• Fri, 31 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

’مکالمہ‘ مسائل کے حل کیلئے ایک بنیادی ذریعہ ہے

Updated: January 31, 2025, 5:05 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

یہی وہ ذریعہ تھا ہمارے اسلاف نے اختیار کرکے امن کو عام کیا اور آج بھی مسلمان اس طریقے کو اپنا کر امن کے قیام میں اپنا کردار نبھا سکتے ہیں۔

The rational and logical justification for dialogue is that it creates social harmony, which is essential for the stability of any multi-religious country. Photo: INN
مکالمے کا عقلی اور منطقی جواز یہ ہے کہ اس سے سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے، جو کسی بھی کثیر المذاہب ملک کے استحکام کے لئے ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این

جب دو فرقوں، جماعتوں یا مذاہب کے درمیان نااتفاقی اور غلط فہمی پیدا ہو جائے تو دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں جانب کے سنجیدہ اور صاحبِ بصیرت افراد آگے آئیں، معاملے کی تہہ تک پہنچیں اور حکمت و تدبر کے ساتھ اختلافات کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ جذباتی بیانات اور بے بنیاد قیاس آرائیوں کے بجائے حقیقت پسندی، انصاف اور حسنِ گفتگو کو اپنایا جائے، تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور باہمی احترام و رواداری کی فضا قائم ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اہلِ دانش نے آگے بڑھ کر مکالمے، افہام و تفہیم اور اعتدال پسندی کا راستہ اپنایا، تفرقے ختم ہوئے، دل قریب آئے اور معاشرتی استحکام ممکن ہوا۔ یہی طرزِ عمل ہر دور میں امن، اتحاد اور ہم آہنگی کی بنیاد بنتا آیا ہے اور آئندہ بھی بنے گا۔ 
یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سےاسلام امن، رواداری، اور حکمت کے ساتھ لوگوں سے بات چیت کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں مکالمہ (Dialogue) اور گفتگو (Communication) کو مسائل کے حل، دعوتِ دین اور سماجی ہم آہنگی کے لئے ایک بنیادی ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں ہندوستان جیسے کثیر المذاہب اور متنوع سماج میں، مسلمانوں کو برادرانِ وطن سے مکالمہ کے دروازے کھولنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور ایک پرامن معاشرتی نظام قائم ہو۔ 
آج یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ہمارے برادرانِ وطن اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنی خود ساختہ سوچ اور محدود معلومات کی بنیاد پر رائے قائم کر رہے ہیں، جو اکثر غلط فہمیوں اور یکطرفہ بیانیے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی عقائد، تعلیمات اور طرزِ زندگی کے بارے میں مکمل اور درست علم نہیں ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم حکمت، صبر اور مثبت مکالمے کے ذریعے ان تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچائیں، ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں اور باہمی رواداری و ہم آہنگی کو فروغ دیں، تاکہ سچائی سامنے آئے اور ایک خوشگوار سماجی ماحول تشکیل پا سکے۔ 
مکالمے کی اسلامی بنیادوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نرمی، حکمت اور بہترین انداز میں گفتگو کرنے کی تلقین کی ہے: ’’آپ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ بلائیے اور ان سے بہتر طریقےپر بحث کیجئے، یقیناً آپ کے پروردگار اس شخص سے بھی واقف ہیں، جو اپنے راستے سے بھٹک گیا اور راہ راست پر لگنے والوں کو بھی خوب جانتے ہیں۔ ‘‘ (النحل:۱۲۵) یہ آیت مکالمے کی بنیاد فراہم کرتی ہے کہ مسلمانوں کو حکمت، نرم مزاجی اور بہتر انداز میں برادرانِ وطن کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے۔ 
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ بردارن وطن میں سے کچھ مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں، اس کے باوجود مسلمان بات چیت کا راستہ کیوں اپنائیں ؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات کا حسن یہی ہے کہ وہ اختلافات کے باوجود حسنِ سلوک، رواداری اور انصاف کا درس دیتی ہیں۔ قرآن و حدیث میں واضح ہدایات موجود ہیں کہ کسی کے عقیدے یا نظریے سے اختلاف رکھنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے یا ناانصافی برتی جائے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت اس بات کی عملی مثال ہے کہ آپؐ نے ہمیشہ اپنے مخالفین سے بھی بھلائی، نرمی اور عدل و انصاف کا برتاؤ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمنوں کے دل بھی اعلیٰ اخلاق اور حسنِ سلوک کی بدولت پگھل گئے۔ آج بھی اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور اختلافات کو محبت، حکمت اور دانشمندی سے سنبھالیں تو نہ صرف غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں بلکہ سماج میں امن و آشتی کی فضا بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ اسی امر کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ارشاد ہے:’’پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔ ‘‘ (آل عمران:۱۵۹) یہ آیت مسلمانوں کے لئے ایک رہنمائی ہے کہ وہ اپنے اخلاق اور گفتگو میں نرمی پیدا کریں تاکہ لوگ قریب ہوں نہ کہ دور۔ 
نبی اکرم ﷺ کی عملی زندگی سے بھی ہمیں مدمقابل سے مکالمے کا درس ملتا ہے۔ آپؐ نے عرب کے مختلف قبیلوں، یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکین سے مکالمہ کیا اور ان کے سامنے اسلام کے اصول پیش کئے۔ اس کی ایک بہترین مثال صلح حدیبیہ ہے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی عملاً مکالمے کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ چنانچہ جب صحابہ کرام حبشہ ہجرت کر گئے تو حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے نجاشی کے دربار میں نہایت دانشمندی کے ساتھ اسلام کا تعارف پیش کیا، جس سے نجاشی اسلام کی حقانیت کو سمجھنے پر آمادہ ہوا۔ یہ تمام واقعات مسلمانوں کے لئے نمونہ ہیں کہ برادرانِ وطن کے ساتھ مکالمہ کس طرح کیا جائے۔ 
 مکالمے کا عقلی اور منطقی جواز یہ ہے کہ اس سے سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے، جو کسی بھی کثیر المذاہب ملک کے استحکام کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح مکالمے سے مشترکہ انسانی اقدار جیسے انصاف، رواداری اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمان مقامی سطح پر مکالمے کے مواقع پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے مساجد، مدارس اور اسلامی مراکز میں مکالمے کے سیشن منعقد کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی تعلیمات کو آسان اور مثبت انداز میں سوشل میڈیا، اخبارات اور یو ٹیوب چینلز پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ بطور خاص اس عمل کے لئے ہندی، انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں کو مخاطب کے حساب سے منتخب کیا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں یک اہم نکتہ یہ ہے کہ بین المذاہب مکالمے کے مواقع تلاش کرنے کے لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ سماجی فلاحی کاموں میں شرکت کریں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مکالمہ اور ڈائیلاگ ہی وہ راستہ ہے جسے مسلمانوں کے اسلاف نے اختیار کرکے امن کو عام کیا اور آج بھی مسلمان اس طریقے کو اپنا کر امن کے قیام میں اپنا کردار نبھا سکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK