ہمیں اپنے نفس کا حساب کرنا چاہئے کہ اس نے کیا نیکیاں کمائیں اور برائیوں میں پڑ کر کیا گنوایا ، ہمیں اپناروحانی بجٹ بھی تیار کرنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: July 05, 2024, 2:40 PM IST | Muhammad Munir Qamar | Mumbai
ہمیں اپنے نفس کا حساب کرنا چاہئے کہ اس نے کیا نیکیاں کمائیں اور برائیوں میں پڑ کر کیا گنوایا ، ہمیں اپناروحانی بجٹ بھی تیار کرنا چاہئے۔
ارکان ِ اسلام، حج و روزے کا حساب اسی اسلامی کیلنڈر سے کیا جاتا ہے۔ عید اور قربانی جیسے شعائرِاسلام کا تعلق بھی اسی اِسلامی تقویم کے ساتھ ہے مگر یہ ایک امرواقع ہے کہ آج کا مسلمان اپنے ماضی کی شاندار روایات کو نظر انداز کرتا بلکہ بھولتا جارہا ہے اور اپنے نمایاں اسلامی تشخص کو قائم رکھنے میں ناکام ہورہا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مگر واضح جھلک ہمارے اس رویے میں موجود ہے کہ آج ہمارے گھروں میں انگلش کیلنڈر کا استعمال اس قدر عام ہے کہ لوگ اپنی اصلی تاریخ سے نا آشنا ہو رہے ہیں۔ آپ کبھی سروے کرکے دیکھیں تو شاید ۱۰؍ فیصد مسلمان بھی ایسے نہ ملیں جنہیں روز ِ رواں کی ہجری تاریخ کا پتہ تو درکنار، ہجری سال کے ۱۲؍ مہینوں کے نام ہی آتے ہوں۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہمارے اجتماعی کردار کا افسوسناک پہلو ہے کہ انگلش کیلنڈر کے پہلے مہینے کا آغاز ہو تو ہم ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ کہتے ہوئے ایک دوسرے کو ملتے ہیں لیکن اس کے برعکس جب ہمارا اپنا اسلامی سال شروع ہوتا ہے تو ’’سال ِ نو مبارک ‘‘ یا ’’ ہیپی نیو ائیر ‘‘ کہنا تو کجا، یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا اپنا سال شروع ہو چکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس دن کی سرکاری چھٹی اور تاریخ کے ایک المناک سانحہ یعنی شہادت ِ حضرت حسین ؓ کی وجہ سے صرف اتنا معلوم ہو جا تا ہے کہ محرم شروع ہوگیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:اہل ایمان کی پانچ صفات جو سورۂ انفال میں بیان ہوئی ہیں
اسلامی سال ِ نو کا آغاز بڑے ہی مہذب و مقدس انداز سے ہونا چاہئے کیونکہ اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ بڑی فضیلت و عظمت والا ہے۔ نبی اکرم نے ماہ ِ محرم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے اسے ’’شہراللہ ‘‘یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو حرمت والا مہینہ کہا ہے، جیسا کہ سورہ التوبہ میں ارشاد ِ ربانی ہے :
’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ‘‘ (التوبہ:۳۶)
نبی کریم کی تعیین کے مطابق اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ محرم انہی چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جبکہ دوسرے تین مہینے رجب، ذی القعدہ اور ذ ی الحجہ ہیں۔ اسلامی سال ِ نو کے ہلال ِ محرم کا طلوع ہونا اپنے ساتھ کئی پیغامات لاتا ہے :
سب سے پہلے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری عمر کا ایک اور سال مکمل کردیا ہے۔ بالفاظ ِ دیگر تمہاری کل عمر میں سے ایک سال اور کم ہوگیا ہے اس لئے ہمیں شاداں و فرحاں ہونے کے ساتھ فکر مند بھی ہونا چاہئے کہ ہماری عمر کا بیلنس کم ہورہا ہے۔ سال ِ نو کے آغاز کے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے یہ دعائیں مانگنا چاہئے کہ:
اے اللہ ! اس نئے سال کو ہمارے لئے انفرادی و اجتماعی مسرتوں اور قومی و ملّی خوشیوں کا پیامبر بنا دے، اے اللہ ! ہمارے الجھے ہوئے پیچیدہ انفرادی، جماعتی اور ملکی و عالمی مسائل کو سلجھا دے، اے اللہ ! ہمیں صحت و عافیت اور جانی و مالی خوشی عطافرما، اے اللہ! اس نئے سال میں ہمیں سال ِماضی کی نسبت کارِ خیر اور نیکی و تقویٰ کی زیادہ توفیق عطا فرما (آمین)۔
اسلامی سال ِ نو کے آغاز پر ذکر ِ الٰہی کی کثرت کے ساتھ ساتھ ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی ہمت و فکر کے مطابق اپنے سال ِ ماضی کا بھر پور جائزہ لے کہ اس نے ارکان ِ اسلام اور اللہ و رسول کے احکام میں کہاں کہاں کوتاہی کی ہے؟ اور کن کن نیک کاموں میں حصہ لیا ہے۔ اس طرح اپنے ماضی کے آئینہ میں جھانک کر مستقبل کیلئے بہترین پروگرام مرتب کرے اور تجدید ِعہد کرے کہ آج سے ہی سابقہ تمام کوتاہیوں کا یکے بعد دیگرے ازالہ کرتا جاؤں گا اور اعمالِ خیر میں بیش از پیش حِصہ لوں گا۔
اللہ والے تو ہر رات کو سونے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں کہ آج ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟اور عام دنیا داری اصول بھی ہے کہ ہرتاجر اور کاروباری آدمی اپنی آمد و خرچ اورمنافع کے روزانہ و ماہانہ حساب کے ساتھ ساتھ سالانہ حساب کرکے کلوز اَپ کرتا ہے۔
اس مالی حساب کتاب کی طرح ہمیں اپنے نفس کا حساب بھی کرنا چاہئے کہ اس نے نیکیاں کرکے کیا کمایااور برائیوں میں پڑ کر کیا گنوایا اور جس طرح تجارتی و مالی امور میں ہر نئے سال کا بجٹ تیار کیا جاتا ہے، اُسی طرح سال ِ نو کے آغاز پر ہمیں اپناروحانی و عملی بجٹ بھی تیار کرنا چاہئے۔
ماہ ِ محرم کے ساتھ ہی ہم چونکہ اپنی عمر ِ عزیز کے نئے سال کاآغاز کرتے ہیں لہٰذا ہمیں اس نئے سال کا پُر جوش اور بھر پور استقبال کرنا چاہئے جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سال ِ نو کا افتتاح روزہ رکھ کر کیا جائے جو شکران ِ نعمت بھی ہوگا اور مسنون طریقہ بھی یہی ہے۔ اور خاص طور پر ماہ ِ محرم کے روزوں کے بارے میں صحیح مسلم اور سنن ِ اربعہ میں ہے کہ نبی ؐسے پوچھا گیا :
’’رمضان المبارک کے روزوں کے بعد افضل روزے کون سے ہیں ؟‘‘
تو آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے اس مہینے کے روز ے جسے تم محرم کہتے ہو۔ ‘‘
اگر زیادہ نہ ہوسکے تو کم از کم ایام ِ محرم کے سرتاج دن ’’یومِ عاشوراء‘‘ کاروزہ تو ضرورہی رکھنا چاہئے کیونکہ اس کی فضیلت کے متعلق صحیح مسلم، ترمذی، ابن ِ ماجہ اور مسند احمد میں ارشاد ِ نبویؐ ہے :
’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ یوم ِ عاشوراء کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔ ‘‘
بخاری و مسلم، ابو داؤد و نسائی اور ابن ِ ماجہ میں ہے کہ نبی کریم نے یہودیوں کو یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا تو پوچھا: ’’تم لوگ جس دن کا روزہ رکھتے ہو یہ کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے بتایا کہ یہی وہ مباک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو ان کے دشمن (فرعون اور اس کے لشکر ) سے نجات دلائی تھی۔ اس پر بطورِ شکرانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا تھا لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں تو نبی اکر مؐ نے فرمایا: ’’(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) پر (نبی کی حیثیت سے) میرا حق تم سے زیادہ ہے۔ ‘‘ پھر آپؐ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا لیکن یہودیوں کے روزہ کی مشابہت دور کرنے کیلئے آپؐ نے یومِ عاشوراء سے ایک دن پہلے ایک روزہ رکھنے کی ہدایت کی اور اسی کو مسنون قرار دیا گیا ہے۔