• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کارِ نبوت تفویض کرنے سے پہلے آپؐ کے اندر جذبۂ خدمت ِانسانی پیدا کردیا گیا تھا

Updated: February 20, 2025, 5:52 PM IST | Muhammad Saud Alam Qasmi | Mumbai

حضورؐ نے صرف انسانوں کی روحانی مشکلات حل کرنے اور اخلاقی برائیوں کی اصلاح کا بیڑا ہی نہیں اٹھایا، بلکہ انسان کی سماجی اور معاشی مشکلات کو دور کرنے اور انسانی معاشرے کے رنج و غم کو سکھ اور مسرت میں تبدیل کرنے کی بھی کامیاب جدوجہد کی۔

The Holy Prophet (peace be upon him) interpreted the love of humans as the love of Allah, and considered serving creation as the path to reaching Allah. Photo: INN.
نبی کریم ﷺ بح انسانوں کی محبت کو اللہ کی محبت سے تعبیر کیا، مخلوق کی خدمت کو اللہ تک پہنچنے کا راستہ قرار دیا۔ تصویر: آئی این این۔

رسول، اللہ کا فرستادہ اور اس کانمائندہ ہوتا ہے۔ رسول کے مخاطب انسان ہوتے ہیں۔ وہ انسانوں کے درمیان رہتا اور بستا ہے، بھرپور سماجی اور اجتماعی زندگی گزارتا ہے اور صالح انسانی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔ وہ انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، ان کی مشکلات کو حل کرتا ہے ان کا غم خوارہوتا ہے، ان کی تعلیم و تربیت کرتا ہے اور ان کی تطہیر و تعمیر کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ایک طرف تو رسول کا تعلق اللہ سے گہرا اور مضبوط ہوتا ہے اور دوسری طرف انسانوں سے اس کا رشتہ اٹوٹ اور بے لوث ہوتا ہے۔ منصب ِ رسالت کے یہ بنیادی پہلو ہیں اوریہی کارِ پیغمبری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مشرکوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ان کی ہدایت کے لئے انسان کے بجاے فرشتے کو رسول بناکر کیوں نہ بھیجا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا :
’’کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور بستے ہوتے تب ہم ضرور ان کی ہدایت کے لئے آسمان سے فرشتے نازل کرتے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل :۹۵)
گویا انسانوں کی مشکلات، نفسیات، ضروریات، مزاج اور دکھ درد کو زیادہ بہتر طور پر انسانوں کا نمائندہ ہی سمجھ سکتا ہے اور ان کا بہتر مداواکر سکتا ہے۔ اس لئے فرشتے کے مقابلے میں انسان کو رسول بناکر بھیجنا زیادہ مناسب تھا۔ چنانچہ تمام رسول انسانوں ہی کے درمیان سے اٹھے اور انسانوں کی خیر خواہی کے لئے مامور ہوئے۔ خاص طور پر آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ انسانی دکھ درد کو نہ صرف گہرائی سے سمجھتے تھے، بلکہ ان کے دکھ درد کو اپنا سمجھتے اور اُن کے شریک غم رہتے تھے۔ آپؐ انسانی مشکلات کے حل سے اتنی گہری دلچسپی رکھتے تھے کہ قرآن پاک نے آپؐ کو رحمۃ للعالمینؐ کا خطاب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کا تعارف ان لفظوں میں کرایا ہے :
’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔ ‘‘ (التوبۃ :۱۲۸) 
نبوت سے پہلے انسانی خدمت
رسول اکرم ؐ منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھی انسانوں سے محبت اور ان کی خدمت کے لئے مشہور تھے۔ بارِ نبوت کو اٹھانے میں اس صلاحیت اور خصوصیت نے آپؐ کو بڑی مدد پہنچائی۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے کارِ نبوت کو انجام دینے کے لئے آپؐ کا انتخاب کرنے سے پہلے آپؐ کے اندر انسانی خدمت کا جذبہ اور ملکہ کامل طور پر پیدا کردیا تھا۔ چنانچہ پہلی مرتبہ جب آپؐ پر قرآنی آیات نازل ہوئیں تو اس وقت آپؐ غار حرا میں غور و فکر میں تھے۔ فرشتے سے پہلی ملاقات اور پہلی وحی کے نزول کے بعد آپؐ کانپتے ہوئے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایاکہ مجھے چادر اڑھائو، مجھے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ پھر آپؐ نے پورا ماجرا سنایا۔ یہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت کے دنوں میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ‘‘(بخاری)
نبوت کے بعد انسانی خدمت
نبوت کے بعد رسولؐ اللہ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوگئی۔ ایک انسانوں کی خدمت کی اور دوسری ان کی ہدایت اور سعی نجات کی۔ نبوت سے سرفراز ہونے سے پہلے صرف انسانی خدمت آپؐ کی پہچان تھی، نبوت کے بعد خدمت اور ہدایت دونوں آپؐ کی پہچان بن گئیں۔ 
خدا پرستی اور انسانی خدمت
رسولؐ پاک نے صرف انسانوں کی روحانی مشکلات حل کرنے اور اخلاقی برائیوں کی اصلاح کا بیڑا ہی نہیں اٹھایا، بلکہ انسان کی سماجی اور معاشی مشکلات کو دور کرنے کی بھی سعی کی، اور انسانی معاشرے کے رنج و غم کو سکھ اور مسرت میں تبدیل کرنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ انسانی سماج میں طاقتور اور کمزور، امیر و غریب، مختار اور محتاج دونوں طرح کے لوگ رہتے ہیں اور دونوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ رسولؐ پاک ہرفرد کی اصلاح کرتے ہیں اور دونوں کو کامیابی کی راہ دکھاتے ہیں۔ اگر رسول انسانوں کی روحانی دنیا آباد کرے اور مادی دنیا کو اجڑ جانے دے، اخلاقی حالت کو درست کرے اور سماجی زندگی کو الجھنوں میں مبتلارہنے دے، عبادت پر زور دے اور سماجی حقوق کو نظر انداز کردے تو یہ مذہب ناقص ہوگا اور اس کی انسانوں کو چنداں ضرورت نہ ہوگی۔ چنانچہ رسولؐ پاک نے دونوں ضروریات کی تکمیل کے لئے مذہب کا ایک کامل نمونہ پیش کیا جس نے اپنے دامن میں اللہ کی عبادت اور انسانوں کی خدمت دونوں کو یکساں جگہ دی۔ قرآن نے وضاحت کی:
’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب (ایسے لوگ) کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ ‘‘ (البقرہ:۱۷۷)۔ اس آیت میں تفصیل سے نیکی اور دین داری کا تصور بیان کیا گیا ہے۔ اس میں جہاں ایمانیات پر زور ہے، عبادات کی تلقین ہے، اخلاقی اصولوں کا تذکرہ ہے، وہاں انسانوں کی خدمت، ان کے دکھ درد میں شرکت اور ان کی حاجت روائی کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ یہ مذہب کی روح ہے، اس کا خمیر اور جوہر ہے۔ اگر مذہب سے ایمانیات اور عبادات کو خارج کردیا جائے تو مذہب ثقافت و رواج پر مبنی سماجی تنظیم یا کلچرل انجمن بن کر رہ جائے گا، اور اگر انسانی خدمت کو نظراندازکردیاجائے اور ان کی مشکلات کا مداوا نہ کیا جائے تو مذہب بے جان رسموں کا ڈھانچا بن جائے گا یا مابعد الطبیعات کا پیچیدہ فلسفہ۔ 
مشرکین کا انسانی خدمت سے انکار
مشرکین مکہ نے جو دھرم اپنا رکھا تھا، وہ انہی پیچیدگیوں کا شکار تھا۔ ان کی اخلاقی اور سماجی زندگی کی تصویر کشی قرآن میں متعدد مقامات پر بڑی باریک بینی سے کی گئی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: ’’ہرگز نہیں ، تم یتیموں کی عزت نہیں کرتے، اور محتاجوں کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو تلقین نہیں کرتے اور مردے کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہواور مال و دولت سے جی بھرکے محبت کرتے ہو۔ ‘‘ (الفجر : ۱۷؍تا۲۰) 
یعنی انسانوں کی محبت کی جگہ مشرکوں کے دل میں مال کی محبت نے جڑ پکڑ لی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ نہ وہ خود ناداروں پر خرچ کرتے تھے اور نہ دوسروں کو محتاجوں کی خبر گیری کے لئے کہتے تھے، یہ سماج انسانوں پر مبنی توتھا مگر روح انسانیت سے خالی، شیخ سعدی کے اس حکمت آمیز شعر کا مصداق تھا:
تو گر محبت دیگراں بے غمی=نہ شاید کہ نامت دہندآدمی
(تم اگر دوسروں کی محبت سے بے نیاز ہو تو تم کو آدمی کا نام نہیں دیا جانا چاہئے )۔ 
رسولؐ پاک نے اس جاہلی معاشرے میں حقیقی خدا پرستی اور سچی انسانی خدمت کی تحریک برپا کی تو مشرکوں نے جہاں اس بات کی مخالفت کی کہ ان گنت دیوتائوں کی جگہ صرف ایک خدائے وحدہٗ لاشریک کی پرستش کی جائے وہاں اس بات کی بھی مخالفت کی کہ غریبوں اور ناداروں پر اپنا مال خرچ کیا جائے اور بغیر کسی معاوضے اور صلے کے ان کی خدمت کی جائے۔ وہ مال داری اور ناداری کو مقدرات سمجھتے تھے اور ناداروں کی حالت سدھارنے کی کوشش کو نادانی اور گمراہی سے تعبیر کرتے تھے۔ قرآن پاک میں رسولؐ کریم کی خدمت انسانی کے مطالبے اور جواب میں مشرکین کے غیر انسانی رویے کا ان لفظوں میں تذکرہ کیا گیا ہے :
’’اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں عطا کیا ہے اُس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرو تو یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے ایمان لانے والوں کو جواب دیتے ہیں کیا ہم اُن کو کھلائیں جنہیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم تو بالکل ہی بہک گئے ہو۔ ‘‘ 
(یٰسین :۴۷) 
رسولؐ کریم کی انسانی خدمت کی تحریک
نبی کریمؐ نے مسلمانوں کوجو تعلیم دی اس کا مرکزی نکتہ یہ تھا: ’’بھوکوں کو کھانا کھلائو، بیماروں کی خبرگیری کرو اور قیدیوں کو رہا کرائو (اُن کی رہائی کا انتظام کرو)۔ ‘‘ (بخاری)
رسالت مآبؐ نے انسانوں کی محبت کو اللہ کی محبت سے تعبیر کیا، مخلوق کی خدمت کو اللہ تک پہنچنے کا راستہ قرار دیا، اور جہنم سے آزادی اور جنت کے حصول کا ذریعہ بتایا۔ مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں یہ تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہمیت رکھتی ہے۔ اگر انسانوں کی خدمت نہ کی جائے تو اللہ کی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ ایسی گھاٹی ہے جسے پار کئے بغیر رضوانِ الٰہی کی بلندی تک پہنچا نہیں جاسکتا۔ قرآن پاک نے وضاحت کی:
’’اس نے دشوارگزار گھاٹی پار نہ کی، تمہیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی، کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقہ کے دن کسی رشتہ دار یتیم یا خاک نشیں مسکین کو کھانا کھلانا، پھر ان لوگوں میں شامل ہونا جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور انسانوں پر رحم کرنے کی تلقین کی۔ ‘‘ (البلد: ۱۱؍تا۱۷)
(مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے ملاحظہ کیجئے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK