یہ رشتہ کمال ایمان کے لئے ضروری ہے اور اس تعلق میں کوتاہی گویا ایمان میں نقص کی علامت ہے۔
EPAPER
Updated: October 20, 2023, 12:17 PM IST | Mohibullah Qasmi | Mumbai
یہ رشتہ کمال ایمان کے لئے ضروری ہے اور اس تعلق میں کوتاہی گویا ایمان میں نقص کی علامت ہے۔
ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی ہوتاہے اگرچہ یہ رشتہ نسبی نہیں ہوتا اورمیراث وغیرہ کی تقسیم کا حکم اس پر نافذ نہیں ہوتا، اس کے باجود مومن کا رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہئے کہ آدمی اپنے مومن بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرے، اس کی جان، مال، عزت و آبرو وغیرہ کی حفاظت کرےاور اس پر ظلم گویا خود اپنے اوپر ظلم تصور کرے ۔ یہی ایمان کی کیفیت اوراس کا تقاضا ہے۔ اسلام نے امت مسلمہ کو جسد واحد قراردیا اور بتایاکہ ایک جسم کے مختلف اعضاء کا جس طرح باہمی ربط وتعلق ہوتا ہے کہ اس کے کسی ایک عضوکو تکلیف پہنچے تو سارا جسم کراہنے لگتاہے، ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان خواہ وہ کسی بھی ملک کا ہو اسے ظلم وجبر کا نشانہ بنایاگیا ہو اور وہ مظلومیت اور اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو اس کے اس درد کو محسوس کیاجائے اوراس پر ظلم کے خاتمہ کے لئے حتی الامکان کوشش کی جائے۔ مومن کے اس رشتہ کی وضاحت کرتے ہوئے سرکار دو عالم محمد الرسولؐ اللہ کا ارشادہے:
’’اہل ایمان کی مثال باہمی شفقت و محبت اور الفت و عنایت میں ایک جسم کی مانند ہے کہ جب اس کے کسی عضو کوکوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتاہے۔‘‘
(بخاری و مسلم)
علامہ ابن تیمیہ ؒنے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے :
’’یہی وجہ ہے کہ مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اوران کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتاہے۔ جس کے اندر یہ کیفیت نہ ہو وہ مؤمن نہیں ہے۔ان کا اتحاد اللہ اور رسول پر ایمان اور محبت کی بنیاد پرقائم ہوتا ہے۔ (مجموع الفتاوی)
یہ رشتہ کمال ایمان کے لئے ضروری ہے اور اس تعلق میں کوتاہی گویا ایمان میں نقص کی علامت ہے۔ اس کی پاسداری کیلئے ضروری ہے کہ ایک مومن اپنے لئے جس چیز کو پسند کرتاہے وہی وہ اپنے بھائی کیلئے بھی پسند کرے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لئے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔‘‘(متفق علیہ)
اس حدیث میں ایک معاشرہ کی صلاح و فلاح کے لئے ایک جامع اصول بتایاگیا ۔ وہ یہ کہ ہرشخص کے اندراپنی بہتری اور بھلائی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی بھلائی اورخیرخواہی کا جذبہ ہونا چاہئے۔ آج مسلمان بھی غیرقوموں کی طرح مفاد پرست اور خود غرض ہوگئے ہیں ۔ انہیں دوسروں کا کوئی خیال نہیں رہتا حتیٰ کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق سے بھی ناآشنا ہو کر بے حسی کی زندگی گزارتے ہیں ۔ اسلام ا س حرکت کو صرف برا تصور نہیں کرتا بلکہ اسے ایمان میں نقص کی علامت بتاتا ہے اور کمال ایمان کے منافی قرار دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے:
’’وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جو آسودہ ہوکر سورہے یہ جانتے ہوئے کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے ۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی)
رسول اللہ ﷺ نے ایسے کاموں کی تلقین کی ہے جن سے باہم محبت پیداہو۔ ابن ماجہ اور ترمذی میں ہے کہ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن سلام ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبیؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیگر لوگوں کے ساتھ میں بھی آپؐ کودیکھنے کے لئے گیا ۔سب سے پہلی بات جو میں نے آپ ؐکی زبان مبارک سے سنی وہ یہ تھی:
’’اے لوگو!سلام کوعام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، جب لوگ سورہے ہوں تب نماز (تہجد) پڑھو۔ اگر تم ایسا کروگے تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوگے۔‘‘
اگر ہم اپنا ایک اصول بنائیں کہ ہمیں اسلامی اخوت کو برقرار رکھنا ہے،کسی صورت میں اسے دیمک نہ لگے جو ہمارے تعلقات کھوکھلاکردے، تو اس کے لئے چندباتوں کا اہتمام ضروری ہے۔ مثلاً: اگر کسی بات میں کوئی نااتفاقی ہو گئی ہو اور ناگوار حالات پیش آجائیں تو تین دن سے زیادہ کسی سے لاتعلقی اختیار نہ کریں ۔ غیبت ،جھوٹ ، خیانت،دھوکہ دھڑی اور حسدجیسی رزیل حرکتوں سے گریز کریں ۔کسی کو اپنے سے کم ترنہ سمجھیں ، کسی کا مذاق نہ اڑائیں ،کسی کا رازفاش نہ کریں ، کسی کو برے نام یا القاب سے نہ پکاریں ، محبت کریں اور معاف کرنے کی عادت ڈالیں۔
اسلامی اخوت کے تعلق سے نبیؐ کریم کا واضح ارشادہے : ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،نہ تووہ اس پر ظلم کرتا ہے اورنہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت میں لگا رہے گا اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔جو کسی مسلمان کی ایک پریشانی کو دورکرے گا اللہ تعالی قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور کردے گا اورجو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالی قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘(بخاری)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کو اپنی ہی طرح دوسرے مسلمان کی حفاظت کرنی ہے اوراس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ اگر انسان اپنے اوپر اپنے مسلمان بھائی کوترجیح دینے لگے گا یا کم ازکم اپنی ہی طرح اس کی بھلائی بھی چاہے گا تو اس کے نتیجے میں اس کے اندرکی بہت سی خرابیاں اور اخلاقی گراوٹیں ازخود ختم ہوجائیں گی ۔عالم اسلام کی سطح پر مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ایمانی اخوت کی بنیاد پرجس قدر بے چینی محسوس کی جارہی ہے یہ یقینی طور پر ایمانی حلاوت کی دلیل ہے۔ جس کے لئے عالمی سطح پر مظاہرے اور عدل قائم کرنے کی کوششیں تیز کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ساری باتیں خوش آئند ہیں مگر ذرا پنا جائزہ لیں تو ہمیں نہیں لگتا کہ آج مسلمانوں میں باہمی محبت اور ربط وتعلق باقی رہ گیا ہے۔ کیا اس پر غوروخوض ضروری نہیں ؟
آج مسلمانوں میں دوسروں کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر حل کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا جذبہ ختم ہوتا نظر آرہاہے، قومی اور عالمی سطح پر مسلمان ایک دوسرے سے کٹے ہوئے سے محسوس ہوتے ہیں اور ان کا باہمی رشتہ کمزور سا معلوم ہوتاہے۔ یہ ہمارے لئے لمحہ ٔ فکریہ ہے۔