• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

علم و قلم کی اہمیت

Updated: October 25, 2024, 5:01 PM IST | Maulana Abul Hasan Ali Nadwi | Mumbai

سیکڑوں برس کے بعد آسمان و زمین کا پہلی مرتبہ جو رشتہ قائم ہوا اس کا پہلا پیغام اقراء تھا۔

Through knowledge, we can not only get the correct knowledge of God, but we can also be aware of the commands and problems. Photo: INN.
علم کے ذریعے ہم نہ صرف یہ کہ خدا کی صحیح معرفت حاصل کرسکتے ہیں بلکہ احکام و مسائل سے بھی آگاہ ہوسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔ ‘‘ (سورہ توبہ:۱۲۲) 
اسلام اور علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلام علم کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ واقعہ تو یہ ہے کہ علم بھی اسلام کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ علم علم ہی نہیں جو وحی کی سرپرستی اور وحی کی رہنمائی بلکہ وحی اور علوم ِ نبوت کی انگلی پکڑ کر نہ چلے اور جس پر وحی کی مہر تصدیق ثبت نہ ہو اور جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے بھیجے ہوئے (پیغمبروں ) اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں کی سرپرستی میں، اتالیقی نگرانی میں اور رہنمائی میں نہ ہو وہ علم علم نہیں۔ 
اسلام بغیر علم کے نہیں رہ سکتا۔ خدا کی صحیح معرفت ہو، اس کی ذات و صفات کی صحیح معرفت ہو، اس کا بندوں کے ساتھ کیا تعلق ہے، بندوں کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہونا چاہئے، زندگی کا مقصد کیا ہے؟ آغاز کیا ہے، انجام کیا ہے، ابتداء کیا ہے، انتہا کیا ہے، انسان کہاں سے آیا، کیوں آیا اور کہاں اس کو جانا ہے اور پھر کیا ہونا ہے؟ ان سب کا علم ہونا ضروری ہے۔ اسی لئے اسلام علم کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اسے ضروری قرار دیتا ہے۔ 
پہلی وحی میں علم و قلم کا تذکرہ
پہلی وحی جو رسول اللہ ﷺ پر غار ِ حرا میں نازل ہوئی اور سیکڑوں برس کے بعد آسمان و زمین کا پہلی مرتبہ جو رشتہ قائم ہوتا ہے، زمین کے لئے کچھ لینے کیلئے اور آسمان کے لئے کچھ دینے کے لئے، برسوں کے بعد جو دو بچھڑے ہوئے ملتے ہیں ، وہ ایک دوسرے کو کیا کیا فغاں و فریاد، شکایتیں اور حکایتیں سناتے ہیں، لیکن اس وقت جو یہ دو بچھڑے ہوئے ملے تو آسمان سے اس نبی کو جس کو زمین والوں کا رشتہ اللہ سے جوڑنا تھا، سب سے پہلا پیغام ’’اقراء‘‘ کی شکل میں ملا۔ اس سے آپ علم و قلم کی اہمیت و عظمت سمجھئے جن کو اس پہلی وحی اور پیغام آسمانی میں عزت کا مقام دیا گیا۔ 
تعلیم و تعلم کی ضرورت اور اس کا انتظام
 کیا دنیا کی کوئی قوم علم سے مستغنی ہوسکتی ہے، کہہ سکتی ہے کہ نہیں ہمارا کوئی نقصان، نہیں ہم پر کوئی فرض واجب نہیں ، ضروری نہیں ہے کہ ہم پڑھیں اور پڑھائیں، بچوں کی تعلیم کا انتظام کریں، لیکن روئے زمین پر قیامت تک مسلمان کہیں بھی آباد ہوں، وہ چاہے مقامات مقدسہ ہوں، چاہے جزیرۃ العرب ہو، چاہے یورپ و امریکہ ہو، چاہے ہندوستان کی سرزمین ہو، شہر ہو، قصبہ ہو، دیہات ہو، جہاں مسلمانوں کے چار گھر بھی ہیں، بلکہ جہاں چار مسلمان بھی پائے جاتے ہیں، وہاں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اقراء کا سامان کریں، وہ اس کی تعمیل کریں کہ پڑھو۔ یہ کام شفا خانوں کے قیام سے زیادہ ضروری اور آپ کی دکانوں سے زیادہ ضروری ہے، یہ کارخانوں سے زیادہ ضروری ہے۔ ان میں سے کسی چیز کیلئے اللہ تعالیٰ نےاپنے نبی کو مامور نہیں فرمایا، یہ نہیں فرمایا کہ تجارت کرو، کماؤ کہ یہ بھی بہت بڑی طاقت ہے، دین حق کو غالب کرنے کیلئے خوب پیسہ پیدا کرو، یہ کہیں نہیں فرمایا بلکہ فرمایا تویہ کہ ’’اقراء‘‘ (پڑھو)۔ اب بتائیے کہ علم کا کیا مقام ہوا ؟
 یہ اقراء کا سلسلہ ایسا ہے کہ نبی ٔ اُمّیؐ سے شروع ہوکر آخری امتیٔ اُمّیؐ تک جاری رہے گا، کتنے ہی دنیا میں انقلابات آئیں، سلطنتیں بدلیں، تہذیبیں بدل جائیں اور انقلاب عظیم برپا ہوجائے، زبان بدل جائے لیکن تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہے گا۔ 
حفاظت ِ قرآن کا مفہوم
 اللہ تعالیٰ نے کسی زبان اور کسی کتاب کی حفاظت کی گارنٹی نہیں لی، قرآن کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے، تو حفاظت کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ بس کتاب رہے، نہ کوئی اس کو سمجھے نہ سمجھائے۔ اس کیلئے سمجھنے سمجھانے والے بھی ہونے چاہئیں۔ اور وہ کتاب الفاظ میں ہے تو زبان بھی ہونی چاہئے۔ الفاظ بغیر زبان کے نہیں رہتے۔ اس لئے عربی زبان بھی رہے گی، کتنی زبانیں مٹ گئیں لیکن شریعت ِ الٰہی کی زبان عربی اپنی جگہ پر ہے اور اس کا علم اپنی جگہ پر ہے، تو ہر جگہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے یہاں مقدور بھر دینی تعلیم کا انتظام کریں۔ ہر جگہ مسائل کے بتانے والے نہ صرف یہ کہ موجود ہوں بلکہ ان کا سلسلہ جاری رہے۔ یہ بھی مسلمانوں کے ذمہ فرض ہے۔ مدارس کا سلسلہ ضروری ہے۔ یہ کوئی شوقیہ، تفریحی کام نہیں ہے، یہ خالص دینی ضرورت ہے۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ مساجد کے بعد نمبر دو کی چیز یہی ہے اور سچ پوچھئے تو مساجد کے پشت پناہ بھی یہی مدارس ہیں۔ اگر مدارس نہ ہوئے تو آپ کو امام کہاں سے ملیں گے اور اگر ایسے امام مل گئے جو بس نماز پڑھا دیں تو جمعہ پڑھانے کے لئے اس سے زیادہ کچھ شرائط ہیں ، اس کے کچھ اور احکام ہیں، پھر اس کے بعد مسائل کے لئے آپ کہاں جائیں گے ؟ مسجدوں ہی میں تو جائیں گے امام صاحب سے پوچھنے۔ تو یہ مدارس درحقیقت مساجد کے بھی محافظ ہیں اور مساجد کو غذا بھیپہنچاتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK