• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایمان باللہ یعنی اللہ کی تین صفات ِ کمال پر ایمان لانا!

Updated: August 31, 2024, 5:38 PM IST | Allama Hamiduddin Farahi | Mumbai

رب تعالیٰ کی دیگر صفات: صفات جلال و صفات جمال۔ ان میں شامل ہیں: بادشاہی، بے نیازی، عزت۔ اسی طرح:حلم، تدبیر، ہدایت دینا، معاف کرنا، سخاوت، خلاقی اور دیگر۔ ان صفات کو پہچاننے سے شکر اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔وہ کامیاب ہے جو رب کو ان صفات کے ذریعہ پہچان لے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ایمان باللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی تین صفات کمال (رحمت، قدرت اور حکمت) پر ایمان لانا ہے۔ ان تینوں صفات کے دائرہ میں دوسری تمام (صفاتِ جلال وصفاتِ جمال) داخل ہیں۔ مثلاً : اللہ تعالیٰ کا قدیم ہونا، اس کا ہمیشہ باقی رہنا، اس کا زندہ جاوید ہونا، اس کا علم، سخاوت، خلاقی، بادشاہی، بے نیازی، عزت، حلم، تدبیر، اس کا ہدایت دینا، دعا سننا، خلق پر نظر عنایت کرنا، فضل کرنا، معاف کرنا، مظلوم کا انتقام لینا، حق و عدل کے مطابق فیصلہ کرنا اور اسکے علاوہ وہ تمام صفات ہیں جن کی طرف اسمائے حسنیٰ رہنمائی کرتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ان تین صفاتِ کمال (رحمت، قدرت اور حکمت) پر ایمان لے آتا ہے اس کو ایمان باللہ کے باقی ارکان کی ہدایت بھی حاصل ہوتی ہے جیسا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے:
’’اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے تو وہ اُس کے دل کو ہدایت فرما دیتا ہے۔ ‘‘ (التغابن:۱۱)
اس مضمون کو دیگر کئی آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ جو شخص رب کو ان کامل صفات کے ذریعے پہچان لیتا ہے تو اس کے اندر لازمی طور پر شکر اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کیوں کہ وہ اپنی ذات کو خدا کی نعمتوں میں گھرا ہوا پاتا ہے۔ اگر وہ خدا کا شکر ادا نہ کرے تو یہ اس کی اکڑ اور حق تلفی کی دلیل ہے اور اگر خدا کو سب سے بڑھ کر محبوب نہ رکھے تو ایسا شخص شکر کا حق اداکرتا ہے نہ کرسکتا ہے۔ 
 یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اس شخص کے اندر فطرتِ انسانی کے احساسات کا شعور کامل نہیں۔ فطرت انسانی جلال و جمال کو محبوب رکھتی ہے۔ اگر فطرت کا یہ پہلو معدوم ہو جائے تو انسان چوپایوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ انسان پر یہ اثر اس کی فطرت کے اخلاقی پہلو کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ باقی رہا اس کا علمی پہلو تو ہم مختصر طور پر اس کو بھی واضح کرتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: یوسی سی: نہ صرف مسلمانوں کو متاثرکرے گا بلکہ ہندوستان کی روایت اور تہذیبی قدروں کے بھی خلاف ہوگا

رب تعالیٰ کو اس کی صفات ِکمال کے ساتھ پہچاننے کی کوشش کرنا انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے۔ جس طرح حقائق کے ادراک کے نتیجہ میں طبیعت کے اندر تمام معارف ابھر آتے ہیں اسی طرح کائنات کی نشانیوں پر غور کرنے کے نتیجہ میں انسان رب کو پہچاننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہاں اس مسئلہ کو ثابت کرنے کا موقع نہیں، بلکہ مقصود صرف یہ واضح کرنا ہے کہ قرآن مجید کے نصوص کی رو سے دین کا نظام کیا ہے۔ اس بارے میں قرآن نے اس بات کی صراحت کر دی ہے کہ رب تعالیٰ پر ایمان انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے۔ 
باری تعالیٰ کی پہچان کے لئے صرف اس کی صفات قدرت وصنعت پر انحصار کیا جائے تو یہ شرف کی نفی تو کر دیتی اور مزید غور و فکر پر ابھارتی ہیں، لیکن آدمی جب تک صفات ربوبیت و رحمت کا ادراک نہیں کرتا وہ دین تک نہیں پہنچ پاتا۔ کیوں کہ یہ وہ صفات ہیں جو غایت کی حیثیت رکھتی ہیں اور صفاتِ حکمت و قدرت انہی کی خاطر ہیں۔ جب آدمی کا غور و فکر اس کو یہاں تک لے آتا ہے تو وہ ربوبیت کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اور یہ جان لیتا ہے کہ باری تعالیٰ کی ہستی ہی وہ ہستی ہے جو رحمان و رحیم ہے۔ اس وقت اس کو رب کی عرفت حاصل ہو جاتی ہے، وہ اس کا شکر ادا کرتا اور اس پر ایمان لے آتا ہے۔ اس حقیقت پر قرآن مجید سے کئی شواہد پیش کیے جاسکتے ہیں۔ 
رب تعالیٰ کی صفات پر ایمان اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ آخرت پر بھی ایمان لایا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل کے اندر خدا کے پیغام کے لئے پیاس موجود ہے، وہ اس کی ملاقات کا مشتاق ہے اور اس کے ذکر سے سکون پاتا ہے۔ تب وہ اس شخص کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور اس کے ہاں سے کوئی خبر لائے۔ یہ تمام کام اس جذبۂ محبت ہی کے مظاہر ہیں جو شکر سے پیدا ہوتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:کائنات، انسان اور آفات

ایمان کے ثمرات
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ پہلا کام رب تعالیٰ کی ان نشانیوں پر غور کرتا ہے جنہوں نے آفاق و انفس کو بھر رکھا ہے اور جو صفات جلال و جمال کے کامل ہونے کی دلیل ہیں۔ 
 دوسرا کام جو پہلے ہی کا نتیجہ ہے وہ خدا کے لئے شکر و محبت کے جذبات کا پیدا کرنا ہے۔ اس سے بندہ خدا کی رضا کا طالب ہوتا ہے، اس کے آگے عاجزی اور فروتنی اختیار کرتا ہے اور اس سے امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہی ایمان کے ثمرات ہیں۔ اس سے نفس کی آلودگی دور ہوتی ہے اور بندہ تزکیہ کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات بھی ہے کہ دل کی بعض مشغولیتیں شکر و محبت کا جذبہ پیدا ہونے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان کے سبب سے بندہ نادر صورتوں کے سوا کسی ایسے شخص کا محتاج ہوتا ہے جو اس کو خبردار کرے۔ انسان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد، قوم اور قبیلہ کے زیر اثر نشو و نما اور تربیت پاتا ہے۔ وہ ان سے جو کچھ سنتا ہے وہی بات اس پر غلبہ پالیتی ہے۔ اس فوری جذبہ کی خواہشات اور ذاتی مشغولیت کے زیر اثر وہ عام طور پر خیالات اور اخلاق میں انہی کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ بہت نادر ہوتے ہیں جو اللہ کی آیات میں غور و فکر کرنے پر از خود متنبہ ہوتے ہیں۔ یہ انبیاء اور حنیف لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے متنبہ ہونے کے بعد جن لوگوں کی آنکھیں کھلتی ہیں وہ، وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی فطرت مغلوب نہیں ہوئی ہوتی۔ وہ حق کی طرف بلانے والے کی پکار کا جواب دیتے ہیں جو کبھی تو فوراً ہوتا ہے اور کبھی اس میں دیر ہو جاتی ہے۔ اس کا انحصار آدمی کے غور کرنے کی استعداد اور اس کے حسن اخلاق پر ہوتا ہے۔ انسان کو فطرت میں جو بھی صلاحیتیں حاصل ہیں ان میں ہم اسی چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اسی کے باعث وہ فنون کا عالم اور ماہر بنتا ہے اور حسن اخلاق کے زیور سے آراستہ ہو جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آدمی میں استعداد نہ ہو تو وہ سیکھ ہی نہیں سکتا۔ گویا پہلی تعلیم سن کر حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بعد غور و فکر سے آتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK