• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آپؐ کے وصال کے بعد عرصہ تک مدینہ کے مکانوں سے آہ و زاری کی آواز آتی رہی!

Updated: June 14, 2024, 1:48 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت ِ نبی کریمؐ کی یہ خصوصی سیریز، جو ۲۰۱۹ء میں شروع کی گئی تھی، آج اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ اس میں ملاحظہ کیجئے کہ آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اہل مدینہ کا کیا حال رہا ۔ ساتھ ہی حجرۂ مبارک کے بارے میں بھی پڑھئے۔

Your mosque in Madinah is the place on earth that people from all corners of the world come to visit year round and every year. Photo: INN
مدینہ منورہ میں آپ کی مسجد روئے ارض پر وہ جگہ ہے جہاں پہنچنے کیلئے دُنیا کے گوشے گوشے سے لوگ سال بھر اور ہر سال آتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

آپؐ کی وفات کا صدمہ صحابہؓ پر بہت زیادہ تھا، حضرت انسؓ فرمایا کرتے تھے کہ ابھی ہم نے اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑی بھی نہیں تھی کہ ہمارے دلوں کی حالت بدل گئی، یعنی ہم اپنے دلوں میں ایک طرح کا تغیر محسوس کرنے لگے، یہ وہ کیفیت ہے جو آدمی محسوس کرسکتا ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا، آپؐ کی وفات کے بعد بڑے بڑے مصائب صحابہ کے سامنے معمولی ہوگئے، ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ آپؐ کی وفات سے بڑھ کر کوئی دوسری مصیبت اس کے اوپر آ ہی نہیں سکتی، ہر شخص جب تک وہ زندہ رہا آپ کے فراق میں روتا رہا، بہت سے لوگ مدینہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں آباد ہوگئے کہ آپؐ کے بغیر یہ شہر انہیں کاٹنے کو دوڑتا تھا، مدینے کی گلیاں سنسان اور ویران ہوگئیں، ایک عرصے تک یہ عالم رہا کہ مکانوں کے اندر سے لوگوں کے رونے اور آہ وزاری کرنے کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ ہم آپ بھی اندازہ کرسکتے ہیں کہ اُس وقت مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ آج بھی جب ہم ان واقعات کو پڑھتے ہیں تو خود ہم پر رقت طاری ہوجاتی ہے۔ یہاں، اُس وقت کے حالات، اہل مدینہ کی دل گرفتگی اور رنج و غم کی مزید تفصیل بیان کی جاسکتی ہے مگر چونکہ اس کیفیت کا اندازہ ہر خاص و عام کو ہے اور بہت سی کتابوں میں اس کا ذکر ہے، اس لئے مزید تفصیل میں نہ جاتے ہوئے اس مضمون میں کوشش کی جائے گی کہ آپؐ کے روضہ ٔ مبارک کی کچھ تاریخی تفصیل بیان کردی جائے۔ 
حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت ابوسفیانؓ بن الحارث بن عبد المطلب اور حضرت صفیۃؓ بن عبد المطلب نے شعر کے پیرائے میں اپنے رنج وغم کا اظہار کیا، یہ مرثیے لوگ تنہائیوں میں بھی پڑھتے اور محفلوں میں بھی سنتے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی: ۷/۲۶۴، تفسیر قرطبی: ۴/۲۱۹، ۲۲۰)۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کو چند ماہ پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے شہر ’’صنعاء‘‘ بھیجا تھا، جہاں وہ لوگوں کو دین سکھانے اور شریعت کے مطابق اُن کے مابین فیصلہ کرنے کی ذمہ داری انجام دے رہے تھے، اس رات وہ اپنے بستر پر سو رہے تھے کہ کسی نے پکارا ’’معاذ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور تم نیند کے مزے لے رہے ہو؟‘‘
وہ اس طرح ہڑبڑا کر اٹھے جیسے قیامت کا صور پھونک دیا گیا ہو۔ دوڑتے ہوئے صنعاء کی گلیوں میں آئے اوربہ آواز بلند کہنے لگے: ’’یمن والو! مجھے جانے دو۔ کیا المناک دن تھا جب میں اپنے آقا ؐکے قدموں کو چھوڑ کر یہاں آن بسا۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: آپ ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا تھا

لوگ پوچھتے رہے کہ کیا ہوا؟ مگر وہ کچھ کہے سنے بغیر اپنی سواری کو ایڑ لگا کر سر پٹ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ مدینہ سے تقریباً پچاس میل (۸۰؍ کلو میٹر) دور تھے کہ سامنے سے حضرت عمار بن یاسرؓ آتے دکھائی دئیے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حکم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر لے کر یمن جارہے تھے۔ حضرت معاذؓ کو پہچان کر حضرت عمار بن یاسرؓ نے انہیں روکا اور سانحے کی اطلاع دی۔ وہ بولے:
’’عمار! اب رہنمائی کس سے لیں گے اور فریاد کس کو سنایا کریں گے؟‘‘بہر کیف، آپ ؓ نے کسی طرح خود کو سنبھالا اور اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرے تک پہنچے۔ کانپتے ہاتھوں سے دستک دی، اپنا تعارف کرایا اور تعزیت کی۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’معاذ!اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری وقت دیکھ لیتے تو دنیا کی زندگی چاہے کتنی ہی طویل ہوتی، کبھی اچھی معلوم نہ ہوتی۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت معاذؓ اتنا روئے کہ آپؓ پرغشی طاری ہوگئی۔ (سیرت ابن حبان: ۲/۴۲۷، بحوالہ تاریخ امت مسلمہ : ۱/۴۰۸)
ام المؤمنین حضرت عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا کا وہ حجرۂ مطہرہ جس میں سید الکائنات، سرکار دو عالم، آقائے نامدار محمد رسول اللہﷺ آرام فرما ہیں، روضۂ مبارک کہلاتا ہے، یہ ان نو حجروں میں سے ایک ہے جن میں ازواج مطہراتؓ کی رہائش تھی، ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے حجرۂ مبارکہ کی لمبائی تقریباً ۱۶ فٹ اور چوڑائی ۱۲ فٹ ہے، جس وقت آپﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا آپ اس وقت اسی کمرے میں تشریف فرما تھے، علالت کے روز وشب اسی کمرے میں گزرے، یہیں وفات ہوئی، اور اسی کمرے میں تدفین بھی ہوئی۔ 
۸۸ ھ؁ تک یہ حجرۂ مبارکہ اپنی اصل حالت پر برقرار رہا، ولید بن عبد الملک کے دور حکومت میں، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اس حجرے کو گرا کر پتھروں سے اس کی تعمیر کرائی، اس کے بعد اس کمرے کے ارد گرد چاروں طرف ایک اور پختہ دیوار تعمیر کرائی جس کی اونچائی سات میٹر تھی، جالیوں کے پاس کھڑے ہوکر اندر کی طرف جو کچھ نظر آتا ہے وہ یہی بیرونی دیوار ہے، اس کے اوپر سبز رنگ کا ایک غلاف پڑا ہوا ہے، ان دونوں دیواروں میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ 
سرکار دو عالمﷺ کے وصال کے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال بعد مصر اور شام کے حکمراں سلطان نور الدین زنگیؒ نے ۵۶۲ھ؁ مطابق ۱۱۶۲ء؁ میں ایک افسوس ناک واقعے کے ظہور میں آنے سے پہلے اس حجرۂ مبارکہ کی بیرونی دیوار کے ارد گرد ایک خندق اتنی گہرائی تک کھدوادی تھی کہ زمین سے پانی نکل آیا تھا، اور اس میں سیسہ پگھلا کر ڈلوا دیا تھا تاکہ کوئی شخص سرنگ کھود کر قبر مبارک تک پہنچنے کی جسارت نہ کرسکے۔ 
اس واقعے کے تین صدیوں بعد ۱۴۷۷؁ء میں حضرت عائشہؓ کے حجرے کی چار دیواری اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی بنوائی ہوئی چار دیواری کو دوبارہ تعمیر کرانے کی ضرورت پیش آئی، ’’وفاء الوفاء‘‘ کے مصنف علامہ سمہودیؒ کو اس مبارک کام میں رضاکارانہ طور پر حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’پہلے بیرونی دیوار منہدم کی گئی، دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی ہیں، چناں چہ وہ بھی گرادی گئی، ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا، مجھے داخلے کی سعادت ملی، میں قبلے کی مخالف سمت سے اندر داخل ہوا اور ادب سے سلام پیش کیا، تینوں قبریں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں، صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا، قبروں پر عام سی مٹی پڑی ہوئی تھی، تعمیر نو کا کام سات ہفتوں میں مکمل ہوگیا، اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، اس دوران کوئی انسان یہ دونوں چہار دیواریاں عبور کرکے اندر داخل نہیں ہوا ہے۔ اس چہار دیواری کے اوپر ایک چھوٹا گنبد ہے، اس کے اوپر ایک بڑا گنبد ہے، اسی کو گنبد خضراء کہا جاتا ہے، سب سے پہلے حجرۂ مبارکہ پر سلطان سیف الدین نے ۱۲۷۹؁ء میں لکڑی کا ایک گنبد تعمیر کرایا تھا۔ اُس وقت اُس پر کوئی رنگ نہیں تھا، بعد کے حکمرانوں نے اس پر سفید اور نیلا رنگ کرانا شروع کردیا۔ 
 ۱۴۸۱ء؁ میں مسجد نبوی کے اندر آگ لگنے کا ایک بڑا حادثہ رونما ہوا، اس آگ میں لکڑی کا یہ گنبد بھی جل گیا، گنبد کی دوبارہ تعمیر کا کام مملوک سلطان قایتبائی نے شروع کیا، اس مرتبہ اس طرح کے حادثات سے بچاؤ کے لئے پہلے اینٹوں کا ڈھانچہ تیار کرایا گیا، اس کے بعد لکڑی کا گنبد، اس کی حفاظت کے لئے سیسہ استعمال کیا گیا۔ سولہویں صدی میں سلطان سلیمان اعظم نے گنبد کو سیسے کی چادروں سے مڑھواکر اس پر سبز رنگ کرادیا، اس وقت سے آج تک یہ اسی حالت میں ہے۔ (ماہ نامہ بینات جنوری ۲۰۰۸ء؁ جلد ۷، شمارہ ۱۲، مضمون جناب فیروز الدین احمد فریدی)
اہل سنت والجماعت کاعقیدہ یہ ہے اور اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ آپؐاور تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اپنی قبور مبارکہ میں زندہ ہیں، یہ تمام حضرات اپنی اپنی قبروں میں عبادات اور مشاہدۂ حق میں مشغول ہیں، حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کرام کی حیات کا عقیدہ قرآن اور حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے بلکہ ان کی حیات؛ شہداء اور دوسرے مؤمنین کی حیات کے مقابلے میں جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، چناں چہ بعض احکام شرعیہ میں وہ شہداء اور دوسرے مؤمنین سے بھی ممتاز ہیں، مثال کے طور پریہ کہ ان کے جسموں کو مٹی نہیں کھا سکتی۔ (فیض القدیر: ۶/۱۷۰) 
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جس طرح آپ کی دنیوی زندگی میں ہوسکتی تھی، اسی طرح آج بھی روضۂ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ روضۂ اقدس پر ہماری حاضری عام قبروں پر حاضری جیسی نہیں ہے بلکہ ہم حضور سرور کائنات کی قبر مبارک پر اس یقین کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں کہ آپ اپنی قبر میں با حیات موجود ہیں، آپ ہمارا درود وسلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میری قبر کے قریب سے مجھ پر درود پڑھتا ہے اسے میں خود سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود پڑھتا ہے وہ مجھ کو فرشتوں کے ذریعے پہنچا دیا جاتا ہے۔ (کنز العمال۵۰۲/۱)۔ ختم شد

ادارہ، رب العالمین کاشکر ادا کرتا ہے کہ اُس نے ہمیں اس خدمت کیلئے قبول فرمایا اور ہمیں اس سلسلے کو پانچ سال جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ہم قارئین کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جو اس کالم کا ہر ہفتہ بہت توجہ کے ساتھ مطالعہ فرماتے رہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK