Inquilab Logo Happiest Places to Work

ارض فلسطین اور مسجد اقصیٰ کا مسئلہ دُنیا کے ہر مسلمان کا ہے

Updated: March 28, 2025, 11:03 AM IST | Sheikh Akram Elahi | Mumbai

مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کا ناجائز تسلط، اس کے تقدس و حرمت کی پامالی اور اس کی حیثیت مسخ کرنے کی کاوشوں او رآئے روز اس پر حملوں کی وجہ سے اہل فلسطین کے ساتھ مسلمانانِ عالم بھی رنج و غم میں ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

مسجد اقصیٰ کی تعمیر انبیاء کے ہاتھوں ہوئی۔ سب سے پہلے اسے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا ۔ اس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کی تجدید کی  پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو مکمل کیا۔ اس کی دلیل صحیحین میں ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ :
’’زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام ( بیت اللہ ) تومیں نے کہا کہ اس کے بعد کون سی ہے ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : مسجد اقصی ، تو میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔‘‘
(صحیح البخاري۳۳۶۶، مسلم۵۲۰)
اس حدیث شریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ”مسجد حرام“ کی تاسیس کے ۴۰؍سال بعد مسجد اقصی کی بنیاد رکھی۔  محدثین نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے خانہ ٔکعبہ کی تعمیری تجدید کی، اسی طرح مسجد اقصیٰ کی تجدید یعقوب علیہ السلام یا داؤد  علیہ السلام  نے کی اور سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل کی۔ یعنی اس کی  بنیاد سے لیکر تکمیل تک انبیاء کرام نے حصہ لیا ہے ۔
مسجد اقصیٰ کے ارد گرد کی سر زمین بھی بابرکت 
مسجد اقصی کے ارد گرد مقامات کو بھی اللہ رب العالمین نے مبارک اور قابل تقدیس قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد ِ اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔‘‘ (سورہ الاسراء:۱)
(بَارَكْنَا حَوْلَهُ )اللہ تعالی نے اس کے ارد گرد برکتیں ڈالیں ہیں ،یعنی وہاں  کے باشندگان،ان کے معاش و معیشت ، رہن سہن، ان کی کھیتی باڑی ، اور ان کے روزی رزق میں برکتیں دی ہیں۔ اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ جگہ  انبیاء، بزرگان ِ دین اور صلحاء کا مسکن رہا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے ساتھ ساتھ اس کے اردگرد سرزمین یعنی فلسطین و شام کا علاقہ بھی بابرکت ہے۔
مسلمانوں کا قبلہ اول
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ:
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینوں تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا کرتے رہے ، پھر ہمارا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔‘‘ (صحيح مسلم:۵۲۵  وصحيح البخاري:۴۴۲۹)
سفر معراج کی یادگار
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میرے پاس براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اپنا سم وہاں رکھتا ہے جہاں اس کی نظر کی آخری حد ہے۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا حتی کہ بیت المقدس آیا۔ فرمایا: میں نے اس کو اسی حلقے (کنڈے) سے باندھ لیا جس کے ساتھ انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھتے تھے۔ فرمایا: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر (وہاں سے) نکلا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا لے آئے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا۔ تو جبریلؑ نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے۔‘‘ (صحیح مسلم: ۱۶۲)
علامہ ابن القیم ؒ  فرماتے ہیں:
’’صحیح یہی ہے کہ نبی کریمﷺ کو جسم سمیت مسجد ِ حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، براق پر سوار ہو کر حضرت جبریل علیہ السلام کی صحبت میں، چنانچہ آپ وہاں اترے، انبیاء کی امامت کرائی، براق کو مسجد کے دروازے سے باندھا، پھر اسی رات بیت المقدس سے آسمانِ دنیا کی طرف معراج کرایا گیا۔‘‘ (زاد المعاد: ۳؍۳۰)
نماز پڑھنے کی بہترین جگہ
سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد اقصی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’مسجد اقصیٰ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے۔ حشر نشر کی سرزمین ہے،  اورعنقریب لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑے کے برابر جگہ  یا آدمی کی کمان کے برابر جگہ  جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اور  بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا اس کے لئے سب چیزوں سے  بہتراور ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہوگا۔‘‘ (صحيح الترغيب: ۱۱۷۹)
مسجد اقصیٰ کو دیکھنے کی فضیلت
مسجد اقصیٰ کو دیکھنا دنیا ومافیہا سے افضل ہے  ،سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدرزمین کاایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ لے ۔ اگر اتنی جگہ بھی مل گئی تو اس کیلئے  بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لیناپوری دنیا سے زیادہ افضل ہوگا ۔‘‘  (السلسلۃ الصحیحۃ:۲۹۰۲)
مسجد اقصیٰ میں نماز ،گناہوں کی معافی
مسجد اقصیٰ میں نماز ،گناہوں کی معافی  کا سبب ہے ، سیدناعبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
’’جب سلیمان بن داؤ علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں: (۱) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست) ہوں۔ (۲) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے (۳) یااللہ! جو آدمی اس مسجد اقصی میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دودعائیں تو قبول فرمالی ہیں(کہ ان کا ذکر توقرآن مجید میں موجود ہے)مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی گئی ہوگی۔‘‘ (صحيح ابن ماجه:۱۱۶۴، صحيح الترغيب:۱۱۷۸)
دجال مسجد اقصیٰ میں نہیں داخل ہوگا
مسجداقصیٰ ان چارجگہوں میں سے ہے جہاں دجال داخل نہیں ہو سکے گا، حضرت جنادہ بن امیہ دوسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’میں اور میرا دوست ایک صحابی کے پاس گئے اور عرض کیا:ہمیں ایسی حدیث سنائیے ، جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنی ہو ، کسی اور کی باتیں نہ سنائیں اگرچہ وہ سچا ہو ،وہ کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں، تین بار ایسا ہی فرمایا، میری امت کے لوگو! وہ تم میں نکلے گا۔ وہ گھنگھریالے بالوں والا اور گندمی رنگ کا ہوگا، اس کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی،(یعنی نہیں ہوگی) اس کے پاس جنت اور جہنم ہوگی۔ اس کے پاس پانی کی نہر اور روٹیوں کا پہاڑ ہوگا، اسے اتنی طاقت و قوت دے دی جائے گی کہ ایک جان کو قتل کر کے اسے زندہ بھی کر سکے گا، وہ آسمان سے بارش برسائے گا، لیکن زمین سے کوئی چیز نہیں اُگے گی، وہ زمین میں چالیس دن ٹھہرے گا، یہاں تک کہ ہر جگہ پہنچ جائے گا، وہ چار مسجدوں کے قریب بھی نہیں آسکے گا: مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجداقصیٰ اور کوہ طور۔‘‘ (تخريج المسند لشعيب الارناؤوط: ۲۳۶۸۵، اسناده صحيح)
مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی  امامت
زمین کی پشت پر مسجد اقصیٰ وہ واحد جگہ ہے جس میں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء کرام کا اجتماع ہوا ا ور باجماعت نماز ادا فرمائی، اور  امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی۔یہ اعزاز کسی اور جگہ کو حاصل نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا:
’’میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں۔ اور عیسیٰ ابن مریم  علیہ السلام کو دیکھا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور (وہاں) ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں، آپﷺ نے اپنی ذات مراد لی، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی۔‘‘ (صحیح مسلم :۱۷۲)
اسی طرح حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ :
’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے تو وہاں سارے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے۔‘‘ (رواه احمد بسند حسن  ۴؍۱۶۷)
امت مسلمہ کا فریضہ
آج بیت المقدس و مسجد اقصیٰ خون کے آنسو بہا رہی ہے۔ یہودی، صلیبی بیت المقدس کو منہدم کرکے ہیکل سلیمان کی تعمیر کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں اوراس مقصد کیلئے  فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ پھر شروع ہو چکا ہے، یہودی آج اس مقدس سر زمین کے اصل مالکان کو بے گھر کرنے کے درپے ہیں۔ آج ارض فلسطین انسانیت کو پکار رہی ہے۔یہ مسئلہ صرف فلسطینی عوام کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے قبلہ اول، بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کا ہے۔ یہ ایمان کا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا میں بسنے والے تمام لااِلہ اِلااللہ پڑھنے والوں کا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا وآخرت کا مسئلہ ہے۔ یہ حق سے وفاداری کا مسئلہ ہے جس طرح کعبۃ اللہ اور مسجد نبویؐ کی طرف میلی آنکھ دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس  کی حفاظت بھی امت مسلمہ  کا فرض بنتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK