• Wed, 26 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

زکوٰۃ کی اجتماعی ادائیگی کی بھی فکر کیجئے

Updated: February 25, 2025, 4:16 PM IST | Maulana Abul Kalam Azad | Mumbai

قرآن حکیم میں نماز، زکوٰۃ کا ایک ساتھ بار بار ذکر آیا ہے لیکن مسلمان اس اہم فرض کی ادائیگی کی طرف متوجہ نہیں۔ تم میں سے بعض زکوٰۃ نہیں دیتے لیکن زکوٰۃ دینے والے بھی نہ دینے والوں کے برابر ہیں کیونکہ وہ اسلامی احکام کے مطابق زکوٰۃ نہیں دیتے۔

Islam has given the characteristic of Muslims that their fists remain open. Photo: INN
اسلام نےمسلمانوں کی یہ پہچان بتائی ہے کہ اس کی مٹھیاں کھلی رہتی ہیں۔ تصویر: آئی این این

برادرانِ عزیز! تم کو معلوم ہے کہ ہر اسلامی حکم میں انفاق کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ انفاق کے معنی یہ ہیں کہ اسلام تمہاری جیبوں سے کچھ خاص چاہتا ہے۔ حج، زکوٰۃ اور دوسرے احکام میں یہی بات پاؤ گے۔ 
  تم جانتے ہو کہ زکوٰۃ کیا ہے۔ زکوٰۃ ایک انکم ٹیکس ہے جو اسلام نے ہر اس آدمی پر عائد کیا ہے جس نے سال کے بارہ مہینوں میں کھاپی کر ایک خاصی رقم جمع کرلی ہو۔ اسلام کی زکوٰۃ یہ ہے کہ جس آدمی نے سال بھر میں چالیس روپے جمع کرلئے ہوں وہ ایک روپیہ ٹیکس داخل کرے۔ (یا اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو اور ان سب پر بارہ مہینے گزر چکے ہوں )۔ 
  اسلام یہ رقمیں غرباء، مساکین اور محتاجوں میں تقسیم کرادیتا ہے۔ اسلام نے ٹیکس کی رقموں کو تقسیم کرنے کے لئے آٹھ حلقے بنائے ہیں اور یہ حلقے غرباء اور محتاجوں کے حلقے ہیں۔ (یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور اُن لوگوں کے لئے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لئے ہیں۔ یہ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔ (سورہ توبہ:۶۰) قرآن حکیم میں نماز، زکوٰۃ کا ایک ساتھ بار بار ذکر آیا ہے لیکن مسلمان اس اہم فرض کی ادائیگی کی طرف متوجہ نہیں۔ تم میں سے بعض زکوٰۃ نہیں دیتے لیکن زکوٰۃ دینے والے بھی نہ دینے والوں کے برابر ہیں کیونکہ وہ اسلامی احکام کے مطابق زکوٰۃ نہیں دیتے۔ 
  تم کو معلوم ہے کہ انکم ٹیکس وصول کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے کلکٹر مقرر ہوتے ہیں جو دفاتر اور کھاتوں کی جانچ پڑتال کرکے ٹیکس کی رقمیں متعین کرتے ہیں لیکن اسلامی ٹیکس ’’زکوٰۃ‘‘ نکالنے میں اس قسم کی کوئی صورت پیش نہیں آتی۔ اسلام نے ٹیکس کی ادائیگی میں تمہیں کتنی آسانیاں دے رکھی ہیں ۔ تم خود اپنے کاروبار کا جائزہ لو، اپنی زندگی کا تعین کرو اور اپنے ہی ہاتھوں سے زکوٰۃ نکالو۔ کیا اس سے بھی زیادہ آسانیاں ممکن ہیں ؟
  برادرانِ عزیز! یقین مانو کہ تم میں سے جو لوگ زکوٰۃ نکالتے ہیں وہ اسلامی احکام کے مطابق نہیں نکالتے اور وہ ان لوگوں کے برابر ہیں جو زکوٰۃ نہیں دیتے۔ تمہاری زکوٰۃ کی رقمیں برباد ہوجاتی ہیں۔ اسلام نے زکوٰۃ کی رقموں کو اجتماعی طور سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور تم انفرادی ہاتھوں سے خرچ کررہے ہو۔ (چنانچہ اسی لئے مذکورہ آیت میں کارندوں اور عاملوں کی تنخواہ بھی مصارف ِ زکوٰۃ میں شامل کی گئی اور فرمایا گیا : والعملین علیھا۔ اگر زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اجتماعی نظام ضروری نہ ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ مصارف ِ زکوٰۃ میں عمال کا خرچ بھی شامل کیا جاتا۔ ) اسلام کا حکم، صحابہؓ کا عمل اور تاریخ کے اوقات بتاتے ہیں کہ زکوٰۃ کی رقمیں اجتماعی طور سے خرچ ہونی چاہئیں۔ 
  بعض لوگ یہ عذر لا سکتے ہیں اجتماعی زکوٰہ کا نظم اسلامی حکومت میں ممکن ہے، ہمارے یہاں اجتماعی تقسیم کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ عذر بالکل لنگ اور بے بنیاد ہے۔ وہ تمہارا کون سا کام ہے جو رکا رہتا ہے؟ اس حالت میں اگر تم اجتماعی تقسیم کا انتظام کرسکتے ہو، تو یہ عذر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ تم فضول، لغو اور غیراسلامی کاموں کے لئے آئے دن انجمنیں بناتے رہتے ہو۔ کیا ایک اسلامی کام کے لئے ایسی انجمنیں نہیں بنا سکتے جو تمہاری زکوٰتوں کو اسلامی طریقہ پر خرچ کرسکیں ؟
  برادرانِ عزیز! دراصل بات یہ ہے کہ یہاں اسلام کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ اسلام کی اجتماعی زندگی کا نقشہ بدل چکا ہے۔ جس طرح تم مکان بناتے ہو، اس میں مختلف خانے ہوتے ہیں۔ کوئی خانہ سونے کا ہوتا ہے، کوئی باورچی خانہ ہوتا ہے، کوئی سامان رکھنے کا خانہ ہوتا ہے۔ ایک انسان اپنے تمام کاموں کے لئے اگر ایک ہی خانہ متعین کرلے اور دوسری ضرورتوں کے لئے اگر اس کا کوئی خانہ نہ ہو تو بتاؤ وہ گھر کا صحیح لطف لے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح جب تک اسلام کے تمام خانوں کو سامنے نہیں رکھوگے، اس کے فیوض و برکات سے لطف نہیں اٹھا سکتے۔ 
 دراصل مسلمانوں نے اسلامی احکام کو چھوڑ دیا ہے، البتہ ان میں نمائشی اور بے روح سرگرمیاں باقی رہ گئی ہیں۔ ایک زکوٰۃ ہی کے حکم کو دیکھو، اگر مسلمان اس پر عامل ہوتے تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ زکوٰۃ اسلام کا اتنا جامع اور اکمل اصول ہے کہ دنیا کا کوئی قانون اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسلام نے زکوٰۃ کا حکم اس لئے دیا ہے کہ اس سے غرباء اور مساکین اور محتاجوں کی امداد ہوتی رہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ساری دولت چند لوگوں کے ہاتھو ں میں جمع رہے۔ اسلام نےمسلمانوں کی یہ پہچان بتائی ہے کہ اس کی مٹھیاں کھلی رہتی ہیں یعنی وہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوتے ہیں اور کافروں کی یہ پہچان بتائی ہے کہ ان کی مٹھیاں بند رہتی ہیں ، یعنی نیک کاموں پر وہ خرچ نہیں کرتے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ دولت کسی کی اجارہ داری میں آجائے یا کوئی شخص، اپنے پاس ڈھیر لگائے۔ اسلام ذخیرہ اندوزی کا سخت مخالف ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دولت تقسیم ہوتی رہے۔ اس کا یہ اصول زکوٰۃ اور وراثت میں بالکل مساوی بنیاد پر قائم ہے۔ 
 بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس بارے میں سوشلزم اور اسلام کے اصول ایک ہی ہیں۔ ایسا کہنے والے نہ صرف یہ کہ غلط کہتے ہیں بلکہ دیانتداری کے خلاف کہتے ہیں۔ سوشلزم چاہتا ہے کہ دولت کی برابر تقسیم ہو۔ اگر ایک آدمی کے پاس سو روپے ہوں تو سب کے پاس سو روپے ہونے چاہئیں، لیکن اسلام یہ نہیں کہتا۔ اسلام صرف یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کے پاس روپے ہوں۔ اسلام حق مساوات کو تسلیم کرتا ہے لیکن مقدار مساوات تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جب آدمی پیدا ہوا، تو اس کی زندگی سوسائٹی پر فرض ہوگئی۔ سوسائٹی کا فرض ہے کہ اسے زندہ رہنے دے۔ اسلام نے اقتصادی مساوات تسلیم نہیں کی ہے۔ بلاشبہ اسلام میں اونچ نیچ کا کوئی طبقہ نہیں ہے لیکن اسلام نے غرباء اور امراء کے طبقات تسلیم کئے ہیں (اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ نپا تلا رزق دیتا ہے: رعد:۲۶) ۔ قرآن مجید میں خداوند کریم نے صاف صاف بیان کردیا ہے کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے (دیکھئے ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے: الاسراء:۲۱)۔ 
 برادران عزیز! میں تم سے پھر کہتا ہوں کہ تم میں سے جو لوگ زکوٰۃ نکالتے ہیں ان کی رقمیں برباد ہوجاتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ شرعی ذمہ داری کی کیا اہمیت ہے اور اس اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تم سے بار بار کہتا ہوں کہ زکوٰۃ کی رقموں کو اجتماعی طور سے خرچ کرو۔ 
تم جانتے ہو کہ اجتماعی طور سے خرچ کرنے میں اسلامی احکام کی بجاآوری کے علاوہ کیا فوائد ہیں۔ کاش میں اس کے فوائد سمجھانے کے لئے اپنا دل چیر کر تمہارے سامنے رکھ دوں اور تم اس کی رگوں کو پڑھ سکو۔ میں بالکل یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر مسلمان اسلام کےاس اہم اصول پر پابند ہوجائیں تو ان کی حالت بہت جلد بدل سکتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ تم جن لوگوں کو بھی زکوٰۃ دیتے ہو نہ دو، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ اجتماعی ہاتھوں سے دو۔ اگر تم ان ہی لوگوں کو اجتماعی ہاتھوں سے دے سکتے ہو تو تمہیں کیوں ضد ہوگئی ہے کہ انفرادی ہاتھوں سے دے کر اسلام کے احکام کے خلاف کام کرتے ہو۔ 
 میں مسلمانوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ کوئی ایسی جماعت بنائیں جو ان کی زکوٰۃ کا صحیح مصرف کرسکے اور اس میں ہر طبقہ اور ہر جماعت کے نمائندے شریک ہوں، یا ہر طبقہ میں اس قسم کی جماعت بنائی جائے جو اسلام کی بنائی ہوئی حدود کے اندر ان زکوٰۃ کی رقموں کو خرچ کرسکے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری رقمیں ان لوگوں پر خرچ کی جائیں جنہیں تم دینا چاہتے ہو تو یہ کرسکتے ہو کہ اپنی جمعیت کو ان اشخاص کے ناموں کی اطلاع کردو۔ n  (۱۹۳۴ء میں دیا گیا ایک خطبہ۔ بحوالہ: ادائے زکوٰۃ کا اسلامی طریقہ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK