• Wed, 27 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسرائیل غزہ کی دلدل میں پھنس گیا ہے؟

Updated: April 10, 2024, 12:31 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں مصر، شام اور اردن جیسے تین عرب ممالک کی افواج کو محض چھ دنوں میں شکست فاش دے دی تھی وہ غزہ میں چھ ماہ بعد بھی حماس جیسی ایک حریت پسند تنظیم کو ہرانے میں ناکام رہا ہے!

The ongoing protests against the government in Israel. Photo: INN
اسرائیل میں حکومت کے خلاف جاری احتجاج۔ تصویر: آئی این این

ایک پرانی کہاوت ہے کہ جنگ شروع کرنا آسان ہے لیکن جنگ ختم کرنا بے حد مشکل۔ اسرائیل کو شایداس کہاوت کی سچائی اب پوری طرح سمجھ میں آرہی ہے۔ ساری دنیا کی چیخ و پکار کے باوجود اگر بنجامن نیتن یاہو غزہ میں جنگ بند ی پر راضی نہیں ہورہے ہیں تو اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ قتل اور غارت گری کا جو سلسلہ انہوں نے شروع کیا تھا اسے ختم کیسے کریں۔ چھ ماہ بعد بھی نیتن یاہو کے پاس غزہ سے انخلا کا نہ کوئی واضح روڈ میپ ہے اور نہ ہی مستقبل کی کوئی موثر حکمت عملی۔ کبھی صہیونی حکومت غزہ کو اپنے زیرتسلط رکھنے کا تہیہ کرتی ہے تو کبھی اس کا کنٹرول مغربی کنارے کے اپنے صوبیدار محمود عباس کو سونپنے کا پلان بناتی ہے۔ اس کا ایک خفیہ منصوبہ ۲۳؍لاکھ غزہ باسیوں کو جبراً دیس نکالا دے کر مصر کے صحرائے سینائی میں بسانے کا بھی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین اورامریکی اور اسرائیلی تجزیہ کار اب یہ پوچھ رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ کی دلدل میں پھنس تو نہیں گیا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں مصر، شام اور اردن جیسے تین عرب ممالک کی افواج کو محض چھ دنوں میں شکست فاش دے دی تھی وہ غزہ میں چھ ماہ میں بھی حماس جیسی ایک حریت پسند تنظیم کو ہرانے میں ناکام رہا ہے! 
اتوار کو غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد نیتن یاہونے ایک بار پھر اپنے اس دعوے کا اعادہ کیا کہ اسرائیل ’’مکمل فتح‘‘کے بعد ہی جنگ بند کریگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ نیتن یاہو نے جنگ کے جو دو بنیادی اہداف(اسرائیلی جنگی قیدیوں کی بازیابی اور حماس کا مکمل صفایا)مقرر کئے تھے ان کی تکمیل کے بغیر’’مکمل فتح‘‘ کا اعلان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اتوار کو جنوبی غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کا ڈرامائی فیصلہ بھی نیتن یاہو کی بے سمتی اور کنفیوژن کا ثبوت ہے۔ روزنامہ ’’یروشلم پوسٹ‘‘ نے تو اسے اسرائیل کی ناکامی کا اعتراف قراردیا ہے۔ 
اس یکطرفہ جنگ میں اسرائیل نے بلاشبہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔ پورا ساحلی شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ۳۳؍ہزار فلسطینی جن میں ۱۵؍ہزار معصوم بچے شامل ہیں صہیونی بربریت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ۷۵؍ہزار شہری زخمی ہیں اور جو لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بننے سے بچ گئے وہ پناہ گزیں کیمپوں میں ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں۔ غزہ میں قحط سالی منہ پھاڑے کھڑی ہے۔ اقوام متحدہ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور دیگر عالمی تنظیمیں بار بار یہ دہائی دے رہی ہیں کہ اگر جنگ زدہ شہر میں خوراک اور پانی کی فراہمی کے فوری اقدام نہیں کئے گئے تو لاتعداد بچے فاقہ کشی سے مرجائینگے۔ 
 سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنے ظلم و استبداد کے بعد اسرائیل کو حاصل کیا ہوا؟جواب ہے:’’کچھ نہیں۔ ‘‘ معروف اسرائیلی کالم نویس Gideon Levy کے تازہ مضمون کی یہ سرخی پوری کہانی بیان کرنے کیلئے کافی ہے:’’غزہ کی چھ ماہ طویل جنگ میں اسرائیل نے ہلاکتوں اور تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔ ‘‘ ایک اوریہودی مبصر کے مطابق اسرائیل طویل جنگوں کیلئے بنا ہی نہیں ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں اسرائیل کے ۶۰۰؍سے زیادہ فوجی اور پولیس اہلکار مارے جاچکے ہیں۔ اس جنگ سے اسرائیل کی معیشت بھی بری طرح لڑ کھڑا گئی ہے۔ سات اکتوبر کے حملوں کے قبل نیتن یاہو اسرائیل میں اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔ حماس کے حملوں نے ان کو آکسیجن فراہم کردیا۔ وہ جانتے ہیں کہ جس دن غزہ کی جنگ ختم ہوگی اسی دن ان کا راج پاٹ بھی ختم ہوجائے گا۔ جنگ کو طول دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ سات اکتوبر کے حملوں کے بعد امریکہ اور مغرب کی مکمل سیاسی، سفارتی اور عسکری حمایت کی وجہ سے بھی نیتن یاہو کے حوصلے اتنے بڑھے کہ وہ مہینوں سے غزہ میں فوجی کاروائی کے نام پر نسل کشی کررہے ہیں۔ بائیڈن اور رشی سونک جیسے عالمی رہنماؤں نے بار بار’’ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے‘‘ کا دعویٰ کرکے نیتن یاہو کو طویل عرصے تک نہتے فلسطینی شہریوں کے قتل عام کا لائسنس فراہم کیا۔ 
لیکن پچھلے ہفتے غزہ کے مظلومین کو خوراک کی ترسیل کرنے والی تنظیم ورلڈ سینٹرل کچن کی کاروں کے قافلے پرمیزائل کے حملوں میں سات بین الاقوامی امدادی کارکنوں کی ہلاکت سے دنیا بھر میں بھونچال آگیا۔ واشنگٹن، لندن اور کینبرا میں اسرائیل کے خلاف پہلی بار اتنا شدید ردعمل ہوا کہ نیتن یاہو کے پسینے چھوٹ گئے۔ اسرائیل کو دو فوجی افسروں کو معطل بھی کرنا پڑا اور معافی بھی مانگنی پڑی۔ مغربی رہنما اتنا برہم اسلئے ہوئے کیونکہ مارے جانے والے امدادی کارکن کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اورپولینڈ کے باشندہ تھے۔ جو حکومتیں چھ ماہ سے فلسطینیوں کے قتل عام کو جائز ٹھہرارہی تھیں انہیں امدادی کارکنوں کی جلد کی رنگت دیکھ کر اچانک یہ آگہی ہوگئی کہ اسرائیل غزہ میں ناحق خون بہا رہا ہے۔ بائیڈن نے نیتن یاہو کو دھمکی دے ڈالی اور سونک نے پورے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر ڈالا۔ اسرائیل کی سفارتی تنہائی میں اضافہ ہورہا ہے اورنیتن یاہو حکومت پر ہر طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل کے قریبی دوست اور اتحادی بھی اسے آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ ۲۵؍مارچ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پاس ہوگئی اور یہ اس لئے ممکن ہوسکا کیونکہ امریکہ نے تل ابیب کی ناراضگی کے باوجود اسے ویٹو نہیں کیا۔ 
بائیڈن کو احساس ہورہا ہے کہ ان کی اندھی صہیونیت پرستی ان کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے اندر بغاوت سر ابھار رہی ہے۔ بائیڈن کے وفادار ووٹر زان کی اسرائیل نوازی سے بدظن ہورہے ہیں۔ خاتون اول جل بائیڈن تک اسرائیل کی ہٹ دھرمی پر اپنی خفگی کا اظہار کرچکی ہیں۔ 
 اسرائیل کی ساکھ مٹی میں مل چکی ہے۔ یہودی مملکت کی ۷۶؍ سالہ تاریخ میں پہلی بار اُسے عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اس پر نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا گیاہے۔ 
 پچھلے چھ ماہ میں پوری دنیا میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں اور صہیونی طاقتوں کے خلاف مظاہرے ہوئے اور فلسطینی پرچم لہرایا گیا۔ یورپ اور امریکہ میں فلسطینیوں کی حمایت اور یکجہتی میں اتنے بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ سات اکتوبر کے پہلے ایسا گمان ہورہا تھا گویا فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے ۵۷؍سالہ غاصبانہ قبضہ کو دنیا نے فراموش کردیا ہے لیکن پچھلے چھ ماہ میں فلسطین کا ایشو ساری دنیا میں اتنے نمایاں طریقے سے چھاگیا ہے کہ اب نہ کوئی اسے نظر انداز کرسکے گا اور نہ ہی بھلاسکے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK