قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے کہ کل پر مت ٹالو، جو داعیہ اس وقت پیدا ہوا ہے اس پر اسی وقت عمل کرو، کیا معلوم کل تک یہ داعیہ رہے یا نہ رہے۔ اول تو یہ بھی پتہ نہیں کہ تم خود زندہ رہو یا نہ رہو اور اگر تم خود زندہ رہو تو یہ پتہ نہیں کہ یہ داعیہ باقی رہے گا یا نہیں ؟
اس کے معنی یہ ہیں کہ جب انسان اپنی حقیقت پر غور کرے گا اور اللہ جل جلالہ کی عظمت ِ شان، اس کی قدرت ِ کاملہ اور حکمت ِ بالغہ پر غور کرے گا اور اس کی شان ربوبیت پر غور کرے تو اس غور و فکر کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کی طرف دل مائل ہوگا اور خود بخود دل میں داعیہ پیدا ہوگا کہ جس مالک نے یہ ساری کائنات بنائی ہے اور جس نے یہ نعمتیں مجھ پر نازل فرمائی ہیں اور جس نے مجھے رحمتوں کی بارش میں رکھا ہے، اس مالک کا بھی مجھ پر کوئی حق ہوگا! جب یہ داعیہ اور میلان پیدا ہو اس وقت کیا کرنا چاہئے؟ اس سوال کا بالتفصیل جواب دینے کیلئے علامہ نوویؒ نے یہ باب قائم فرمایا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا داعیہ پیدا ہو اور نیک کام کرنے کا محرک سامنے آئے تو اس وقت ایک مومن کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ جلد از جلد اس نیک کام کی طرف بڑھے اور اُسے کر گزرے، اس میں دیر نہ لگائے۔ یہی معنی ہیں ’’مبادرۃ‘‘ کے یعنی کسی کام کو جلدی سے کرلینا، ٹال مٹول نہ کرنا اور آئندہ کل پر نہ ٹالنا۔
نیک کاموں میں دوڑ لگاؤ: علامہ نوویؒ اس ضمن میں کلام پاک کی یہ آیت ِ کریمہ پیش کرتے ہیں : ’’اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں جو پرہیزگاروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔ ‘‘ (سورہ آل عمران:۱۳۳)
’’مسارعت‘‘ کے معنی ہیں جلد سے جلد کوئی کام کرنا اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا۔ ایک دوسری آیت میں فرمایا کہ : ’’پس تم نیکیوں کی طرف پیش قدمی کیا کرو۔ ‘‘ (سورہ بقرہ: ۱۴۸)
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ جب کسی نیک کام کا ارادہ اور داعیہ دل میں پیدا ہو تو اس کو ٹالو نہیں۔ اس میں تاخیر نہ کرو۔ جتنی جلد ہوسکے اسے کر گزرو۔
شیطانی داؤ: اس لئے کہ شیطان کے داؤ اور اس کے حربے ہر ایک کے ساتھ الگ الگ ہوتے ہیں۔ غیر مسلم کیلئے اور ہیں مومن کیلئے اور ہیں۔ مومن کے دل میں شیطان یہ بات براہِ راست نہیں ڈالے گا کہ یہ نیکی کا کام مت کرو، یہ برا کام ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ صاحب ِ ایمان ہونے کی وجہ سے نیکی کے کام کو برا نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن مومن کے ساتھ اس کا یہ حربہ ہوتا ہے کہ اس سے یہ کہتا ہے یہ نماز پڑھنا، یہ فلاں نیک کام کرنا اچھا ہے، اس کو کرنا چاہئے، لیکن ان شاء اللہ کل کرینگے۔ اب جب کل آئے گا تو پھر یہ کہے گا واقعی اچھا کام ہے، نیکی کا کام ہے، مگر آج نہیں کل کرلینا۔ اس طرح وہ کل کبھی نہیں آئے گا۔
عمر عزیز سے فائدہ اٹھالو: اسی طرح زندگی کے اوقات گزرتے جارہے ہیں عمر عزیز گزرتی جارہی ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ کتنی عمر باقی ہے۔ قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے کہ کل پر مت ٹالو، جو داعیہ اس وقت پیدا ہوا ہے اس پر اسی وقت عمل کرو، کیا معلوم کل تک یہ داعیہ رہے یا نہ رہے۔ اول تو یہ بھی پتہ نہیں کہ تم خود زندہ رہو یا نہ رہو اور اگر تم خود زندہ رہو تو یہ پتہ نہیں کہ یہ داعیہ باقی رہے گا یا نہیں ؟ اور اگر داعیہ باقی رہا تو کیا معلوم کہ اس وقت حالات موافق ہوں یا نہ ہوں۔ بس! اس وقت جو داعیہ پیدا ہوا ہے اس پر عمل کرکے فائدہ حاصل کرلو، کوئی نہیں جانتا کہ اُسے اس کا دوبارہ موقع ملے گا یا نہیں۔
نیکی کا داعیہ اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے: یہ داعیہ اللہ جل شانہ ٗکی طرف سے مہمان ہوتا ہے۔ اس مہمان کی خاطرمدارات کرلو۔ اس کی خاطر مدارات یہ ہے کہ اس پر عمل کرلو۔
اس کی خاطر مدارات یہ ہے کہ اس پر عمل کرلو۔ اگر نہیں پڑھیں گے تو کوئی گناہ تو ہوگا نہیں چلو چھوڑو۔ یہ تم نے اس مہمان کی ناقدری کردی جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری اصلاح کی خاطر بھیجا تھا۔ اگر تم نے اسی وقت فوراً عمل نہ کیا تو پیچھے رہ جاؤ گے، پھر معلوم نہیں کہ دوبارہ یہ مہمان آئے یا نہ آئے، ممکن ہے وہ آنا بند کردے کیونکہ وہ سو چے گا کہ یہ شخص میری بات تو مانتا نہیں اور میری ناقدری کرتا ہے،میں اب اسکے پاس نہیں جاتا۔ اس طرح دل میں نیکی کا داعیہ پیدا ہونا ہی بند ہوجائے گا۔ بہرحال، ویسے تو ہر کام میں جلدی اور عجلت کرنا برا ہے لیکن جب دل میں کسی نیک کام کرنے کا داعیہ پیدا ہو تو اس پر جلدی عمل کرلینا ہی اچھا ہے۔
کام کرنے کا بہترین گُر
ہمارے والد ماجد مولانا مفتی محمد شفیع صاحب فرمایا کرتے تھے کہ:
’’جو کام فرصت کے انتظار میں ٹال دیا وہ ٹل گیا، وہ پھر نہیں ہوگا۔ اس واسطے کہ تم نے اس کو ٹال دیا۔ کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو کاموں کے درمیان تیسرے کام کو گھسا دو، وہ تیسرا کام بھی ہو جائے گا، اور اگر یہ سوچا کہ ان دو کاموں سے فارغ ہونے کے بعد تیسرا کام کرینگے تو پھر وہ کام نہیں ہوگا۔ یہ منصوبے اور پلان بنانا کہ جب یہ کام ہوجائے گا تو پھر یہ کام کریں گے یہ سب ٹالنے والی باتیں ہیں۔ شیطان عموماً اسی طرح دھوکہ میں رکھتا ہے۔ ‘‘
فرصت کے انتظار میں مت رہو
اگر اپنی اصلاح کی فکر کا دل میں خیال آیا کہ زندگی ویسے ہی گزری جارہی ہے، نفس کی اصلاح ہونی چاہئے اور اپنے اخلاق اور اعمال کی اصلاح ہونی چاہئے لیکن ساتھ ہی یہ سوچا کہ جب فلاں کام سے فارغ ہوجائیں گے پھر اصلاح شروع کریں گے یہ فرصت کے انتظار میں عمر ِ عزیز کے جو لمحات گزر رہے ہیں وہ فرصت کبھی آنے والی نہیں ہے۔
نیک کاموں میں ریس لگانا برا نہیں
اس لئے ’’مبادرت الی الخیرات‘‘ یعنی نیک کاموں میں جلدی کرنا اور آگے بڑھنا قرآن و سنت کا تقاضا ہے اور علامہ نوویؒ نے اسی کے لئے یہ باب قائم فرمایا ہے۔ انہوں نے یہاں دو لفظ استعمال کئے ہیں : ایک ’’مبادرت‘‘ یعنی جلدی کرنا، دوسرا ’’مسابقت‘‘ یعنی مقابلہ کرنا ریس لگانا ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا۔ یہ مقابلہ کرنا اور ریس لگانا نیکی کے معاملے میں محبوب ہے، لیکن دوسری چیزوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا برا ہے جیسے مال کے حصول میں عزت کے حصول میں شہرت کے معاملے میں جاہ طلبی وغیرہ میں۔ ان سب میں یہ بات بری ہے کہ انسان دوسرے سے آگے بڑھنے کی حرص میں لگ جائے لیکن نیکیوں کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ ایک محمود اور قابل تعریف عمل ہے۔ قرآن کریم خود کہہ رہا ہے کہ ’’فاستبقوا الخیرات‘‘ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔