• Fri, 21 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشرہ، سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کے تناظر میں، خبروں کی تحقیق کا اسلامی حکم

Updated: February 20, 2025, 5:45 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

انسان کو ہر خبر کی تحقیق کرکے ہی اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرنا چاہئے جبکہ ہمارا معاشرہ آج اس معاملے میں گونگا، بہرا اور اندھا بن گیا ہے اور لوگ ہر کسی کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر یقین کیلئے آمادہ ہو جاتے ہیں۔

It is the responsibility of everyone associated with the media to research news or messages before transmitting them. Photo: INN.
ذرائع ابلاغ سے وابستہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ خبروں یا پیغامات کی ترسیل سے قبل ان کی تحقیق کرلیں ۔ تصویر: آئی این این۔

ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید وہ کتاب ہے کہ جس میں دنیوی واخروی سارے مسائل کا حل بیان فرمادیاگیا ہے۔ ان بہت سارے مسائل میں سے جو انسانوں کو بالعموم پیش آتے ہی رہتے ہیں، ایک مسئلہ جھوٹی خبریں ہیں جو اکثر جنگل کی آگ کی طرح معاشرے میں پھیل جاتی ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ ان کے نہایت مہلک اثرات ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔ وہ بہت جلد کسی بھی نتیجے پر پہنچنے اور فیصلہ کرنے میں مہارت رکھتا ہےاگر چہ بعد میں اس کے اکثر فیصلے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ انسانی مزاج کی یہی وہ خرابی ہے جس کی وجہ سے اکثر گھروں میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں یہاں تک کہ شادی بیاہ جیسے مواقع پر بھی غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے۔ 
انسانی معاشرے میں اس طرح کی غلط باتوں کی روک تھام کیلئے جب ہم اسلامی تعلیمات کی طرف پلٹتے ہیں تو سب سے پہلے تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آپؐ نے اصلی پہلوان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جوکشتی لڑنے میں غالب ہوجائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو رکھے۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ ہر حال میں خود پر قابو رکھنا اشد ضروری ہے۔ اسی سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ کوئی بھی بات سن کر فوری طور پر طیش میں آنا مناسب نہیں ہے جب تک یا تو وہ بات پہنچانے والا کوئی نیک آدمی ہو، اور اگر وہ کوئی شریر آدمی ہو تو ہم بذات خود اس کی تحقیق نہ کرلیں۔ 
اسی جانب اشارہ قرآن مجید کی اس آیت میں ملتا ہے کہ ’’ اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔ ‘‘ (الحجرات :۶)
اس آیت کی شان نزول میں مختلف روایات آئی ہیں۔ حضرت مولانا تقی عثمانی نے حافظ ابن جریرؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ولید بن عقبہ کو حضور اقدسؐ نے قبیلہ بنو مصطلق کے پاس زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ جب یہ ان کی بستی کے قریب پہنچے تو وہ لوگ آپؐ کے بھیجے ہوئے ایلچی کے استقبال کے لئے ایک بڑی تعداد میں بستی کے باہر جمع ہوگئے۔ حضر ت ولیدؓ یہ سمجھے کہ یہ لوگ لڑائی کے لئے باہر نکل آئے ہیں۔ چنانچہ وہ بستی میں داخل ہونے کے بجائے وہیں سے واپس ہوگئے اور جو غلط فہمی ایک انسان ہونے کے ناطے ان کو ہوگئی تھی اس کی بنیاد پرآپؐ سے عرض کیا کہ بنو مصطلق نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ لڑائی کے لئے نکل آئے ہیں۔ اس پر آپؐ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو تحقیق کے لئے بھیجا، تب راز کھلا کہ بنو مصطلق کے لوگ تو استقبا ل کے لئے نکلے ہوئے تھے۔ 
 اس واقعہ پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ 
بہرحال، خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسان کو ہر خبر کی تحقیق کرکے ہی اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرنا چاہئے جبکہ ہمارا معاشرہ آج اس معاملے میں گویا صم بکم عمي(گونگا، بہرا اور اندھا) بن گیا ہے اور لوگ ہر کسی کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر یقین کیلئے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ہماری یہی عادت سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے میں آرہی ہے کہ ہر کوئی میسج جس میں چاہے دین کی معلومات ہو یا دنیا کی، کسی فرد کے بارے میں کچھ ہو یا کسی دوا علاج کے متعلق، بس ہم فارورڈکرنے سے مطلب رکھتے ہیں۔ چند دن قبل ایک صاحب نے ایک میسج فارورڈ کیا کہ انناس میں کینسر کا علاج موجود ہے۔ اس میں کسی فرضی مسلم ڈاکٹر کے نام کے حوالے سے لکھا تھا کہ انہوں نے بے شمار مریضوں کا اس کے ذریعہ علاج کیا ہے۔ اب کوئی شخص جو یونانی، ہومیوپیتھی، آیورویدک، یا ایلوپیتھی علاج سے ڈرتا ہو اگر وہ اس طرح کی بے بنیاد بات کو سچ مان لے اور اس میسج میں بتلائے ہوئے اوٹ پٹانگ طریقوں سے انناس کے ذریعہ علاج شروع کردے، اور خدانخواستہ کسی اور تکلیف میں مبتلا ہوجائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں ایسے میسج مسلسل دیکھنے میں آتے ہیں۔ 
اسلامی تعلیمات پر نظر ڈالی جائے تو اس ضمن میں بھی آپؐ نے مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ نبی اکرمؐ نےکیا ہی آسان انداز میں خبروں کو بلا تحقیق بیان کرنے کے نقصانات کی نشاندہی کی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ جو سنے، اُسے بغیر تحقیق آگے بیان کردے۔ ‘‘(مشکوٰۃ المصابیح) کیا ہی پیارا اور اہم اصول ہے جس کو آپؐ نے اتنے سہل اور مختصر الفاظ میں بیان فرمادیا ہے۔ اب انسان کو چاہئے کہ جو بات بھی وہ سنے، تو اس کے پاس ایک چھلنی ہو۔ پہلے وہ سنے، پھر اس کو چھان لے اور سمجھ لے اور تحقیق کرلے اور پھر اگر مناسب سمجھے تو اس کو دوسروں تک پہنچائے۔ اس سے معاشرے میں جھوٹ، دھوکہ، غلط فہمی، بدگمانی، افتراء، فتنہ وغیرہ کی لگام کسنے میں مدد ملے گی۔ 
ہم نے اوپر سوشل میڈیا کی بات کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بلا تحقیق والی خبروں کا اصلی طوفان تو ابھی آنے والا ہے۔ مصنوعی ذہانت اپنے پورے فوائد ونقصانات کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے ذریعے جس طرح سے انسانی تصویر سے ویڈیوز بنائے جا رہے ہیں، ہر ویڈیو کو من چاہے طریقے سے تبدیل کیا جارہا ہے اور جس طرح کے پیغامات تیار کئے جارہے ہیں وہ کیا غضِب ڈھائیں گے کہنا مشکل ہے۔ 
آثاروقرائن بتلارہے ہیں کہ اس کے ذریعہ جھوٹ کی خبروں کا ایک زبردست سیلاب آنے والا ہے۔ وقت کے اس نازک موڑ پر اگر ہم نے اسلام کے ذریعے پیش کی جانے والی تعلیم کہ ’’خبرکی تحقیق کرلیا کریں ‘‘ پر عمل نہ کیا تو انسانی معاشرے میں بدگمانی اور جھوٹ کے ایک زبردست سیلاب کا اندیشہ ہے۔ یہ سیلاب خدانخواستہ اپنی راہ میں آنے والے ہر انسانی رشتے کو بہا لے جائیگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK