• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مسلمانوں میں ذات پات کی تقسیم قائم کرنے کی سرکاری کوشش سے خبردار رہیں!

Updated: October 04, 2024, 4:47 PM IST | Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اگریہ طبقاتی تقسیم جڑ پکڑ گئی تو یہ اُمت جو پہلے سے مسلکی اور تنظیمی اختلافات کی وجہ سے بے وزن سی ہو کر رہ گئی ہے اور بھی بے قیمت ہو جائے گی اور الیکشن کے موسمِ بہار میں اس کے آنسو پونچھنے کیلئے آنے والے کچھ قائدین، جو کچھ وعدہ و عید کر کے ووٹ کا سودا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اشک شوئی کے بھی روادار نہ ہونگے اور یہ روایت بھی ختم ہو جائے گی؛ لیکن یہ چھوٹا نقصان ہے۔ سماجی پہلو سے جو نقصان ہوگا، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔

The jurists have written the scope of sufficiency in marriage, its purpose is not the high and low of the caste, but the family ties.Photo. INN
فقہاء نے جو نکاح میں کفاءت کی گنجائش لکھی ہے، اس کا منشا بھی ذات کی اونچ نیچ نہیں بلکہ خاندانی مناسبتیں ہیں۔ تصویر: آئی این این

اس ملک میں عرصہ سے ایک ناپاک کوشش ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی برادران ِوطن کی طرح ذات پات کے خانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ موجودہ حکومت کا بنیادی طریقہ عوام کو تقسیم کر کے ووٹ حاصل کرنے کا ہے؛ اسلئے حکومت کا اس پر بہت زور ہے کہ مسلمانوں کی پسماندہ مسلمان اور اعلیٰ ذات کی تقسیم کے ایجنڈے کو تقویت پہنچائی جائے؛ چنانچہ ابھی وقف ترمیمی بِل کے بارے میں اظہار رائے کیلئے جے پی سی  میں پسماندہ مسلمانوں کے نام سے ایک وفد پہنچا، اور میرے علم کے مطابق انہوں نے حکومت کے موجودہ بِِل کی بھر پور حمایت کی، کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ بہت ہی افسوسناک ہے۔
لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلہ پر وسیع تناظر میں غور کیا جائے اور اسلام کے مزاج و مذاق کو سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کی جائے۔  برادرانِ وطن کے یہاں ذات پات کی تفریق اور نسلی اونچ نیچ کا تصور عقیدہ کا حصہ ہے، ہندو معاشرہ میں مختلف اصلاحی شخصیتوں نے اس مزاج کو بدلنے کی کوشش کی جن میں گاندھی جی اور راجہ رام موہن رائے کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے؛ لیکن اس کوشش میں انہیں دس فیصد بھی کامیابی حاصل نہیں ملی۔ آریہ سماجی تحریک نے اس مذہبی تصور کی ایک نئی توجیہ پیش کی کہ برہمن، ویش، چھتری اور شودر کی تقسیم ذات پات کی بنیاد پر نہیں ہے؛ بلکہ یہ  ’’کرم ـ ـ‘‘ یعنی عمل کی بنیاد پر ہے۔ دیانند جی سرسوتی نے ’’ وید پرکاش ‘‘ میں اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، مگر یہ ایسی توجیہ تھی کہ شاید اس کو خود ان کے ضمیر نے بھی قبول نہ کیا ہو؛ کیونکہ منو اسمرتی میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق اور پیدائشی طور پر کچھ لوگوں کا باعزت اور کچھ لوگوں کا ذلیل ہونا اتنا واضح ہے کہ اس کی تاویل دن کو رات کہنے سے کم نہیں۔ ہندو سماج میں اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ اُکھاڑے نہیں اُکھاڑی جاتیں؛ حالانکہ آج ہمارا ملک علم و سائنس کے اعتبار سے نہایت تیز رفتار ترقی کر رہا ہے اور پوری دنیا میں اس کی ایک شناخت قائم ہے، نیز اس تعلیمی ترقی نے روشن خیالی بھی پیدا کی ہے، تو ہمات کی زنجیریں کٹ رہی ہیں اور نئی نسل اپنے بزرگوں کے بہت سے فرسودہ خیالات سے چھٹکارا پا چکی ہے یا اس کیلئے کوشاں ہے لیکن حیرت ہے کہ نسلی تفریق کا یہ بت جس نے دل و دماغ میں جگہ بنالی، توڑے نہیں ٹوٹتا۔ 
آج بھی ایسی خبریں آتی ہیں کہ ہریجن طبقہ سے تعلق رکھنے والے آفیسر کی جگہ برہمن یااونچی ذات کا افسر آجائے تو وہ پورے آفس کو دھلوانا ضروری سمجھتا ہے، اور تو اور کچھ عرصہ پہلے فیض آباد کے سیشن کورٹ کے ایک جج کا اسی طرح کا واقعہ نمایاں طور پر شائع ہوا، یہ بھی ایک کڑوی سچائی ہے کہ بعض دفعہ سرکاری دفاتر میں نیچی ذات کا افسر آگیا تو اس کے ماتحت کام کرنے والے اونچی ذات کے نوکروں نے اپنا تبادلہ کرالیا۔ جن لوگوں کی عمر پینتالیس سال سے متجاوز ہو گی، انہیں یاد ہوگا کہ جب اندرا گاندھی کی شکست کے بعد جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی تو اس وقت انتظامی قابلیت، سیاسی تجربہ اور صاف ستھری شبیہ کے اعتبار سے جگجیون رام کی شخصیت سب سے نمایاں تھی اور عام تاثر تھا کہ وہی وزیر اعظم بنائے جائینگے؛ لیکن چرن سنگھ ( جن کا تعلق جاٹ برادری سے تھا ) نے صاف صاف اعلان کردیا کہ جاٹ کسی ہریجن وزیر اعظم کے تحت کام نہیں کرینگے؛ چنانچہ مرارجی دیسائی وزیر اعظم ہوئے، چرن سنگھ و زیر داخلہ اور جگجیون رام وزیر دفاع۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ طبقاتی تقسیم کی جڑیں برادرانِ وطن میں کس قدر گہری ہیں۔ اس کے رد عمل میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بہار اور یوپی میں جب نچلی ذات کے لوگ اقتدار پر آئے تو انہوں نے اونچی ذات کے لوگوں کے ساتھ انتقامی کاروائی شروع کردی اور سماج کے بہت سے باعزت لوگوں کو بےآبرو کر کے ہی مطمئن ہوئے؛ بلکہ یوپی کی ایک سابق خاتون چیف منسٹر کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ اونچی ذات کے افسروں کو گالیاں دینے میں بھی تکلف یا تردد سے کام نہیں لیتی تھیں ۔ 
کچھ لوگ اس بات کیلئے کوشاں ہیں کہ مسلمانوں کو بھی ذات پات کے نام پر بانٹ دیا جائے۔ آنجہانی کانشی رام تو بار بار اپنی تقریروں میں بھی اس بات کو کہہ چکے ہیں اوربعض مقامات پر انہیں اس میں جزوی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔  اس کوشش کا ایک سبب یہ ہے کہ جو لوگ ہندو کہے جاتے ہیں، ان کی تعداد تو اس ملک میں اسّی فیصد کے قریب ہے؛ اس کے باوجود یہ طبقاتی تقسیم اکثر ان کے ووٹ کو متحد نہیں ہونے دیتی۔ ہریجن سمجھتا ہے کہ برہمن اور راجپوت کو اپنا ووٹ دینا گویا دشمنوں کو ہتھیار دینا ہے۔ اونچی ذات کے لوگ نیچی ذات کے لوگوں کو ووٹ دینے کے روادار نہیں ہوتے یا کم سے کم خوش دِلی کے ساتھ ووٹ نہیں دیتے، ہزار اختلاف کے باوجود مسلمان فرقہ پرست عناصر کے جواب میں ایک حد تک اپنا  ووٹ تقسیم سے بچالے جاتے ہیں؛ اسلئے سیاست کے بازیگر فکر مند رہتے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کے اختلاف کو اُبھارا جائے تاکہ اس کا من چاہا سیاسی فائدہ اُٹھایا جاسکے؟ 
مسلمانوں میں اگریہ طبقاتی تقسیم جڑ پکڑ گئی تو یہ اُمت جو پہلے سے مسلکی اور تنظیمی اختلافات کی وجہ سے بے وزن سی ہو کر رہ گئی ہے اور بھی بے قیمت ہو جائے گی اور الیکشن کے موسمِ بہار میں اس کے آنسو پونچھنے کیلئے آنے والے  کچھ قائدین، جو  کچھ وعدہ و عید کر کے ووٹ کا سودا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اشک شوئی کے بھی روادار نہ ہونگے اور یہ روایت بھی ختم ہو جائے گی؛ لیکن یہ چھوٹا نقںان ہے۔ سماجی پہلو سے جو نقصان ہوگا، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اونچ نیچ کی یہ تقسیم ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ سے دُور کر دیگی ، باہمی ارتباط کمزور ہوتا جائے گا اور جو طبقہ اپنے آپ کو مظلوم و کمزور سمجھے گا، اس کی دوسرے مذہبی گروہوں سے قربت بڑھ جائے گی اور اس سے جو نقصان ہوگا وہ محتاجِ اظہار نہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو خود اس حقیر کے ساتھ گزرا ہے۔ مَیں ایک مسجد کے افتتاح کے سلسلہ میں ایک دور اُفتادہ دیہات میں مدعو تھا، وہاں مختلف آبادیاں تھیں، میں نے پوچھا کہ یہ آبادیاں کن لوگوں کی ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ فلاں آبادی ہندوؤں کی ہے، اس سے ذرا فاصلہ پر جو آبادی ہے وہ دلتوں کی ہے، یہ مسلمانوں کی آبادی ہے اور اس سے قریب جو آبادی نظر آرہی ہے، وہ نور باش لوگوں کی ہے ( نور باش یا ندّاف اصل میں روئی دھننے والے کو کہتے ہیں) حالانکہ اب یہ لوگ سنگ تراشی کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں؛ لیکن ان کے آباء و اجداد کے پیشہ کی نسبت سے اب بھی انہیں نورباش یا ندّاف ہی کہا جاتا ہے ۔ 
حاصل یہ ہے کہ اس برادری کو مسلمانوں نے اپنے دائرہ سے باہر تصور کرلیا ہے۔ ہم لوگ جب نور باش محلہ میں لے جائے گئے تو وہاں ایک عجیب منظر نظر آیا۔ مرد دھوتی پہنے ہوئے، عورتیں گھاگرا پہنی ہوئیں، لڑکے چوٹیاں رکھے ہوئے اور ہاتھ جوڑ کر سبھوں نے سلام کیا ، انہیں گو اپنے مسلمان ہونے کا احساس تھا؛ لیکن وہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے تہوار بھی مناتے تھے اور ان کے نام بھی اُن سے کافی مشابہ تھے۔ اس صورت حال کے ذمہ دار جہاں باشعور مسلمان ہیں کہ انہوں  نے دیہات کے بچھڑے ہوئے بھائیوں کو اپنی توجہ سے محروم رکھا ہے، وہیں یہ اس طبقاتی تقسیم کا بھی اثر ہے، جو اس طبقہ سے متعلق عام مسلمانوں کے ذہن میں قائم ہوگئی ہے۔ اگر گرد و پیش کا جائزہ لیا جائے تو قریب قریب پورے ملک میں اس طبقہ کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کا یہی سلوک ہے۔ وہ انہیں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کا ایک گروہ سمجھتے ہیں۔ اگر، خدانخواستہ،  ایسے لوگوں کو ارتداد کا دامِ فریب اپنے قابو میں کر لے تو حیرت نہ ہونی چاہئے ۔ 
اگر مسلمانوں میں اونچی اور نیچی ذاتوں اور اسلامی برہمنوں اور اسلامی دلتوں کا تصور پیدا ہو گیا، جو سراسر اسلام کے مزاج کے خلاف ہے، تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ آہستہ آہستہ ان کے درمیان وہی دوریاں پیدا ہو جائینگی  جو آج برادرانِ وطن کی مختلف ذاتوں کے درمیان ہیں؛ اس لئے  چاہے وقتی طور پر اس سے کچھ فائدہ ہو جائے لیکن مستقبل میں اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔ اسلامی تعلیمات اس سلسلہ میں بالکل واضح ہیں کہ مسلمانوں میں نہ کوئی برہمن ہے نہ دلت، کسی خاندان سے تعلق نہ اس شخص کے بہتر ہونے کی دلیل ہے اور نہ کم ترہونے کا سبب۔ قرآن مجید نے واضح کردیا ہے کہ خاندان و قبائل تعارف اور پہچان کیلئے ہیں نہ کہ باہم تفاخر یا کسی گروہ کی تحقیر کیلئے،  عزت و شرافت اور علو ِمرتبت کا معیار انسان کا کردار ہے، جس کو ’’تقویٰ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 
 چنانچہ قرآن مجید میں رب العالمین فرماتے ہیں کہ ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘ (الحجرات:۱۳)
 رسول اللہ ﷺ نے اس حقیقت کو کتنے واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے تکبر اور آباء و اجداد پر فخر کو ختم کردیا ہے، اب ایک شخص یا تو نیکو کار مومن ہوگا، یا بدکار فاجر، سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔ ‘‘ (ابوداؤد، حدیث نمبر : ۵۱۱۶ ، نیز دیکھئے : ترمذی ، حدیث نمبر : ۳۹۶۵ )
 آپؐ  نے ارشاد فرمایا کہ خاندان کسی کو کم تر گرداننے کیلئے نہیں ہے اور تم سب آدم کی اولاد ہو۔ پھر آپؐ  نے فرمایا کہ فضیلت صرف دین اور عملِ صالح کی بنیاد پر ہے۔ (مجمع الزوائد:  ۸؍ ۸۴ ،  بحوالہ مسند احمد ۱)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تم سب کا رب بھی ایک ہے اور تم سب کے باپ بھی ایک ہیں؛ لہٰذا کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ (مجمع الزوائد ، عن ابی سعید : ۸؍۸۴ بحوالہ طبرانی ۲)
 ایک صاحب نے دوسرے کو ماں کی نسبت سے طعنہ دیا تو سرکارؐ دو عالم نے فرمایا: تمہارے اندر کفر کی بو باقی ہے۔  (مجمع الزوائد، عن ابی ہریرۃ: ۸؍۸۶ بحوالہ مسند بزار)
فقہاء نے جو نکاح میں کفاءت کی گنجائش لکھی ہے، اس کا منشا بھی ذات کی اونچ نیچ نہیں ہے  بلکہ خاندانی مناسبتیں ہیں؛ اسی لیے رسولؐ اللہ نے خود اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ ؓسے فرمایا،  حضرت بلال ؓ کا نکاح انصار کے ایک معزز سمجھے جانے والے قبیلہ میں کیا، بنو بیاضہ عرب کا ایک معزز قبیلہ سمجھا جاتا تھا، آپؐ نے پیشہ سے پچھنا لگانے والے صحابی ابو ہند ؓکا نکاح اس قبیلہ میں کیا۔ اس طرح کی کتنی ہی مثالیں عہد نبویؐ  میں موجود ہیں ۔ رسولؐ اللہ کی ہدایت اس سلسلہ میں بہت ہی واضح ہے، آپ ؐ نے فرمایا:  نکاح چار وجوہ کے تحت کیا جاتا ہے: مال، حسب، جمال اور دین، تو تم دیندار عورت کا انتخاب کر کے کامیابی حاصل کرو۔ (صحیح البخاری، کتاب النکاح،  باب الاکفاء فی الدین،  حدیث نمبر : ۵۰۹۰) ایک اور روایت میں ہے کہ جب کوئی ایسا شخص تمہارے یہاں نکاح کا پیغام دے، جس کی دینی اوراخلاقی حالت سے تم مطمئن ہو تو نکاح کردو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو یہ زمین میں بڑے فتنہ وفساد کا باعث بن جائے گا؛ (ترمذی عن ابی ہریرۃؓ ،  حدیث نمبر : ۱۰۸۴ ) اسی لئے ائمہ اربعہ میں سے ایک ممتاز فقیہ امام مالکؒ کے نزدیک تو صرف دین میں کفاءت کا اعتبار ہے اور یہی ایک قول امام شافعیؒ کا ہے، (دیکھئے: المغنی : ۷؍۱۶ ) اسی طرح امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بھی صرف دین میں کفاءت کو رشتہ کے انتخاب کی بنیاد بنانا  افضل ہے۔ ( بدائع الصنائع : ۲؍۱۱۹ ، قدیم ایڈیشن )
سرورؐ کائنات نے یہ بات ضرور فرمائی کہ مسلمانوں کے ائمہ یعنی فرماں روا قریش میں سے ہوں لیکن یہ کوئی مستقل شرعی حکم نہیں تھا؛ بلکہ عرب کے اس وقت کے حالات کے پس منظر میں بطور حسنِ تدبیر تھا کہ عرب قریش کے علاوہ کسی اور کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے کو تیار نہیں ہونگے؛  اسی لئے حضرت عمر ؓنے ایک آزاد شدہ غلام کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو میں ان کو اپنا جانشین بناتا۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ حضورؐ  کے عہد میں اور حضرت اسامہ بن زید ؓ عہد صدیقی میں ایسی فوج پر امیر بنائے گئے، جس میں اکابر صحابہ ؓ موجود تھے۔ حالانکہ حضرت زید ؓ آزاد کردہ غلام تھے اور عرب ایسے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ نماز کی امامت کیلئے بھی آپ ؐ  نے علم و عمل کو بنیاد بنایا ہے ۔
 غرض کہ اسلام میں خاندانی بنیاد پر اونچی اور نیچی ذات ہونے کا کوئی تصور نہیں؛بلکہ اسلام نے اس تصور کو مٹایا ہے؛ اس لئے دلت مسلمان کے بجائے معاشی اور تعلیمی طور پر پسماندہ مسلمانوں کی اصطلاح اختیار کی جاسکتی ہے کہ آمدنی کی ایک مقرر حد سے جو لوگ نیچے ہیں، ان کیلئے خصوصی مراعات رکھی جائیں، اسی طرح جن خاندانوں میں گریجویٹ کی سطح تک تعلیم یافتہ لوگ نہیں ہیں ، ان کو تعلیمی اعتبار سے پسماندہ سمجھا جائے اور ان کے ساتھ خصوصی مراعات کا معاملہ کیا جائے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK