• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ووٹ کی اہمیت اور شرعی نقطۂ نظر

Updated: April 19, 2024, 6:32 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

ووٹ کا حق حاصل کرنا اور موقع پر اس کا استعمال کرنا اس بات کا ذریعہ بنتا ہے کہ آپ اچھے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور سونپیں ، اور بُرے لوگوں کو اقتدار سے دُور رکھیں ، اور یہ ایک شرعی فریضہ ہے کہ جو شخص جس ذمہ داری کا اہل ہے اس کو وہ ذمہ داری سونپی جائے۔

Suffrage is not only a national duty; Rather, it should be seen as a religious duty. Photo: INN
حق رائے دہی کو نہ صرف ایک قومی فریضہ؛ بلکہ ایک دینی فریضہ کی حیثیت سے بھی دیکھنا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

الیکشن کی آمد آمد ہے۔ الیکشن میں ہمیں موقع ملتا ہے کہ اپنے ووٹ کے ذریعہ سربراہوں کے بارے میں فیصلہ کریں، اسی کے ذریعہ ہم اپنے ملک کا سربراہ منتخب کرتے ہیں، پانچ سال کے لئے ان ہی سربراہوں کے ہاتھ میں وہ قلم ہوتا ہے جس سے ہمارے بارے میں فیصلے کئے جاتے ہیں، اور ہمارے سود و زیاں کا فرمان جاری ہوتا ہے؛ اس لئے دستوری اعتبار سے بھی ہمیں اس حق کے استعمال کی ترغیب دی گئی ہے، اورملی و قومی مصالح و مفادات کے لئے بھی یہ بہت اہم ہے۔ 
مگر صورت حال یہ ہے کہ ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرانے سے عمومی طور پر لوگ غافل ہیں اور جن لوگوں نے نام درج کرائے ہیں ان میں بھی ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد نمایاں طور پر کم ہے، جو اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرتے۔ الیکشن کمیشن نے ۲۰۱۸ء کے الیکشن کے موقع پر بیان دیا تھا کہ جن لوگوں کی عمر ۱۸؍۱۹ سال ہو چکی ہے اور انھوں نے اپنا نام ووٹر رجسٹر میں شامل نہیں کیا ہے، ان کی تعداد۳؍کروڑ ۳۶؍ لاکھ ہے، صرف یوپی میں ۷۵؍ لاکھ اور بہار میں ۴۶؍لاکھ نوجوانوں نے ووٹر لسٹ میں اپنا نام نہیں لکھایا ہے، ۲۰۱۴ء کی مردم شماری کے مطابق کل ووٹرس کی تعداد۸۳؍ کروڑ، ۴۱؍ لاکھ، ۴۷۹؍ ہے، جب کہ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد ۵۵؍ کروڑ، ۳۸؍ لاکھ ایک ہزار آٹھ سو ایک ہے، یعنی کل ووٹرس میں سے ۶۶؍ فیصد سے کچھ ہی زیادہ لوگوں نے حقِ رائے دہی میں حصہ لیا ہے، ۴۰؍فیصد افراد نے ووٹ ڈالاہی نہیں۔ یہ ایک بدبختانہ بات ہے کہ ملک و قوم سے متعلق اتنے اہم فیصلے میں قریب قریب پچاس فیصد باشندوں کی شرکت نہ ہو۔ 

یہ بھی پڑھئے: رمضان کا پیغام اور رمضان کے بعد کی زندگی

اگر ہم شرعی نقطۂ نظر سے غور کریں تو بعض اعمال کی حیثیت مقصود کی ہوتی ہے، قرآن و حدیث میں متعین طور پر ان کا حکم دیا گیا ہے، جیسے نماز و روزہ، حج و زکوٰۃ وغیرہ جبکہ بعض اعمال مقصود نہیں ہوتے، ان کی حیثیت ذریعہ اور وسیلہ کی ہوتی ہے چنانچہ جو عمل جس بات کا ذریعہ ہو، جو حکم اس کا ہوگا، وہی حکم اس ذریعہ کا بھی ہے، جیسے چلنا ایک عمل ہے، اگر انسان اس لئے چلے کہ اسے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد پہنچنا ہے، تو اس کا یہ چلنا بھی عبادت کے درجہ میں ہے، اوراسے ہر قدم پر نیکی ملے گی، خود حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے، (مسلم، حدیث نمبر:۶۵۴) اور اگر کوئی شخص شراب پینے کی نیت سے چلے اور اس کا قدم شراب خانہ کی طرف بڑھ رہا ہو، تو صرف اس کا شراب پینا ہی گناہ نہیں ہے؛ بلکہ شراب خانہ کی طرف جانا بھی گناہ ہے، جوں ہی وہ گھر سے شراب خانہ کی طرف شراب پینے کی نیت سے نکلا، اسی وقت سے گناہ کا عمل شروع ہو گیا؛ اس لئے جس عمل کے بارے میں شریعت میں جائز و ناجائز یا پسندیدہ و ناپسندیدہ ہونے کا حکم صریحاً موجود نہیں ہو، دیکھنا چاہئے کہ وہ کس بات کا ذریعہ بنتا ہے، ایسی بات کا جو شریعت میں پسندیدہ ہے یا ایسی بات کا جو شرعاً ناپسندیدہ ہے ؟
ووٹ کا حق حاصل کرنا اور موقع پر اس حق کا استعمال کرنا اس بات کا ذریعہ بنتا ہے کہ آپ اچھے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور سونپیں، اور بُرے لوگوں کو اقتدار سے دُور رکھیں، اور یہ ایک شرعی فریضہ ہے کہ جو شخص جس ذمہ داری کا اہل ہے اس کو وہ ذمہ داری سونپی جائے: ’’امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔ ‘‘ (نساء: ۵۸) اور یہ بھی ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کو اس مقام پر پہنچنے نہیں دیا جائے جہاں وہ دوسروں کے ساتھ ظلم ونا انصافی کا ارتکاب کر سکتا ہے: ’’اور تم ایسے لوگوں کی طرف مت جھکنا جو ظلم کر رہے ہیں۔ ‘‘ (ہود:۱۱۳) اس لئے مسلمانوں کو نہ صرف ایک قومی فریضہ؛ بلکہ ایک دینی فریضہ کی حیثیت سے بھی اس عمل کو دیکھنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ صد فیصد مسلمانوں کے نام؛ بلکہ تمام شہریوں کے نام ووٹر لسٹ میں درج ہو جائیں۔ 
ہندوستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فرقہ پرست اور مسلم مخالف طاقتوں نے چوطرفہ حملہ شروع کر دیا ہے، اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور کمزورکرنے کیلئے جتنے ہتھیار ہو سکتے ہیں، وہ سب آزمائے جا رہے ہیں، فسادات کرائے جاتے ہیں، ہجوم کے ذریعہ قتل کی واردات پیش آرہی ہے، ذرائع ابلاغ کو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کی اجازت دی گئی ہے؛ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جار ہی ہے، سوشل میڈیا کی ایک تربیت یافتہ فوج شب وروز جھوٹی خبریں پھیلانے کا کام کر رہی ہے، غرض مختلف جہتوں سے اسلام، مسلمان اور مسلم تاریخ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان سب کے پیچھے اصل میں جو طاقت کام کر رہی ہے، وہ ہے اقتدار کی طاقت، اور ہندوستان جیسے ملک میں طاقت کا سرچشمہ ووٹ ہے۔ 
اللہ تعالیٰ کاا رشاد ہے :
’’اور (اے مسلمانو!) ان کے مقابلہ جہاں تک ہو سکے، طاقت اورگھوڑوں کی تیاری رکھو، جن سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بھی --- جن کو تم نہیں جانتے، اللہ جانتے ہیں --- تمہاری دھاک قائم رہے اور جو بھی تم اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے، تمہیں پورا پورا دیا جائے گا، اور تمہارے ساتھ حق تلفی نہیں ہوگی۔ ‘‘ (انفال:۶۰)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دشمن طاقتوں کے مقابلہ کے لئے اپنی صلاحیت اور طاقت کے ذریعہ تیاری کا حکم دیا ہے، یہ بھی فرمایا گیا کہ یہ طاقت حاصل کرنا ظلم کے لئے نہیں ہونا چاہئے، ایسا نہیں ہو کہ اگر تم کو طاقت حاصل ہو جائے تو تم دوسروں پر ظلم ڈھانے لگو؛ بلکہ یہ اس لئے ہو کہ ان پر تمہارا رعب طاری رہے، ان میں یہ جرأت نہ ہو کہ وہ تم پر یا دوسرے بے قصور لوگوں پر ظلم کریں، تیسری بات یہ فرمائی کہ تمہارے کچھ دشمن کھلے ہوئے ہیں، جو علانیہ طور پر تمہارے خلاف کام کر رہے ہیں، کچھ ایسے دشمن بھی ہیں جو آستین کے سانپ ہیں، جن کی عداوت اورمنصوبہ بندی تمہارے سامنے نہیں ہے: تم انہیں نہیں جانتے، اللہ ان کو جانتا ہے۔ (انفال:۶۰)
 اور دفاع کی تیاری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بھی بیان کی ہے کہ جو کچھ اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے، اللہ تعالیٰ تمہاری طرف اس کو لوٹائیں گے، یعنی اس کا اجرعطا کرینگے۔ 
 (انفال:۶۰)
اب اگر اس آیت کی روشنی میں غور کریں اور اسے ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے حالات پر منطبق کریں تو واضح ہوتا ہے کہ یہاں دشمن سے مقابلہ اور اس سے مدافعت کا مؤثر ہتھیار ووٹ ہے، اسی لئے مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں طاقت مہیا کرنے سے مراد ہر وہ چیز ہے جو کسی قوم کو قوت فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ 
 (مفاتیح الغیب:۱۵؍۴۹۹)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK