Inquilab Logo

قرآن کریم میں غور و فکر کے طریقے

Updated: June 17, 2022, 2:26 PM IST | Dr. Muhammad Wasi Zafar | Mumbai

قرآن حکیم نے غور و فکر کے مختلف طریقے بتائے ہیں، جن سے انسان کو نہ صرف یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ اسے اپنی قوتِ فکروعقل کا استعمال کہاںکہاں کرنا چاہئے،بلکہ ان سے فہم و شعور کی بہت سی نئی راہیں کھلتی ہیں اور نئے شعبوں کی طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ زیرنظر مضمون میں قرآن حکیم کے ذریعے بتائے گئے طریقوں کو چند عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

قرآن کریم میں عقل اور فکر کی قوت استعمال میںلانے کی تاکیدکے پس منظر میںکئی طرح کے اعمال کا ذکر ہے، جیسے فہم (understanding)، ادراک (consciousness)، تفکر (thinking)،  تدبر (deliberation)، تذکر (refreshing) ، درایت (reasoning)  اور تفقہ  (comprehension) وغیرہ۔ لیکن قرآن نے سب سے زیادہ لفظ ’ تفکر‘ کا ہی استعمال کیا ہے، یعنی غور و فکرکرنا۔اسی طرح قرآن نے کئی جگہ غور و فکر کو تجربی مشاہدہ (empirical observation) سے جوڑ کر بیان کیا ہے، جیسے سورۂ یونس: ۱۰۱، الاعراف: ۱۸۵ ؍اور الطارق: ۵ ؍وغیرہ آیات میں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے غور و فکر کے مختلف طریقے بتائے ہیں، جن سے انسان کو نہ صرف یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ اسے اپنی قوتِ فکروعقل کا استعمال کہاںکہاں کرنا چاہئے،بلکہ ان سے فہم و شعور کی بہت سی نئی راہیں کھلتی ہیں اور نئے شعبوں کی طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ 
قرآن حکیم کے ذریعے بتائے گئے طریقوں کو درج ذیل عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
     تفکر فی القرآن (Pondering on the Quran)
قرآن کریم کی کئی آیات میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی کتاب کے اندر غور و فکر کی دعوت دی ہے ۔جیسے ارشاد ہے:
’’یہ ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پراس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل فہم اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘(صٓ : ۲۹)
ایک جگہ قرآن حکیم میں غور و فکر نہ کرنے والوںکی یوں مذمت فرمائی ہے: ’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگ رہے ہیں؟‘‘ (محمد: ۲۴)
اس مضمون کی اور بھی آیات ہیں مثلاً البقرہ: ۲۱۹، النساء: ۸۲ وغیرہ۔ان آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن حکیم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ اس کی آیات میں غور و فکر کیا جائے اور ان سے نصیحت و رہنمائی حاصل کی جائے، نیز یہ کہ قرآن حکیم سے صحیح استفادہ عقل مند لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ سورۃ النساء کی آیت ۸۲؍ خصوصی طور پر یہ واضح کرتی ہے کہ جو لوگ قرآن حکیم میں غور وفکر نہیں کرتے، وہ اکثر شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن حکیم میں غور وفکر کرنے والوں پر حق بتدریج واضح ہوتا جاتا ہے اور وہ ایمان و یقین کی منازل طے کرتے رہتے ہیں اور بالآخر ہدایت اور کامیابی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں۔
قرآن حکیم میں غور وفکرکے لئے عربی ادب، علم لغت، علم التجوید اور علم تفسیر کا ایک خاص مقام ہے۔ ان کے علاوہ مطالعہ ٔ  سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم ،علم حدیث اور علم فقہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
     تفکر فی الآفاق (Pondering over the Universe)
 غور و فکر سے متعلق دوسری قسم کی آیات وہ ہیں، جن میں اللہ رب العزت نے کائنات، اس کے محکم نظام اور اس میں بکھری ہوئی اپنی مخلوقات میں غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ جیسے ارشاد ہے: 
  ’’کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیاآسمان و زمین کے عالم میںاور دوسری چیزوں میںجو اللہ نے پیدا کی ہیں؟‘‘ (الاعراف ۷: ۱۸۵)
 دوسری جگہ ارشاد ہے:   ’’آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ا نہیں آنکھیں کھول کر دیکھو۔‘‘(یونس : ۱۰۱)
ایک جگہ یوںفرمایا: ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں، اور ان کشتیوں میں جو انسان کی نفع کی چیزیں لئے ہوئے سمندر میںچلتی پھرتی ہیں اور بارش کے اس پانی میں جسے اللہ تعالیٰ آسمان سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے اور اس میںہر قسم کی جاندار مخلوق پھیلاتا ہے اور ہوائوں کی گردش میں اور بادل میں جو تابع فرمان ہو کر آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتے ہیں، نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘ (البقرہ: ۱۶۴) 
اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں مثلاً: الانعام: ۹۵ - ۹۹، النحل: ۱۰ - ۱۷، ۶۵ - ۶۹، ۷۸ - ۸۱، العنکبوت: ۲۰، یٰسین: ۳۲ - ۴۴، الغاشیہ: ۱۷ - ۲۰،  فاطر:  ۲۷ - ۲۸، الروم: ۱۹ - ۲۵، الجاثیۃ: ۵ وغیرہ۔ ایک جگہ اللہ پاک نے ایسے بندوں کی تعریف کی ہے جو زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں اور انہیں کائنات کی حقیقت کا ادراک اور اس کے خالق کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔
ان آیات میں اللہ رب العزت نے انسان کو کائنات، اس کے مختلف مظاہر اور آثار میں رُونما ہونے والے مختلف حادثات و تغیرات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ جو لوگ ان میں ایمانداری کے ساتھ غور و فکر کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی حکمت اور صناعی کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ انہیں کائنات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل مل جاتے ہیں۔ اس طرح انہیں اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ 
اب ذرا آپ بھی ان آیات پر غور کیجیے، کیا ان میںعلم کائنات (Cosmology)، علم ہیئت (Astronomy)، علم طبیعیات (Physics) خصوصاً فلکی طبیعات (Astrophysics)، علم جغرافیہ (Geography)، بحری جغرافیہ (Oceanography) اور علم الارض (Earth Science) جیسے علوم کو حاصل کرنے کی ترغیب نہیں ہے؟
     تفکر  فی الخلق (Pondering over the Creatures)
  غور و فکر کا تیسرا منہج اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات ایسی ہیں، جن میں اللہ رب العزت نے اپنی مخلوقات خصوصاً عالم حیوانات اور نباتات کی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے کہ ان کی ساخت، رہنے سہنے کے انداز اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد پر غور و فکر کریں اور اللہ کی قدرت اور حکمت کو پہچانیں۔ جیسے فرمایا: 
’’اور بے شک تمہارے لئے چوپایوں میں( مقام) عبرت (و غور) ہے، ہم تمہیں پلاتے ہیں دودھ خالص اس سے جو گوبر اور خون کے درمیان ان کے پیٹوں میں ہے، پینے والوں کے لئے خوشگوار۔ اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے (بھی پینے کی چیز یعنی رس حاصل کرتے ہو)، کہ تم اس سے شراب بناتے ہواور اچھا رزق(حاصل کرتے ہو)۔ بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔ اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیاکہ تو پہاڑوں میں گھر بنالے اور درختوں میں اور اس جگہ جہاں لوگ چھتریاں بناتے ہیں۔ پھر کھا ہر قسم کے پھلوں سے، پھر اپنے ربّ کے نرم اور ہموار راستوں پر چل، ان کے پیٹوں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد)، اس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘(النحل: ۶۶ - ۶۹)
  ’’کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی فضا میں حکم کے پابند (اڑتے رہتے) ہیں، انھیں کوئی نہیں تھامتا سوائے اللہ تعالیٰ کے، بے شک اس میں ایمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘ (النحل: ۷۹) 
     ’’کیاوہ لوگ نہیں دیکھتے اونٹ کی طرف کہ وہ کیسے (عجیب طور پر) پیدا کیا گیا ہے؟‘‘(الغاشیۃ : ۱۷)
 ’’وہی توہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لئے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے، اور وہ اسی سے تمہارے لئے اگاتاہے کھیتی، اور زیتون، اور کھجور، اور انگور اور ہر قسم کے پھل، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی بڑی) نشانیاں ہیں۔‘‘(النحل: ۱۰ - ۱۱)
انسان اگرعالم حیوانات اور عالم نباتات کا مطالعہ کرے تو اس کا اس نتیجے پر پہنچنا دشوار نہیں کہ یہ سب فقط نامیاتی ارتقاء (organic evolution) کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کی تخلیق کے پیچھے ایک حکمت آمیز منصوبہ بندی اور طے شدہ مقاصد ہیں۔ یہ سب چیزیں اپنے مشاہدہ کرنے والوں کو اپنے خالق کو پہچاننے اور اس کی قدرت و حکمت کو سمجھنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ انسان اس پر بھی غور کرے کہ جس رب نے ان تمام مخلوقات کو ایک مقصد کے تحت پیدا فرمایا، کیا اس نے اسے یوں ہی بے کار پیدا کیا ہے؟ ان آیتوں سے علم حیوانات، علم حیوانات پروری ، خصوصاً علم الطیور (Ornithology)، نحل پروری، علم نباتات اور زرعی تعلیم کے حصول کی طرف بھی رہنمائی ہوتی ہے۔
     تفکر  فی الانفس  (Pondering over Self)
غور و فکر کے اس چوتھے منہج کی طرف رہنمائی ان آیات سے ہوتی ہے، جن میں اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی ذات میں غور وفکر کی دعوت دی ہے۔ ان میں بعض آیات ایسی بھی ہیں جن میں انفس وآفاق دونوں کا ہی تذکرہ ہے، جیسے یہ آیت:
 ’’کیا انہوں نے کبھی اپنی ذات میں غور و فکر نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے نہیں پیدا کیا آسمانوں کواور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں مگر حق (یعنی درست تدبیر و حکمت ) کے ساتھ اور ایک وقت مقرر تک کےلئے ہی۔‘‘ (الروم : ۸) 
 ایک اور جگہ ارشاد ربی ہے:
 ’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ (قرآن ) واقعی حق ہے۔‘‘ (حٰمٓ السجدۃ :۵۳) 
 ایک جگہ انسان کو اپنی تخلیق پر غور کرنے کویوں متوجہ فرمایا: 
 ’’پس، انسان کو چاہئے کہ (خود ہی) دیکھے (یعنی غور کرے) کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ اسے پیدا کیا گیا ہے اچھلتے ہوئے پانی سے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوںکے درمیان سے نکلتا ہے۔‘ ‘ 
(الطارق: ۵ - ۷)
 اتناہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی بعض آیات میں انسان کی تخلیق و پیدائش اور اس کی زندگی کے مراحل کو واضح طور پر بیان بھی کردیا ہے تاکہ انسان ان پر غور و فکرکرے اور اپنے خالق کو پہچانے اور پھر اس کے احکام پر ایمان لے آئے۔ 
مثلاً ،سورۃ الحج میں دیکھیں:
’’اے لوگو! اگر تم (قیامت کے دن) جی اٹھنے سے شک میں ہو تو (سوچو) کہ ہم نے تمہیں (ابتداً) مٹی سے پیدا کیا، پھراس سے نطفہ بناکر، پھر اس سے جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بناکر، پھر اس سے گوشت کی بوٹی بناکر صورت بنی ہوئی اور بغیر صورت بنی (ادھوری) تاکہ ہم تمہارے لئے ( اپنی قدرت) ظاہر کردیں اور ہم جس کو چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمہیں نکالتے ہیںبچے (کی صورت میں) تاکہ پھر تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں کوئی (عمر طبعی سے قبل) فوت ہوجاتا ہے اور تم میں سے کوئی لوٹایا جاتاہے بدترین عمر تک تاکہ وہ (بہت کچھ) جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے (یعنی ناسمجھ ہوجائے)، اور تو زمین کو دیکھتا ہے کہ خشک پڑی ہوئی ہے، پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا تو وہ تر و تازہ ہوگئی اور ابھر آئی اور وہ اگا لائی ہر قسم کی خوش منظر نباتات۔یہ اس لئے کہ اللہ ہی برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ (الحج: ۵ - ۶)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK