جلیس احمد اپنے یار ِ حقیقی سے جاملےاور یہ اس قدر آناً فاناً ہوا کہ ایک عالم حیران و ششدر رہ گیا۔ کیا خوب آدمی تھا۔مہذب ، محترم، مودب، مونس و غم خوار،یارِ طرح دار، خوش گفتار،جاں نثار، علم دوست ، ادب نواز۔میںنے اپنی طالب علمی کے زمانے میں ابراہیم جلیس کا نام سنا تھا۔
جلیس احمد اعظمی اراکین اسمبلی ابو عاصم اعظمی اور رئیس شیخ کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این
جلیس احمد اپنے یار ِ حقیقی سے جاملےاور یہ اس قدر آناً فاناً ہوا کہ ایک عالم حیران و ششدر رہ گیا۔ کیا خوب آدمی تھا۔ مہذب ، محترم، مودب، مونس و غم خوار،یارِ طرح دار، خوش گفتار،جاں نثار، علم دوست ، ادب نواز۔میںنے اپنی طالب علمی کے زمانے میں ابراہیم جلیس کا نام سنا تھا۔ وہی ابراہیم جلیس جو ابن انشا کا دوست تھا۔ جس نے ’ دو ملک ایک کہانی‘ کے نام سے ہماری رودادِ الم لکھی تھی ۔سوال یہ ہے کہ کہاں ابراہیم جلیس جیسا آزاد رَو اور کہاں جلیس احمد اعظمی جیسا پابندِ شرع.....ایک کا وطن حیدرآباد دکن اور دوسرے کا وطن اعظم گڑھ۔ وہی اعظم گڑھ جہاں کی خاک سے اٹھنے والا’اعظمی‘ کہلاتا ہے۔ جلیس صاحب کو بغیر اعظمی کہے پہچانا نہیں جاسکتا تھا۔انورؔ جلال پوری نے ایک مرتبہ مشاعرہ کی نظامت کے دوران جلیس صاحب کے تعارف میں اتنا کہہ کر خوب داد وصول کی تھی کہ ’دُنیا میں جہاں جہاں آدمی ہیں وہاں وہاں اعظمی ہیں۔‘‘یوں جلیس صاحب روشنی میں آئے اور پھر آتے چلے گئے۔ کتب بینی کا شوق ہوا تو ایک اور جلیس سے ملاقات ہوئی۔
ہم نشینی اگر کتاب سے ہو=اس سے بڑھ کر کوئی جلیس نہیں
بعد از آں جلیس اعظمی صاحب کی علم پروری اور ادب دوستی کو دیکھا تو اکثر اہلِ علم کو ان کی بابت یہ کہتے سنا :
ہم نشینی اگر جلیس سے ہو=ان سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں
ابراہیم جلیس اور جلیس اعظمی میں ایک مماثلت ضرور تھی۔ دونوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروردہ تھے۔وہی یونیورسٹی جس کے متعلق مجازؔ نے سچ کہا ہے
جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا
ہر جوئے رواں پر برسے گاہرکوہِ گراں پر برسے گا
ہر سرو سمن پر برسے گا،ہر دشت و دمن پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا اوروں کے چمن پر برسے گا
جلیس صاحب کا تعلق بھیونڈی کے غیبی نگر علاقہ سے تھا۔غیبی نگر نام کی بستی اس کرۂ ارض پر شاید ہی کہیں ہو۔کہتے ہیں کسی زمانے میں یہ بستی دور اندیشوں، محنت کشوں اور محنت کرنے والے شاعروںکی آماجگاہ تھی۔ وہاں کے سخن ور وں کی شاعری کی بابت جب سخن سنج دریافت کرتے کہ یہ فن آپ نے کہاں سے سیکھا ہے توایک پیر مرد بلا تکلف فرماتے ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘۔اسی غیبی نگر کی شہرت کا سبب اب ’صلاح الدین ایوبی اسکول ‘ ہے۔ جس کے روح رواں تھے جلیس اعظمی۔
یہ بات شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ ’صلاح الدین ایوبی اسکول‘ کا خواب جس ’مردِ مومن نے دیکھا تھا وہ‘آر کے عبداللہ تھے ۔آج سے نصف صدی قبل کا قصہ ہے جب یہ خاکسار نیا نیا تدریس کے کوچے میں داخل ہوا تھا۔وہیں( غیبی نگر میں) ایک وسیع و عریض میدان میں آر کے عبداللہ نے صلاح الدین ایوبی اسکول کا تاسیسی جلسہ منعقد کیا تھا۔ غیبی نگر اس زمانے میں دامنِ کوہ میں واقع ایک چھوٹی سی کٹیا کی مانند تھا۔میں نے اپنی زندگی میں ایسا مہتم بالشان جلسہ زندگی میںنہیں دیکھا۔ اس عظیم الشان جلسہ کی شان بڑھا رہے تھے مختلف عرب ممالک کے نمائندے جنہیں عبداللہ صاحب نے اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ایک اسٹیج پر جمع کیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس موقع پر جناب عبداللہ نے انگریزی میں ایک ولولہ انگیز تقریر کی ۔ یہ تقریر صلاح الدین ایوبی کی مدح اور اہلِ فلسطین کی حمایت میں تھی۔سہ پہر کا وقت جلسہ شروع ہوا اور اب شام کے سائے بڑھنے لگے تھے۔ صلاح الدین ایوبی کی صفات و کمالات کا بیان ایسا تھا کہ بیشتر عرب مہمانوں کے چہرے تمتما نے لگے تھے۔عبدا للہ صاحب جوش و جذبے کے ساتھ ارض فلسطین کو خراج تحسین پیش کررہے تھے اور اپنے دائیں ہاتھ میں خون سے بھری بوتل اٹھا کر اسے اہلِ فلسطین کے لئے اپنی طرف سے نذرانہ پیش کرنے کا اعلان بھی کررہے تھے۔
یہ کتنا بڑا اعزاز ہے اس شہر کے لئے کہ آر کے عبداللہ نے اپنی جانشینی کے لئے جلیس احمد اعظمی کو منتخب کیا۔گویا جو خواب آر کے عبداللہ نے دیکھا تھا اسے شرمندۂ تعبیر کیا جلیس احمد اعظمی نے۔آپ اخیر تک اس ادارے کے اعزازی جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ اپنی علم دوستی اور تعلیم کے فروغ میں ان کی مخلصانہ کوششوں کے سبب مرحوم ’ دی اعظم گڑھ مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے سینئر ممبر اور شبلی نیشنل کالج کی موجودہ مجلسِ منتظمہ کے نائب صدر بھی تھے۔
جلیس صاحب کی پیدائش۱۹۶۰ءمیں ضلع اعظم گڑھ کے گاؤں نیائوج میں ہوئی۔آپ کے والد صغیر احمد شیخ نے آپ کا نام جلیس احمد رکھا لیکن بھیونڈی میں آپ جلیس اعظمی کے نام سے مشہور ہوئے۔یہ وہی نیائوج ہے جہاں کا مدرسۃ الاصلاح(سرائے میر) پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مکتبہ اسلامیہ نہاوج میں ہوئی ۔اس کے بعد آپ نے ہاسٹل میں رہتے ہوئے محمد پور نیشنل انٹر کالج سے دہم کاامتحان پاس کیا ہے اور پھر آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پہلے بی اے اور پھر ایم اے کیا۔ادارے قائم کرنا اور اس کی ترقی کے لئے کوشاں ہونا بہت کم لوگوں کو راس آتا ہے۔ جلیس صاحب میں اللہ نے بلا کا حوصلہ اور غضب کی قوتِ ارادی ودیعت کی تھی۔ اتنے بھرے پُرے ادارے کی ترویج و اشاعت میں تن من دھن سے لگا رہنا خدا کی عطا کے سوا کچھ نہیں۔آج اس تعلیم گاہ میں ۶؍ ہزار طلبہ و طالبات ’کے جی‘ سے بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اردو اور انگریزی ذریعۂ تعلیم کے اسکول الگ الگ ہیں۔ سینئر کالج کاالحاق یونیورسٹی سے ہو چکا ہے۔
جلیس صاحب نے اپنی سربراہی میں تعلیم اور تعمیر کا سلسلہ دراز سے دراز تر کیا۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ صلاح الدین سوسائٹی نے کھرڈی مقام پر سو ایکڑ قطعۂ اراضی کا حصول تعلیمی مقصد کے لئے کیا ہے۔جہاں متذکرہ سوسائٹی ایک بہت بڑے تعلیمی منصوبہ کو عملی شکل دینے کے لئے کوشاں ہے۔خدا کرے کہ یہ دستور سازگار آئے۔
ایک اور خاص بات بقول عبدالملک مومن مصنف ’’مشاہیرِ بھیونڈی‘ ’’جلیس اعظمی کے اسکول میں طلبہ سے انتہائی کم فیس لی جاتی ہے اور دینیات پڑھانے والے علمائے دین کو جتنی تنخواہ دی جاتی ہے کسی ادارے میں نہیں دی جاتی۔‘‘الحمدللہ.... دراصل یہی وہ وصف ہے جو جلیس احمد اعظمی کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے... یہی وہ نیکی ہے جو رہِ عقبیٰ میں قدم قدم پر ان کے کام آئے گی۔وہ جیتے جی بھی امیر تھے اور مر کر بھی امیر ہیں۔خدا ئے تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔