شہر کے علم دوستوں کا حال کیا کہوں۔ ۲۹؍ جنوری کے جشن تعلیم میں شرکت کیلئے صبح ہی سے کمر کسی جانے لگی تھی۔ ہم بھی گھر اور باہر کے کاموں سے فارغ ہوکر اور حالات کو اپنے موافق بناکر جشن کا حصّہ بننے کیلئے نکل پڑے۔ منزل دور تھی اور رستہ بھی معلوم نہ تھا۔ رکشہ والے نے بڑے دام مانگے۔
ہم نے معمول کے خلاف کوئی حجّت نہ کی اوررکشا میں بیٹھ گئے۔ جلسہ گاہ جو ’ تعلیمی پارک ‘ میں تبدیل ہوگیا تھا کےصدر دروازے پر ہی ہمیں فہیم میاں نے دیکھ لیا۔ وہ جشن کے ذمہ داران کی معیت میں چائے خانہ کی طرف جارہے تھے۔ انھوں نے ہمیں بھی جوڑ لیا۔ بارے قافلہ نے چائے خانے کے صحن میں ڈیرا ڈالا۔ چائے خانے کا نام ’طبیلہ چائے‘ تھا۔ دکان پر آویزاں بورڈ کی تحریرمشہر کے علم دوستوں کا حال کیا کہوں۔ ۲۹؍ جنوری کے جشن تعلیم میں شرکت کیلئے صبح ہی سے کمر کسی جانے لگی تھی۔ ہم بھی گھر اور باہر کے کاموں سے فارغ ہوکر اور حالات کو اپنے موافق بناکر جشن کا حصّہ بننے کیلئے نکل پڑے۔ منزل دور تھی اور رستہ بھی معلوم نہ تھا۔ رکشہ والے نے بڑے دام مانگے۔ تاثر کن لگی’’دیس کی مٹّی کو چومنے کا اوسَر‘‘، ابھی ہم اس جملہ کی معنویت پر غور ہی کررہے تھے ’کلہڑ‘ (مٹی کا پیالہ)میں چائے پیش کی گئی۔ کلہڑ خوبصورت تھااور چائے مزیدار لگی۔ کلہڑ پر ساغرِ مئے کا گمان ہوا۔ جی چاہا کہ اسے گھر لے جائیں مگر جشن والوں نے منع کیا۔ انہیں جلسہ گاہ میں پہنچنے کی جلدی تھی۔
جشن کے ابتدائی مقابلے انصاری صافیہ ہائی اسکول میں منعقدہوئے۔ اسکول انتظامیہ نے اپنے اسکول کے دروازوں کے ساتھ درِ دل بھی وا کئے ہوئے تھے۔ بہت عمدہ انتظام اور بہت اچھا نظم و ضبط نظر آیا۔ اسکول کا منظر جتنا دلکش اندر تھا اتنا ہی باہر بھی نظر آیا۔ سہ رنگی پرچم ایک سرے سے دوسرے پر لہراتے ہوئے بھلے معلوم ہو رہے تھے۔
اب ہم لوگ تعلیمی پارک میں تھے۔ باہر دھوپ ماند پڑنے لگی تھی۔ زمین قالین کی بدولت سبزی مائل نظر آرہی تھی۔ شامیانوں کی کشادگی، اونچائی اور رنگینی نے ماحول کو بڑا پرکیف بنا دیا تھا۔ شائقین کے چہرے کھلے تھے۔ منتظمین اندیشوں میں گھرے تھے۔ آنے والوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ اسٹیج نمبر ایک پر خطابت کے زورآوروں کا قبضہ تھا۔ عزیز سر، عامر قریشی، مجید سر، سوٹ بوٹ کی پہچان والے حسیب جامعی، مطیع اللہ خان وغیرہ اسٹیج کو تھامے ہوئے تھے۔ مجید سر فرمارہے تھے’’جشنِ تعلیم کا چرچا ہے گلستانوں میں =آفریں مرحبا کیا جوش ہے ارمانوں میں ‘‘۔ مقرر طلبہ و طالبات پوری تیاری سے میدانِ عمل میں تھے۔
’مصنوعی ذہانت ‘بیشتر مقررین کا موضوعِ گفتگو تھا۔ جنابِ صدر فضل الرحمن نے سرگوشی کے انداز میں فرمایا کہ ’’آج مصنوعی ذہانت کی جس طرح مخالفت ہورہی ہے ماضی میں اسی طرح کمپیوٹر کی آمد پر لوگ اس کی دشمنی پراتارو ہوئے تھے۔ ‘‘اقبالؔ نے سچ ہی کہا تھا ’’ آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا= منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں ‘‘ مہندی رچانے اور رنگولی سجانے والی خواتین اور لڑکیوں کی تعلیمی پارک کے نصف حصّہ پرحکمرانی نظر آئی مگر یقین کیجئے(حالانکہ یہ بات ناقابلِ یقین ہے) ان کا شور بالکل بھی نہیں تھا۔ سرجھکائے وہ ایسے منہمک تھیں کہ انہیں اپنے اطراف کا بھی ہوش نہ تھا۔ کاش کہ اپنے کام کے تئیں یہی انہماک لڑکوں میں بھی نظر آتا۔
بزمِ خطابت سے اٹھنے کے بعد ہم ’اسٹیج نمبر دوکی جانب بڑھے وہاں مخلص مومن اپنے دستِ راست ضیاء شیخ کے ساتھ ’کوئز کمپٹیشن‘کو دلچسپ بنائے ہوئے تھے۔ یہاں طالبات کی بہ نسبت طلبہ کی تیاری بھی قابلِ دید و شنید لگی۔ اس پروگرام میں ہر نوع کے شائقین کو مصروف دیکھا۔ چھوٹوں کے ساتھ بڑے بھی لطف اٹھاتے اور مسکراتے پائے گئے۔
باہر اندھیرا بڑھ رہا تھا اور تعلیمی پارک میں روشنی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ کوئز مقابلہ کے بعد اسی میدان میں ’بیت بازی‘ کے بازی گروں کو پوراپورا موقع میسر آیا۔ مقابلہ کی سولہ (۱۶) ٹیموں کے ۴۸امیدواروں میں گنتی کے تین لڑکے نظر آئے۔ ان تینوں میں سے بھی ایک کا حال کچھ زیادہ اچھا نہ تھا۔ شمیم مومن نے مقابلہ کو دلچسپ، پُرلطف اور اثر انگیز بنانے میں اپنی نظامت سے وہ کام لیا جو انھیں کا خاصا ہے۔ مقابلہ کا منظرراؤنڈبڑا پُرکشش لگا۔ اس محفلِ شعر بازی میں جشنِ تعلیم کے روح رواں ہردلعزیزایم ایل اے اورقائد جشن رئیس قاسم شیخ اور تعلیم کے فرزانے اور جشن کے تین اہم ستون ضیاء الرحمن انصاری، روش انصاری اور فہیم مومن کے علاوہ کئی اہم اشخاص نہ صرف پوری طرح موجود رہے بلکہ جا بجا اس میں حصہ بھی لیتے رہے۔
بیت بازی کے میدان سے غزل سرائی کا اسٹیج قریب ہی تھا۔ باذوق تھوڑی سی کوشش سے بیک وقت دونوں مقابلوں سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔ ہمارے دوست سہیل اختر انصاری جنہیں غزل سرائی کے لئے بلایا گیا تھا غلطی سے بیت بازی کے شامیانے میں چلے آئے۔ پھر یہاں ان کا ایسا جی لگا کہ یہ بھول گئے کہ کس لئے آئے تھے۔ بارے یاد کیا تو انھیں مناسب جگہ پہنچا یاگیا۔ غزل سرائی کا مقابلہ اساتذہ کے لئے مختص تھا۔ ۱۰۰؍ امیدواروں میں سے بیس اساتذہ منتخب ہوئے۔ ہم نے موقع غنیمت جان کر آنکھ اٹھائی اور کان لگایا تو ایک غزل سرا کو گنگناتے سن کر طبیعت خوش ہوئی۔ کیا حسبِ حال غزل تھی’’محفل میں بار بار کسی پر نظر گئی = ہم نے بچائی لاکھ مگر پھر اُدھرگئی...‘‘
جشن بڑا رنگا رنگ تھا۔ بچوں کیلئے ایک ہی چھت کے نیچے اپنے جوہر دکھانے کے ڈھیر سارے مواقع پہلی بار نظر آئے۔ لگ بھگ دو ہزار طلبہ و طالبات اس کا حصہ بنے۔ تین سو اساتذہ کی تربیت و نگہبانی میں پندرہ مقابلوں میں قلم، برش، موسیقی، کمپیوٹرکی مدد سے چھوٹے اور بڑے بچے بچیوں نے اپنا فن پیش کیا اور سرخ رو ہوئے۔ تقریباًدو سو امیدوار انعام کے مستحق قرار پائے۔
ٍ تقسیم انعامات کیلئے تیس جنوری کی شام ’شامِ شہر یاراں ‘ کا نمونہ پیش کررہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے قطار اندر قطار پھول کھلے ہیں۔ کلیاں مہک رہی ہیں کوئی غنچہ افسردہ نہیں۔ استقبالیہ تقریر میں رئیس شیخ نے اپنے تصورِ جشن کی کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا ۔ اس موقع پر ڈی سی پی موہن وہیکر نے تعلیم کے موضوع پر ایک مختصر مگر بصیرت افرز تقریر کی جس کی ہر خورد وکلاں نے تعریف کی۔
مختلف مقابلوں میں امیدواروں کی جانچ پرکھ کے لئے بیرونِ شہر سے جن اصحاب کی خدمات حاصل کی گئیں ان میں فضل الرحمن، ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر، افسرؔ دکنی، مبشر اکبر، اور مقامی مہمانان میں بلال احمد مومن، قطب الدین شاہد، ملک مومن، ڈاکٹر نور، اقبال عثمان مومن، خلیق الزماں نصرتؔ، سہیل اختر، عرفان برڈی، وحیدہ آپا، شاہین مومن، رئیسہ انصاری وغیرہ شامل رہے۔
بچوں کے نوع بہ نوع آئٹم کی پیش کش میں کئی باتیں محسوس کی گئیں۔ ایک تو ان کا انوکھا انداز، دوسرے ان کا پیام۔ کبڈ ی جیسے خالص بھارتیہ کھیل کی شکست و ریخت اور اس کی جانب سے ہماری بے رخی پر پیش کیا جانے والا پروگرام ایک تازیانۂ عبرت تھا جو دل میں چبھا بھی اور دل میں کھبا بھی۔ جشن تعلیم گرانڈ فنالے کے سب سے یاد گار لمحات وہ تھے جب خواتین میں ہنرمندی اور تجارت کو فروغ دینے کیلئے ’کامیاب خاتون‘(ویمن اچیورس)ایوارڈ پیش کیا جانا تھا۔ اس کے تحت ظفر یاب خاتون کو پچاس ہزار روپے نقد اور سند افتخار پیش کی گئی۔ مقام حیرت و استعجاب ہے کہ اس مقابلے میں شہر کی ۶۹؍ خواتین نے حصہ لیا۔ آزمائش کے مختلف مراحل طے کر کے چھ خواتین فائنل میں پہنچیں۔ اس مجمع کثیر میں سناٹا چھا گیا جب ’کامیاب خاتون‘حمیرہ مرزا‘ نے اپنی کامیابی کے سفر کے نشیب و فراز کا بیان پُر سوز انداز اوروفور شوق سے کرتے ہوئے مقابلہ جیتنے کے ساتھ ساتھ دل بھی جیت لیا۔
اس دوروزہ جشن کی کامیابی میں جہاں اور عوامل کی کارفرمائی رہی ہے وہیں اس میں اساتذہ کا کردار مثالی رہا۔ تعلیم کے اس اجلاس کو بامِ عروج پر لے جانے میں علم کی روشنی کے سفیر ضیاالرحمن انصاری، سیدھی راہ کے پیامبر روش انصاری، فہم وفراست والے فہیم مومن، سخن فہم شبیر فاروقی، چارہ گر عزیز سر، سب کے ہمدم مجید سر، فیض رساں فیاض سر، سیماب فطرت سیماب انور، خوش اطوار ظفر عالم، سب کے دوست سجاد میاں، خوشبو بکھیرنے والے شمیم مومن، الحمد والے شمیم انصاری، روشن چہرے والے دیپک سنگھ، علم دوست آصف جامعی، روشنی بکھیرنے والے تنویر اختروغیرہ کی ریاضت و محنت قابلِ داد بھی رہی ا ورقابلِ ذکر بھی۔ ان اصحاب کی فکر مندی کا عالم یہ تھا کہ ابوذر خان رات دو بجے ان میں سے کسی کو فون کرتے تو انھیں مایوسی نہیں ہوتی تھی۔
پروگرام کے اخیر میں ایسا لگاگویا آٹھ دن کو دو دن میں سمیٹا گیا ہے۔ بارے جو کچھ ہوا اچھا ہوا۔ سیماب مومن نے ہر طرح کے دباؤ کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ جشن میں شامل اسّی سالہ اعجاز مومن( المعروف بہ اعجاز سر) سے احوال پوچھا تو بولے’ کیا شاندار جشن تھا۔ کس کس کا ذکر کروں۔ کس کس بات کی تعریف کروں ۔ خدا نظر بد سے بچائے۔ میں جشن کے ایک گوشہ ٔ عافیت میں مسلسل چار گھنٹوں تک محظوظ ہوتا رہا۔ نہ مجھے چائے پانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ نہ نان و نمک کی۔ آئندہ جشن میں ان شاء اللہ تیاری کے ساتھ آؤں گا، خدا حافظ۔