خوش مزاج، خوش خط اور آسان لفظوں میں گہری بات کہہ جانے کا ہنر رکھنے والے جمیل صاحب کے بارے میں بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ کہ ممبرا بسانے اور اس میں اہل اردو کو آباد کرنے میں اُن کا کلیدی کردار ہے۔
EPAPER
Updated: November 11, 2024, 1:01 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
خوش مزاج، خوش خط اور آسان لفظوں میں گہری بات کہہ جانے کا ہنر رکھنے والے جمیل صاحب کے بارے میں بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ کہ ممبرا بسانے اور اس میں اہل اردو کو آباد کرنے میں اُن کا کلیدی کردار ہے۔
انسان کبھی غم ِذات میں غم ِکائنات کا متلاشی ہوتا ہے اور کبھی غم ِ کائنات میں غم ِذات کے پہلو تراشتا ہے۔ اس مختصر مضمون میں بھی ایسا ہی کچھ ہے۔ حضرت جمیل مرصع پوری کی رحلت غم ِذات ہے، میرا ذاتی نقصان ہے مگر میں اس غم کو اتنا محدود نہیں سمجھتا۔ یہ ادبی دنیا کا نقصان ہے اور سماج اور معاشرہ کا نقصان ہے، یہ الگ بات ہے کہ جانے والا چلا جاتا ہے، رہ جانے والے لوگوں کیلئے مٹی دینے کے بعد دنیا پہلے جیسی ہو جاتی ہے۔ اب کسی کا غم، غم نہیں رہ گیا ہے، حالات اور معمولات میں مدغم ہو جاتا ہے، کبھی کبھی تذکروں میں ابھر آئے تو بات دوسری ہے۔
جمیل صاحب میرے آخری چند بزرگوں میں سے ایک تھے۔ عمدہ شاعر، اس سے بھی عمدہ شخصیت، مخلص اور بے ریا انسان۔ سادگی، سادہ لوحی اور منکسر المزاجی کا پیکر۔ میرے والد کے دوستوں میں سے تھے مگر مجھے بھی دوستوں جیسا درجہ دیا۔ کم عمری میں مرصع پور سے ممبئی آگئے تھے۔ اس وقت کے ممبئی میں علمی و ادبی اعتبار سے بڑی آب و تاب تھی۔ اس ماحول نے ان کے شعری ذوق کی آبیاری کی اور جمیل صاحب شاعری اور مشاعروں کا اہم نام ہوگئے۔ معاشی دشواریاں زندگی بھر ان کے ساتھ رہیں مگر چکی کی مشقت، مشق سخن کو پس پشت نہیں ڈال سکی۔ چہرا اور جسم کجلاتا گیا مگر شاعر نکھرتا رہا۔ ان کا دل صاف تھا اس لئے گفتگو میں تصنع نہیں تھا، شاعری میں بھی یہی عنصر غالب ریا، جو خیال آیا جوں کا توں نظم کردیا، داد اور بے داد کی کبھی پروا نہیں کی، یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:
پڑھ چکے جب نماز استسقاء
گاؤں کا گاؤں بہہ گیا ہے میاں
بہت مشکل ہے اب اس کو جگانا
وہ آنکھیں کھول کر سونے لگا ہے
ہم سمندر پہ ہنس رہے تھے جمیل
آج سیلاب میں ہے گھر اپنا
چند کلیاں ملیں تو پھول گئے
لوگ پت جھڑ کا درد بھول گئے
سربلندی ہمیں جہاں سے ملی
ہم اسی آستاں کو بھول گئے
پھنس گئے ہم ہی مشتعل ہوکر
چھپ گیا دے کے اشتعال کوئی
یہ آسان لفظوں میں گہری بات کہہ جانے کا ہنر ہے۔ ان کا دست ہنر معاشی زندگی کو بھی رواں دواں رکھتا تھا اور شاعری کو بھی۔ جب تک ترنم سے پڑھتے رہے مشاعرہ لوٹنا آسان تھا، تحت اللفظ میں پڑھنے لگے تب بھی محفل لوٹ لینا مشکل نہیں تھا۔ اشعار کی برجستگی کلام خوانی کو نئے تیور عطا کرتی رہی۔ کبھی کبھی مزاح کا رنگ بھی شامل ہوجاتا تھا جو ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ ایسے ہی ہنس بول کر جینے والے زیادہ جیتے ہیں۔ جمیل صاحب نے بیانوے سال کی عمر پائی، یہ اس دور میں ہوا جب چالیس پینتالیس میں انسان لٹ پٹ ہونے لگتا ہے۔ معاشی مشقت اور روزانہ ممبرا سے ممبئی جانے اور واپس آنے کی زحمت ان میں واماندگی کا احساس نہیں پیدا کرسکی تو اس کا ایک ہی سبب تھا، ان کی شگفتہ مزاجی اور صاف دلی، کسی نے مشاعرہ کی دعوت دی تو فبہا، نہیں دی تو بھی فبہا، کبھی شکوہ نہیں کیا، ناراض ہوتے تو صرف دو منٹ کیلئے۔ ان کی ناراضگی کبھی اس سے زیادہ نہیں رہی۔ ایک بار سیف صاحب (میرے والد) سے ملاقات کیلئے آئے۔ اس وقت ہمارا مکان ممبرا میں سڑک سے کافی دور اندر کی طرف تھا۔ جمیل صاحب کافی زحمت اٹھا کر گھر پہنچے، پارہ چڑھا ہوا تھا، ابا جی پر برس پڑے، کہا اور تھوڑی دور چلے جاتے تو وطن میں گھر ہوتا۔ پھر اپنے ہی جملے پر زور کا ہنسے۔ چند ہی ثانیوں میں غصہ ایسے کافور ہوا کہ شائبہ تک نہ رہا۔
آوارہ سلطانپوری کا اور ان کا دانت کاٹی روٹی کا ساتھ تھا۔ وہ ممبرا ہی میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا وہ کبھی پر نہ ہوا۔ اس درد کو اس طرح بیان کیا:
جعفری ہوں، سیف ہوں، زوار ہوں یا بھائی سروش
سب ملے لیکن کوئی بھی ان میں آوارہ نہ تھا
( قیصر الجعفری، سیف بھساولی، زوار اعظمی، محمودسروش)
یہ اعزاز شاید مجھی کو حاصل ہے کہ جمیل صاحب نے ایک شعر میں میرے والد کا نام لیا، دوسرے میں میرا۔ دوسرا شعر یہ ہے:
شاہد لطیف ہوں کہ وہ قاسم امام ہوں
ہم کو جدید شعر کوئی کیا سنائے گا
خوش مزاج تو تھے ہی خوش خط بھی تھے، ممبرا میں ہر سال پابندی سے یوم اقبال مناتے اور اس کیلئے بڑی زحمتیں اٹھاتے تھے۔ کتنے ہی لوگوں نے سمجھایا کہ جمیل صاحب آپ، اپنے پر ظلم کرتے ہیں مگر جب تک چلتے پھرتے رہے، یوم اقبال کا مشاعرہ لازماً کیا۔ ان مشاعروں میں انہوں نے کئی نامور اور معتبر شخصیات کو اپنے ہاں مدعو کیا جس پر سرزمین ممبرا کو آج بھی ناز ہے کہ اس نے ایسے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے۔ جمیل صاحب ممبرا جا کر آباد ہونے والے ابتدائی لوگوں میں سے ایک تھے۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ممبرا بسانے اور اس میں اہل اردو کو آباد کرنے میں اُن کا کلیدی کردار ہے۔ آج اس بھرے پُرے شہر میں معدودے چند لوگ ہوں گے جو اس بات کو جانتے ہوں گے۔ جمیل صاحب ممبرا میں رہ کر ممبئی کا ذکر کرتے تو اکثر افسردہ ہوجاتے تھے۔ کہتے تھے اب جاتا ہوں تو دور دور تک سناٹا رہتا ہے۔ کیسا شہر تھا اور کیا ہوگیا۔ انہیں اپنے بے شمار احباب یاد آتے تھے۔ ان تمام کا غم لے کر وہ اب منوں مٹی کے نیچے چلے گئے ہیں ۔ کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے۔