ہر مسلمان کو اول تو یہ جاننا چاہئے کہ ’’اُمت ِ وسط‘‘ سے قرآن مجید کی کیا مراد ہے۔ اس کا معنی جان لینے کے بعد سوچنا چاہئے کہ ہم اُصول وسط پر کیسے عمل کرسکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 11, 2024, 4:22 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
ہر مسلمان کو اول تو یہ جاننا چاہئے کہ ’’اُمت ِ وسط‘‘ سے قرآن مجید کی کیا مراد ہے۔ اس کا معنی جان لینے کے بعد سوچنا چاہئے کہ ہم اُصول وسط پر کیسے عمل کرسکتے ہیں۔
اسلام کی ایک بہت ہی نمایاں خوبصورتی یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کی حد بندی کر دی ہے؛ اس لئے یہاں نہ کسی معاملے میں افراط کی گنجائش ہے اور نہ تفریط کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر معاملے میں اعتدال کا راستہ مستحسن اور پسندیدہ ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امت کو ’’اُمت ِوسط‘‘ کا عظیم الشان تمغہ ملا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور ( مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے۔ ‘‘ (البقرہ: ۱۴۳)
اس آیت میں اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس کے افراد کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ تم افراط وتفریط کا شکار نہیں ہو، نہ تم حد سے آگے بڑھنے والے ہو اور نہ حد سے گزرنے والے ہو، اس لئے کہ ہم نے تمہیں ایک معتدل اور درمیانی امت بنایا جو اعتدال پر اور انصاف پر قائم رہنے والی ہے۔ آیت ِ ہذا کے ضمن میں امت مسلمہ کو خواب غفلت سے جگانے والی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگر کوئی اپنے معاملات اور عمل میں اعتدال کی ڈگر سے ہٹ جاتا ہے تو وہ صحیح معنوں میں امت مسلمہ کے حلقے سے عملا ًخارج ہو جاتا ہے؛ کیونکہ یہ عالمی طور پر مسلمہ اصول ہے کہ کسی تمغہ کے حصول کیلئے طے شدہ شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ اگر وہ شرائط نہیں پائے جائیں گے تو وہ تمغہ بھی نہیں ملے گا۔ بالکل اسی طرح امت مسلمہ کے جس جس فرد میں اعتدال کی صفت نہیں پائی جائیگی وہ سب کے سب `امت وسط کے تمغے سے محروم رہیں گے۔
یہ بھی پڑھئے:عبدالقادر جیلانی ؒ نے وعظ و نصیحت کیساتھ قلم کے ذریعہ بھی احیائے اسلام کا فریضہ ادا کیا
زیر بحث موضوع کے تناظر میں جب ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ ہم بہت سارے معاملات میں کسی نہ کسی وجہ سے اور کسی نہ کسی درجے میں راہ اعتدال سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک بہت واضح مثال یہ ہے کہ شریعت نے جس کا جو حق طے کیا ہے اس کا ادا کرنا لازم ہے۔ اس کے باوجود آج امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ صرف اپنا حق وصول کرنے کی بات کرتا ہے جبکہ اسی طبقے کے اوپر دوسروں کے جو حقوق ہیں اس کی ادائیگی کا خیال بھی اس کے دل میں نہیں آتا۔ یہی تو وہ بے اعتدالی ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاملات سلجھتے دکھائی نہیں دیتے! جب ہم اعتدال کے اسلامی فلسفے کو حد بندی کے آئینے میں دیکھتے ہیں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں معاملہ اور بھی زیادہ پیچیدہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلام نے ماں، بیوی، بہن، بیٹی اوربہو سے محبت کی الگ الگ حد قائم کی ہے۔ اب اگر کوئی بیوئی سے بے حد محبت کرے اور ماں کو نظر انداز کرے یا بیٹی سے خوب محبت کرے اور بہو کو ستائے تو اس طرح کے لوگ حد سے تجاوز کرنے والے قرار پائیں گے اور حد سے تجاوز کرنا ظلم ہے جس کی عبرتناک سزا دنیا میں اکثر مل جاتی ہے اور آخرت میں جو خسارہ ہوگا اس کے تصور سے ہی روح کانپ جانی چاہئے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے متعدد مقامات پر الگ الگ سیاق و سباق میں حد سے تجاوز کرنے والوں کیلئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے چنانچہ ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ا ﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ ‘‘ (البقرہ: ۱۹۰)۔ عام زندگی میں کسی بھی معاملے میں حد سے تجاوز کرنا تو دور کی بات، اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی ایک آیت میں دعاء میں بھی حد سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اپنے پروردگار سے گڑگڑاکر چپکے چپکے دُعا کیا کرو، بے شک اﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف: ۵۵) دُعا میں زیادتی کرنا یہ ہے کہ دُعا غفلت کے ساتھ کی جائے اور پُرتکلف الفاظ استعمال کئے جائیں جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے۔ غرض یہ کہ دُعاء میں اس کے آداب کی رعایت بہر صورت کی جائے۔ آج ہم میں سے اکثر لوگوں کی شکایت ہے کہ انہیں اطمینان نصیب نہیں ہے۔ اس بے اطمینانی کے اسباب و محرکات پر غور کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہم اپنی زندگی میں بے اعتدالی، افراط و تفریط اور حدود سے بے اعتنائی کے شکار ہیں اسی وجہ سے اطمینان کی کیفیت سے محروم ہیں۔ ہمیں جان لینا چاہئے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں زندگی میں سکون و سرور نصیب ہو اور ہم اطمینان و چین کی نعمت سے بہرہ ور ہوں تو ہمیں راہ اعتدال پر چلنا ہوگا۔