عزت نے حضرت انسان کو یاد داشت جیسی بڑی نعمت سے نوازا ہے۔ اسی یاد داشت کا استعمال کر کے انسان ترقی اور کامیابی کی منازل طے کرتا ہے اور بہت سارے ایسے امور کو انجام دیتا ہے جن کے تار تو ماضی سے جڑے ہوتے ہیں لیکن حال میں اس کے مطابق اعمال معرض وجود میں آتے ہیں اور مستقبل میں اس کے ثمرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو یاد داشت جیسی بڑی نعمت سے نوازا ہے۔ اسی یاد داشت کا استعمال کر کے انسان ترقی اور کامیابی کی منازل طے کرتا ہے اور بہت سارے ایسے امور کو انجام دیتا ہے جن کے تار تو ماضی سے جڑے ہوتے ہیں لیکن حال میں اس کے مطابق اعمال معرض وجود میں آتے ہیں اور مستقبل میں اس کے ثمرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام انسان یکساں یاد داشت نہیں رکھتے؛ چنانچہ کوئی بہت مضبوط یاد داشت کا مالک ہوتا ہے تو کسی کی یادداشت اوسط درجے کی ہوتی ہے اور کوئی یاد داشت کے حساب سے انتہائی کمزور ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر معمولی یاد داشت سے نوازا تھا، اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ رب العزت سورہ القیامہ کی آیت ۱۶؍ اور۱۷؍ میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’( اے پیغمبر !) آپ جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان نہ ہلایا کریں، قرآن کا جمع کرنا اوراس کا پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب حضرت جبریل علیہ السلام وحی الٰہی لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اسی وقت زبان سے دہرانا شروع فرما دیتے تاکہ یاد ہوجائے، جس سے آپ کو مشقت ہوتی تو اللہ رب العزت نے آپ کی تسلی کے لئے اشارہ فرمایا کہ ہم نے آپؐ کو مضبوط یاد داشت سے نوازا ہے لہٰذا اس مشقت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں مختلف جگہوں میں الگ الگ سیاق و سباق میں `نسیٔ کا صیغہ استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب ہے بھولنا۔ چنانچہ سورہ کہف کی آیت ۶۱؍ میں حضرت موسیٰ اور یوشع علیہما السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :’’پھر جب وہ دونوں اس سنگم پر پہنچ گئے تو اپنی مچھلی کو بھول گئے، مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح راستہ بنالیا (اور چلی گئی)۔ ‘‘
مذکورہ آیات سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یاد داشت اللہ رب العزت کی ایک بڑی نعمت ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بھولنا بھی ایک فطری عمل ہے۔ بھولنے کی اسی بیماری کو اطباء نے ڈیمینشیا کا نام دیا ہے۔ یہ ایسا دماغی عارضہ ہے جس میں دماغ کے یادداشت کے نظام کے خلئے بتدریج ناکارہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً دماغ کا وہ حصہ جو یادداشت کے نظام کا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کے باعث اس انسان کی شخصیت، رویّہ، مزاج اور بحیثیت ِ مجموعی حافظہ متاثر ہو جاتے ہیں۔ ڈیمینشیا کی کم و بیش ۱۰۰؍ سے زائد اقسام ہیں جن میں سب سے زیادہ عام قسم الزائمر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق دُنیا بھر میں تقریباً ۵؍ کروڑ ۵۰؍ لاکھ لوگ بھولنے کے مرض کا شکار ہیں۔
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس وجہ سے انسان کے بھولنے کی بیماری کا تیر بہدف عملی علاج اور متبادل یہ بتلایا ہے کہ انسان صرف اپنی یاد داشت پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اپنے معاملات کو لکھ بھی لے۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۸۲؍ میں اللہ رب العزت نے انسانوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ: ’’اے ایمان والو !جب تم ایک مقررہ مدت کے لئے ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ ‘‘ اس آیت کا عمومی مطلب یہ ہوگا کہ انسان صرف اپنی یاد داشت پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اپنے معاملات کو نوٹ بھی کر لے تاکہ بوقت ضرورت اس نوٹ کی طرف رجوع کر لے۔
مذکورہ بحث کی روشنی میں جب ہم اپنی سماجی و معاشرتی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ وہ لوگ جو صرف اپنی یاد داشت پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنے معاملات کو نہیں لکھتے، اکثر بوقت ضرورت پریشان ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت صحیح اور بعینہ معاملہ کو یاد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم آگے کی پریشانیوں سے بچنے کیلئے اپنی تمام چیزوں کی دستاویزات بنوا کر رکھیں، کیونکہ اپنی یاد داشت کی بنیاد پر زبانی طور پر یہ کہنے سے کہ فلاں چیز میری ہے یا میں اس علاقے کا رہنے والا ہوں، کوئی ماننے والا نہیں ہے جب تک کہ آپ کے پاس ٹھوس کاغذی ثبوت نہ ہو۔ یاد داشت اور اس کی متبادل شکلوں کو سمجھنے کے بعد ہمیں یادداشت کو قائم اور بحال رکھنے کے اسباب پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں مقویٔ دماغ غذاؤں اور دواؤں کی طرف جہاں اطباء رہنمائی کرتے ہیں وہیں علماء اس کا روحانی علاج یہ بتاتے ہیں کہ انسان گناہ سے بچے، استغفار کرتا رہے اور ہر نماز کے بعد یا جب بھی موقع ملے یَاقَوِیُ کا ورد کرے۔