گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون ’’سیرت النبیؐ میں یکسوئی، اُولوالعزمی اور ثابت قدمی جیسی قائدانہ خصوصیات کا عملی نمونہ موجود ہے‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ۔
EPAPER
Updated: March 28, 2025, 11:35 AM IST | Dr. Nabil Al-Azmi | Mumbai
گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون ’’سیرت النبیؐ میں یکسوئی، اُولوالعزمی اور ثابت قدمی جیسی قائدانہ خصوصیات کا عملی نمونہ موجود ہے‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ۔
نبی کریم ﷺ کی حکمت عملی
اسلامی نظریے کی بقا کے لئے حضوؐر اور صحابہ کرامؓ بہترین لائحہ عمل اختیار کیا کرتے تھے۔ ہجرت کے موقع پر حضورؐ اور حضرت ابوبکرؓ کو معلوم تھا کہ ان کا تعاقب کیا جائے گا، اس لئے اُنہوں نے مدینہ جانے کے لئے عام راستے سے ہٹ کر ایک دشوار راستے کا انتخاب کیا، جس کی وجہ سے پیچھا کرنے والوں کو کافی مشکلات پیش آئیں۔ اسی طرح غزوئہ بدر کے دوران میں ایک صحابیؓ کے مشورے پر اپنی فوج کو اس واحد کنویں پر تعینات کیا جہاں سے دشمن فوج پانی حاصل کرتی تھی۔ شدید گرمی سے تپتے ہوئے صحرا میں دشمن پیاس سے نڈھال ہوگیا، جب کہ مسلمان پانی دستیاب ہونے کی وجہ سے تروتازہ رہے۔ ایسے وقت میں جب مسلمان تعداد میں بے حد کم تھے اور ان کے پاس جنگی سازوسامان بھی نہ ہونے کے برابر تھا، یہ حکمت ِ عملی کافی مفید ثابت ہوئی۔ غزوئہ خندق کے موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ نے تجویز دی کہ دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لئے اہلِ فارس کا طریقہ اپنایا جائے یعنی خندقیں کھودی جائیں۔ حضوؐر نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور اس کے ذریعے دشمن کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔
صلح حدیبیہ اور آپ ؐ کی دُور اندیشی
بلند سوچ اور بہترین حکمت عملی ایک نظریاتی راہ نما کی پہچان ہیں۔ تنگ دل اور کم ظرف انسان کبھی ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے بنیادی مقصد کو پورا کرنے، مسلسل بدلتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے اور دیرپا کامیابی کے حصول کے لئے اپنائے جانے والے تمام طریقے حکمت عملی میں شمار ہوتے ہیں۔
ہجرت کے لئے غیر متوقع راستے کا انتخاب کرکے قریش کے تعاقب میں رکاوٹ ڈالنے سے لے کر خندق کھود کر دشمن کا مقابلہ کرنے تک کے واقعات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمعمولی ذہانت اور معاملہ فہمی کی عمدہ مثالیں ہیں۔ لیکن آپؐ کی دُور اندیشی اور حکمت کا عروج ’صلح حدیبیہ‘ کے موقع پر کئے جانے والے معاہدے کی صورت میں سامنے آیا، جس کی شرائط بہ ظاہر مسلمانوں کے لئے ناموافق تھیں تاہم وقت نے ثابت کردیا کہ آنے والے وقتوں میں انہی کی بنیاد پر مسلمانوں کو عظیم کامیابیاں نصیب ہوئیں۔
قریش کی مسلمانوں سے عداوت سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود، اگر آپؐ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ حج کی نیت سے مکہ کا سفر اختیار کرلیا تھا، تو اس کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ حج ادا کرنے کی ایک کوشش کرلی جائے، بلکہ درحقیقت یہ آپؐ کے نظریے اور مقصد کی جانب ایک بڑی پیش رفت تھی۔ اس سفر سے قریش کو یہ باور کرنا مقصود تھا کہ حج بیت اللہ مسلمانوں کا حق ہے، لیکن جب اس بارے میں حتمی فیصلے کا اختیار غیرمتوقع طور پر قریش کو دے دیا گیا تو وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔
اس کے علاوہ چوں کہ مسلمان نہایت کم ہتھیار لے کر آئے تھے اس لئے غیرمسلح لوگوں پر حملہ کرنا قریش کے لئے بدنامی کا سبب بن سکتا تھا۔ ساتھ ہی وہ اس قافلے کی عددی برتری سے خائف بھی تھے۔ کیوں کہ اگر اتنے بڑے گروہ کو روکا جاتا تو ہرجگہ یہ خبر پھیل جاتی کہ مکہ کے دروازے حج کے لئے آنے والوں پر بند کر دیئے گئے ہیں، جس سے ان کی تجارتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ حضورؐ نے اپنی دُور اندیشی سے کام لے کر ان تمام عوامل کا فائدہ اُٹھایا اور ایسی صورتِ حال پیدا کردی جس میں صلح کے سوا قریش کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ معاہدے میں تحریر کیا گیا کہ اس سال مسلمان بغیر حج کئے واپس جائیں گے۔ اگر مکہ سے کوئی شخص فرار ہوکر مدینہ پہنچ جائے تو اسے واپس بھیج دیا جائے گا، لیکن اگر مدینہ سے کوئی شخص بھاگ کر مکہ چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔
صلح حدیبیہ کی شرائط بہ ظاہر مسلمانوں کے خلاف اور قریش کے حق میں تھیں، اس لئے فطری طور پر مسلمان بہت افسردہ تھے۔ لیکن حضوؐر کی زیرک نگاہ مستقبل پر تھی اور ان کا مقصد تھا کہ اس دس سالہ معاہدے کی مدد سے قریش کی شرپسندی کو قابو میں رکھا جائے تاکہ مسلمان ان کی طرف سے بے فکر ہوکر پورے عرب میں اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دے سکیں۔ اس معاہدے کا طے پاجانا بذاتِ خود ایک بڑی کامیابی تھی، کیوں کہ اس کی بنا پر پہلی بار قریش کو ادراک ہوا کہ مسلمان اتنے طاقتور اور اہم ہوچکے ہیں کہ اب ان کے ساتھ معاہدہ کرنے کی ضرورت پیش آچکی ہے۔ مسلمانوں کی قوت اور اہمیت کے اس احساس کی بدولت ان کی مخالفت کی شدت میں کمی آگئی اور مدینہ کے حکمراں کے طور پر حضورؐ کی حیثیت مستحکم ہوگئی۔ صلح حدیبیہ کے بعد قائم ہو نے والے امن و امان کی وجہ سے تبلیغ کے عمل میں تیزی آئی اور اُمت مسلمہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
’’فتح مکّہ‘‘ بہترین حکمت عملی کا مظہر
اپنی فطری ایمان داری کی بنا پر صلح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کی تمام شرائط پر سختی سے عمل کیا، لیکن شاید آپؐ کو اندازہ تھا کہ قریش بالآخر اپنی فطرت سے مجبور ہوکر عہدشکنی کے مرتکب ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔ قریش کے حلیف قبیلے بنوبکر نے مسلمانوںکے حلیف بنوخزاعہ پر حملہ کیا اور ان کے بہت سے افراد کو قتل کرڈالا۔ اس وقت تک مسلمانوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوچکا تھا۔ آپؐ نے ایک بڑی فوج تشکیل دی اور بغیر کسی اعلان کے اچانک مکہ کا محاصرہ کرلیا۔
بعض روایات کے مطابق آپؐ نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ رات میں ہرشخص الگ الگ آگ جلانے کا اہتمام کرے۔ اس سے پہلے رواج تھا کہ دس افراد کے لئے ایک جگہ پر آگ جلائی جاتی تھی، جسے دیکھ کر مخالف فوج کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ لیکن اس ترکیب کی وجہ سے قریش کو مسلمانوں کی فوج تقریباً دس گنا زیادہ معلوم ہوئی اور ان پر ہیبت طاری ہوگئی۔ فتح مکہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور تاریخی کامیابی ہے، کیوں کہ اس دوران میں کسی قسم کی کوئی خوں ریزی نہیں ہوئی اور فاتح انتہائی پُرامن انداز میں مکہ میں داخل ہوگئے۔
یہ بھی پڑھئے: دِل میں ایمان و یقین کی حقیقی کیفیت، حقوق اللہ اور حقوق العباد
یہ حضوؐر کی دیدہ ور قیادت کا اوجِ کمال تھا، جس کا اعتراف دُنیا بھر میں کیا گیا۔ آپؐ نے تہیہ کررکھا تھا کہ فتح کا عمل کسی قسم کی قتل و غارت کے بغیر انجام پائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ مذاکرات میں اپنی حیثیت تسلیم کروانا، دُور اندیشی سے کام لینا اور اپنے حریفوں کو اس حد تک کمزور کر دینا کہ وہ خود ہی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ تمام اوصاف آپؐ کی نظریاتی اور دُوربین قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
کامیابی بہت سے عوامل کا مجموعہ ہوتی ہے۔ بہترین منصوبہ بندی اور سرگرمیوں کی مدد سے کسی جدوجہد میں ایک حد تک کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن ان کی مدد سے مکمل کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح بغیر ہاتھ پائوں ہلائے صرف عبادت کے زور پر بھی کسی مقصد میں کامیابی ممکن نہیں۔ اُونٹ کو باندھ کر اس کی ذمہ داری اللہ کو سونپ دینا اصل توکّل ہے، نہ کہ اسے کھلا چھوڑ دینا اور یہ سوچنا کہ اللہ خود ہی اس کی حفاظت فرمائے گا۔ تدبیر، حکمت اور عمل اللہ کی جانب سے انسان کو عطا کردہ صلاحیتیں ہیں، جن کا بہترین استعمال کرنا انسان پر فرض ہے۔ لہٰذا، بطورِ مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اعلیٰ اسلامی اقدار کی مناسبت سے اپنا نظریہ تشکیل دیں۔ اس کے حصول کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں اور اس کے تمام ممکنہ نتائج کا جائزہ لیں۔
اس سارے عمل کے دوران میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل ایمان رکھیں اور کسی رکاوٹ سے مایوس ہونے کے بجائے اسے آئندہ کے لئے بطورِ سبق استعمال کریں۔ توکّل اور حکمت عملی کا یہ امتزاج ایک بہترین مسلمان لیڈر کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے، جس کا ثبوت جابجا سیرت النبیؐ میں پایا جاتا ہے۔ بطور ایک نظریاتی راہ نما آپؐ صرف گھر بیٹھ کر عالمانہ گفتگو کرنے والے دانشور نہ تھے اور نہ خاموشی سے منظر دیکھنے والے تھے، بلکہ عمل پر یقین رکھتے تھے اور اپنے اصحابؓ کے ساتھ ہر سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اس طرزِعمل کی وجہ سے آپؐ کی کامیابی اور مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ نیلسن منڈیلا کا ایک قول ہے کہ ’’کسی نظریے کے بغیر کیا جانے والا عمل محض وقت گزاری ہے اور اسی طرح عمل کے بغیر نظریہ دیوانے کا خواب ہے، لیکن دُنیا میں تبدیلی صرف اسی عمل سے لائی جاسکتی ہے جس کی بنیاد کسی نظریے پر ہو۔‘‘
گفتگو کا فن
گفتگو کے ہنر کی قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے پروان چڑھانے کے لئے دُنیا بھر میں ڈھیروں وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی ادارے یا فرد کی کامیابی میں ابلاغی مہارتوں (Communication Skills) کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ایک راہ نما کے لئے اس کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہے کیوں کہ کوئی بھی نظریہ یا اس کے حصول کی حکمت عملی اس وقت تک نامکمل ہوتی ہے ، جب تک عوام اس کیلئے رضامند نہ ہوں۔ رائے عامہ کو اپنے نظریے کی طرف راغب کرنے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ لیڈر گفتگو کے ہنر میں مہارت رکھتا ہو اور اپنا نظریہ مؤثر طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکے۔
حضوؐر جامع الکلام تھے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا یعنی مختصرالفاظ میں جامع اور مدلل بات کرنے کی صلاحیت رکھنا آپؐ کی ایک اور خصوصیت تھی۔آپؐ بے جا طور پر طویل گفتگو سے پرہیز کرتے اور لفاظی سے کام لینے کے بجائے واضح انداز میں براہِ راست اپنا مدعا بیان فرماتے تھے۔ آپؐ اپنے الفاظ کا چنائو سوچ سمجھ کر اور محتاط انداز میں کیا کرتے تھے۔ جدید تحقیق کے مطابق ایک عام انسان کی توجہ کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ بیس منٹ تک ہوتا ہے، جس کے بعد اس کا دھیان بھٹکنے لگتا ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپؐ کے کسی خطاب کا دورانیہ بیس منٹ سے زیادہ نہیں رہا ہوگا۔ انسانی فطرت کی باریکیوں سے اس حدتک واقفیت اور ان کی توقعات اور ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی جدوجہد نبویؐ قیادت کا ایک خاص پہلو ہے۔