رب العالمین نے خود فرمایا ہے کہ بندہ بہت عجلت پسند ہے مگر بعض کاموں میں بندے کی عجلت، اللہ کے دربار میں پسندیدہ ہے۔ ایسے کاموں کی عجلت ’’تعجیل محمود‘‘ کہلاتی ہے۔
EPAPER
Updated: December 27, 2024, 11:52 AM IST | Sheikh Akram Elahi | Mumbai
رب العالمین نے خود فرمایا ہے کہ بندہ بہت عجلت پسند ہے مگر بعض کاموں میں بندے کی عجلت، اللہ کے دربار میں پسندیدہ ہے۔ ایسے کاموں کی عجلت ’’تعجیل محمود‘‘ کہلاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف صفات اور خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے جن میں سے ایک صفت جلد بازی بھی ہے، یعنی انسان کی جبلی ساخت میں عجلت کا مادہ رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’انسان جلد باز مخلوق ہے۔ ‘‘ (الانبیاء:۳۷)
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ انسان برائی کے لئے بھی ایسے ہی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی کے لئے کرتا ہے دراصل انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے۔ ‘‘ (الاسراء:۱۱)
انسان چونکہ جلد باز اور بے حوصلہ ہے اس لئے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی ہلاکت کے لئے اسی طرح بددعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کے لئے اپنے رب سے دعائیں کرتا ہے، یہ تو رب کا فضل و کرم ہے کہ وہ اس کی اچھی دعا کو تو قبول کرلیتا ہے اور اس کی بد دعاؤں کو قبول نہیں کرتا اگر وہ قبول کرے تو انسان تباہ و برباد ہو جائے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’اور اگر اللہ بھی لوگوں کو برائی پہنچانے میں ایسے ہی جلدی کرتا جیسے وہ بھلائی کو جلد از جلد چاہتے ہیں تو اب تک ان کی مدت (زندگی) پوری ہو چکی ہوتی (مگر اللہ کا یہ دستور نہیں )۔ ‘‘ (یونس:۱۱)
اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’تم لوگ نہ اپنے لئے بد دعا کرو اور نہ اپنی اولاد کے لئے، نہ اپنے خادموں کے لئے اور نہ ہی اپنے اموال کے لئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گھڑی ایسی ہو جس میں دعا قبول ہوتی ہو اور اللہ تمہاری بد دعا قبول کرلے۔ ‘‘ (سنن ابی داؤد)
لیکن قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض شرعی امور میں جلد بازی کو قابلِ تعریف اور مستحسن سمجھا گیا ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے خواہ ان امور کا تعلق رب العزت کی عبادت سے ہو یا حقوق العباد کی ادائیگی سے ہو۔
قرآنِ کریم کی روشنی میں عجلت کی تعریف
قرآنِ کریم میں چند مقامات پر جلد بازی اور عجلت کی وضاحت کی گئی ہے اور اسکی ترغیب اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ یعنی انسان ہر اس کام میں جلدی کرے جو نیکی، خیر اور اللہ کی رضا کے حصول کا سبب بن سکتا ہو جبکہ برائی، ظلم یا ایسے کاموں میں جلد بازی سے پرہیز کرے جو نقصان دہ یا شریعت کے خلاف ہوں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں میں سبقت اور جلدی کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’پس نیکی کے کاموں میں سبقت کرو۔ ‘‘ (البقرہ۱۴۸)
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’یہی لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرنے اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘ (المومنون:۶۱)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں ارشاد فرمایا:’’موسیٰ تجھے کس بات نے اپنی قوم کے پاس سے جلدی آنے پر آمادہ کیا؟‘‘ (طٰہٰ: ۸۳)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:’’وہ میرے پیچھے آ رہے ہیں اور میں نے تیرے لئے جلدی کی تاکہ تُو راضی ہو۔ ‘‘ (طٰہٰ :۸۴)
یہاں پر جلدی کے الفاظ تعریف کے لئے آئے ہیں۔
عبادات میں تعجیلِ محمود کی مثالیں
درج ذیل سطور میں ان عبادات کی نشاندہی کرنے کی کوشش ہوگی جن میں تعجیل یا جلدی کو قابلِ تعریف بتایا گیا ہے تاکہ لوگوں میں اللہ کی عبادت اور نیکی کی مزید رغبت پیدا ہو اور عبادات میں سستی، کاہلی اور تاخیر کرنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ عبادات کی ادائیگی میں سستی کا انجام کیا ہے اور یہ کس سزا کا حقدار بنا دیتی ہے؟ عبادات میں قابلِ تعریف جلد بازی کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :جماعت کی نماز کے لئے جلدی جانا:نماز کی پہلی صف میں شامل ہونے، تکبیرِ احرام (نیت کے بعد اللہ اکبر کہنا) پانے اور نماز کے پہلے وقت میں حاضر ہونے کیلئے جلدی کرنا مستحب ہے اور اس عمل کی تعریف کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:
’’اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان اور صفِ اول میں کتنا ثواب ہے اور پھر (انہیں اس کے حاصل کرنے کے لئے) قرعہ اندازی کرنی پڑتی تو وہ قرعہ اندازی بھی کرتے اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ نماز کے لئے جلدی آنے میں کتنا اجر و ثواب ملتا ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ عشاء اور صبح کی کتنی فضیلتیں ہیں تو اگر گھٹنوں کے بل آنا پڑتا تو پھر بھی آتے۔ ‘‘ (اخرجہ البخاری)
نمازِ جمعہ کے لئے جلدی جانا: نمازِ جمعہ کے لئے جلدی جانا قابلِ تعریف جلد بازی میں شامل ہے اور اس کے کئی فضائل ہیں جیسے صفِ اول میں شامل ہونا، ذکر میں مشغول ہونا اور نفلی نماز ادا کرنا۔ نمازِ جمعہ کے لئے آنے والوں کے مختلف درجات اور مراتب ہیں، سب سے افضل وہ ہیں جو جمعہ کے لئے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے جمعہ کے دن غسلِ جنابت کے مانند (خوب اہتمام سے) غسل کیا، پھر وہ (جمعہ میں شریک ہونے کے لئے) پہلی ساعت (گھڑی) میں مسجد گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا اور جو شخص اس کے بعد والی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے پیش کی اور جو تیسری گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک مینڈھا پیش کیا اور جو چوتھی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک مرغی پیش کی اور جو پانچویں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈہ پیش کیا اور جب امام (خطبہ دینے کے لئے) نکل آتا ہے تو فرشتے مسجد کے اندر آ جاتے ہیں اور خطبہ سننے لگتے ہیں۔ ‘‘ (اخرجہ البخاری)
نمازِ مغرب کو جلدی ادا کرنا:نمازِ مغرب کو اولین وقت میں ادا کرنا اور اس میں جلدی کرنا افضل ہے کیونکہ اس کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ سنت ِ عملی و قولی دونوں سے اس کی تاکید ملتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز کو ہمیشہ پہلے وقت میں ادا کرتے تھے۔ حضرت سلمہ بن الاكوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ مغرب کی نماز سورج غروب ہونے کے فوراً بعد پڑھتے تھے، جب کہ سورج پردے میں چھپ چکا ہوتا تھا۔ ‘‘
(صحیح مسلم)
امام نوویؒ فرماتے ہیں : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کو فوراً غروبِ شمس کے بعد پڑھتے تھے۔ ‘‘ (شرح مسلم للنوی)
سنتِ قولی سے بھی پہلے وقت میں جلدی نماز ادا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:’’سورج غروب ہوتے ہی اور ستاروں کے ظہور سے قبل مغرب کی نماز پڑھ لیا کرو۔ ‘‘ (السلسلة الصحيحة للالباني)
یہ بھی پڑھئے: انفاق سے دِل کی تطہیر اور نفس کا تزکیہ ہوتا ہے
نمازِ مغرب میں جلدی بھلائی کی علامت: جناب مرثد بن عبداللہ کہتے ہیں : جب ابو ایوب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس جہاد کے ارادے سے آئے، ان دنوں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مصر کے حاکم تھے، تو عقبہ نے مغرب میں دیر کی، ابو ایوب نے کھڑے ہو کر ان سے کہا: عقبہ! بھلا یہ کیا نماز ہے؟ عقبہ نے کہا: ہم مشغول رہے، انہوں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ: ”میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ ستارے چمکنے لگ جائیں۔ “(سنن ابی داؤد)
امام قرطبی ؒفرماتے ہیں :’’فقہاء نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ مغرب کی نماز کو سورج غروب ہوتے ہی جلدی ادا کرنا چاہئے۔ ‘‘ (تفسیر قرطبی)
معلوم ہوا کہ سورج غروب ہونے کے فوراً بعد مغرب کی نماز میں جلدی کرنی چاہیے، قبل اس کے کہ ستارے نظر آئیں اور اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔
حج کی ادائیگی میں جلدی کرنا: حج ان لوگوں پر فرض ہے جو مالی استطاعت رکھتے ہیں اور جو شخص اس کی شرائط پر پورا اُترتا ہو اس کے لئے جلدی حج کرنا مستحب ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے راستے میں کیا پریشانیاں، بیماریاں یا رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔ حج کے لئے جلدی کرنا قابلِ تعریف ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’حج میں جلدی کرو، کیونکہ تمہیں نہیں پتہ کہ تمہیں کیا پیش آ سکتا ہے۔ ‘‘ (صححه في صحيح الجامع)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص حج کرنے کا ارادہ رکھے اسے جلدی کرنا چاہیے کیونکہ کبھی سفر کے دوران آدمی بیمار پڑ سکتا ہے، کبھی اونٹ گم ہو سکتا ہے یا کبھی کوئی دقت یا ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ ‘‘ (حسنّه الالباني في صحيح ابن ماجه)
افطار میں جلدی کرنا: افطار میں جلدی کرنا بھی ایک قابلِ تعریف جلدی ہے بشرطیکہ سورج غروب ہونے کا یقین ہو اور اس میں بلا عذر تاخیر نہ کی جائے۔ یہ عمل اچھائی کی علامت ہے جیسا کہ سنتِ نبویہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اہلِ کتاب کی مشابہت سے اجتناب مقصود ہے۔ حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک جلد افطار کرتے رہیں گے۔ ‘‘
صدقات کی تقسیم میں جلدی کرنا: عبادت میں جلدی کرنے کی ایک پسندیدہ صورت صدقات کی تقسیم میں جلدی کرنا اور اسے مستحقین تک فوراً پہنچانا ہے۔ کیونکہ صدقات کو دیر سے تقسیم کیا جائے تو یہ قیامت کے دن انسان کے لئے دخولِ جنت کے لئے رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’میں نے مدینہ میں نبی کریم ﷺ کی اقتداء میں ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے اپنی زوجہ کے حجرہ میں گئے۔ لوگ آپ ﷺ کی اس تیزی کی وجہ سے گھبرا گئے۔ پھر جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور جلدی کی وجہ سے لوگوں کے تعجب کو محسوس فرمایا تو آپؐ کا ارشاد تھا کہ ہمارے پاس ایک سونے کا ڈلا (تقسیم کرنے سے) بچ گیا تھا مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا، میں نے اس کے بانٹ دینے کا حکم دے دیا۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک کاموں میں جلدی اور سبقت لے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔