قربانی کے دن بنی آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے) جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: June 14, 2024, 12:34 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
قربانی کے دن بنی آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے) جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔
تمام اہم کاموں کی دو شکلیں ہوتی ہیں ؛ ایک ظاہری اور دوسری باطنی۔اگر متعلقہ کام میں دونوں شکلیں بدرجہ اتم موجود ہو تو وہ کام خوب سیرتی اور خوبصورتی کا پرتو ہوتا ہے اور اس کے انقلابی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند دنوں میں ہم عید الاضحی کے موقع پر قربانی پیش کرنے والے ہیں۔اس قربانی کی ظاہری شکل تو یہ ہے کہ ہم اس موقع سے چھوٹے بڑے جانوروں کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے گوشت کو خود کھاتے ہیں اور تقسیم بھی کرتے ہیں اور اس کی باطنی (روحانی) شکل یہ ہے کہ ہم شریعت کا ایک حکم مان کر محض اللہ رب العزت کی خوشنودی کیلئے یہ عمل کرتے ہیں ؛ کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو بظاہر ہم جانور کو تو ذبح کریں گے لیکن ہماری قربانی قابل قبول نہیں ہوگی۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر قربانی کے جانور میں کسی نے صرف گوشت حاصل کرنے کی نیت کی، قربانی ادا کرنے یا ثواب کی نیت نہیں کی تو ایسی صورت میں قربانی صحیح نہیں ہوگی، ایسا آدمی اگر مال دار ہے تو اس پر قربانی کے ایام میں ایک اور قربانی کرنا لازم ہوگا۔
وہیں ہماری قربانی میں اگر ظاہری وباطنی دونوں خوبیاں جمع ہو جائیں تو اس سے ہماری زندگی میں اس طرح انقلاب برپا ہوگا کہ ہم دوسروں کے لئے جینے کا ہنر سیکھ لیں گے، مزید برآں معاملات کو مشترکہ طور پر انجام دینے، ایک دوسرے کے ساتھ تعان کرنے، ایک دوسرے کو تحائف دینے اور صلہ رحمی کا سبق بھی سیکھ لیں گے جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہماری اس خوب سیرت اور خوبصورت قربانی سے ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں بھی ہمیں بڑا انعام ملے گا جیسا کہ مسند احمد کی روایت میں ہے، ’’حضرت زید بن ارقمؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ: یہ قربانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اس کے ایک ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اخلاص نیت اور خوشدلی قربانی کی اوّلین شرط ہے
مذکورہ پس منظر میں قربانی کے تعلق سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ قربانی کی ظاہری و باطنی دونوں شکلوں کو وجود میں لانا ضروری ہے۔ یہیں سے ان لوگوں کی بات کا بھی رد ہوگیا جو یہ کہتے ہیں کہ ظاہری طور پر قربانی ضروری نہیں ہے بلکہ قربانی کے پیسے کو وقت کی ضرورت کے حساب سے دیگر رفاہی کاموں میں استعمال کیا جانا چاہئے۔ حالانکہ فقہائے امت نے یہ صاف واضح کردیا ہے کہ جس مرد یا عورت پر قربانی واجب ہے اس پر قربانی کرنا ضروری ہے، قربانی کی قیمت دینے سے واجب قربانی ادا نہیں ہوگی۔ صدقہ قربانی کا متبادل نہیں ہے یہ بات ذیل کی حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے جس میں جانور کے خون بہانے کی بات کہی گئی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن بنی آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے) جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور یہ قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا اور (قربانی کے جانور کا خون) یقیناً زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتبۂ قبولیت کو پا لیتا ہے، سو (اے اہلِ ایمان!) تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔‘‘ (سنن ترمذی)
قربانی کے باطنی شکل کے تعلق سے موجودہ معاشرے میں راہ پا جانے والے ایک غلط رجحان کی تردید بھی ضروری ہے کہ کچھ لوگ اس لئے قربانی دیتے ہیں تاکہ وہ اور ان کے بچے سیر ہوکر گوشت کھا لیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایسا شخص (جس کی نیت محض گوشت کھانے کی ہو) اگر مشترکہ قربانی میں حصہ لے تو جان بوجھ کر ایسے آدمی کو بڑے جانور میں شریک کرنے کی صورت میں کسی بھی شریک کی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔ لہٰذا اس تعلق سے نیت کی درستگی لازمی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کے تعلق سے ہم سب کو یہ بات ذہن میں بٹھالینی چاہئے کہ یہ ایک روحانی عمل ہے، لہٰذا اس عمل میں معراج تک پہنچنے کے لئے ظاہرا ً اور باطناً ہر اعتبار سے درستگی ضروری ہے۔