کیونکہ رفعنا لکذکرک کا وعدہ سچا ہے لہٰذا لکھنے والے نئے اسالیب اور نئی جہتیں تلاش کرتے ہی رہیں گے اور پڑھنے والے ہر دَور میں پڑھتے رہیں گے۔
EPAPER
Updated: June 28, 2024, 4:02 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
کیونکہ رفعنا لکذکرک کا وعدہ سچا ہے لہٰذا لکھنے والے نئے اسالیب اور نئی جہتیں تلاش کرتے ہی رہیں گے اور پڑھنے والے ہر دَور میں پڑھتے رہیں گے۔
گزشتہ پانچ سال سے ان صفحات پر سیرت طیبہ کے متعلق تفصیل سے لکھا گیا۔ اب اسوۂ حسنہ کے تعلق سے لکھنے کی کوشش کی جائے گی، اس یقین کے ساتھ کہ دنیا کے تمام انسانوں کیلئے بالعموم اور تمام مسلمانوں کیلئے بالخصوص اسوۂ حسنہ کی تقلید ہی دنیا وآخرت میں فوز وفلاح کی ضامن ہے۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہمارے لئے لائق اتباع ہے، اور آپؐ کی سیرت طیبہ ہی ہمارے لئے کامل نمونہ ہے، اس عقیدے کی تعلیم ہمیں قرآن کریم نے دی ہے، فرمایا: ’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔ ‘‘ (الاحزاب:۲۱)
لفظ ’’اسوۂ حسنہ‘‘ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے، یہ نہیں کہا گیا کہ آپؐ کی ذات گرامی دعوتی معاملات میں یا انتظامی امور میں تمہارے لئے نمونہ ہے، نہ یہ کہا گیا کہ آپؐ کی گھریلو زندگی تمہارے لئے قابل تقلید ہے، نہ یہ کہا گیا کہ عبادت میں تم ان کو اپنے لئے نمونہ بناؤ، بلکہ اس لفظ کو کسی قید کے بغیر عام رکھا گیا تاکہ یہ بتلایا جاسکے کہ نبی کی ذات مکمل طور پر تمہارے لئے قابل تقلید ہے، عبادات میں بھی، معاملات میں بھی، معاشرت میں بھی، عوامی امور میں بھی اور گھریلو زندگی میں بھی۔
قرآن کریم کی یہ آیت ایک خاص پس منظر میں نازل ہوئی۔ غزوۂ خندق کا موقع تھا، عرب کے مشرکین اپنی بھرپور افرادی قوت اور ہتھیاروں کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے پہنچ گئے تھے، مسلمانوں کے پاس افراد بھی کم تھے، ہتھیاروں کی بھی شدید قلت تھی، غذائی اشیاء بھی ناکافی تھیں، ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمت نہیں ہاری بلکہ دشمن کا پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔ سب سے پہلے مدینے کے اس حصے میں وسیع وعریض خندق کھودی گئی جدھر سے دشمن حملہ آور ہوسکتا تھا، پھر مقابلے کیلئے مدینے سے باہر خندق کے قریب دشمن کے مقابل آکر بیٹھ گئے، بہ ظاہر حالات مسلمانوں کے حق میں نہیں تھے، مدینہ منورہ کے یہودیوں نے بھی عین وقت پر دوستی کا معاہدہ توڑ کر مسلمانوں کو تنہا میدان میں چھوڑ دیا تھا، مگر آپ ؐ ان سخت حالات میں بھی ثابت قدم رہے، خندق کی کھدائی میں پوری طرح حصہ لیا، چٹانیں توڑیں، مٹی اٹھائی، کھانے کو کچھ میسر نہ آیا تو پیٹ پر پتھر باندھے، کچھ میسر آیا تو تمام صحابہؓ کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا، چاہے وہ ایک تھیلا کھجوروں کا ہو، یا کسی صحابی نے بکری کا بچہ ذبح کرکے آپؐ کو کھانے کی دعوت دی ہو۔ مدینے کا موسم انتہائی سرد تھا، شدید برفیلی ہوائیں چل رہی تھیں، صحابۂ کرامؓ کی طرح آپ خود بھی انہی طوفانی ہواؤں میں میدان جنگ میں ڈٹے رہے۔ دشمن آیا تو اس کی فوج کو دیکھ کر گھبرائے نہیں بلکہ عزم وہمت کا پیکر بنے رہے، منافقین حیلوں بہانوں سے میدان چھوڑ کر بھاگتے رہے تب بھی آپؐ نے کسی پریشانی کا اظہار نہیں فرمایا۔ بنو قریظہ کی غداری اور بدعہدی بھی آپ ؐکے پائے استقامت کو جنبش نہ دے سکی۔ ان حالات میں یہ آیت نازل ہوئی اور صحابہ سے فرمایا گیا کہ تم نے اپنے رسول کی شجاعت، بہادری، استقامت اور ایثار دیکھا، وہ ہر طرح کے حالات میں تمہارے ساتھ کھڑے نظر آئے، اے لوگو! یہ نبی کا اسوہ ہے، اس کی تقلید کرو، نبی کو تم نے جیسا پایا ہے ویسا بننے کی کوشش کرو۔
اس آیت کے متعلق علامہ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ یہ آیت رسولؐ اللہ کے اقوال، افعال اور احوال میں ان کی اتباع کرنے کے سلسلے میں بڑی اصل ہے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر آپؐ کے صبر، برداشت، مجاہدے اور کامیابی کے انتظار میں آپ کے طرز عمل کو اپنے لئے زندگی کا نمونہ بناؤ اور اس کی پیروی کرو (تفسیر ابن کثیر:۶/۳۹۱) ۔
علامہ قرطبیؒـ لکھتے ہیں : اسوہ نمونہ کو کہتے ہیں، اس کے معنی ہیں کہ تمام اقوال اور تمام احوال میں آپؐ کی اقتداء کی جائے۔ (تفسیر قرطبی: ۱۴/۱۵۵)۔ آیت کریمہ کے اندر اس پہلو سے بھی غوروفکر ہونا چاہئے کہ یہ نہیں فرمایا کہ رسولؐ اللہ تمہارے لئے اسوہ ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں تمہارے لئے اسوہ رکھ دیا گیا ہے، زندگی کے ہر شعبے میں آپؐ کا عمل ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے اور ہمیں اسی کی اتباع کرنی چاہئے۔
آپؐ کی حیات طیبہ خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، خانگی ہو یا ملّی، معاشرتی ہو یا دعوتی ہر پہلو سے اور ہر اعتبار سے ہمارے لئے شمع ہدایت ہے۔ جس طرح آپ ؐ کی رسالت عام ہے، اسی طرح آپؐ کا اسوہ بھی عام ہے، جو کام جس طرح آپؐ نے کیا ہے ہمیں بھی وہ کام اسی طرح کرنا چاہئے۔ اگرو ہ کام آپؐ سے کرنا یا نہ کرنا بدرجۂ وجوب ثابت ہوا ہے تو اسے واجب سمجھنا چاہئے اور اگر اس کا کرنا یا نہ کرنا بدرجۂ استحباب ہے تو اسے مستحب سمجھ کر انجام دینا چاہیے۔
جس طرح لفظ ’’اسوہ‘‘ میں عموم ہے، اور یہ آپ ؐ کی حیات طیبہ کے ہر گوشے تک وسیع ہے اسی طرح ’’سیرت‘‘ کا لفظ بھی بڑی وسعت رکھتا ہے، اس میں بھی بڑی جامعیت ہے۔ سیرت کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کی حیات طیبہ کو تاریخی پس منظر میں یا جغرافیائی حالات کے تناظر میں دیکھا اور پڑھا جائے کہ آپؐ کب پیدا ہوئے، آپؐ نے کہاں اور کن حالات میں پرورش پائی، آپؐ کا خاندان کیسا تھا، کس کس نے آپؐ کی پرورش میں حصہ لیا، آپؐ کی نوجوانی کے ایام کس طرح بسر ہوئے، آپؐ پر وحی کب نازل ہوئی، آپؐ کس عمر میں منصب رسالت پر فائز کئے گئے، نبوت کے بعد آپؐ نے دعوت کا آغاز کس طور پر اور کہاں سے کیا، ابتدا میں کن کن لوگوں نے آپؐ کی دعوت پر لبیک کہا، مکّی زندگی میں آپ کو کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، آپ کو اپنے وطن عزیز سے ہجرت کیوں کرنی پڑی، مدینے میں آپ نے کس طرح زندگی بسر کی، دین کس طرح پھیلا، آپ دشمنوں سے کس طرح نمٹے یا آپ نے کس طرح پورے جزیرۃ العرب پر اسلامی اقتدار کا پرچم لہرایا۔ بلاشبہ یہ تمام واقعات سیرت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کا موضوع ہیں، مگر سیرت صرف یہی نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ آپؐ نے اپنی تریسٹھ سالہ زندگی کیسے بسر کی، اپنے رب کے ساتھ آپؐ کے تعلق کی نوعیت کیا تھی، غریبوں، ناداروں، یتیموں، غلاموں اور نوکروں کے ساتھ آپ کس طرح کا سلوک کرتے تھے، اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپ کس طرح رہتے تھے، آپ کی گھریلو زندگی کیسی تھی، معیشت کے حصول کیلئے آپ نے کیا کیا، تجارت کے باب میں آپ کیسے تھے، آپ کا اخلاق کیسا تھا، وہ اوصاف جو انسان کو انسان بناتے ہیں ان اوصاف میں آپ کیسے تھے، یہ سب امور بھی سیرت کے دائرے میں آتے ہیں ۔ ایک مسلمان کو سیرت کے اس وسیع مفہوم کے ساتھ آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ’’اسوہ‘‘ کے وسیع مفہوم کے ساتھ آپ کی حیات طیبہ کے ہر ہر پہلو کو اپنا نقش قدم بنانا چاہیے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ ہم اسے اپنے لئے قابل تقلید نمونہ بنائیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک انسان ِکامل کی سیرت ہے، ایک ایسی ہستی کی سیرت ہے جو ہر اعتبار سے جامع اور مکمل ہے، خِلقی طور پر بھی اور خُلقی اعتبار سے بھی کوئی اس کی ہمسری کا دعوی نہیں کرسکتا، پھر اس سیرت کے تمام واقعات محض سنے سنائے نہیں ہیں، بلکہ یہ ٹھوس اور مضبوط ذرائع سے ہم تک پہنچے ہیں، ان میں پہلا ذریعہ قرآن کریم ہے جس کی صداقت اور حقانیت میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، قرآن کریم کی سیکڑوں آیتیں نبی کی سیرت پر روشنی ڈالتی ہیں ۔
قرآن کریم کے بعد سیرت کے تمام چھوٹے بڑے واقعات ہمیں صحابۂ کرامؓ کے ذریعے معلوم ہوئے، یہ وہ مقدس جماعت ہے جس نے تئیس برس تک اپنے آپ کو نبی کی ذات سے وابستہ رکھا، یہ لوگ آپ کی ہر بات دل کے کانوں سے سنتے، آپ کا ہر عمل دل کی آنکھوں سے دیکھتے، آپ کا ہر قول اور ہر فعل یاد رکھتے، جو ساتھی صحابہ وہاں موجود نہ ہوتے ان کو بتلاتے، آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد صحابۂ کرامؓ کا ایک بڑا کام یہی تھا کہ وہ رسولؐ اللہ کے اقوال اور احوال سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہیں، ہزاروں صحابہؓ، تابعین اور تبع تابعین زندگی بھر اس ورثے کی حفاظت کرتے رہے اور اس سرمائے کو دوسروں تک پہنچاتے رہے۔ آج ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کسی نبی کی سیرت نہ اتنے معتبر اور مضبوط ذرائع سے اس کے ماننے والوں تک پہنچی ہے اور نہ اس کی سیرت کے تمام واقعات محفوظ ہیں ۔
یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آج ان کے ماننے والے آپ کی زندگی کے ایک ایک واقعے سے واقف ہیں، آپ کی ولادت، بچپن، جوانی، شادی، اولاد، نبوت، رسالت، ہجرت، سیاست، حکومت، جنگ اور امن سے تعلق رکھنے والے تمام حقائق ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہیں، یہی نہیں بلکہ آپ کے سراپا، شکل و صورت، عادت، مزاج، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے اور کھانے پینے سے متعلق بھی کوئی بات ایسی نہیں ہے جو مخفی رہ گئی ہو، بیان کرنے والوں نے تو یہاں تک بیان کردیا ہے کہ آپ ؐ کے سر اور داڑھی کے بالوں میں کتنے بال سفید تھے۔ نجی زندگی عموماً پردۂ خفا میں رہتی ہے، مگر قربان جائیے نبی کریم کی ذات گرامی پر کہ آپ کی نجی زندگی بھی کوئی سرّ نہاں نہیں تھی، ازواج مطہراتؓ کے ذریعے گھریلو حیات طیبہ کے تمام پہلو امت تک پہنچے ہیں، اس طرح ایک مکمل انسان کی مکمل سیرت ساڑھے چودہ سو سال سے ہمارے پاس ہے، اس معاملے میں کوئی بھی آسمانی یا غیر آسمانی مذہب ہم سے برابری کا دعوی نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے کہ مغرب کے مشہور مصنف مائکل ہارٹ نے جب دنیا کی سو عظیم شخصیتوں پر کتاب لکھی تو عیسائی ہونے کے باوجود اس نے سب سے پہلے مسلمانوں کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات لکھے، کیونکہ وہ یہ جانتا تھا کہ زندگی کے ہر شعبے میں جو شخصیت اپنے تمام کمالات، خصوصیات اور امتیازات کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے وہ صرف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے۔
سیرت طیبہ کے مطالعے کی معنویت ہر دور میں مسلّم رہی ہے بلکہ آپؐ کی حیات طیبہ سے واقف ہونا آپ پر ایمان لانے والوں کیلئے ہر دَور میں اہمیت کا حامل رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیؐ کریم کے زمانے سے لے کر آج تک اس موضوع پر نہ لکھنے والوں کی کمی رہی نہ بولنے والوں کی اور نہ پڑھنے اور سننے والوں کی، کوئی صدی ایسی نہیں گزری جس میں لکھنے والوں نے ہزاروں کتابیں نہ لکھی ہوں، حالاں کہ ہر لکھنے والا یہ بات جانتا ہے کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے اس سے پہلے بھی بے شمار لوگ وہ سب کچھ لکھ چکے ہیں، ایسا کوئی دور نہیں گزرا کہ ہزاروں خطیبوں نے صرف نبی کی سیرت پر ہی کلام نہ کیا ہو، حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہ نیا نہیں ہے، ہم سے پہلے بھی ہزاروں خطیب یہی باتیں سنا چکے ہیں، ان چودہ صدیوں میں سیکڑوں زبانوں میں لاکھوں کتابیں لکھی گئیں، شائع ہوئیں اور پڑھی گئیں، اسی طرح لاکھوں مقرروں نے کروڑوں سامعین تک نبی کی سیرت پہنچانے کا خوشگوار فریضہ انجام دیا، قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، کیونکہ یہ موضوع ہے ہی اتنا دلچسپ، اتنا خوبصورت، دلوں کو متأثر کرنے والا، ایمان کی حرارت بڑھانے والا، ماحول کو روشن اور پاکیزہ کرنے والا۔
(جاری)