• Mon, 30 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

حُسن ِ نیت اور اسکے تقاضے

Updated: September 06, 2024, 4:27 PM IST | Dr. Tahir-ul-Qadri | Mumbai

’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں۔ ‘‘(البينہ:۵)

Allah Almighty has commanded sincerity in religion. Photo: INN
اللہ رب العزت نے دین میں اخلاص کا حکم دیا ہے۔ تصویر : آئی این این

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
 ’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں۔ ‘‘(البينہ:۵)
 نیت اور عمل میں ایک خاص تعلق ہے اور وہ یہ کہ کوئی بھی عمل حسنِ نیت کے بغیر قبولیت اور درجہ کمال کو نہیں پہنچتا۔ اگر ہم زندگی میں کسی اچھے اور نیک کام کی نیت کریں لیکن بعد ازاں کسی رکاوٹ کے باعث نہ کرنے کے باوجود بھی ہمیں اس نیک نیت کا اجر مل جائے گا۔ نیت خود ایک مطلوب عمل ہے۔ یہ دل کا عمل ہے اور دل کے عمل کا درجہ جسمانی اعضاء کے اعمال سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کر لے لیکن کسی مجبوری کے باعث نہ کرسکے تب بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کر لے تو پھر اس عمل کے کرنے پر دس گنا اجر لکھا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
 ’’جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لئے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں۔ ‘‘(الانعام:۱۶۰)
 یہ نیکی کا کم سے کم اجر ہے۔ ایک نیکی پر اجر کہاں تک بڑھتا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 ’’ابن آدم کو ہر نیکی پر ۱۶؍ گنا اجر سے لے کر ۷۶۶؍ گنا سے بھی زائد اجر ملتا ہے۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شيبه)
 یاد رہے کہ نیکیوں اور درجات کے کم و بیش ہونے کی وجہ حسنِ نیت ہے۔ نیت عمل کے پیچھے ٹمٹاتے ہوئے چراغ کی مانند ہے۔ نیت کا یہ چراغ جس قدر روشنی دے گا، وہ عمل اسی قدر روشنی پا کر جگمگائے گا اور اجر و ثواب پائے گا۔ کسی شخص کی نیت ٹمٹماتے ہوئے چراغ جیسی ہے، کسی کی لالٹین جیسی، کسی کی چراغ جیسی، کسی کی بلب جیسی، کسی کی ٹیوب لائٹ جیسی، کسی کی چاند جیسی اور کسی کی نیت سورج جیسی ہے۔ الغرض جتنی روشنی اور نور کسی کی نیت میں ہے، اسی قدر اس کے عمل کا ثواب بڑھتا جاتا ہے۔ نیت کے اندر موجود خالصیت اور للہیت اس نیت کے نور، قوت، برکت، قبولیت اور درجے کو بڑھانے کا سبب ہے۔ جوں جوں نیت کی قوت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں عمل کا درجہ اور اجر و ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ 
اجرو ثواب میں فرق کا سبب
 سورہ الاحقاف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور سب کیلئے ان (نیک و بد) اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے کئے (جنت و دوزخ میں الگ الگ) درجات مقرر ہیں۔ ‘‘(الاحقاف:۱۹)
 یعنی ہر عمل کرنے والے کیلئے درجات مختلف ہیں۔ عمل کے نتیجے میں جدا جدا درجات کا ہونا نیتوں کی کیفیت کے باعث ہے کہ نیت کیسی ہے؟ جیسی نیت ہوگی عمل کے نتیجہ میں ویسے ہی درجہ کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:وہی انسان، انسان ہے جو صراط مستقیم پر ہو

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتوں میں اخلاص کا درجہ نہایت بلند اور کامل ہونے کی وجہ سے ہی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے فرمایا کہ’’ آخری زمانے میں جب لوگوں کی نیتیں خراب ہو چکی ہوں گی، ان میں ملاوٹ آ چکی ہوگی تو اگر وہ اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں خیرات کریں گے تو ان کو اتنا اجر نہ ملے گا جتنا میرے صحابہ میں سے کسی شخص کو ایک رائی کے دانے کے برابر خیرات پر ملے گا۔ ‘‘
(مجموع الفتاویٰ)
 اجرو ثواب میں اس فرق کا سبب اخلاص اور خالصیت ہے۔ اسی لئے آقا علیہ السلام نے فرمایا: ’’ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر۔ ‘‘
(المعجم الکبير)
 منافق عمل پر زیادہ زور دیتا ہے کیونکہ عمل نظر آنے والی شے ہے اور اس کے دنیاوی اثرات و نتائج بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ منافق کی پوری توجہ نیت کے بجائے عمل کو بڑھانے پر ہوتی ہے، اس لئے کہ اس کے عمل کی غرض و غایت ریا اور دکھلاوا ہے، اسے دنیا میں مدح سرائی مقصود ہے۔ لہٰذا وہ عمل کی کمیت اور عمل کو مزین بنانے پر توجہ رکھتا ہے۔ وہ نیت کو رد کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نیت کو لوگ نہیں دیکھیں گے چنانچہ اس کے ظاہری فوائد اور اثرات مجھے حاصل نہیں ہوں گے۔ 
 دوسری طرف آپ ﷺ نے فرمایا کہ مومن کا حال منافق کے برعکس ہے۔ مومن کا عمل اگر قلیل بھی ہو تو وہ پروا نہیں کرتا، وہ اپنی نیت کو خالص رکھنے کی طرف متوجہ رہتا ہے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ عمل لوگوں کا دیکھنا ہے جبکہ نیت پر رب العالمین کی نگاہ پڑ رہی ہے۔ 
دین کو خالص کرنے کا حکم
 اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسی جانب متوجہ فرمایا: ’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کیلئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں۔ ‘‘ (البينة:۵) یعنی اس کامل اطاعت میں ایسا اخلاص ہو کہ نیت و توجہ الی اللہ رہے، اس نیت اور توجہ میں کوئی جھول اور ملاوٹ نہ ہو۔ اخلاص پر مبنی اس اطاعت و بندگی کو اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے اس کے ساتھ مزید ایک شرط بھی بیان کی۔ ارشاد فرمایا: ’’(ہر باطل سے جدا ہوکر) حق کی طرف یکسوئی پیدا کریں۔ ‘‘ (البينة :۵)
 حُنَفَآءَ حنیف کی جمع ہے اور حنیف کا معنی ہے: جو سارے مذاہب اور ادیان سے منہ پھیر کر دین حق کی طرف ہو جائے اور اپنے راستے میں اتنی استقامت اور کامل یکسوئی کے ساتھ سیدھا چلے کہ کسی قدم پر بھی دائیں بائیں لغزش نہ کھائے۔ (ابن منظور افريقی، لسان العرب)
 حُنَفآء کی شرط کے ساتھ اللہ رب العزت نے مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ کی تعریف کی کہ اخلاص ایسا ہو کہ صرف للہیت پر قائم ہو۔ اس میں توجہ اور التفات فقط الی اللہ ہو۔ ماسوا اللہ کا نہ کوئی دھیان رہے، نہ رجحان رہے اور نہ میلان رہے۔ بندہ کاملاً وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا کی عملی تفسیر بنتا ہوا ہر ایک سے ٹوٹ کر صرف اُسی کا ہوجائے۔ جس کی راہ میں ایسی استقامت ہو وہی حنیف ہوتا ہے۔ 
 نیتوں میں اس کامل اخلاص اور یکسوئی و استقامت کی طرف متوجہ کرنے کے بعد عمل کا حکم دیا کہ ’’اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے۔ ‘‘ (البينہ:۵)
 اللہ رب العزت نے دین میں اخلاص کا حکم دیتے ہوئے اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ جیسے عمل کو مؤخر کیا۔ پہلے نیت کی صفائی کی، دل، روح، من، دھیان، رجحان اور خیال کی زمین میں اخلاص و للہیت کا پودا بویا ہے اور ہر باطل اور ما سوا اللہ سے توجہ کو ہٹایا ہے۔ جب یکسوئی ٔ نیت خالصتاً نصیب ہو گئی تو اُس کے بعد اعمال صالحہ کی بات کی اور فرمایا کہ َذٰلِکَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ یہ دین قیم ہے یعنی اگر دین مستقیم کی راہ چاہتے ہو تو اس ترتیب سے چلو۔ گویا نیت کی اصلاح مقدم ہے، تب جا کر عمل قبول ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK