ظہور اسلام کے وقت ظلم و جبر، جاہلیت اور ناانصافی عام تھی ، لیکن جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس میں ان باتوں کا ذکر نہیں تھا بلکہ یہ فرمایا گیا کہ ’پڑھئے‘ ، پھر دُنیا نے دیکھا کہ علم ہی قوموں کی سربلندی کا ذریعہ ہے۔
EPAPER
Updated: May 25, 2024, 4:09 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
ظہور اسلام کے وقت ظلم و جبر، جاہلیت اور ناانصافی عام تھی ، لیکن جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس میں ان باتوں کا ذکر نہیں تھا بلکہ یہ فرمایا گیا کہ ’پڑھئے‘ ، پھر دُنیا نے دیکھا کہ علم ہی قوموں کی سربلندی کا ذریعہ ہے۔
جو قوم علم و فن سے عاری اور فکر و دانش سے محروم ہو، خواہ وہ کتنی ہی بڑی تعداد رکھتی ہو ؛ لیکن اس کی حیثیت مٹی کے ڈھیر کی ہے، جو ہمیشہ پاؤں تلے روندی اور قدموں کے نیچے بچھائی جاتی ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جس نے اپنی آمد کے اول دن سے علم پر زور دیا ہے، پیغمبر اسلام ﷺ جس سماج میں پیدا ہوئے اور نبوت سے سرفراز کئے گئے، اس میں کیا کچھ برائیاں اور کوتاہیاں نہیں تھیں ؟ شرک عام تھا، سیکڑوں بتوں کی پرستش ہوتی تھی، طاقت کی حکمرانی تھی، نہ جان محفوظ تھی اور نہ مال اور نہ عزت و آبرو، بے حیائی اور بے شرمی کی کوئی بات نہیں تھی جو سماج میں نہ پائی جاتی ہو، بظاہر خیال ہوتا ہے کہ ان حالات میں انسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا پہلا پیغام توحید خداوندی کی دعوت اور شرک و بت پرستی کی تردید کا آنا چاہئے تھا کہ اسلام کی پوری تعلیم کا لب لباب اور خلاصہ یہی خدا کی وحدانیت کا تصور ہے، یا پھر پہلی وحی ظلم وجور کی مذمت اور عدل وانصاف کی ترغیب کی بابت ہونی چاہئے تھی ؛ کیوں کہ انسان سب سے زیادہ ضرورت مند ایسے سماج کا ہوتا ہے جو پُر امن ہو، ظلم و زیادتی سے محفوظ ہو اور بقاء باہم کے اُصول پر قائم ہو ؛ لیکن غور فرمایئے کہ آپ ﷺ پرجو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں صراحتاً ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں بلکہ فرمایا گیا کہ اپنے رب کے نام سے پڑھئے جو تمام کائنات کا خالق ہے۔ یعنی پیغمبر کے ذریعہ انسانیت کو جس بات کی دعوت سب سے پہلے دی گئی وہ ’’ تعلیم ‘‘ہے؛ کیوں کہ علم ایسا سر چشمہ ہے جس سے تمام بھلائیاں پھوٹتی ہیں اور تمام مفاسد کا مداوا ہوتا ہے، اسی لئے امام مالکؒ نے فرمایا کہ علم روشنی ہے : ’’العلم نور‘‘۔
اگر کوئی مکان اندھیرا ہوتو اس میں چور اور ڈاکو کا داخل ہونا بھی آسان ہوتا ہے اور وہ سانپ کیڑوں کی بھی آماجگاہ بن جاتا ہے، ان میں سے ہر ایک کا الگ الگ مقابلہ دشوار ہے؛ لیکن چراغ جلا دیا جائے اور مکان روشن ہوجائے، تو نہ چور اور ڈاکو کو گھر میں آنے کا حوصلہ ہوگا، نہ سانپ کیڑے اس مکان کو اپنا ٹھکانہ بنائیں گے۔ علم کو روشنی کہہ کر آپؐ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے، ہر برائی کو الگ الگ دور کرنا اور ان کا علاحدہ علاحدہ مقابلہ کرنا آسان نہیں لیکن تمام برائیوں اور مفاسد کا اصل سر چشمہ جہالت اور محرومی ٔ علم ہے، کسی سماج میں جب علم کی روشنی آجائے، تو خود بخود اُس کی برائیاں دُور ہوں گی اور علم و دانش کی آگ ان کو پھونک کر رکھ دے گی۔
یہ بھی پڑھئے: نامساعد حالات میں مسلمانوں کو کیاراستہ اختیار کرنا چاہئے؟
رسولؐ اللہ کو اس کا اتنا پاس و لحاظ تھا کہ مکہ میں ہر طرح کی دشواری کے باوجود آپؐ نے ’’ دارِ ارقم ‘‘ کو تعلیم و تربیت کا مرکز بنایا اور اول دن سے اپنے رفقاء کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ رہے۔ مکہ کا جو لُٹا پِٹا قافلہ مدینہ آیا اس میں سیکڑوں بے گھر و درتھے، خود آپؐ کو کوئی ذاتی مکان میسر نہیں تھا اور حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے گھر میں مہمان تھے ؛ لیکن آپؐ نے نہ اپنے لئے گھر کی فکر کی اور نہ اپنے ان ساتھیوں کے لئے، جو مستقل اقامت گاہ سے محروم تھے؛ بلکہ سب سے پہلے مسلمانوں کے لئے ایک عبادت گاہ اور دینی مرکز کی حیثیت سے ’’مسجد نبوی ‘‘ کی تعمیر فرمائی اور پہلی باضابطہ درسگاہ ایک چبوترہ کی شکل میں قائم کی، جسے ’’صفہ ‘‘ کہاجاتا تھا، یہی چھوٹی سی جگہ جزیرۂ عرب کے کونے کونے سے آنے والے مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا مرکز تھی اور خود رسولؐ اللہ، اس کے منتظم اور استاذ تھے۔ حضورؐ کا یہ عمل ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمان گھربار اور دوسرے اسبابِ آسائش سے بڑھ کر اپنے بچوں کی تعلیم پر اولین توجہ دیں کہ جو قوم اپنا گھر پھونک کر علم کا چراغ جلانا نہ جانتی ہو، سر بلندی و درخشانی کبھی اس قوم کے حصہ میں نہیں آسکتی۔
اگر تاریخ کے عجوبہ اور حیرت انگیز واقعات کو جمع کیا جائے تو اس میں ایک یہ بھی ہوگا کہ غزوۂ بدر میں ستر اہل مکہ مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار کئے گئے، اس وقت مسلمان سخت معاشی مشکلات سے گزر رہے تھے، نہ ان کو معقول غذا میسر تھی، نہ ضرورت کے مطابق لباس تھا اور نہ مناسب رہائش گاہ، اور تو اور خود آپؐ کے یہاں ہفتوں چولہا سلگنے کی نوبت نہ آتی تھی، اس عہد میں شاید ہی کوئی مسلمان گھر ایسا ہو جو فاقہ مستی کی لذت سے ناآشنا رہ گیا ہو۔ یہ موقع تھا کہ آپؐ فدیہ کے طور پر اہل مکہ سے زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرلیتے اور حاصل شدہ رقم سے، جو یقیناً خطیر ہوتی، مدینہ کی معیشت کو سہارادیتے۔
لیکن سرکار دو عالم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسیرانِ بدر کا فدیہ، یہ بھی مقرر کیا کہ جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے ہوں، وہ دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔ آپؐ کے اس عمل میں اُمت کے لئے اُسوہ ہے کہ گو ہمیں بھوکے رہنا پڑے، ہماری کروٹیں فاقوں سے بے سکون ہوں اور دنیا کے اسبابِ راحت ہمیں کم سے کم میسر ہوں ؛ لیکن ہر قیمت پر ہم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کو اولیت دیں اور تعلیم سے محروم کر کے ہم ان کے اور پوری قوم کے مستقبل کو ضائع نہ ہونے دیں۔ آپؐ کے اس عمل سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اسلام نے تعلیم میں کسی تنگ ذہنی اور تعصب کو راہ نہیں دی ہے، علم کا حصول بہر حال ایک نعمت ہے چاہے وہ غیر مسلموں سے حاصل ہو؛ بلکہ چاہے ان لوگوں سے حاصل ہو، جن سے ہماری زندگی کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہو، بشرطیکہ ان سے ہمارے ایمان و عقیدہ اور ہماری مذہبی قدروں کو نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔
اسلام کسی بھی ایسے علم کا مخالف نہیں جو انسانیت کے لئے نافع ہو، نہ وہ کسی زبان کا مخالف ہے، خود رسولؐ اللہ نے اپنے بعض رفقاء کو عربی زبان کے علاوہ بعض دوسری زبانوں کے سیکھنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ تمام ہی زبانیں اللہ کی پیداکی ہوئی ہیں۔ علم نافع کو آپؐ نے بہترین عبادت قرادیا ہے، (مجمع الزوائد :۱؍۱۲۰) اور علم کے حصول کو ہرمسلمان کا مذہبی فریضہ مقرر فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ انسان کی موت کے بعد بھی تین چیزوں کا اجر اُسے پہنچتا رہتا ہے، منجملہ ان کے ایک ایسا علم ہے، جس سے اس کے بعد بھی لوگوں کو نفع پہنچتا رہے گا، افسوس کہ جس اُمت کو سب سے پہلے پڑھنے کی تعلیم دی گئی اور اس کے ہاتھوں میں قلم تھمایا گیا، وہی ہے کہ آج جہالت و ناخواندگی اور تعلیم سے محرومی اس کے لئے وجہ ِامتیاز بنی ہوئی ہے اور دبی کچلی قومیں بھی اس میدان میں اسے پیچھے چھوڑچکی ہیں، ایک ایسی قوم کے لئے جس نے سیکڑوں سال تک اس ملک کے طول و عرض پر حکومت کی ہے اور آج بھی اس ملک کا کوئی خطہ نہیں جہاں اس کی فرماں روائی اور عظمت ِرفتہ کے انمٹ اور قلب و نگاہ کو محو ِحیرت کردینے والے نقوش موجود نہ ہوں، مگر عظمت ِرفتہ کے یہ نقوش آج ہمارا منہ چڑاتے ہیں اور زبان حال سے ہم پر قہقہہ زن ہیں کہ عجیب قوم ہے کہ جس کے حال کو اس کے ماضی سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔
اس ذلت، پستی اور خرابیٔ حالات سے نکلنے کیلئے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ مسلم محلوں اور آبادیوں کے گلی کوچوں میں تعلیم کی ایسی ہی تحریک چلائی جائے جیسے الیکشن میں اُمیدوار ووٹوں کی بھیک مانگتا ہے، مسلمان پوری قوم کو اپنا خاندان و کنبہ تصور کریں، وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر بھی توجہ کریں اور اپنے پڑوسیوں کی بھی خبر گیری کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی طالب علم پڑھتے پڑھتے رُک گیا ہو، معاشی ناہمواری نے اس کے بڑھتے ہوئے قدم تھام لئے ہوں، یاوہ نفسیاتی کم حوصلگی کا شکار ہوگیا ہو۔ ایسے بچوں کا حوصلہ بڑھائیں اور اجتماعی طور پر سماج کے ایسے بچوں کی تعلیمی کفالت قبول کریں۔ اس کے ساتھ ہی ایسی درسگاہیں قائم کریں، جن کا نصب العین قوم کی خدمت ہو، جو تعلیم کو تجارت اور روپوں کا ٹکسال نہ سمجھتے ہوں ؛ بلکہ پوری اُمت کو ایک خاندان سمجھ کر ان کی خدمت کے لئے میدانِ عمل میں اُترے ہوں، جن کو ہوٹلوں اور معمولی کارخانوں میں کمسن مسلمان بچوں کا برتن دھونا اور جھاڑو دینا تڑپا دیتا ہو، جن کے چہرے بشرے سے ذہانت ہو یدا ہے اور جن کی آنکھیں ان کی اندرونی ذکاوت و فراست کی چغلی کھاتی ہیں۔
ہمارا خوابیدہ نصیب جاگ نہیں سکتا جب تک قوم کے سر برآوردہ لوگوں میں پوری قوم کیلئے درد اور کسک پیدا نہ ہو، مسلمانوں کی پست حالی ان کی کروٹوں کو بے سکون اور ان کی آنکھوں کو بے آرام نہ کردے، مسلم تعلیمی ادارے مکان کی تعمیر کے بجائے انسان کی تعمیر کی طرف متوجہ نہ ہوں، جو تعلیم و تعلّم کو تجارت کے بجائے عبادت کا درجہ دینے پر آمادہ نہ ہوں اور پوری قوم میں یہ احساس نہ جاگے کہ تعلیم ہی سے ہماری تقدیر وابستہ ہے، یہ ہماری شہ ِرگ ہے اور اس سے محرومی کے بعد کسی قوم کیلئے باعزت طور پر زندہ رہنا ناممکن ہے۔ اب بھی نہ جاگے تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا حالات پیدا ہوں اس لئے بہتر ہوگا کہ ہم تعلیم کو گھر گھر عام کرنے کی فکر کریں، ایک بار پھر ہمارا نعرہ ہو ’’اقراء‘‘ !