اس مذہب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ ’’خدا کے کنبے‘‘ کی فکر اور اس کی فلاح کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔
EPAPER
Updated: October 11, 2024, 4:34 PM IST | Prof. SR Shafiq | Mumbai
اس مذہب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ ’’خدا کے کنبے‘‘ کی فکر اور اس کی فلاح کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔
دُنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کو اس اعتبار سے امتیاز حاصل ہے کہ دوسرے مذاہب کی تمام تر توجہ عبادت و ریاضت کی جانب متوجہ رہی ہے لیکن اسلام نےعبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی، مخلوق خدا کی خدمت، دنیاوی زندگی کی پاکیزگی اور دنیاوی جدوجہد پر بھی زور دیا ہے۔ گویا اسلام دُنیا کا پہلا مذہب ہے جو نوع انسانی کو خانقاہوں اور عبادت خانوں سے نکال کر مخلوق خدا کی خدمت کیلئے میدان میں لے آیا ہے اور اس نے یہ بتایا ہے کہ اللہ کی خوشنودی صرف اس میں نہیں ہے کہ کونے میں بیٹھ کر اُس کے نام کی مالا جپتے رہو، بلکہ منشائے الٰہی یہ ہے کہ انسان، خدا کی وحدانیت اور اُس کی الوہیت کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو اُسکی مخلوق کی خدمت کیلئے وقف کردے۔ چنانچہ دُنیا کے سب سے بڑے انسان اور پیغمبر آخر الزماں کا کردار یہی تھا کہ آپؐ اللہ جل جلالہ کی عبادت و ریاضت کے ساتھ اُس کی مخلوق کا بھی خیال رکھتے، اُس کی فکر کرتے اور بلا امتیاز مذہب و ملت اللہ کی ساری مخلوق کے کام آتےتھے اور یہی اسلام کا حقیقی مقصد و منشاء بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے زیادہ کسی مذہب نے انسانی خدمت پر زور نہیں دیا۔
اسلام کی بنیادی تعلیم خداکی وحدانیت پر عقیدہ رکھنا، اُسے حاضر و ناظر جاننا اور اُسے خالق کائنات اور حاکم مطلق تسلیم کرنا ہے۔ لیکن اس بات میں بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ان باتوں کے رسمی اعلان ہی سے اسلام کا مقصد پورا نہیں ہوجاتا بلکہ جہاں تک خدائے واحد کی وحدانیت اور اُس کی قوتوں پر کامل ایمان لانے کا تعلق ہے، اسلام مسلمانوں کو اس حقیقت کی جانب خصوصیت سے توجہ دلاتا ہے کہ جس طرح خدائے تعالیٰ، کائنات کی پرورش کرتا ہے اور اس نے اپنی تمام تر قوتوں کو انسان کی فلاح و بہبود پر مرکوز کردیا ہے، اسی طرح اُس پر ایمان رکھنے والوں کو بھی اپنی زندگی اور قوتوں کو دُنیا کی تعمیر اور بنی نوع انسان کی خدمت گزاری کیلئے وقف رکھنا چاہئے۔
اسلام کی دوسری بنیادی تعلیم اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کو برحق سمجھنا ہے اور اگرچہ پیغمبر اسلام جناب ِ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے لیکن قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ماضی میں خدائے تعالیٰ دُنیا کی ہر قوم اور ملک میں اپنے نبی اور رسول بھیجتا رہا ہے اور مسلمانوں کو محمد عربیؐ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کے ساتھ دوسرے معلوم اور نامعلوم انبیاء اور رسل پر بھی ایمان لانا چاہئے۔ قرآن کریم کے مذکورہ بالا حکم کا منشاء اسی قدر نہیں ہے کہ مسلمان دُنیا میں ان نبیوں اور رسولوں کی آمد ہی کو تسلیم کرتے رہیں بلکہ اس کا مقصد مسلمانوں کو عالمگیر انسانی برادری کے قیام کی طرف دعوت دینا ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہئے کہ اس بات کو صحیح سمجھ لینے کے بعد کہ دُنیا کے ہر گوشے اور ہر قوم میں اللہ کے نبی اور رسول پیدا ہوتے رہے ہیں، ہمارے ذہن میں سب سے پہلے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بنی نوع انسان کی ایک عظیم اور محترم برادری کی حیثیت رکھتے ہیں اور چونکہ پیغمبر آخر الزماں کے ظہور سے پہلے خدائے تعالیٰ اس وسیع انسانی برادری کی ہدایت اور فلاح و بہبود کیلئے نبی اور رسول بھیجتا رہا ہے اس لئے مسلمانوں کو تعمیری اور اصلاحی منصوبوں میں ان قابل احترام انبیاء کے مقلدوں کے مفاد کا بھی خیال رکھنا چاہئے، اس طرح ایک جانب تو مسلمانوں کا ذہن تعصب سے پاک رہتا ہے اور دوسری طرف وہ بلا امتیازِ مذہب و ملت بنی نوع انسان کی خدمت گزاری کو اپنا مذہبی فریضہ تصور کرنے لگتے ہیں۔
اسلام کی تیسری اہم تعلیم یہ ہے کہ روح کبھی فنا نہیں ہوتی۔ بالفاظ دیگر اس اسلامی عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے ساتھ روح کا تعلق عارضی ہوتا ہے اور جب یہ تعلق ختم ہوجاتا ہے تو روح کی دائمی زندگی شروع ہوتی ہے لیکن انسان روح اور جسم کے اس عارضی تعلق کے زمانے میں جو اچھائیاں یا برائیاں کرتا ہے روح کو اُس کی سزا یا جزا بھگتنی پڑتی ہے۔
یہ عقیدہ بظاہر فلسفیانہ اور پیچیدہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس پر تھوڑا غور و فکر کرنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ یہی عقیدہ انسان کے حسن اخلاق اور حسن کردار کی بنیاد ہے اور جس انسان کو اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ روح اور جسم کا عارضی تعلق ختم ہوجانے کے بعد بھی اُسے اس کی نیکیوں کی جزا اور اور بُرائیوں کی سزا ملے گی تو وہ کسی بھی حال میں نیکیوں کی راہ سے انحراف نہیں کرسکتا اور ظاہر کہ اگر مسلمان آج بھی اس اسلامی عقیدہ کی حقیقت کو سمجھ لیں تو اُن کا وجود دُنیا کیلئے ایک عظیم نعمت بن جائے۔
اسلام کے بنیادی عقیدوں کے اس مختصر سے تجزیئے کے بعد یہ عرض کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہماری روزمرہ کی زندگی ہمارے کسی یقین یا عقیدہ پر نہیں بلکہ عمل پر قائم ہےاسی طرح اسلام کو بھی صرف عقیدوں پر منحصر نہیں سمجھ لینا چاہئے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام عقیدہ اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے اور خود نبیٔ کریمؐ کی تمام زندگی عقائد کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ عمل کی آئینہ داری سے عبارت رہی ہے اور اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبے میں جو ناقابل فراموش کامیابیاں حاصل کی تھیں وہ ان کے اسلامی عقائد کو عمل کی شکل میں پیش کرنے ہی کی بدولت تھیں اس لئے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کا سچا نمونہ بنیں، اپنی باتوں سے یا عقائد کی تبلیغ و اشاعت سے نہیں بلکہ اپنے اعلیٰ اسلامی کردار سے دیگر اقوام و مذاہب کے افراد کے دلوں کو موہ لیں۔ اس میں کوئی دقت نہیں ہوگی اگر مسلمان فلاح ِ انسانیت کے جذبہ سے لیس ہوکر میدان عمل میں خود کو پیش پیش رکھیں اور انسانیت کیلئے نافع ثابت ہوں۔