اس میں عقائد، اخلاق، مالی معاملات ، انسانی قول و فعل، خاندانی تعلقات، شخصی ارتباط کے اُصول، بین قومی روابط، قانون جرم و سزا اور سیاسی نظام کی صورت گری تک ہر شعبے میں رہنمائی موجود ہے۔
EPAPER
Updated: February 25, 2025, 4:30 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
اس میں عقائد، اخلاق، مالی معاملات ، انسانی قول و فعل، خاندانی تعلقات، شخصی ارتباط کے اُصول، بین قومی روابط، قانون جرم و سزا اور سیاسی نظام کی صورت گری تک ہر شعبے میں رہنمائی موجود ہے۔
اسلام کے معنی سر تسلیم خم کر دینے اور مکمل طور پر اپنے آپ کو حوالہ کر دینے کے ہیں، پس جو شخص اسلام قبول کرتا ہے، وہ پوری طرح اپنے آپ کو خالقِ کائنات کے حوالہ کر دیتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ ‘‘ (البقره : ۲۰۸) اس ارشادربانی میں اشارہ ہے کہ شریعت اسلامی محض چند عبادتی رسم و رواج اور خدا کی بندگی کے طریقہ کا نام نہیں ، بلکہ وہ ایک مکمل نظام حیات اور کامل طریقۂ زندگی ہے، جو انسانیت کے لئے بھیجی گئی ہے، اور سراپا رحمت اور خیر و فلاح سے عبارت ہے۔
اسلام کی نگاہ میں قانون بنانے اور حلال و حرام کو متعین کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے’’حکم صرف اللہ ہی کا ہے ‘‘، ’’خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے ‘‘ (الاعراف:۵۴)؛ کیونکہ پوری انسانیت کے لئے وہی ذات نظام ِحیات کو طے کر سکتی ہے، جو ایک طرف پوری کائنات کے بارے میں باخبر ہو اور پوری انسانیت کے جذبات و احساسات اور اس کی خواہشات و ضروریات، نیز اس کے نفع و نقصان اور اشیاء کے نتائج و اثرات سے پوری طرح واقف ہو؛ کیوں کہ اگر وہ ان حقیقتوں کا علم نہیں رکھتی ہو، تو عین ممکن ہے کہ اس کے دیئے ہوئے بعض احکام نفع کے بجائے نقصان اور خیر و فلاح کے بجائے ناکامی و خسر ان کا باعث بن جائیں۔
دوسری طرف وہ تمام انسانی طبقات کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کر سکتا ہو، کالے گورے، امیر و غریب، مرد و عورت، رنگ و نسل اور زبان و وطن کی بنیاد پر ان کے درمیان کوئی تفریق روا نہ رکھتا ہو اور ایسی ذات خدا ہی کی ہو سکتی ہے؛ کیونکہ وہ علیم و خبیر بھی ہے اور عادل و منصف بھی۔
انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ کائنات کی تمام اشیاء کے فائدہ و نقصان اور پوری انسانیت کے جذبات واحساسات سے واقف ہے؛ بلکہ وہ تو اپنے آپ سے بھی پوری آگہی کا مدعی نہیں ہو سکتا، اور ہر انسان چوں کہ کسی خاص رنگ و نسل، کنبہ و خاندان اور زبان و علاقہ کی وابستگی کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے اور یہ وابستگی اس میں فطری طور پر ترجیح و طرفداری کا ذہن پیدا کرتی ہے؛ اسلئے کسی انسان یا انسانی گروہ کے بارے میں یہ بات نہیں سوچی جاسکتی کہ وہ تمام انسانوں کے ساتھ مساوی طریقہ پر عدل و انصاف کا برتاؤ کرے گا، اگر ایسا ممکن ہوتا تو زبان و وطن اور نسل و رنگ کی بنیاد پر جو جغرافیائی تقسیم پائی جاتی ہے، وہ نہیں ہوتی؛ اس لئے خدا کا بھیجا ہوا قانون انسانی قانون کے مقابلہ یقیناً بر تر و فائق اور مبنی بر انصاف ہوگا۔
اللہ تعالی نے جس دن سے کائنات کی اس بستی کو انسانوں سے بسایا ہے، اسی دن انسان کو زندگی بسر کرنے کے طریقہ کی بھی تعلیم دی ہے، البتہ انسانی تمدن کے ارتقاء کے باعث وقتاً فوقتاً نئے احکام دیئے گئے، نیز قانون کی گرفت کو کمزور کرنے کے لئے انسان نے آسمانی ہدایات میں اپنی طرف سے آمیزش کی، ان تحریفات اور آمیزشوں سے پاک کرنے کی غرض سے رب کائنات کی طرف سے انسانیت کے لئے نئے بے آمیز ہدایت نامے آئے، اس سلسلہ کی آخری کتاب قرآن مجید کی صورت میں پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم پر نازل ہوئی۔ یہ اسی قانون کا تسلسل ہے جو مختلف ادوار میں پیغمبروں کے واسطہ سے انسانیت تک پہنچتا رہا ہے۔
شریعت ِ اسلامی کو جو باتیں انسان کے خود ساختہ قوانین سے ممتاز کرتی ہیں، وہ یہ ہیں :
عدل: شریعت اسلامی کا سب سے امتیازی پہلو اس کا عدل اور پوری انسانیت کے ساتھ مساویانہ سلوک ہے۔ دین کی بنیاد در اصل عدل پر ہے: ’’بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔ ‘‘ (النحل :۹۰) اسی لئے اسلام کی نگاہ میں رنگ ونسل، جنس اور قبیلہ و خاندان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔ ‘‘ (الحجرات:۱۳)
رسول اللہ ﷺ نے اس کو مزید واضح فرمایا اور ارش سے د ہوا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے (مسند احمد) اسلام کے تمام قوانین کی اساس اسی اُصول پر ہے۔ اسلام نے دنیا کو ایک ایسے قانون سے روشناس کیا جسکی بنیاد انسانی وحدت، مساوات اور ہر طبقہ کے ساتھ انصاف پر ہے اور جو کسی طبقہ کو حقیر اور اچھوت بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
توازن و اعتدال: شریعت اسلامی کا دوسرا امتیازی وصف اس کا توازن و اعتدال ہے، مثلاً مرد و عورت انسانی سماج کے دو لازمی جزو ہیں، دنیا میں کچھ ایسے قوانین وضع کئے گئے جن میں عورت کوبے حیثیت اور بے توقیریا بے جان املاک جیسا قرار دے دیا گیا، نہ وہ کسی جائیداد کی مالک ہو سکتی تھی، نہ اس میں تصرف کر سکتی تھی، نہ اس کو اپنے مال پر اختیار حاصل تھا نہ اپنی جان پر۔ اس کے مقابل دوسری طرف کچھ لوگوں نے عورتوں کو تمام ذمہ داریوں میں مردوں کے مساوی قرار دے دیا، عورتوں کی جسمانی کمزوری، ان کے ساتھ پیش آنے والے قدرتی حالات و عوارض اور طبیعت و مزاج اور قوت فیصلہ پر ان کے اثرات کو نظر انداز کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بظاہر تو اسے عورت کی حمایت سمجھا گیا لیکن انجام کار اس آزادی نے سماج کو بے حیائی، اخلاقی انارکی ناقابل علاج امراض اور خود عورتوں کو نا قابل تحمل فرائض کا تحفہ دے دیا گیا۔
اسلام نے مردوں اور عورتوں سے متعلق نہایت متوازن قانون دیا ہے، انسانی حقوق میں مردوں اور عورتوں کو مساوی درجہ دیا گیا ہے:’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔ ‘‘ (البقرہ: ۲۲۸) مگر سماجی زندگی میں دونوں کے قویٰ اور صلاحیت کے لحاظ سے فرق کیا گیا ہے اور بال بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عورتوں کو اور کسب معاش کی ذمہ داری مردوں کو دی گئی ہے۔ سماجی زندگی کا یہ زریں اصول ہےجس میں خاندانی نظام کی بقاء، اخلاقی اقدار کی حفاظت اور عورت کا نا قابل برداشت مصائب سے بچاؤ مضمر ہے۔
عقل و حکمت سے مطابقت: خدا سے بڑھ کر کوئی ذات انسان کی مصلحتوں سے آگاہ نہیں ہو سکتی ؛ اسی لئے شریعت کے احکام عقل کے تقاضوں اور مصلحتوں کے عین مطابق ہیں، یہاں تک کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ شریعت تمام تر مصلحت ہی سے عبارت ہے اور ہر حکم شرعی کا مقصد یا تو کسی مصلحت کو پانا ہے، یا کسی نقصان اور مفسدہ کا ازالہ۔ (قواعد الاحکام لعزالدین بن عبدالسلام)۔ اس کے بر خلاف انسان کی عقل کو تاہ و نا رسا ہے اور خود اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے سے بھی قاصر و عاجز۔ دوسرے انسان بعض اوقات خواہشات سے اس قدر مغلوب ہو جاتا ہے کہ کسی بات کو نقصان جانتے ہوئے بھی اس کو قبول کر لیتا ہے، اس کی واضح مثال شراب ہے جو انسان کیلئے نہایت نقصان دہ اور اس کی صحت کو برباد کر دینے والی چیز ہے۔ لیکن آج دنیا کے ان تمام ملکوں میں جو انسانی قانون کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں، شراب کی اجازت ہے۔ غیر قانونی جنسی تعلق اور ہم جنسی کے بارے میں تمام میڈیکل ماہرین متفق ہیں کہ یہ صحت کیلئے نہایت مہلک فعل ہے اور نہ صرف اخلاق کیلئے تباہ کن ہے؛ بلکہ طبی نقطہ نظر سے بھی زہر ہلاہل سے کم نہیں ، اس کے باوجود عوامی دباؤ اور آوارہ خیال لوگوں کی کثرت سے مجبور ہو کر بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ان خلاف فطرت اُمور کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اسلامی شریعت کہیں بھی عقل اور حکمت و مصلحت سے برسر پیکار نظر نہیں آتی اور اس کا ایک ایک حکم انسانی مفاد و مصلحت پر مبنی ہے۔
فطرت انسانی سے ہم آہنگی: اللہ تعالی نے جیسے کائنات کو پیدا کیا ہے، اسی طرح وہی انسانی فطرت سے بھی پوری طرح واقف ہے، اس لئے اس کی بھیجی ہوئی شریعت مکمل طور پر فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہے؛ اسی لئے قرآن نے اسلام کو دین فطرت سے تعبیر کیا ہے:’’اﷲ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے‘‘ (الروم: ۳۰)، فطرت سے بغاوت ہمیشہ انسان کے لئے نقصان و خسران اور تباہی وبر بادی کا سبب بنی ہے، انسان کے بنائے ہوئے قانون میں فطرت سے بغاوت کا رجحان قدم قدم پر ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلام میں طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں ہے اور عورت کے واسطے گلوخلاصی (خلع) کی سہولت ہے۔ لیکن مغرب نے مرد و عورت کو مساوی درجہ دیتے ہوئے طلاق کے معاملہ میں بھی دونوں کو یکساں حیثیت دے دی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلاق کی شرح بہت بڑھ گئی، چنانچہ خاندانی نظام بکھر کر رہ گیا ہے۔ شریعت اسلامی کے جس حکم کو بھی حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے محسوس ہوگا کہ اس میں قانون فطرت کی مطابقت غیر معمولی حد تک پائی جاتی ہے جبکہ انسان کے خود ساختہ قوانین میں فطرت سے بغاوت اور تقاضوں پر خواہشات کے غلبہ کا رحجان ہر جگہ نمایاں ہے۔
جامعیت: اسلامی اور الہامی قانون کا ایک اہم پہلو اس کی جامعیت اور ہمہ گیری ہے، شریعت اسلامی میں عقائد بھی ہیں اور اخلاق بھی، عبادات بھی ہیں اور انسان کے قول و فعل سے متعلق احکام بھی، مالی معاملات بھی ہیں اور خاندانی تعلقات بھی، شخصی ارتباط کے اُصول بھی ہیں اور بین قومی روابط کی بابت رہنمائی بھی، قانون جرم و سزا بھی ہے اور سیاسی نظام کی صورت گری بھی۔ یہ جامعیت وضعی قوانین میں نہیں ملتی، کم سے کم عقائد و اخلاق اور عبادات کے لئے ان قوانین میں کوئی جگہ نہیں ، خدا اور بندہ کے تعلق اور انسان پر مالک کائنات کے حقوق کے بارے میں ان نظام ہائے قانون میں کوئی رہنمائی نہیں مل سکتی، اسلامی شریعت ایک جامع ترین نظام قانون ہے، جو ہر ہر قدم پر انسان کی رہنمائی و رہبری کرتا ہے اور اسے روشنی دکھاتا ہے۔
ابدیت و دوام: جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے، لباس کی مقدار میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ؛ لیکن جب انسان جوانی کی عمر کو پہنچ جاتا ہے، تو اس وقت جو لباس اس کے لئے موزوں ہوتا ہے، وہ ہمیشہ اس کے لئے کافی ہوتا ہے اور اس کی موزونیت باقی رہتی ہے، اسی طرح انسانی تمدن کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حسب حال احکام آتے رہے، یہاں تک کہ جب انسانی شعور اور اس کا تمدن اپنے اوج کمال کو پہنچ گیا تو اسے شریعت محمدی سے نوازا گیا، اب یہ انسانی سماج کے لئے ایسا موزوں قانون ہے کہ قیامت تک اس کی موزونیت اور اس کی افادیت باقی رہے گی کبھی کم نہیں ہو سکتی۔