اللہ تعالیٰ نے اس کا ئنات میں نعمتوں اور صلاحیتوں کی ایسی تقسیم فرمائی ہے کہ ہر شخص پنے آپ میں نا مکمل اور دوسرے کا محتاج ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہی اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ کسی کے پاس دولت ہے، لیکن وہ جسمانی قویٰ سے محروم ہے ، کوئی شخص صحت مند اور محنت کرنے کے لائق بھی ہے ،
کسی بھی کاروبار کے کامیاب ہونے کے لئے تجربہ اور واقفیت ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این
اللہ تعالیٰ نے اس کا ئنات میں نعمتوں اور صلاحیتوں کی ایسی تقسیم فرمائی ہے کہ ہر شخص پنے آپ میں نا مکمل اور دوسرے کا محتاج ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہی اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ کسی کے پاس دولت ہے، لیکن وہ جسمانی قویٰ سے محروم ہے ، کوئی شخص صحت مند اور محنت کرنے کے لائق بھی ہے ، لیکن علم و آگہی سے تہی دامن ہے، وغیرہ مگر جس طرح اندھا اور لنگڑا ایک دوسرے کی مدد کر کے اپنا سفر طے کر سکتے ہیں ، اسی طرح یہ مختلف صلاحیتوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنی مطلوبہ منزل کو پا سکتے ہیں۔
معاشی نظام میں بھی یہی طریقۂ کار کسی قوم اور سماج کی ترقی کا راز ہے، کچھ لوگوں کے پاس سرمایہ ہے، لیکن خود کاروبار اور تجارت کی قوت یا اس کا تجربہ نہیں ، کچھ لوگ کا روبار کی صلاحیت رکھتے ہیں ، لیکن ان کے پاس سرمایہ نہیں ، اگر سرمایہ کاروں کا منجمد سرمایہ اور اس دوسرے گروہ کی محنت کا اشتراک ہو، تو اس سے دونوں طبقوں کو نفع ہوگا اور بحیثیت مجموعی قوم اور ملک کو بھی اس کا نفع پہنچے گا ، اسی لئے اسلام نے ایسے اشتراک کی نہ صرف گنجائش رکھی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔
اسلام نے بنیادی طور پر اس کیلئے دو طریقے رکھے ہیں : شرکت اور مضاربت۔ شرکت کے معنی ساجھے دار ہونے کے ہیں ، یعنی ایسا کاروبار جس کو متعدد لوگ مل کر کریں ، جو شخص کسی چیز میں کچھ حصہ کا مالک ہو، عربی زبان میں وہ ’’شریک‘‘ کہلاتا ہے ، فقہ کی اصطلاح میں شرکت ایسے کاروبار کو کہتے ہیں جس میں ایک سے زیادہ لوگوں کا سرمایہ شریک ہو اور نفع میں بھی وہ سب شریک ہوں۔ قرآن مجید میں یوں تو احکامِ شرکت کی تفصیل مذکور نہیں لیکن اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے احکام میراث کے ذیل میں چند ورثاء کے بارے میں ذکر فرمایا ہے کہ وہ سب ایک تہائی میں شریک ہیں۔ ‘‘ (النساء: ۱۲)۔ حدیث میں نسبتاً زیادہ وضاحت کے ساتھ شرکت کا تذکرہ ہے، جائز اور حلال طریقہ مقرر فرمایا ہے جس میں سرمایہ کار نفع کے ساتھ نقصان کا خطرہ بھی قبول کرتا ہے اور اسی کو قبول کرنے کی وجہ سے اس پر حاصل ہونے والا نفع اس کیلئے جائز اور حلال ہے۔
اگر ایمانداری کے ساتھ شریعت کے اصولوں کو برتتے ہوئے شرکت اور مضابت کے کاروبار کئے جائیں تو اس سےزیادہ نفع حاصل ہوسکتا ہے، لیکن خیانت اور بددیانتی آخرت ہی میں نہیں ، دنیا میں بھی انسان کو نقصان سے دوچار کرتی ہے۔ کاروبار کی کامیابی میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک دیانت و امانت اور دوسرے تجربہ اور کاروبار سے واقفیت۔ اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں حضرت سائب بن سائبؓ آپؐ کے شریک ِ کاروبار تھے۔ جب مکہ فتح ہوا تو خدمت ِ اقدس ؐ میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ان کا استقبال کیا اور فرمایا: ’’میرے بھائی اور میرے شریک! تمہارا آنا مبارک، جو ایسے شریک تھے کہ نہ جھگڑتے تھے اور نہ ہیراپھیری کرتے تھے۔ ‘‘ (فتح القدیر) گویا جو لوگ شریف اور سلیم الطبع تھے وہ زمانۂ کفر میں بھی امانت و دیانت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
اسلام میں امانت و دیانت کی جو اہمیت و تاکید ہے وہ ظاہر ہے، خاص کر شرکت کے معاملہ میں آپؐ نے اس کی خصوصی تاکید فرمائی۔ حضرت ابوہریرہؓ نقل کرتے ہیں کہ ’’حضورؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب دو آدمی شرکت کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں ، تو جب تک ان میں سے کوئی اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت نہ کرے میں ان میں کا تیسرا ہوتا ہوں اور جب ان میں سے کوئی خیانت کرتا ہے میں ان کے بیچ سے نکل جاتا ہوں۔ ‘‘ (ابوداؤد)
بدقسمتی سے آج کل جو لوگ سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ پہلے ہی دن سے ان کے گھر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں اور ایسی شاہ خرچی شروع ہوتی ہے کہ گزشتہ زمانہ کے فضول خرچ نواب اور جاگیردار بھی شرمسار ہوجائیں۔ عمدہ سے عمدہ مکان، اچھی سے اچھی گاڑیاں ، شاہی دعوتیں اور ہر سماجی محفل میں پیسے دے کر مہمان خصوصی بننے کا شوق اور ان سب سے سوا اخبارات میں آنے کی خواہش اور ہر روز اپنی تصویر کی نمائش اور کتنی ہی ایسی خواہشیں کہ ہر خواہش پہ دم نکلے! اور یہ سب کچھ غریب اور محنت کش عوام ، بیواؤں اور یتیموں کے پیسوں کے بل پر؟یہ کتنی شرمناک اور افسوس ناک بات ہے۔ اس سے جہاں سرمایہ کاروں کو نقصان پہنچتا ہے وہیں خود وہ بھی نقصان سے دوچار ہوتا ہے۔ اگر دیانت اور ایمانداری سے کاروبار کو چلایا جائے تو لوگوں کا اعتماد قائم رہے گا اور یہ کاروبار مدتوں جاری رہے گا اور سرمایہ کاروں سے زیادہ نفع خود اس شخص کو حاصل ہوگا۔ خیانت اور بددیانتی سے اللہ کی مدد اٹھ جاتی ہے۔ جن لوگوں نے سرمایہ لگایا ہے ان کا بھی نقصان ہوتا ہے اور جن کے پاس سرمایہ مشغول کیا گیا ہے وہ دنیا میں ذلیل و خوار بھی ہوتے ہیں ، مستقل نفع سے محروم بھی اور اس اجتماعی ظلم پر اللہ کے یہاں جو پکڑ ہے وہ اس کے سوا ہے۔
کسی بھی کاروبار کے کامیاب ہونے کیلئے تجربہ اور واقفیت ضروری ہے۔ آدمی خواہ کتنا بھی مخلص ہو، دیانتدار اور سچا بھی ہو، لیکن وہ ایسے کاروبار میں ہاتھ رکھے جس سے خود کماحقہ واقف نہ ہو ، تو زیادہ امکان نقصان ہی کا ہے۔ کسی بھی تجارت کیلئے تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں : اول یہ کہ سامان کہاں سے خریدا جائے کہ اس کو کم سے کم قیمت میں حاصل کرسکے، دوسرے یہ سامان کہاں بہتر طور پر فروخت ہوسکے گا اور کہاں اس کی مانگ زیاد ہ ہے؟ اور تیسرے جو لوگ اس مال کے خواہاں ہیں وہ کس طرح کا مال پسند کرتے ہیں ؟
ان تینوں امور کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کوشش بھی کرنی ہے کہ اس کے لانے اور فروخت کرنے میں کم سے کم اخراجات آئیں۔ یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ پورا سرمایہ ایک ہی یونٹ میں نہ لگایا جائے۔ اگر مختلف نوعیت کے کاروبار میں سرمایہ مصروف کیا گیا تو اگر ایک یونٹ میں نقصان بھی ہو تو دوسری یونٹوں کے نفع سے اس کی بھرپائی ہوسکتی ہے۔
جو لوگ اپنا سرمایہ مشغول کریں ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ سنہرے خواب دکھانے والوں کی طرف آنکھ بند کرکے نہ دوڑیں ، بلکہ خوب اچھی طرح تفتیش کریں کہ کمپنی سرمایہ کہیں مشغول بھی کررہی ہے یا نہیں ؟ اگر مشغول کررہی ہے تو کیا اس کاروبار سے وہ نفع حاصل ہوسکتا ہے جس کا وعدہ کیا جارہا ہے؟ اس کے بارے میں ماہرین سے دریافت کریں ، پھر خوب سوچ سمجھ کر سرمایہ لگائیں۔ یہ کہنا کہ آٹھ دس ہزار روپے لگائیں اور کل ہی سے اس پر نفع حاصل کریں ، بلکہ پہلے مہینہ کا جو نفع ہے وہ رقم دیتے ہوئے ہی وضع کرلیں ، ناقابل فہم باتیں ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی تجارت ہو جو شروع ہونے سے پہلے ہی یا شروع ہوتے ہی نفع دینے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں نفع و نقصان کو ظاہری اسباب سے متعلق رکھا ہے، ان اسباب کو نظرانداز کرکے کام کرنا توکّل نہیں ، بے وقوفی اور بے عملی ہے اور اس کی وجہ سے نقصان اٹھانا اور حسرت و افسوس سے دوچار ہونا نوشتہ ٔ دیوار!