Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسلامی تعلیمات مثبت سوچ کی ترغیب دیتی ہیں

Updated: February 10, 2023, 1:14 PM IST | Mudassar Ahmad Qasmi | Mumbai

یہ عمومی رویہ ہے کہ ہم ہر وقت قسمت کا رونا روتے ہیںجبکہ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ یقین ہونا چاہئے کہ جو کچھ بھی ہمارے ساتھ پیش آتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے

The knowledgeable and intelligent people of the nation should convince the people and the people that the position and status that Allah has placed them in is a blessing for them in one way or another.
ملت کے ذی علم اور باشعور افراد عوام و خواص کو یہ باور کرائیں کہ اللہ نے انہیں جس حالت اورمقام پر رکھا ہے وہ اُن کے لئے کسی نہ کسی اعتبار سے نعمت


حکماء کے مطابق منفی سوچ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی کی اولین وجہ ہماری سستی اور بے عملی ہے؛کیونکہ محض دوسروں کی کامیابی پر مضطرب ہونے اور اپنے آپ کو تمناؤں اور آرزؤں تک محدود کرلینے سے بلند مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے بلکہ اس کے لئے مسلسل کوشش کر نی ہوتی ہے اور خواب کی تعبیر پانے کے لئے آنکھ کھلی رکھنی ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ پائیدارکا میابی کا کوئی مختصر راستہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ایک طویل جد و جہد درکار ہوتی ہے، اس بات کو سمجھنے کے لئے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف ان لوگوں کی زندگی کے کچھ اوراق پلٹنے کی ضرورت ہے جنہیں ہم یا دنیا کامیاب سمجھتی ہے۔
 اس حوالے سے صاحبِ شریعت نبی اکرم ﷺ نے  ہمارے غیر فعال ہونے کاحل اور کامیابی کا انتہائی آسان راستہ ایک مختصر حدیث میں بیان فرمادیا ہے۔چنانچہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ”بہترین عمل وہ ہے جو استقلال کے ساتھ ہو اگر چہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ “ (متفق علیہ) اس حدیث میں جہاں عمل کی ترغیب سے ہمارے غیر فعال ہونے کی قباحت ظاہر ہوتی ہے وہیں استقلال ومیانہ روی سے آگے بڑھنے کی تعلیم سے مثبت قدم بڑھانے اور مثبت سوچ اپنانے کی روشنی ملتی ہے۔
 یہ عمومی رویہ ہے کہ ہم ہر وقت قسمت کا رونا روتے ہیں، اپنی تمام تر ناکامیوں کے لئے صرف دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور  اپنی غیرفعالیت کو دلیل فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے طرح مایوسی کے بادل ہمیں مزید گہرے نظر آنے لگتے ہیں؛ جبکہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ یقین ہونا چاہئے کہ جو کچھ بھی ہمارے ساتھ پیش آتا ہے اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ہاں،انسان ہونے کی حیثیت سے ہم حالات سے متا ثر ضرور ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ ہم اُنہیں اپنی کامیابی کے راستے کی رکاوٹ سمجھ لیں۔اس باب میں اگر اللہ کی حکمت پر ہم غور و خوض کریں گے تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ یہ حالات ہمیں مایوسی نہیں بلکہ مضبوطی فراہم کرتے ہیں بشر طیکہ ہم اُنہیں مثبت آئینے میں دیکھیں۔
 زیر بحث موضوع کے تناظر میں ملت کے ذی علم اور باشعور افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام و خواص کو یہ باور کرائیں کہ اللہ نے انہیں جس حالت اورمقام پر رکھا ہے وہ اُن کے لئے کسی نہ کسی اعتبار سے نعمت ہے؛بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکمت کو بروئے کار لا کر مثبت طرز عمل اپنائیں۔ اس طرح جہاں مایوسیوں کے بادل چھٹیں گے وہیں منفی سوچ کا بھی قلع قمع ہوگا۔ اِس حوالے سے اسلام کی رہنمائی یہ ہے کہ ہمارے پاس جو موجود نعمتیں ہیں اُن پر اللہ رب العزت کے دربار میں ہم شکر گزاری کا نذرانہ پیش کریں؛ اس طریقے پر ہمارے پاس جو نعمتیں نہیں ہیں اور وہ ہمارے حق میں بہتر ہیں ، وہ نعمتیں بھی ہم کو مل جائیں گی، کیونکہ اللہ رب العزت کا یہ اصول ہے : ” اور اگر تم شکریہ ادا کروگے تو میں تمہیں زیادہ (نعمتیں)دوں گا۔ “ (سورہ براہیم:۷)بے شک خدا کی عنایت کردہ نعمتیں بے شمار ہیں ، اگر ہم اپنی زندگی کی عام نعمتوں کو ہی شمار کر لیں گے تو ہماری زندگی سے محرومی کا احساس یکسر ختم ہوجائے گا اور ہماری مایوسی امید سے بدل جائے گی۔ 
 اپنی دنیا کو بہتر بنانے کے لئے منفی سے مثبت اور مایوسی سے امید کی جانب اِس سفر میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہماری اصل منزل آخرت ہے ، اس لئے ہماری تمام ترجد و جہد اور کوششیں منزل مقصود پر پہنچ کر مثبت نتیجہ یعنی اللہ کی خوشنودی اور جنت حاصل کرنے کے لئے ہونی چاہئے۔ اسی تناظر میں خالص دنیا کے پیچھے بھاگنے کے بجائے ،اسلام نے اصل منزل پر نظر رکھتے ہوئے مسابقت کی ثمر آور دعوت دی ہے۔چنانچہ نبی اکرم ﷺکا ارشاد گرامی ہے: ”تم صرف دو قسم کے لوگوں کیساتھ ہی مقابلہ بازی کرسکتے ہو: ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالی قرآن کی نعمت سے نوازے، پھر وہ دن رات قرآن پر عمل کرتے ہوئے اتباعِ قرآن کرے، اسے دیکھ کر ایک آدمی کہے: اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی ایسی نوازش کردے، جیسی اس پر کی ہے، تو میں بھی وہی کروںگا جو وہ کرتا ہے، اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے دولت سے نوازا ہے، جسے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، تو ایک آدمی اس کے بارے میں بھی ویسے ہی خیالات رکھے۔“ (طبرانی)
 خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں حالات سے گھبرا کر کمزور نہیں ہونا  چاہئےبلکہ شرعی رہنمائی حاصل کرتے ہوئے مضبوط قدم  بڑھاتے ہوئے منزلِ مقصود پر پہنچنے یا گوہر مراد پالینے کی سعی کرنی چاہئے  تاکہ ہمارا یہ طرز عمل جہاں ہمارے ارد گرد والوں کو حوصلہ دے وہیں تاریکی میں بھٹکتی دنیا کیلئے دعوتِ عمل بھی ثابت ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK