Inquilab Logo

دعوت اپنوں میں ہویا غیروں میں یہ ایک اہم ترین دینی فریضہ ہے

Updated: June 09, 2023, 11:45 AM IST | Maulana Bilal Abdul Hai Hosnai Nadwi | Mumbai

یہ امت امت دعوت ہے اور یہی اس کی خیرامت ہونے کی کھلی نشانیوں میں سے ہے۔ دعوت ہی سے اس کی بقا ہے۔ جو قومیں دعوتی مزاج رکھتی ہیں وہ زندہ رہتی ہیں، ورنہ وہ برف کی طرح پگھل جاتی ہیں

Muslims are a good nation, it is their responsibility to stop the flood of negativity
مسلمان خیر امت ہیں، منکرات کے سیلاب کو روکنا ان کی ذمہ داری ہے

یہ امت امت دعوت ہے اور یہی اس کی خیرامت ہونے کی کھلی نشانیوں میں سے ہے۔ دعوت ہی سے اس کی بقا ہے۔ جو قومیں دعوتی مزاج رکھتی ہیں وہ زندہ رہتی ہیں، ورنہ وہ برف کی طرح پگھل جاتی ہیں۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک زندہ رہنے کے لئے پیدا فرمایا ہے، اس لئے نبی آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے دعوتی مزاج رکھنے والی ایک ایسی جماعت تیار کردی جس نے دنیا کے بڑے حصہ کو بہت کم مدت میں دعوت آشنا بنا دیا، ان کا ایک ایک فرد تحریک بن گیا، جو کام بڑی بڑی تحریکات نہ کر سکتی تھیں وہ  ایک ایک فرد نے کر کے دکھا دیا۔ یہ امت جب تک اپنے دعوتی مشن کے ساتھ آگے بڑھتی رہی اس کو کوئی طاقت روک نہیں سکی۔ دعوت کی اس طاقت نے تسخیر عالم کا کام کیا، لیکن جب سے اس کی دعوتی اسپرٹ (Spirit) میں کمی آنے لگی، حالات بدلنے لگے، آہستہ آہستہ وہی امت جس کا نام سکۂ رائج الوقت کی طرح چلتا تھا، جس کے رعب سے سلطنتیں کانپتی تھیں، یورپ جس کی غلامی کو اپنے لئے قابل فخر سمجھتا تھا، جس کے ایجاد کردہ علوم و فنون پر آج کی ترقی کی بنیاد ہے، اس نے اپنا مقام کھودیا، قومیں اس پر ٹوٹ پڑیں، اس کی طاقت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی، خلافت اسلامیہ کا نشان مٹ گیااورغلامانہ ذہنیت رکھنے والے وہ حکام مسلط کر دیئے گئے جو پوری اسلامی تاریخ کیلئے کسی کلنک کے ٹیکہ سے کم نہیں۔
 دعوت اپنوں میں ہویا غیروں میں یہ ایک اہم ترین دینی فریضہ ہے۔ امت کے تخفظ و بقا کا راز بھی اسی میں مضمر ہے۔ بقائے عالم کی موجودہ کوششوں میں یہ فکر بھی پیش کی جاتی ہے کہ ہر مذہب والا اپنے مذہب پر عمل کرے کوئی کسی کو نہ روکے نہ ٹوکے، تاکہ ہر شخص آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکے، اسلام میں اس کا تصوربھی نہیں ہے البتہ  ہو سکتا ہے کہ کسی ضروری مصلحت کی خاطر کسی علاقہ میں محدود وقت کیلئے اس پر عمل کر لیا جائے لیکن اسلامی مزاج سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ بھلائی کی تلقین کرنا، اس کا ماحول بنانا، اس کو عام کرنے کی کوشش کرنا مسلمانوں کے فرائض منصبی میں داخل ہے، برائی کو برائی سمجھنا، اس کو برا کہنا اور ماحول کو اس سے پاک کرنے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
 موجودہ مسلم معاشروں میں یہ خرابی بڑھتی چلی جارہی ہے کہ برائیوں کو دیکھ کر دل نہیں کانپتا، اس کا احساس ختم ہوتاچلا جا رہا ہے، وہ معاشرہ کسی مسلمان ملک کا ہو یا دوسرے ملک کی مسلم آبادیوں کا، کوئی برائی داخل ہوتی ہے پھر بڑھتے بڑھتے وہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ظاہری طور پر دیندار  لوگ اس میں مبتلا ہوتے جاتے ہیں۔ غور فرمائیے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلے ہی مرحلہ میں اس کے سدباب کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ ایک ایسا خطرناک سلسلہ ہے جو ارتداد تک پہنچا سکتا ہے اور اس دور میں اسلام دشمن طاقتوں نے یہی حربہ اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایک کرکے ایسی برائیاں عام کی جائیں کہ آہستہ آہستہ ان کا اسلامی تشخص تحلیل ہو کر رہ جائے اور کچھ عرصہ کے بعدان کے اندر اس کا احساس بھی ختم ہو جائے۔
 یہ ایک نفسیاتی چیز ہے کہ آدمی جس ماحول میں رہتا ہے اس کا اثر قبول کرتا ہے اور اس کا عادی بن جاتا ہے۔ گندے ماحول میں رہنے والے گندگی کو محسوس نہیں کر پاتے، جو لوگ تاریکی میں رہتے ہیں ان کو تاریکی کی شدت کا احساس نہیں ہوتا، لیکن جو لوگ روشنی سے تاریکی میں جاتے ہیں وہ ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتے۔ یہی حال ان منکرات کا ہے جو معاشرہ میں آہستہ آہستہ پنپتی ہیں اور ان کی فکر نہیں کی جاتی۔ آج ذرائع ابلاغ خواہ وہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا کسی حد تک پرنٹ میڈیا، ان کے ذریعہ عالمی ماحول کو کرپٹ (Corrupt) کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہیں، دین کے دشمنوں کا نشانہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر محاذ سے ایسا کرپٹ کر دیا جائے کہ وہ پوری طرح کھوکھلے ہو کر رہ جائیں اور پھر ان میں کسی مقاومت (مقابلہ آرائی) کی استطاعت بھی باقی نہ رہے، اس خطرناک سازش سے مقابلہ کا بڑا ہتھیار یہ دعوت ہے۔ اس کی بیداری پیدا ہو جائے تو مسلمانوں کو کوئی بھی لقمہ تر نہیں بنا سکتا۔
 منکرات کے سیلاب پر بھلائیوں کا جو باندھ باندھا گیا تھا اس میں جگہ جگہ سوراخ کر دیئے گئے ہیں، مسلمانوں کا لقب ”خیرامت“ ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان منافذ (راستے، روزن) کو بند کرنے کی کوشش کریں، ورنہ اس کا خطرہ ہے کہ کہیں پوری انسانیت منکرات کے اس سیلاب کی نذر نہ ہو جائے اور پھر اس کے بعد سنبھالنا مشکل ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK