہ سے زیادہ منصفانہ ہو اور پورے معاشرہ میں گردش کرے، ارشاد باری ہے: تاکہ مال، مالداروں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے، اور اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اللہ کی کتاب کے مطابق اپنا مال ان لوگوں میں تقسیم کرو جن کا حق مقرر کیا گیا ہے۔ 
 اسلام کا معاشی نظام تمام مروجہ نظاموں سے منفرد اور جداگانہ ہے، وہ ہر فرداور پوری امت کی توجہ معاشی وسائل کی ترقی اور پیداواری امکانات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے پر مرکوز کرتے ہوئے، معاشرہ میں انصاف اور آزادی کے ساتھ ساتھ فقر و محتاجی کا خاتمہ کرکے بہتر معاشی زندگی کا قیام ممکن بناتا ہے۔ یہ اور ایسی کئی بنیادوں پر اسلامی معاشی نظام کو دیگر نظاموں پر امتیاز اور فوقیت حاصل ہے جس کا بنیادی فلسفہ مساوات ہے۔ اسلام تمام انسانی معاشروں میں یہی دیکھنا چاہتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK