روح کی پاکیزگی کا آئینہ انسانی اخلاق ہیں کیونکہ باطن کی حالت کا اندازہ ظاہری اعمال سے لگایا جاسکتا ہے اس لئے اسلامی نصابِ تعلیم میں حُسنِ اخلاق پر بہت زور دیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: February 07, 2025, 4:55 PM IST | Dr. Zafar Darik Qasmi | Mumbai
روح کی پاکیزگی کا آئینہ انسانی اخلاق ہیں کیونکہ باطن کی حالت کا اندازہ ظاہری اعمال سے لگایا جاسکتا ہے اس لئے اسلامی نصابِ تعلیم میں حُسنِ اخلاق پر بہت زور دیا گیا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نوع انسانی کا بنیادی سرمایہ علم ہے جس پر اس کی تعمیر و خوشحالی کا انحصار ہے۔ یہ مبنی بر حقیقت ہے کہ گیتی ٔ ہستی میں صرف اہل علم ہی زندہ ہیں۔ ان کے چلے جانے کے بعد بھی ان کی علمی، فکری اور تحقیقی سرگرمیوں کو یاد کیا جاتاہے۔ علم انسان کو زندگی اور تابندگی عطا کرنے کے ساتھ خود شناسی، خود آگہی، احساس ذمہ داری، خود مختاری اور آزادی فکر و نظر فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس جہالت انسان کو مردہ اور دوسروں کا محتاج بنا کر خود مختاری و خودآگہی سے محروم کردیتی ہے اور اسے ذہنی و فکری غلامی اور پھر جسمانی وسیاسی غلامی میں مبتلا کردیتی ہے۔ ان پڑھ شخص مثبت سوچ و فکر اور تعمیری نظریات سے بھی محروم رہتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ علم کے ذریعہ اولا انسانی کی باطنی اور روحانی اصلاح و تربیت میں بنیادی ررول ادا کرتاہے حتیٰ کہ زیور علم سے آراستہ فرد روح کو نفسانی خواہش کی غلامی اور مادّیت پرستی کی آلائشوں سے پاک کر لیتا ہے تاکہ بندہ رضائے الٰہی کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔ روح کی پاکیزگی کا آئینہ انسانی اخلاق ہیں کیونکہ باطن کی حالت کا اندازہ ظاہری اعمال سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس لئے اسلامی نصابِ تعلیم میں حُسنِ اخلاق پر بہت زور دیا گیاہے۔ دراصل نظامِ اخلاق ہی ہر فرد اور سماج کی عملی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہے۔ اسلامی نصابِ تعلیم انسان کی اخلاقی زندگی کی تعمیر کرتا ہے اور اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ عملی زندگی میں معاشرے کا ایک مفید بااخلاق اور معزز فرد کہلاسکے۔
صحیح معنوں میں علم و تحقیق سے متصف فرد بلا ضرورت نت نئے فتنے اور غیر اخلاقی فلسفے پیش نہیں کرتا اور نہ ہی مسلم اخلاقی اقدار میں سے کسی کو خرد برد کرتا ہے۔ ہر جگہ، ہر شعبۂ زندگی میں علم سے متصف فرد اخلاق کو حکمراں بناتا ہے اور اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ معاملاتِ زندگی کی باگیں خواہشات، اغراض اور مصلحتوں کےبجائےاخلاقی پیمانوں پر استوار کی جائیں۔ چنانچہ اسلامی تعلیمات بھی انسانیت سے ایک ایسے نظام زندگی کے قیام کا مطالبہ کرتی ہیں جو اچھی اور نیک اقدار پر قائم ہو۔ گویا اسلامی نظام تعلیم کا تعلق اللہ اور بندے کے باہمی تعلق کے ساتھ انسانوں کے درمیانی تعلقات سے بھی ہے۔ اسلامی تعلیم تمام انسانی معاملات میں اخلاقی اصولوں کی روح کو رواں دواں دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ رحم، عفوودرگزر اور خطا پوشی جیسے پسندیدہ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے بندے میں نیابت ِالٰہی کا رنگ دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کے نزدیک صبر، شکر، معرفت حق، عدل و انصاف، سچائی، راست بازی، امانتداری، رواداری، احسان، مساوات، اخوت اور تقویٰ پسندیدہ اخلاقی صفات ہیں۔ اچھی صفات کو زندگی کا جزو بنانا اور مذمومہ صفات سے دامن بچانا مومن کی شان ہے۔ بلند اخلاق شرف انسانی کی معراج اور آدمیت کے روحانی و اخلاقی حسن کو دوبالا کردیتے ہیں۔
جب ہم عہد رسالتؐ کے نظام تعلیم و تربیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ نے علم کے متعلق جو تصور دیا تھا اس نے اسلام کی شعوری اور فکری زندگی کو اپنے غیر متبدل راستے پر استوارکر دیا ہے۔ اسلام کا نظام تعلیم ایک ایسا جامع نظام ہے جو ہم آہنگی کے ساتھ ایک مضبوط شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ یہ تعلیم کا ایسا جامع و ہمہ گیر نظام ہے جو فرد کی کامل تعلیم پر زور دیتا ہے جس میں جسم، دماغ اور روح شامل ہیں۔ یہ انسانی روح میں نور الٰہی کا ایساشعلہ بھڑکا دیتا ہے جو زندگی کو حقیقی معنی عطا کرتا ہے اور منزل ِمقصود کے حصول کے لئے اسے ہمہ وقت جہد ِ مسلسل کی مہمیز دیتی ہے۔ یہ زندگی کے ہر مرحلے میں مستقل ترقی اور آگے بڑھنےکے لئے مسلسل جدوجہد کی تاکید کرتا ہے۔ انسانی شخصیت کی نمو اور ترقی کا انحصار مستقل جدوجہد پر ہی موقوف ہے۔ اسلام کے مطابق انفرادی شخصیت کی تعمیر ایک مفروضہ نہیں بلکہ کامیابی ہے۔ یہ کامیابی معاشرے کی باطل قوتوں اور خود انسان میں موجود انتشار پھیلانے والے رجحانات کے خلاف جدوجہد اور انتھک کوششوں کا ثمر ہے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ نظام تعلیم اور تعلیمی اداروں کے قیام کا تصور اور جو نظریہ ہمارے اکابر علماء، دانشوروں اور مفکرین نے ماضی میں پیش کیا ہے وہ بڑا جامع اور مکمل تھا۔ ان اداروں میں نہ جدید و قدیم کے نام پر تفریق تھی اور نہ مشرق و مغرب کے نام پر کسی طرح کی تقسیم پائی جاتی تھی بلکہ صرف حصول علم کے نام پر ادارے قائم ہوتے تھے۔ ان میں وقت و حالات کی ضرورت کے مطابق اسکالر اور اصحاب علم وفضل تیار کئے جاتے تھے۔ مدرسہ نظامیہ بغداد کی نسبت اس کے بانی نظام الملک طوسی کی طرف ہے جو سلجوقی دور کا وزیراعظم تھا۔ شاہی سرپرستی میں چلنے والا یہ مدرسہ طلبہ اور اساتذہ کیلئے ہر قسم کی سہولیات اور تمام علوم و فنون اور معارف و حکم کے حاصل کرنے کا شاندار مرکز و محور تھا۔ اس ادارہ میں امام غزالی اور امام ابواسحاق شیرازی، مجددالدین فیروزآبادی جیسے اصحاب علم وفضل تدریسی خدمات انجام دیتے تھے۔ ان حضرات کی متنوع فکر کا اندازہ ان کی علمی و تحقیقی خدمات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سلطان محمود غزنوی ہندوستان آیا تواس نے حکم دیا کہ غزنی میں ایک عالی شان مسجد بنوائی جائے۔ چنانچہ ایک کثیر رقم خرچ کرکے ایک عالی شان مسجد تعمیر کی گئی جسے عروس الفلک (آسمانی دلہن) کا نام دیاگیا۔ اسی مسجد میں علوم نقلیہ و عقلیہ کی تدریس کے لئے ایک بہترین دارالعلوم تعمیر کرایا۔ یہاں پر کامل ترین علماء و فضلاء ایشیاء بھر کے طلباء کو درس دیا کرتے تھے۔ یہ کالج ایشیاء بھر میں اپنی نظیر آپ تھا۔
فاطمی امراء نے ۳۵۸ ھ میں مصر فتح کیا تو قاہرہ کو اپنا مذہبی مرکز بناکر یہاں ۳۵۹ھ میں جامع مسجد ازہر کی بنیاد رکھی۔ پہلے فاطمی خلیفہ العزیز باللہ نے اس میں ایک شاہی مدرسہ کھولاجہاں پر منقولات اور معقولات کی تدریس کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ بہت جلد یہاں پر اطراف و اکناف کے طلبہ جمع ہوگئے۔ جن کی تعلیم، کھانے پینے، رہائش اور دیگر سہولتوں کا مفت انتظام تھا۔ یہ مدرسہ آج تک جامعہ ازہر کے نام سے قائم ہے اور عالم اسلام کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ بھی ملاحظہ کرتے چلیں کہ یورپ کے ملک اندلس (اسپین) میں جو مسلمانوں کے زیرنگین تھا قرطبہ اور غرناطہ علم و فن اور ارباب کمال کے بڑے مرکز بن گئے تھے۔ قرطبہ کی مشہور عالَم ’’جامع مسجد قرطبہ‘‘ میں خلیفہ الحکم ثانی نے جامعہ قرطبہ کے نام سے ایک بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی جہاں پر مفت تعلیم کا انتظام تھا، یہاں پر مشرق و مغرب کے جلیل القدر اساتذہ تدریس کی خدمت پر مامور تھے۔ اس یونیورسٹی کی عظمت کا اندازہ اس کے کتب خانہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جس میں چار لاکھ نادر کتابیں موجود تھیں اور اس کی صرف فہرست چوالیس جلدوں پر مشتمل تھی۔
یہاں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ماضی میں ہمارے اکابر نے جو ادارے اور مراکز علم قائم کئے تھے ان میں وسعت تھی۔ ان کے یہاں دینی و دنیوی علوم کے نام پر کوئی تفریق نہیں برتی جاتی تھی۔ جب سے دینی اور دنیوی اداروں کی شناخت ہونے لگی اور اسی مناسبت سے نصاب تعلیم مرتب کیا جانے لگا تب سے بہت سارے مسائل پیدا ہوئے۔ عصری دانش گاہوں اوردینی اداروں میں اعتدال و امتزاج اور ہم آہنگی ختم ہوئی تو وہیں علمی روابط بھی کسی حد تک متاثر ہوئے اور پھر ہوا یہ کہ تعلیم کے نام پر ہم نے اپنے معاشرے میں دو محاذ تیار کر لئے۔ سچ بات یہ ہے کہ دونوں ہی افراط و تفریط کا شکار ہیں ۔ اگر ہم بات کریں عصری اداروں کی تو ان کے متعلق یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اداروں کے بیشتر فارغین دین کی بنیادی اور اخلاقی تعلیمات سے ناآشنا ہوتے ہیں جبکہ دینی اداروں کے بہت سے فضلاء سماجیات اور دیگر ضروری مضامین سے نابلد ہوتے ہیں۔ اس لیے قدیم و جدید کی تفریق معدوم کرکے دونوں نظاموں میں بنیادی طور پر ہمیں امتزاج و ہم آہنگی اور توسع و رواداری پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
(باقی آئندہ ہفتے)